نکلتے خورشید کی افق تابی انصاف بلاگ | Pakistan Tehreek-e-Insaf

 

جب 1996 میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی جا رہی تھی کون جانتا تھا کہ 1992 کے کرکٹ ورلڈ میں پاکستان کو کرکٹ کنگ بنانے والا عمران خان ایک دن قوم کے نوجوان کی نبض بن جائے گا۔ یہ وہ واحد پارٹی ہے۔ جس پر بہت تنقید ہوئی۔ اسے دو ٹکے کے سیاست دان کرکٹر کہہ کر سیاست کے دائرے سے ہی دھتکارتے رہے۔
یہودی اور نیازی کہہ کر مذہب و نسل کارڈ جس بری طرح عمران خان کے خلافت استعمال ہوا شاید ہی کسی جماعت کے خلاف ہوا ہو۔ شروع میں بہت کم لوگ انکی طرف مائل ہوئے۔ اس کے باوجود تقریبا ہر پاکستانی کرکٹ کی وجہ سے انکا مداح تھا۔ حقیقیت کی عینک سے دیکھیں تو کرکٹ کے کنگ کو اب سیاست میں اپنا وجود منوانا تھا۔ پاکستان کی روایتی سیاست جھوٹ،کرپشن اور وراثت کے گرد گھومتی ہے۔ یہ وہ نقائص ہیں جس نے نوجوان طبقے کو سیاست کے قریب نہ آنے دیا۔ 
عمران خان چونکہ روایتی سیاست کی بجائے نظریاتی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔ اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کا رجحان تحریک انصاف کی طرف بڑھنے لگا۔ 
کرپشن جو اس ملک کی بربادی میں سب سے بڑا ناسور ہے۔ عمران خان نے اس کے خاتمے کے لیے سیاست میں قدم رکھا تھا۔ اس لیے کرپشن مافیا نے انکے راستے میں روڑے اٹکائے۔ مشکلات جھیلیں قوم کے لیے حتی کہ اپنی خوبصورت زندگی کو بھی خیرآباد کہہ دیا۔ اپنے ننھے بچوں سے دور ہوکر اپنی قوم کے بچوں کا مستقبل سنوارنے کا فیصلہ یقینا آسان نہ ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ" مقصد بڑا ہوتو قربانیان بھی اتنی ہی بڑی دینا پڑتی ہیں۔" 
جھوٹے کیسز،بہتان اور نہ جانے کیا کیا الزامات لگا کر انہیں مائنس کرنے کی کوشش تواتر سے جاری رہی مگر وہ مرد مجاہد اپنے موقف پر ڈٹا رہا جب اس نے ڈے ون والے نظریے پر سمجھوتہ نہ کیا تو پھر یہ تحریک عوام بل خصوصا نوجوانوں کی امید بن گئی۔ جو اپنے ملک میں ان برائیوں کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو چکے تھے۔ وقت انہیں یہ سب معاشرے کا حصہ کہہ کر قبول کرنے پر اکسا رہا تھا۔ مگر قوم حجار کے ان بچوں کے دلوں میں فطرتا اس برائی سے نفرت تھی۔ جب انہیں بلایا گیا تو وہ اس ناخدا کی طرف لپکے جو ڈوبتی کشتی کو سنبھالنے کی تگ و دو میں مصروف تھا۔
ابھی یہ ابتداء تھی۔ جب طوفاں کی سختیان دیکھیں تو کچھ مایوس ہوگئے واپسی کا سوچنے لگے کچھ کھڑے رہے مگر ان سب کا دل اپنے ناخدا کی کامیابی کے لیے تڑپ رہا تھا۔ قوم کا مجاہد ہر حال میں حق پر ڈٹا رہا کہ کسی طرح کشتی کو سہارا دے سکے۔ مگر اسکی حقیقت ابھی بھی اوجل رہی طوفان کے دھندلکے اسکی شخصیت کو چھپانے کے لیے ابھرتے رہے۔ کشتی میں سوار چند کم ظرف اسے گرانے کی تگ و دو میں لگے رہے۔
یہ شکوہ کبھی اس راہنما کی زبان پر نہ آیا۔ وہ ڈٹا رہا مگر وہ اپنے کارواں سے بھی مخاطب رہا۔ 
کہتے ہیں کسی کی اصلیت دیکھنی ہو تو اسکو طاقت ملنے پر دیکھو"انسان کو طاقت ملتی ہے تو اسکی خصلت سامنے آجاتی ہے۔
نوجوان دیکھتے رہے جس پر یہودی ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا۔( یہودی صرف اس لیے کہا کہا جاتا تھا کیونکہ اسکی بیوی شادی سے پہلے غیر مسلم تھی)
وہ بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے دیرنہ مطالبے "تحفظ ناموس رسالتﷺکا سپاہی بن کر ابھرا،اسلامو فوبیا کے خلاف مسلمانون کا موقف جنرل اسمبلی مین منوایا۔ جسکے نتیجے میں یو این ہر سال 15 مارچ کو اسلامو فوبیا ڈے کے طور پر منانے کا اعلان کرتا ہے۔ تب پاکستان ہی نہیں بلکہ امت محمدیﷺ کے نوجوانوں کا لیڈر بن کر ابھرتا ہے۔
پھر کہا گیا سیاست نہیں آتی۔ تو عمران خان نے اسے بھی عملا ثابت کیا اسے واقعی وہ سیاست نہیں آتی جو ہارس ٹریڈنگ سے کی جائے، جس میں ضمیر و ایمان کا سودا ہو،جو کرپشن کے بل بوتے پر کھاتے اور کھلاتے کے نظریے پر کی جائے۔
وہ تو وہ سیاست کرتا ہے جسکا نعرہ لگا کر اس نے سیاست میں قدم رکھا اسکے قول و فعل میں تضاد نہیں پایا گیا۔ اس نے کہا نہ میں خود کسی کے سامنے جھکون گا نہ اپنی قوم کو جھکنے دوں گا۔ وقت آیا تو اس نے کر کے دکھایا۔ اقتدر کو لات ماری مگر بین الاقوامی قوت اور اپنی قوم پر مسلط انکے فرعونوں کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ 
یہی وہ ہمت تھی جو کبھی بھٹو نے کی تھی اسکی سزا تختہ دار کی صورت میں ملی۔ تاریخ  کا اسٹوڈنٹ تاریخ کے کالے اوراک، گدھوں کے گروہ کا یہ روپ__ وہ سب جانتا تھا۔ ایک طرف یزید کے وارث کھڑے، طاقت کے گھمنڈ میں اسکا حوصلہ توڑنے مین مصروف تھے۔ دوسری طرف حقیقت کی روشنی سے محروم  بے بس قوم مسیحا کی منتظر تھی۔ 
اس نے حسینی علم اٹھا کر نعرہ حق بلند کیا۔ قوم سے کیے وعدے کا پاس رکھا اور دھرتی ماں کی ناموس پر قربان ہونے کو تیار ہوگیا۔
وہ اندھی وہ گونگی اور بہری قوم دیکھ رہی تھی۔ کیسے پارلیمنٹ جسے عمر بھر روایتی سیاست دان آئین کی ماں بتا کر مذہب،فرقے اور گرو سے بالا تر کہتے اور طاقت کا سرچشمہ ہونے کی مالا جھپتے تھے۔ اس کے ہی ایک ادارے سے قانون کی نرسری کے لیے ڈیکٹیشن لکھوا لائے۔ حکم آیا:کس دن، کتنے بجے اور کیسے اس( لیٹر گیٹ )پر عمل دارآمد کروانا ہے جو 7مارچ کو اسد مجید کو ملا تھا۔ سب نے دیکھا رات 12 بجے 130 پوزیشن والی عالیہ اور عظمی کھلیں کیونکہ فقط عمران خان کا جرم وفا تھا۔ پریزنر وین پارلیمنٹ کے باہر موجود تھی۔ یہ واضع طور پر اسکے نہ بکنے اور اسکے ساتھ دینے والے مخلص ساتھیوں کے ساتھ ایڈونچر کی دھمکی تھی۔ 
سینئیر صحافیوں کے ہمرا بیٹھے اقبال کے شاہین نے پوچھا" کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہو؟"  اٹھا، اپنی ڈائری تھامے شان سے رخصت ہوگیا۔

یہ وہ تماشہ تھا جسے دنیا بھر میں دیکھا گیا مگر وہ ذیرک لیڈر بنا ایک حرف زبان پر لائے اپنی قوم کو سب کچھ دکھا گیا۔ 
وہ بکھرا ہوا ہجوم یک زبان ہوکر خوداری کی اس تحریک میں اسکا سپاہی بن گیا۔ جس کا مقصد اس خواب کو تعبیر دینا ہے جو اقبال( رح )نے دیکھا تھا۔ وہی پاکستان جسکی جدوجہد بابائے قوم نے کی تھی۔ اس کے لیے آج نوجوان عمران خاں کی صورت میں راہنما کے سنگ کٹ مرنے کو تیار ہیں۔ جس آزادی کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے عزت، جان !مال سب قربان کردیا۔ شاید اس حقیقی آزادی کو قائم رکھنے کے لیے اور بھی قربانیاں درکار ہیں۔
دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہونا ہے چمن خالی
گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے