فضل الرحمٰن کا مسئلہ کیا ہے؟ انصاف بلاگ | Pakistan Tehreek-e-Insaf
Fazal Ur Rehman Ka Masla


جو لوگ  پاکستان کی سیاست پر نظر رکھتے ہیں یا سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں  اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں انہیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ فضل الرحمٰن کا مسئلہ نہ تو سیاست میں فوج کی مداخلت ہے کیونکہ وہ مشرف کے ساتھ حکومت میں شریک رہے۔ ناہی ان کا مسئلہ کرپشن ہے کیونکہ ان کے بیانات موجود ہیں جن میں وہ نواز شریف اور اس کی حکومت کو کرپٹ کہہ رہے تھے لیکن بعد میں اسی کے ساتھ حکومت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ان کا مسئلہ بیڈ گورننس بھی نہیں کیونکہ وہ زرداری حکومت کے اتحادی بھی رہے ہیں۔ تو پھر کیا ان کا مسئلہ یہ ہے کہ گذشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی؟ جی نہیں یہ بھی ان کا مسئلہ نہیں کیونکہ ٢٠١٣ کے انتخابات کے بارے میں بھی ان کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ وہ ٢٠١٣ کے انتخابات کو بھی شفاف تصور نہیں کرتے۔ تب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ عمران خان کی دھاندلی کے خلاف تحریک میں شامل کیوں نہیں ہورہے جبکہ آپ سمیت سب جماعتیں متفق ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ اس پر ان کا جواب تھا کہ میں عوام کو اور خود کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ یہ تو ان کا کہنا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ انہیں نون لیگ کی حکومت میں حصہ بقدرِ جثہ مل گیا تھا۔ 

تو پھر کیا ان کا مسئلہ کچھ دین سے متعلق ہے کہ خدانخوانستہ عمران خان کے دور میں پاکستان کے آئین میں دین یا مذہب کے حوالے سے کوئی تبدیلی یا چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی جارہی ہے جسے وہ روکنا چاہتے ہیں؟ تو اس کا جواب بھی ناں میں ہے کیونکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا حتٰی کہ سوچا بھی نہیں جارہا بلکہ اس کے برعکس عمران خان اندرون و بیرونِ ملک ہر وقت دین، ریاستِ مدینہ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی لیے فضل الرحمٰن کو اپنی تحریک کا نام تحفظِ ناموس رسالت سے بدل کر آزادی مارچ رکھنا پڑا کیونکہ مذہب والا چورن بالکل نہیں بک رہا تھا اور ان کے اپنے اتحادی بھی دین کو سیاست کے لیے استعمال کرنے پر خوش نظر نہیں آتے تھے۔ دین کےحوالے سے بھی اگر کبھی تحریک چلانے کی ضرورت تھی تو وہ نون لیگ کے دور میں تھی کیونکہ تب ختم نبوت کے حوالے سے آئین میں چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی گئی تھی۔ اسی پر سابق وزیرِ اعظم میر ظفراللہ خان جمالی نے پارلیمنٹ سے استعفٰی بھی دے دیا تھا۔ ایک بار پھر یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ سلیم صافی نے اپنے انٹرویو میں فضل الرحمٰن سے سوال کیا کہ جب نون لیگ کے دورِ حکومت میں یہ گھناؤنا قدم اٹھانے کی کوشش کی گئی تو آپ حکومت کا حصہ تھے، آپ نے حکومت سے الگ کیوں نہیں ہوئے یا انہیں روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی تو اس پر فضل الرحمٰن کا جواب تھا کہ “آگے چلیں“

تو پھر کیا فضل الرحمٰن کا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ اسمبلی دھاندلی کے ذریعے وجود میں آئی اس لیے اس حکومت کو زور زبردستی سے گھر بھیجا جانا چاہیے؟

 اگر آپ تھوڑا غور کریں تو فضل الرحمٰن صاحب کا یہ مسئلہ بھی نہیں۔ کیونکہ ان کی اپنی جماعت کے ارکان حتٰی کے ان کا اپنا بیٹا بھی اسی پارلیمنٹ کا حصہ ہے۔ صرف یہی نہیں فضل الرحمٰن نے بقول اسی جعلی اسمبلی کے ذریعے  صدارتی الیکشن بھی لڑا اور وہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار تھے۔ مزید آگے چلیں تو فضل الرحمٰن صاحب کی ایما پر ہی اسی ایوان کے ذریعے سینٹ کا چیرمین بدلنے کی کوشش بھی کی گئی۔ ان سب کوششوں سے تھک ہار کر اب فضل الرحمٰن ڈنڈوں اور جھتوں کے ذریعے حکومت گرانے کی تحریک چلانے جارہے ہیں۔ 

آخر فضل الرحمٰن صاحب کا مسئلہ کیا ہے؟

فضل الرحمٰن کی ساری زندگی کی سیاست اور ان کی موجودہ حالت کو دیکھ کر میں یا کوئی بھی باآسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ فضل الرحمٰن کے دو بنیادی مسئلے ہیں۔ ان میں سے میرے نزدیک جو مسئلہ نمبر دو پر آتا ہے اس کا ذکر میں پہلے کروں گا۔ اور وہ مسئلہ ہے اقتدار سے دوری۔ فضل الرحمٰن جب سے سیاست میں آئے کسی نا کسی طور پر ہمیشہ حکومت کا حصہ رہے اس لیے طنزاً کہا جاتا ہے کہ وہ حکومتی پارٹی کے رکن ہیں۔ مشرف کی بدترین ڈکٹیٹر شپ ہو، زرداری کی انتہائی بری گورننس والی اور کرپٹ حکومت ہو یا نواز شریف کی کرپٹ اور ادارے تباہ کردینے والی حکومت ہو، وہ کسی نا کسی طرح سے حکومت کا حصہ رہتے ہیں۔ سرکاری مراعات پر زندگی گزارنا ان کی عادت بن چکی تھی۔ ان کے سپورٹرز کہتے ہیں کہ مولانا پر کرپشن کا کوئی کیس نہیں۔ میں اس پر کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا کیونکہ مجھے نہیں معلوم کے انہوں نے کرپشن کی ہے یا نہیں لیکن مجھے اتنا ضرور پتہ ہے کہ انہیں شاید کبھی کرپشن کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کیونکہ ایک طویل عرصے سے وہ پاکستان کے مہنگے ترین شہر کے مہنگے ترین اور محفوظ ترین علاقے کے بنگلہ نمبر بائیس میں مقیم تھے۔ یہ ایک سرکاری بنگلہ تھا جس کی مینٹیننس اور سیکورٹی سمیت تمام اخراجات پاکستان کے غریب ٹیکس پیئر کے پیسے سے ادا کیے جاتے تھے، ساتھ ہی انہیں سرکاری گاڑیاں، سرکاری سیکورٹی، شاہانہ پروٹوکول، لمبی تنخواہ اور ان گنت مراعات بھی حاصل تھیں۔ بدلے میں صرف آنکھیں بند کرکے حکومت کے ہر اچھے برے کام کا ساتھ دینا ہوتا تھا۔ اب مجھے نہیں معلوم ان کے سپورٹرز کی نطر میں یہ سب کچھ کرپٹ ہونے کے زمرے میں آتا ہے نا نہیں۔ 

اب آتے ہیں پہلی وجہ کی طرف جو میرے خیال میں فضل الرحمٰن صاحب کی موجودہ حالت کی بنیادی وجہ ہے۔ وہ وجہ کوئی دینی، سیاسی، سماجی، اخلاقی، خارجہ، داخلہ یا معاشرتی مسئلہ نہیں بلکہ وہ مسئلہ ایک شخصیت ہے۔ جی ہاں فضل الرحمٰن کا بنیادی مسئلہ ایک شخصیت ہے جس کا نام عمران خان ہے۔ فضل الرحمٰن عمران خان سے شدید نفرت کرتے ہیں اور ان سے انتہا درجے کا بغض رکھتے ہیں۔ آپ لوگ سمجھیں گے کہ میں یہ بات شاید اس لیے کررہا ہوں کہ میں عمران خان کا سپورٹر ہوں اور اب فضل الرحمٰن عمران خان کے خلاف تحریک چلانے جارہا ہے۔ لیکن میں آپ کو پوری ایمانداری سے بتارہا ہوں کہ یہ بات میں بہت عرصے سے محسوس کرتا ہوں کہ فضل الرحمٰن کو عمران خان سے ذاتی عناد ہے۔ آج کل کی بات نہیں بلکہ آپ فضل الرحمٰن کی پرانی پریس کانفرنسز نکال کر بھی دیکھ لیں، جہاں بھی عمران خان کا نام یا ذکر آتا ہے فضل الرحمٰن کے چہرے کے تاثرات ہی بدل جاتے ہیں ان کے لہجے میں تکبر اور نفرت آجاتی ہے۔ وہ عمران خان کا نام بڑی کڑواہٹ اور نفرت کے ساتھ لیتے ہیں۔ اسکی کئی ایک وجوہات ہیں جو میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا پہلے کچھ حالیہ مثالیں دیکھ لیں جو میری بات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں۔

حالیہ ایران سعودی عرب کشیدگی پر عمران خان نے ثالثی کی پیشکش کی جو دونوں ملکوں نے قبول بھی کی لیکن جب اس سے متعلق فضل الرحمٰن سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بڑی حقارت سے جواب دیا کہ وہ تو دو گاؤں کی صلح نہیں کرواسکتا ملکوں کی کیا خاک کروائے گا۔ پھر اقوام متحدہ میں کی گئی عمران خان کی مشہور زمانہ تقریر جس پر ان کے سیاسی مخالفین تک نے داد دی تھی اس پر بھی مولانا کا موقف ساری دنیا سے الگ ہی تھا کہ عمران خان نے اپنی تقریر سے بھارت کو فائدہ پہنچایا ہے۔ فضل الرحمٰن ویسے تو خود کو دینِ اسلام کا سب سے بڑا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں لیکن عمران خان نے جس طرح سے اسلام اور ناموسِ رسالت کا مسئلہ دنیا کے سامنے رکھا اس پر بھی فضل الرحمٰن صاحب نے تعریف کرنے یا کم از کم خاموشی اختیار کرنے کی بجائے کیڑا کاری کی۔ اسی تقریر پر طیب اردگان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے بہت اچھے طریقے سے اقوام متحدہ میں اسلام کا مقدمہ پیش کیا۔

ایک اور بات جو کہ بہت افسوسناک ہے جس پر فضل الرحمن کے لیے اللہ تعالٰی سے رحم کی دعا کی جانی چاہیے اور وہ بات آپ نے بھی اکثر نوٹ کی ہوگی کہ جب بھی فضل الرحمٰن کے سامنے عمران خان کے مذہبی رجحان کی بات کی جائے تو وہ انتہائی حقارت سے کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ کتنا پارساء ہے اور پھر اس پر خود فضل الرحمٰن اور ان کے اردگرد بیٹھے لوگ طنزیہ قہقہہ بھی بلند کرتے ہیں۔ ان کا اشارہ عمران خان کے ماضی کی طرف ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر ولی کا ایک ماضی ہوتا ہے اور ہر گناہگار کا بھی ایک مستقبل ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اگر کوئی جوانی میں گناہگار یا دین سے دور رہا ہے تو وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا اوریہ بھی ضروری نہیں کہ جو اب ولی ہے یا خود کو ولی سمجھتا ہے تو اس کا خاتمہ بھی ایمان پر ہی ہو۔ ایسے ان گنت واقعات موجود ہیں لیکن تحریر کی طوالت کے باعث ان کو یہاں لکھا نہیں جاسکتا۔ سب سے بڑی بات کہ جب اللہ تعالٰی نے آخری سانس تک توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے تو انسان کون ہوتا ہے کہ کسی کو اس کے ماضی کے طعنے دے۔ لیکن فضل الرحمٰن جن کے فالورز ان کو عالم دین سمجھتے ہیں ایک شخصیت کی نفرت میں اس انتہاء کو پہنچے ہوئے ہیں کہ اس کے منہ سے دین کی بات بھی گوارہ نہیں کرتے۔ اس پیراگراف کے شروع میں کہا کہ اس سلسلے میں فضل الرحمن کے لیے ہدایت کی دعا کی جانی چاہیے کہ شاید وہ اپنے پارساء ہونے کے زعم اور تکبر میں مبتلا ہیں اور ایک مسلمان کا صرف اس لیے مذاق اڑاتے ہیں کہ اس کا ماضی داغدار رہا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے لوگوں کا خاتمہ اچھا نہیں ہوا ایک حدیثِ مبارکہ میں بھی اس سلسلے میں بہت سخت وعید ہے کہ جو شخص کسی کو گناہگار ہونے کے طعنے دے جبکہ وہ توبہ کرچکا ہو تو اللہ تعالٰی قسم اٹھاتا ہے کہ میں اس شخص کو انہیں گناہوں میں مبتلا کرکے موت دوں گا۔

اس نفرت کے کچھ سیاسی اسباب بھی ہیں۔ فضل الرحمٰن نے صرف اپنی سیاسیت کے لیے ہمیشہ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا یہ چورن شاید ان کے ان سپورٹرز کے حد تک تو بکتا ہو جن کی پہنچ میں جدید ذرائع ابلاغ وغیرہ نہیں ہیں یا وہ لوگ جو سیاسی طور پر ساری عمر ہی نابالغ رہتے ہیں لیکن عام عوام میں ان کا یہ چورن نہیں بکا۔ فضل الرحمٰن کا مذہبی چورن سب سے زیادہ خیبر پختونخواہ میں بکتا تھا لیکن مولانا کی بدقسمتی دیکھیں کہ تحریکِ انصاف کی پہلی حکومت ہی تحریکِ انصاف میں بنی۔ یہ فضل الرحمٰن کے لیے کس طرح قابل قبول ہوسکتا تھا ملک کا وہ حصہ جہاں ان کا مذہبی چورن سب سے زیادہ بکتا تھا وہاں سے وہ شخص اپنی حکومت بنالے جسے فضل الرحمٰن نے یہودیوں کا ایجنٹ مشہور کررکھا تھا۔ چنانچہ اس صورتحال نے فضل الرحمٰن کے دل میں عمران خان کے لیے مزید نفرت اور بغض بھر گیا کہ عمران خان ان سے ان کی سیاسی سپیس چھین رہا ہے۔ ان کے لیے یہ بات بھی از حد باعث تکلیف ہے کہ عمران خان اسلام، ریاستِ مدینہ، یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کیوں کرتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں اس سے ان کی سیاسی حیثیت کمزور ہورہی ہے کہ یہی باتیں تو ان کا سیاسی نعرہ ہے اور ان کا سیاسی دارومدار اسی پر ہے۔ 

پھر ٢٠١٧ کے انتخابات تو فضل الرحمٰن کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے کہ بیک وقت قومی اسمبلی کے چار حلقوں سے عمران خان کے امیدواروں کے ہاتھوں شکست کھاگئے جس میں ان کی آبائی نشستیں بھی شامل ہیں۔ حالانکہ انہیں انتخابات کے ذریعے ان کا بیٹا اور پارٹی کے دیگر ارکان منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ لیکن کیا فائدہ اس پارلیمنٹ کا جس میں وہ خود موجود نا ہوں۔ پھر فضل الرحمٰن نے مختلف طریقوں سے نظام کا حصہ بننے کی کوشش کی جنہیں میں اوپر بیان کرچکا لیکن ہر طرف سے ناکامی کے بعد انہیں صرف ایک ہی طریقہ سجھائی دیتا ہے کہ کسی بھی طرح زور زبردستی سے اس حکومت کو گرا دیا جائے اور دوبارہ انتخابات ہوں تاکہ وہ پھر سے پارلیمنٹ میں آکر مراعات انجوائے کرسکیں۔ میں نے پورے کالم میں کوشش کی ہے کہ سخت الفاظ استعمال ناکروں تاکہ یہ تحریر ہر فورم پر پبلش ہوسکے لیکن تھوڑی سی اجازت چاہوں گا کہ فضل الرحمٰن صاحب ٢٠١٧ کے انتخابات کے بعد نفسیاتی طور پر بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ یہ صرف میں نہیں کہتا بلکہ بہت سے اور لوگوں کی بھی یہ رائے ہے۔ کبھی وہ اپنی ہی بنائی ہوئی ملیشیا سے گارڈ آف آنر لیتے نظر آتے ہیں تو کبھی آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں جبکہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔

آخر میں بات کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے اور فضل الرحمٰن کے دھرنے سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے۔ اس کا حل بہت آسان تھا جو عمران خان اکثر بیان کرتے تھے۔ وہ یہ کہ آپ اسلام آباد میں آئیں، ہم کنٹینر بھی مہیا کریں گے، کھانا بھی دیں گے اور ویلکم بھی کریں گے۔ آپ جب تک چاہیں پُرامن احتجاج کرسکتے ہیں۔ اگر عملی طور پر یہی پالیسی رہتی تو فضل الرحمٰن کے دھرنے کا غبارہ پھولتا ہی نا۔ کیونکہ خاص طور پر عمران خان کی اقوام متحدہ کی تقریر کے بعد مذہبی طبقہ بشمول بڑے بڑے مذہبی رہنماؤں کے عمران خان کے گرویدہ ہوچکے تھے اور فضل الرحمٰن کی سپورٹ بیس یہی ہے۔  لیکن ہمیشہ کی طرح سے تحریکِ انصاف کے ڈیرھ سو سے زائد خود ساختہ ترجمانوں نے معاملے کو بگاڑ دیا۔ مختلف قسم کے طعنے دیئے گئے اور تضحیک آمیز بیانات جاری کیے گئے جس سے فضل الرحمٰن کا متوقع دھرنا ہائی لائیٹ ہونا شروع ہوا، اسے سوشل میڈیا اور الیکڑانک میڈیا پر ڈسکس کیا جانے لگا اور اب صورتحال یہ ہے کہ بیک وقت قومی اسمبلی کے چار حلقوں سے ہارنے والا شخص پاکستان کے نظام کو ڈکٹیٹ کررہا ہے۔ شکست خوردہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی فضل الرحمٰن میں اپنا مسیحا نظر آنے لگا ہے اور زرداری اور نواز شریف جیسے پاکستان کے نظام، معیشت اور اداروں کی تباہی کے ذمہ دار سیاستدان بھی کرپشن اور بیڈ گورنننس کا نعرہ لگا کر فضل الرحمٰن کے پیچھے صف آراء ہوچکے ہیں۔ 

یاد رہے فضل الرحمٰن صاحب کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے وہ حکومت کو گرانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ سمجھداری کا تقاضا یہی ہے کہ معمالات کو اب بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے ہینڈل کیا جائے۔ جیسا کہ اور بیان کیا فضل الرحمٰن کو دھرنے کے لیے کھلی چھوٹ دی جائے اور کسی صورت بھی تصادم کی راہ اختیار نہ کی جائے۔ کیونکہ کسی بھی قسم کا تشدد اس تحریک کے لیے ایک فیول ثابت ہوگا اور فضل الرحمن صاحب یہی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح حکومت یا دیگر ادارے بالخصوص فوج ان سے متصادم ہوجائے اور نتیجے میں وہ ملک کے حالات کو اس نہج پر لے جائیں کے خدانخواستہ حکومت کو نقصان ہو۔ فضل الرحمٰن اور ان کے دیگر رفقاء کے حالیہ فوج مخالف بیانات اور تقاریر اسی ضمن میں ہیں۔ وہ براہ راست فوج سے جواب چاہتے ہیں۔ پہلے فضل الرحمٰن نے ریٹائرڈ فوجی افسران کو اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیا اور انہیں بنگلہ دیش کے طعنے بھی دیئے اور کل ایک لائیو ٹی وی شو میں براہ راست آئی ایس پی آر کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی تاکہ کوئی جواب آئے تاکہ ان کی تحریک کو فیول میسر ہو۔ فوج دشمن تمام عناصر اس وقت فضل الرحمٰن کے دائیں بائیں کھڑے نظر آتے ہیں۔ نام لینے کی ضرورت نہیں آپ سب کچھ خود دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔

چنانچہ تصادم، تشدد یا گرفتاری فضل الرحمٰن کا ٹارگٹ ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چیز ہوتی ہے تو وہ اسے اپنی جیت تصور کریں گے۔ حالات پرامن رکھے گئے، بیان بازیاں روک دی جائیں، provoking بیانات کا بھی کوئی جواب نہ دیا جائے تو انشاءاللہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ اپوزیشن اس دھرنے کے بعد مزید کمزور ہوگی اور فضل الرحمٰن کی حالت مزید قابلِ رحم ہوجائے گی اور شاید سیاسی منظر نامے میں ان کا نام بھی باقی نہ رہے۔ 

اگر کسی سٹیج پر مذکرات ہوئے تو دیکھیئے گا کہ فضل الرحمٰن مان جائیں گے کہ میں حکومت کے خلاف تحریک سے دستبردار ہوسکتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ عمران خان کو ہٹا دیا جائے۔ کیونکہ فضل الرحمٰن کا بنیادی مسئلہ عمران خان کی ذات ہے۔