تحریک انصاف کا بیانیہ ۔ انصاف بلاگ | Pakistan Tehreek-e-Insaf

 

یہ بیانیے (Narrative) کی جنگ ہے۔ نئے سیاسی افق پہ بیانیے کے بغیر کوئی قوت سروائیو (survive) نہیں کر سکتی ۔ بیانیہ بقا کا مسئلہ ہے۔ تحریک انصاف کا بیانیہ ایک آزاد ، خوشحال ، پرامن ،  خوددار اور فلاحی پاکستان کے قیام کی جدوجہد ہے  ۔ یہی وجہ ہے کہ زمینی خداؤں کی خدائی سے انکار کر کے خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول یعنی برابری کے تعلقات کا جو نعرہ پارٹی بنتے ہی لگا تھا ، وہی آج بھی قائم ہے۔ موجودہ رجیم چینج آپریشن میں بیرونی مداخلت اور سازش کا بیانیہ انتہائی اہم ہے جس پہ اس وقت کی پوری سیاست کھڑی ہے۔ تحریک انصاف کو اس بیانیے کی تقویت میں ایک ڈاکومنٹڈ ثبوت ملا ن سائفر ہماری سیاست کا اہم ترین جزو ہے۔  عمران خان نے ایک بار پھر اس سائفر کی حقیقت پہ بات کی ہے جسے جھٹلانا ممکن ہی نہیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ دراصل یہ سازش تیار امریکہ میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہوئی ہے ۔ یوں سازش امریکہ نے نہیں کی بلکہ اندرونی سہولت کاروں نے امریکہ کو مجھے اینٹی امریکہ بتا کر پاکستان میں مداخلت کا جواز فراہم کیا اور قائل کیا جس کی وجہ سے وہ اس پلان کا حصہ بنا ۔ تاہم عمران خان واضح الفاظ میں اپنے اس موقف پہ دہائیوں بعد آج بھی قائم ہیں کہ امریکہ سے ذاتی انا کی بنیاد پہ نہیں بلکہ اپنے ملک کے مفاد کے پیش نظر برابری کے خوشگوار تعلقات کے خواہاں ہیں۔ عمران خان نہ تو بیرونی سازش و مداخلت اور اندرونی سہولت کاروں کے بیانیے پہ قائم ہیں۔ اب وہ سازش کا مرکز اور ابتدا بیان کر رہے ہیں جسے پہلے وہ سائفر کے تناظر میں واشنگٹن سمجھتے تھے اور سوال پوچھتے تھے کہ سائفر کے مخاطب کون ہیں لیکن اب وہ براہ راست پنڈی کو اس سازش کا مرکز بتاتے ہیں اور امریکہ کو ہمیشہ کی طرح رجیم چینج آپریشن کا سہولت کار ، بیرونی مداخلت کرنے والا اور اس سازش کا حصہ بننے والا قرار دے رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران خان اتنی سی بات سے اپنے بیانیے کی قوت کھو دیں گے اور وہ ایک جملے کو پکڑ کر پروپیگنڈا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ ان کی ایک اور مس کلکولیشن ہے۔ 


امریکہ کے ساتھ تعلقات کے متعلق عمران خان کسی ابہام کا شکار نہیں ہیں۔ چھبیس سالوں سے وہ امریکہ سمیت تمام ممالک سے برابری  ، باہمی وقار اور خوشگوار تعلقات کے خواہاں ہیں ۔ حالیہ درجن بھر انٹرویوز میں بھی  تقریباً ہر ایک میں وہ یہ بات دہرا چکے ہیں کہ وہ اینٹی امریکہ نہیں ہیں ۔ انھوں نے ایک انٹریو میں برملا کہا کہ کون پاگل ہو گا جو  سپر پاور سے تعلقات میں بگاڑ چاہے گا  ۔ عمران خان نے بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہم آقا اور غلام جیسے تعلقات کے بجائے باہمی وقار اور سلامتی کو ترجیح دیتے ہیں اور برابری کے تعلقات چاہتے ہیں ۔ تحریک انصاف کا ہر رکن اس پالیسی کو اچھے سے جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دھمکی آمیز سائفر کا معاملہ ، بیرونی مداخلت ،  رجیم چینج میں امریکی کردار اور اس پہ عوامی غم و غصے کے باجود پچھلے گیارہ میں کسی ایک جلسے یا اجتماع میں بھی امریکہ کے خلاف کوئی نعرہ نہیں لگا ورنہ ماضی میں ڈھونگ جماعتوں کی جانب سے امریکی جھنڈا جلانا اور مردہ باد کے نعرے تو فیشن رہے ہیں۔ تحریک انصاف کا ورکر سمجھدار اور باشعور ہے۔ اس نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی۔ 

عمران خان نے فائنینشل ٹایمز کو دیے گئے انٹرویو میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ اگرچہ سائفر کے زریعے پاکستان میں مداخلت کی گئی لیکن پاکستانی قوم کا ردعمل اس بات کی علامت ہے کہ اب مزید امریکی حکم نہیں چل سکتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سائفر کو ایشو بنا کر تحریک انصاف مستقبل میں امریکہ سے تعلقات خراب کرے گی۔ امریکہ کو یہ موقع ہم دیتے رہے ہیں اور وہ آقا بن کر حکم چلاتا رہا ہے لیکن اس بار ہم نے اس مداخلت کو تسلیم نہیں کیا۔ اب ہمیں ایک دوسرے کو سمجھتے ہوئے ازسرنو تعلقات کا جائزہ لینا ہے اور باہمی عزت و احترام پہ مبنی برابری کے تعلقات قائم کرنے ہیں۔ اب کی بار وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں بھی عمران خان کا موقف یہی تھا ۔  عمران خان نے ڈپلومیٹک لینگویج کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو اپنی غلطی سدھارنے کا موقع دیا ہے۔ نہ تو وہ سائفر کے زریعے مداخلت کے بیانیے سے پیچھے ہٹے ہیں اور نہ ہی وہ برابری کے تعلقات کے اپنے نظریے پہ کسی قسم کا کمپرومائز کرنا چاہتے ہیں ۔ انھوں نے سائفر کو ذاتی انا بنانے کے بجائے پاکستان کے طویل المدتی مفادات کو ترجیح دی ہے جو خوش آئند ہے اور ایسا ہی ہونا تھا۔  

سائفر وہ حقیقت ہے جس سے نہ تو امریکہ نے انکار کیا ، نہ ملٹری لیڈرشپ نے اسے جھوٹ کہا بلکہ نیشنل سیکورٹی کونسل کی دو میٹنگز میں اسے تسلیم کرنے اور دھمکی آمیز زبان استعمال کرنے پہ ڈیمارش کرنے کا فیصلہ بھی ہوا۔  موجودہ امپورٹڈ حکومت بھی ملٹری لیڈرشپ کے ساتھ بیٹھ کر اس مراسلے کی حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے۔ بیرونی مداخلت پہ ایک امپورٹڈ حکومت کا قیام وہ آفاقی سچائی ہے جس کا کوئی صاحب فہم انکار کر ہی نہیں سکتا۔ اس پہ عمران خان کے انٹرویوز کو توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے ہٹا کر جملے نکالنے سے یہ بیانیہ دھندلا نہیں سکتا۔  ہمیشہ کی طرح یہ بھونڈا پن بھی دھول بیٹھتے ہی صاف نظر آنے لگتا ہے۔   قوم اب سب جانتی ہے ۔ پچھلے گیارہ ماہ کے مسلسل تجربات کے بعد میڈیا ، عدلیہ ، پی ڈی ایم  اور سب سے بڑھ کر ملٹری لیڈرشپ کا جانبدارانہ اور سطحی کردار اب قوم پہ واضح ہو چکا ہے۔ قوم صرف ایک شخص پہ اعتماد کرتی ہے جو گولیاں کھا کر بھی ان کی آزادی کے تحفظ کےلیے جان ہتھیلی پہ لیے لڑ رہا ہے۔

Tags:Imran Khan