بظاہر آدمی قاضی فائز عیسی ننگ آدمیت تھا
انصاف کرنے والے نا کسی سے انسیت رکھتے ہیں اور نا عداوت جسکی مثال یوں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ آپؑ نے عدالتی نظام میں جو اصلاحات کیں ان میں سے اہم آپ کی والی مصر حضرت مالک اشتر کو وہ مشہور وصیت ہے ۔آپؑ اس میں فرماتے ہیں: لوگوں کے درمیاں فیصلہ کرنے کے لئے ان افراد کا انتخاب کرنا جو رعا یا میں تمھارے نزدیک سب سے زیادہ بہتر ہوں۔ اس اعتبار سے کہ نہ معاملات میں تنگی کا شکار ہوتے ہوں اور نہ جھگڑا کر نے والوں پر غصّہ کرتے ہوں۔ نہ غلطی پر اَڑ جاتے ہوں اور حق کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی طرف پلٹ کر آنے میں تکلّف کرتے ہوں اور نہ ان کا نفس لا لچ کی طرف جُھکتاہو اور نہ معاملات کی تحقیق میں ادنیٰ فہم پر اکتفا کرکے مکمل تحقیق نہ کرتے ہوں۔ شہادت میں توقف کرنے والے ہوں اور دلیلوں کو سب سے زیادہ اختیار کرنے والے ہوں۔ فریقین کی بحثوں سے اُکتانہ جاتے ہوں اور معاملات کی چھان بین میں پوری قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوں اور حکم کے واضح ہو جانے کے بعد نہایت وضاحت سے فیصلہ کردیتے ہوں۔ نہ کسی کی تعریف سے مغرور ہوتے ہوں اور نہ کسی کے اُبھارنے پراو نچے ہوجاتے ہوں۔ ایسے افرادیقینًا کم ہیں۔ لیکن ہیں۔پھراس کے بعد تم خود بھی ان کے فیصلوں کی نگرانی کرتے رہنا اور ان کے عطا یا میں اتنی وسعت پیدا کردینا کہ ان کی ضرورت ختم ہو جائے اور پھر لوگوں کے محتا ج نہ رہ جائیں انھیں اپنے پاس ایسا مرتبہ اور مقام عطا کرنا جس کی تمھارے خواص بھی طمع نہ کرتے ہوں کہ اس طرح وہ لوگوں کے ضرر پہو نچا نے سے محفوظ ہو جائیں گے۔ مگر اس معاملہ پر بھی گہری نگاہ رکھنا کہ یہ دین بہت دنوں اشرارکے ہاتھوں میں قیدی رہ چکاہے جہاں خواہشات کی بنیاد پر کام ہو تا تھا اور مقصد صرف دنیا طلبی تھا۔
میں قاضی فائز کو بطور منصف درج بالا اوصاف میں سے ایک کے پاس سے بھی گذرتے نہیں دیکھا آج قاضی فائز کا آخری دن تھا اور اس عشائیہ پر نے مقرر ہونے والے جج یحی آفریدی نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ “ فائز عیسی سے کوئی عاجزی سے ملے تو اس کا کام ہوجائے گا اور اگر کوئی اکڑ جائیں تو پھر خدا ہی اسے قاضی فائز سے بچا سکتا ہے”
اگر یہ قاضی فائز عیسی کی تعریف ہے اور کرنے والا بھی جج ہے تو قانونی معیارات کا اندازہ آنے والے جج کے اس بیان سے لگا لیں جج کا کام انصاف کیمطابق فیصلہ کرنا ہے شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر نا کہ کوئی جھک کر ملے گا تو انصاف ملے گا ۔
انسیت اور عداوت! قاضی فائز انتہائی کینہ پرور انسان تھا کوئی ایسا شخص جو کسی سے کسی بھی قسم کی انسیت یا عداوت رکھتا ہو جج کیلیے کسی بھی طرح اہل نہیں ہوسکتا جبکہ قاضی نے عمران خان سے عداوت اور پی ڈی ایم سے انسیت میں ہر وہ مقدمہ اپنی عدالت میں لگایا جس سے وہ اپنوں کو فائدہ اور عمران خان کو نقصان پہنچا سکتا تھا جبکہ عمران خان نے بارہا کہا کہ اسکے مقدمات قاضی کی عدالت میں نا لگائے جائیں اسکے باوجود بھی قاضی یہ کام بار بار کرتا رہا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے افضل گورو کو پھانسی دیتے ہوئے عوامی جذبات کا خیال رکھا اور نامکمل شواہد کے باوجود افضل گورو کی پھانسی برقرار رکھی جبکہ قاضی نے پچیس کروڑ عوام کے جذبات کو اپنی عداوت میں پیروں تلے روند کر رکھ دیا۔
قاضی کا عداوت کا یہ عالم ہے کہ قاضی نے جاتے جاتے بھی مخصوص نشستوں کے معاملے میں اپنا اختلافی نوٹ لکھ مارا کہ کہیں کوئی کسر نا رہ جائے۔
پارلیمینٹرین کی خریدوفروخت کو عام طور پر مکروہ سمجھا جاتا ہے مگر قاضی نے فارم سنتالیس کی بنیاد پر قائم حکومت کیجانب سے تریسٹھ اے کی امینڈمینٹ کو اپنی عدالت سے تحفظ دلوایا اور ممبران اسمبلی کو بکنے کا راستہ دکھایا۔
جج ہوتے ہوئے عداوت کا یہ عالم کہ قاضی نے عمران خان سے گن گن کر بدلے لیئے یہ ضرور ہے کہ عمران خان کی حکومت میں صدر نے قاضی کیخلاف ریفرنس دائر کیا جس پر قاضی کی ہٹ دھرمی کیوجہ سے کمیشن نے اپنا فیصلہ ایسے تیسے سنادیا کہ جیسے دفعہ کرو اس بندے کو ڈھیٹ آدمی ہے ماننے کو نہیں آتا اور ایف آئی اے کو مزید تحقیقات سے روک دیا گیا تھا مگر حکومت نے اپنے اختیارات استعمال نا کیئے تھے اور ججز پر نا کوئی دباؤ ڈالا نا فیصلے پر اسرا کیا اسکے باوجود قاضی نے یہ ٹھانے رکھا کہ وہ وقت پڑنے پر عمران خان کو مزہ ضرور چکھائے گا اور اس نے اس کام میں نا کسی قانون کا لحاظ کیا نا کسی اخلاق کا اور نا ہی کسی آئینی پاسداری کا جبکہ جج کا یہ کردار نہیں ہوتا۔
قاضی کی عدالت میں بزرگ خاتون رہنما یاسمین راشد سمیت اور پی ٹی آئی کے کئی کارکنوں ک درخواستیں پینڈنگ پڑی ہیں۔
انسانی بنیادی حقوق کے تمام کیس آج بھی بطور ایک صحافی اسد طور کے سپریم کورٹ کے صحن میں ایک قبر میں دفن پڑے ہیں دیگر قبروں کیطرح۔
پی ٹی آئی کے بلے کے نشان کی قبر سے لیکر مسنگ پرسنز اور ملٹری کورٹس میں سویلین کے فیصلوں آٹھ فروری کا دھاندلی زدہ الیکشن چھبیسویں آئینی ترمیم کی کامیابی کیلئے قاضی کے گھناونے کردار کی نشانیاں قاضی خود اپنے ہاتھوں سے بناکر گیا ہے سپریم کورٹ کے چیف کر کردار کو وہ جتنا داغدار کرسکتا تھا کرکے گیا ہے کہ قوم ماضی کے بدترین کردار کے حامل جسٹس منیر کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیے بھول کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو یاد رکھے گی۔
عمران درانی