اللہ نے کبھی کوئی معاشرہ ایسا پیدا نہیں کیا جس میں سب انسان اخلاق, کردار و اعمال میں برابر ہوں، سب ایک جیسے اچھے یا برابر کے بُرے ہوں، سب ولی اللہ ہوں یا سارے ہی چور ڈاکو ہوں۔ یہ اللہ کا نظام قدرت ہے کہ کسی ایک معاشرے میں ایک ہی وقت میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایسا نہ ہو تو دنیا کا نظام قائم نہیں رہ سکتا۔
اس کے بعد اللہ نے دماغ بھینس چرنے کےلئے نہیں حق و باطل میں تمیز کرنے، سچ جھوٹ کی پہچان کرنے اور اچھے و برے میں فرق سمجھنے کےلئے دیا ہے۔ جب آپ رٹا رٹایا جملہ بول دیتے ہیں کہ “سب برابر ہیں” یا “چھوڑو جی سارے ہی گندے ہیں” یا “سارے ایک جیسے ہیں” تو یقینی طور پر آپ عقل و فراست سے محروم ہیں بصیرت آپ کو چُھو کر نہیں گزری، انتہا درجے کے گھامڑ ہیں کہ جسے عقل نہیں ملی یا پھر عقل ملی ہے مگر استعمال کرنی نہیں آتی اور اگر ایسے نہیں ہیں تو پھر اول درجے کے جھوٹے اور منافق ہیں کہ پتہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو خود ہی جھوٹی تسلیاں اور لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں، یا پھر انتہائی بزدل ہیں کہ سچ کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ایک پاگل انسان کو بھی اپنے خیرخواہ اور دشمن کا فرق سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
اللہ نے تو گدھے کے لاشعور میں بھی یہ بات ڈال رکھی ہے کہ وہ اپنے فائدے اور نقصان میں تمیز کرنا جانتا ہے۔ تو بتانا یہ ہے کہ “سارے ایک جیسے ہیں” کی بات کرنے والے پاگل یا گدھے نہیں ہیں بلکہ پاگل اور گدھے ان سے بہتر ہیں یعنی وہ ان سے بھی بدتر ہیں، میں یہاں کُتے کی مثال نہیں دوں گا کہ کُتوں میں اچھے اور بُرے انسان کو پرکھنے کی تمیز ہوتی ہے، وفاداری سمجھداری اور ادراک میں کتے تقریباً ایک چوتھائی انسانی آبادی سے زیادہ معاملہ فہم ہوتے ہیں۔
اپنے آپ کو انسانیت کے مرتبے سے نہ گرائیں اور اچھے برے کی پہچان کرکے اپنے انسان ہونے کا حق ادا کریں۔ یہ اور بات ہے کہ پہچان کرنے کے بعد آپ گندگی کو پسند کریں، غلاظت کھائیں، جھوٹ کا پرچار کریں، بدی کے ہمسفر ہوں یا باطل کے پیروکار بنیں۔