ورلڈ کپ اور وزیر اعظم
آج کل فیشن کے طور پر بنا سوچے سمجھے ایک بات کردی جاتی ہے اور یہ بات اصل میں بھیڑ چال ہے کیونکہ کسی کو حقائق کا علم ہے نہ حالات کا ادراک ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ 92 کا ورلڈ کپ قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور عمران خان مسلط ہوگیا ہے۔ اگر اس بات کو ایک لمحہ کےلئے سچ بھی سمجھ لیا جائے تو صرف زاتی نفرت ، بغض اور ایک شخص کی مخالفت میں پاکستان کے خلاف بددعائیں کی جاتی ہیں، کہ خدا نہ کرے کوئی پھر ورلڈ کپ جیت لائے۔
ایک تو یہ بات بالکل جھوٹ، غیر متعلق اور بلاجواز کہی جاتی ہے دوسرا یہ بات کرتے ہوئے ایک بہت بڑا سچ چھپایا جاتا ہے اور تیسرا ناداستگی میں بہت بڑی نااہلی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
جھوٹ غیر متعلق اور بلاجواز اس لئے کہ ورلڈ کپ جیتنے سے کوئی وزیراعظم نہیں بنتا۔ بعد میں بھی ورلڈ کپ جیتا گیا ہے وہ کیوں نہیں بن سکے، دوسرے ممالک میں بھی ورلڈ کپ جیتنے والے ہیں وہ وزیراعظم کیوں نہ بن سکے ؟
سچ یہ چھپایا جاتا ہے کہ ورلڈ کپ جیتنے والے کو ورلڈ کپ جیتنے کی وجہ سے نہیں، بلکہ چند بدعنوان خاندانوں کی بندر بانٹ سے تنگ عوام نے موقع دیا تھا۔
نادانستگی میں یہ نااہلی تسلیم کی جاتی ہے کہ ہمارے سیاستدان اور لیڈر اتنے چور، ڈاکو، کرپٹ اور نااہل تھے کہ ایک بندہ صرف ورلڈ کپ جیتنے کی وجہ سے ان سب کو ہرا کر وزیراعظم بن گیا۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک بندہ ورلڈ کپ جیتنے کے چار سال بعد اپنی سیاسی جماعت بناتا ہے۔ جب ورلڈ کپ کو ابھی صرف تازہ تازہ پانچ سال ہوئے تھے پہلے الیکشن میں بری طرح ہار گیا، دس سال بعد ایک سیٹ جیت سکا اور جب ورلڈ کپ پچیس سال پرانا ہوگیا تو وزیراعظم بن گیا۔
اس پچیس سال کے دوران پاکستانی سیاست میں ہونے والی ناانصافی، بےایمانی، کمیشن ایجنٹی، کک بیک، چوری، اقرباپروری اور نااہلی بھول جاتے ہیں۔
ویسے یہ کتنی سطحی، منفی، ناانصافی اور غیر منطقی سوچ ہے۔ ویسے یہ کتنا بھونڈا اور جاہلانہ مذاق ہے اور ویسے یہ کتنی فضول اور جھوٹی بات ہے اور کس قدر ڈھٹائی سے پھیلا دی گئی ہے
عبدہ جنوبی کوریا
Tags:Imran Khan