جیل ۔ انصاف بلاگ | Pakistan Tehreek-e-Insaf

 

جیلیں سیاستدانوں کا سسرال ہوتی ہیں وہاں آنا جانا لگا رہتا ہے تحریک پاکستان کے لیڈر قائداعظم نے ایک دن بھی جیل نہیں کاٹی جبکہ گاندھی زیادہ تر اپنی پستے کھانے والی بکری سمیت جیل میں رہے۔ نیلسن مینڈیلا  جنہوں نے اپنی آدھی زندگی جیل میں گزاری اور زرداری نے بھی کئ سال جال کاٹی مگر دونوں میں زمین اسمان کا فرق ہے خود کو مرد حُر کہلوانے والے نے لالچ کرپشن بدعنوانی کے الزامات میں جیل گذاری مقصد کسی بھی طرح سے کوئی تحریک  یا پاکستان کی بقا و فلاح نہیں تھا محض اپنی دولت کو  محفوظ کرنا دولت بھی وہ جو عوام سے لوٹ کر بنائی گئی تھی  ایوبی مارشل لاء میں سیاستدان پاکستان کیلیے جیلوں میں رہے تحریک ختم نبوت ہو یا فاطمہ جناح کے سیاسی کارکن ہوں جیلیں عام تھی حق پرستوں کیکیے مقصد صرف پاکستان میں فوجی آمر سے جان چھڑانا تھا اور ۸۰  کی دہائی میں  جنرل ضیاء کے ظالمانہ مارشل لاء میں ہزاروں سیاسی قیدی بنے مقاصد بحالی  جمہوریت تھی  نوازشریف شہباز تو جب بھی پکڑے گئے الزام ہمیشہ کرپشن ہی رہا اور ہمیشہ ڈیل نے انہیں سہولت فراہم کی ۔ 
سیاستدانوں نے اپنے نظریے اور مقصد کیلیے جدوجہد  کی اور قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کی ہیں مگر مطلق الاعنانیت  کے دور میں بھی کوئی ایسی مثال  شاز ہی ملتی ہے کہ کسی سیاستدان کو جیل میں ہی مار دیا گیا ہو   مگر آج کے فسطائیت کے دور میں جب جج ارشد ملک (حدیبیہ پیپر مل کیس اور وڈیو سکینڈل) ڈاکٹر رضوان ایف آئی اے ڈائریکٹر ملک (شہبازشریف منی لانڈرنگ کیس کے انکوائری تفتیشی)مقصود چپڑاسی اور اسکا ساتھی( جوکہ منی لانڈرنگ کیس کے گواہ تھے)  ان سب کی پرسرار اموات  ، ۲۵ مئی کے پرتشدد واقعات جب ہی ٹی آئی کے کارکنوں پر اندھادھند تشدد کیا گیا یہاں تک کہ خواتین بھی پولیس کے بدترین تشدد کا شکار ہوئیں اور عمران خان پر قاتلانہ حملہ اور اس قاتلانہ حملے کی  انکوائری میں روڑے اٹکانے کے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ فسطائی عمران خان کو راستے سے ہٹانے کیلیے ان کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ان ب خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے کارکن عمران خان کی  گرفتاری کیخلاف مزاحمت کا ارادہ رکھتے ہیں  وہ نہیں چاہتے کہ انکے ہر دلعزیز اور پاکستان کے مقبول ترین لیڈر کی جان کو جانتے بوجھتے خطرے میں ڈال دیا جائے   مگر اسکے باوجود بھی عمران خان صاحب جلد عدالت پیش ہوں گے  ۔ عمران درانی