تحریک انصاف اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی اور واحد وفاقی جماعت ہے جو پورے پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ جماعت علاقہ ، رنگ ، نسل ، مذہب کی تفریق سے آزاد پاکستانیت کا پرچار کرتی ہے اور انصاف ، عدل ، قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست کے بنیادی اصولوں پہ یقین رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کو پاکستان میں اس قدر پذیرائی حاصل ہے کہ غیر سیاسی اذہان بھی اب اس جماعت کے سپورٹر کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی ستائیس سالہ جدوجہد اس بات کی گواہ ہے کہ یہ جماعت انتہائی پرامن ہے جو جمہوری قدروں پہ یقین رکھتی ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف جناب عمران خان نے اپنی کرشماتی شخصیت سے اس جماعت کو پاکستان کی واحد نمائندہ جماعت بنا دیا ہے جس نے قوم کی سیاسی بیداری اور تربیت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
احتجاج جمہوریت کا حسن ہوتا ہے اور ووٹ جمہوریت کی بنیاد ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف نے قانون کی حکمرانی کی خاطر ہمیشہ پرامن احتجاج کو ترجیح دی ہے اور جلسے جلوسوں ، پرامن دھرنوں اور لانگ مارچ کی ایک تاریخ رقم کی ہے جس میں کبھی گملا تک نہیں توڑا گیا۔ اسی طرح عوام کے ووٹ کے حق کو ہمیشہ فوقیت دی ہے۔ یہ اصول صرف حزب اختلاف میں نہیں بلکہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی اپنائے گئے اور مخالف جماعتوں کی تحریک ، جلسے جلوس ، لانگ مارچ اور دھرنوں میں مظاہرین کو تمام بنیادی سہولیات دی جاتی رہیں۔ اس طرز عمل نے تحریک انصاف کو خالص جمہوری جماعت ثابت کیا ہے۔ قانون کی حکمرانی کےلیے چیئرمین عمران خان ماضی میں خود بھی جیل جا چکے ہیں ۔ انھوں نے عدالتوں کے احترام کی ایک تاریخ رقم کی ہے جس نے قوم میں صبر و تحمل، استقامت ، آئین کی اہمیت اور جمہوری قدروں کو فروغ دیا ہے۔
رجیم چینج آپریشن کے بعد تحریک انصاف کا اصلی امتحان شروع ہوا جب کچھ لوگوں کی خواہشات کی تکمیل میں دھوکہ دہی اور فراڈ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوری قدروں کو پامال کیا گیا اور عوام کی منتخب حکومت کو انسانی منڈی لگا کر گرا دیا گیا۔ بظاہر قانونی پیچیدگیوں کے چلتے عدلیہ کا فیصلہ مخالفت میں آیا تو عمران خان نے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت مخالفین کو سونپ دیں۔ غیر جمہوری قوتوں کے زیر سایہ آمریت کی گود سے پھوٹنے والی غیر جمہوری اور خاندانی وراثت پہ مبنی جماعتوں نے اپنی کرپشن اور اثر و رسوخ بچانے کےلئے تحریک انصاف کو کچلنے کا ارادہ کیا اور جمہوری تحریک کے خاتمے کےلیے ظلم و بربریت شروع کر دی۔ غیر جمہوری قوتوں نے پارٹی کی اہم لیڈرشپ سمیت کارکنوں کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن جاری رکھا ۔ قومی بیانیے کی حمایت کرنے والے نامور صحافیوں کو زدو کوب کیا گیا ، عمران خان کو کئی دفعہ میڈیا پہ بین کیا گیا ، ان کے قریبی ساتھیوں کو اٹھا کر غیر انسانی سلوک کیا جاتا رہا ، عوام سے ووٹ کا بنیادی حق چھینا جاتا رہا ، چادر و چاریواری کے تقدس کو بار بار پامال کیا جاتا رہا ، یہاں تک کہ ظلم کی انتہا کی گئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کا گھر گرایا گیا ، اس سے بھی بڑھ کر صحافی ارشد شریف کا قتل ہوا ، عمران خان پہ دو دفعہ قاتلانہ حملے ہوئے تاہم عمران خان نے تمام متشدد کاروائیوں اور اشتعال پھیلانے کی کوششوں کو رد کرتے ہوئے اپنی تحریک کو آئینی حدود سے باہر نہیں جانے دیا جو ان کی لازوال صبر و استقامت کا ثبوت ہے۔ جس وقت عمران خان کو گولیاں لگی ہوئی تھیں ، اس حالت میں بھی وہ قوم کو پرامن رہنے کی تقلین سے باز نہیں آئے۔ یہ ان کی امن پسندی کی حیرت انگیز مثال ہے۔
تحریک انصاف نے ملک میں جاری افراتفری اور معاشی تباہی کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت گرا کر عوامی عدالت میں جانے کا جمہوری فیصلہ کیا لیکن غیر جمہوری قوتیں سول سپریمیسی سے گھبرا گئیں اور عوامی ریفرنڈم کو سبوتاژ کرتے ہوئے الیکشن سے فرار کی راہ اختیار کی۔ تحریک انصاف نے الیکشن حاصل کرنے کےلئے پرامن راہ چنی لیکن مخالفین نے الیکشن روکنے کےلئے ظلم و بربریت کو ہتھیار بنایا ۔ یہاں تک کہ جب اعلیٰ عدلیہ نے عوام کے ووٹ کے بنیادی حق کو تسلیم کیا تو عدالت کے خلاف بھی ایک شرمناک مہم شروع کر دی ۔ طاقت ہاتھوں سے پھلستی دیکھ کر گھبراہٹ میں ایک بار پھر تحریک انصاف کو کچلنے کا آغاز ہوا ۔ آزاد کشمیر میں حکومت بدلی گئی اور پھر بقیہ پارٹی راہنمائوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا گیا۔ لاہور میں عمران خان کی موجودگی کی وجہ سے دانستا اسلام آباد میں ان پہ سیاسی کیسز کی بوچھاڑ کر دی گئی اور وہ جان کے خطرے کے باجود عدالتوں کا احترام کرتے ہوئے اسلام آباد پیش ہوتے رہے جس میں ایک دفعہ جوڈیشل کمپلیکس میں انھیں قتل کرنے کی دوسری بڑی کوشش بھی ہوئی۔ نو مئی کو عمران خان ایسے ہی ایک کیس کی ہیشی کےلئے اسلام آباد عدالت میں موجود تھے جب ایک بے بنیاد کیس کو جواز بنا کر عدالت میں ہی ان پہ حملہ کر دیا گیا۔ وہ چند دن قبل دھکم پیل کی وجہ سے ٹانگ کے زخم کھل جانے کی وجہ سے ویل چیئر پہ تھے لیکن ظالموں نے ان کو وہاں بھی زدوکوب کیا ، سر میں راڈ مارے اور اسی حالت میں گھسیٹتے ہوئے اغوا کر لیاگیا ۔ دو دفعہ قاتلانہ حملہ کے بعد عمران خان کے اس اغوا پہ قوم میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور اپنی آخری امید کو بچانے کےلئے پورا پاکستانی سڑکوں پہ اتر آیا ۔ سال بھر کا ظلم و بربریت اور معاشی افلاسی اب آنکھوں میں خون بن کر اتر رہی تھی تاہم عمران خان کی امن پسندی کا درس انھیں یاد رہا اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ پارٹی لیڈر شپ نے پرامن احتجاج کی کال دی ۔ مخالفین نے اس بار عمران خان کی عدم موجودگی کا فایدہ اٹھاتے ہوئے مظاہرین کو اشتعال دلا کر پارٹی پہ شدت پسندی کا ٹیگ لگانے کا فیصلہ کیا۔ دراصل عمران خان کو تشدد کر کے اغواء کرنا ہی اسی پلان کا حصہ تھا تاکہ اشتعال دلایا جا سکے۔ اس کے بعد ہجوم کی سائیکی کا فایدہ اٹھایا گیا۔ سادہ لباس میں ملبوس نامعلوم افراد کی ٹولیاں سرکاری گاڑیوں سے اتر کر مظاہرین میں شامل ہوتیں اور توڑ پھوڑ شروع کر دیتیں۔ کئی لوگوں کے ہاتھوں میں پولیس کی چھڑیاں دیکھی گئیں جبکہ کئی ٹولیوں نے ایک ہی طرح کے بوٹ پہنے ہوئے تھے۔ مزید اشتعال دلاتے ہوئے دوسری جانب سے براہِ راست فائرنگ شروع کی گئی۔ مظاہرین کو سرکاری املاک کی راہ دکھائی لیکن وہاں پہنچ کر بھی توڑ پھوڑ شروع کی گئی تاہم سوشل میڈیا کی وجہ سے حقائق سامنے آتے رہے۔ دو دن کے لگاتار ظلم و بربریت میں پچاس سے زائد شہادتیں ہوئیں جس میں سب کے سب نہتے مظاہرین تھے جبکہ سیکورٹی فورسز میں کوئی ایک بھی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ یہ تحریک انصاف کے حامیوں کی امن پسندی اور مظلومیت جبکہ مخالفین کی بربریت اور فسطائیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ تحریک انصاف نے ایک بار پھر بڑی سازش کو سوشل میڈیا کے زریعے ناکام بنا دیا ہے ۔ پارٹی ہمیشہ کی طرح اپنے لیڈر کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے آئین کی پاسداری ، امن پسندی ، استقامت ، صبر و تحمل اور جمہوری قدروں کا فروغ جاری رکھے گی ۔ اسی طرز عمل نے اس جماعت کو ملک کی سب سے بڑی اور واحد وفاقی پارٹی بنا دیا ہے۔