آج سے ایک سال پہلے دس اپریل کی رات 16.8 ملین ووٹوں والی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی اور ایوان میں 155 سیٹوں والی پارٹی, پاکستان تحریک انصاف کے منتخب وزیراعظم عمران خان کو امریکہ کی فنڈنگ کے زریعے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور اپوزیشن نے مل کر عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے علیحدہ کیا۔ عدم اعتماد کی اس جنگ میں عمران خان نے اخلاقی، قانونی اور جمہوری اصولوں سے مقابلہ کیا۔ اگر عمران خان چاہتے تو ان کے پاس بہت سارے آپشنز دستیاب تھے۔ لیکن خان صاحب نے ایک اصول پسند اور جمہوریت پسند لیڈر کا کردار ادا کیا۔ سب سے تکلیف دہ بات کرپشن کے کیسز میں عدالت سے ضمانت یافتہ مجرم کو وزیر اعظم بنانے کے لیے پوری سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ رات بارہ بجے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو کھول دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ میں مداخلت کی۔ حکومت میں آنے کے بعد اس ٹولہ نے 1100 ارب کی کرپشن معاف کردی ۔ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا ۔ ایک سال کے اندر انسانی , آئینی ، قانونی ، جمہوری اور اخلاقی اقدار کو پامال کیا گیا ۔ اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ۔ ان بارہ مہینوں میں جس طرح پکڑ دھکڑ ، ظلم وبربریت ، تشدد اور ٹارچر کا استعمال ہوا شاید پاکستان تحریک کی سیاسی تاریخ میں اتنی بربریت کا مظاہرہ کسی فوجی امر حکمران نے کیا ہو ۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں آزادی اظہار رائے ، میڈیا اور سیاسی ورکروں پر تشدد ہوا ۔ امریکہ تھینک ٹینک برائے انسانی حقوق کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تحریک انصاف کے ورکروں کو تشدد اور ٹارچر کا سامنا کرنا پڑا ۔ دہشت گردی اور ملک دشمنی جیسے قوانین کو سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا ۔ یہ سال پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بدترین سال رہا ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان سے سیکورٹی واپس لی گئی ۔ جس پرائیویٹ کمپنی سے سیکورٹی کی خدمات حاصل کی گئی تھی ۔ ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ عمران خان سے سیکورٹی واپس لے ۔ کیا بطور شہری اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو سیکورٹی کا حق حاصل نہیں ؟ اس کا سیدھا سادہ مطلب عمران خان کو مروانا ہے ۔ جس طرح وزیر آباد ریلی میں عمران خان پر حملہ کیا گیا ۔ اس واقعے کی رپورٹ بھی عمران خان پنجاب میں صوبائی حکومت ہوتے ہوئے درج نہ کرسکے کیونکہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو نہیں چاہتی ۔ اس سال کے دوران تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنوں کو غیر قانونی طور پر اغواء کیا گیا ۔ ان پر تشدد کیا گیا ۔ یہاں تک کے مارچ کے مہینے میں لاہور میں ظلے شاہ نامی ایک اسپشل پرسن کو پولیس حراست میں لیکر قتل کر دیا گیا ۔ اور الٹا ان کا ایف آئی آر عمران خان پر کاٹا گیا ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان پر 146 کے قریب مقدمات درج کیے گئے ہیں ۔ جن میں دہشت گردی ، ملک دشمنی ، مذہبی سمیت مختلف نوعیت کے مقدمات شامل ہیں ۔ مقدمات کی پیروی ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن عمران خان کو مقدمات کی پیروی سے محروم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہے ۔ اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں راستے بند کرکے عمران خان کو اندر نہیں جانے دے رہے تھے ۔ اس سے زیادہ قانون ، جمہوریت اور عدالتوں کا مذاق نہیں ہوسکتا ۔ اس سے بڑھ کر عمران خان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر پر دھاوا بولا گیا ۔ مرکزی گیٹ کو توڑا گیا ۔ گھر سے کتوں کے کھانے تک چوری کرکے لے گئے ۔ کیا کسی جمہوری ملک میں پولیس کا یہ کام ہوتا ہے ؟ گھر میں توڑ پھوڑ کی گئی ۔ ان کے بچوں اور خصوصاً ان کی ماں کی تصاویروں تک کو معاف نہیں کیا گیا ۔ یہ کس قانون کے تحت کیا گیا ؟ اس سے زیادہ بربریت ممکن نہیں ۔ جہاں مرحومہ ماں کی تصاویر کو توڑا گیا ۔ جہاں سابق وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں ان کی باپردہ بیوی اور ان کے ملازمین کو ڈرایا دھماکا گیا ۔ اسلام آباد پولیس نے چھوٹے بچوں کو اٹھایا کیوں کہ ان کے ہاتھوں میں تحریک انصاف کا جھنڈا تھا ۔ چھوٹے بچوں کو جیل میں ڈال دیا گیا ۔ ملک بھر میں سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن جاری رہا ۔ مخالفین کو ایف آئی اے کے زریعے مختلف مقدمات میں اٹھایا گیا ۔ اس طرح کی ظلم وبربریت تو فلسطین میں یہودی نہیں کررہے ہیں ۔ جس طرح کی بربریت پاکستان میں مسلمان ادارے کررہے ہیں ۔ بچوں اور عورتوں تک کو معاف نہیں کیا گیا ۔ عورتوں پر بدترین تشدد کیا گیا ۔ مارچ کے مہینے میں زمان پارک میں عورتوں پر بندوق تھان کر رکھے گئے ۔ بارہ مہینوں کے دوران صحافیوں کے ساتھ بھی ناروا سلوک رکھا گیا ۔ تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ فاشسٹ حکمران کا دفاع کریں ۔ بحثیت مجموعی یہ سال جبر و زبردستی ، ظلم وبربریت کا سال رہا ۔ یہ سال ظلم وبربریت کا سال رہا ۔ یہ سال انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سال رہا ۔ یہ سال فاشزم کا سال رہا ۔ یہ سال غیر جمہوری روایات کاسال رہا ۔