
تحریک انصاف کے حکومت کے خاتمے کے لے آکر آج تک ہر روز ایک نئی داستان رقم ہوئی مگر اگر پچھلے آٹھ ماہ کو میں کس طرح دیکھتی ہوں وہ بیان کروں تو گزشتہ آٹھ کو دو مختلف پہلوؤں سے دیکھا جاسکتا ہے ایک پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور پھر وہ چاہے عام انسان کے لیے ہو، صحافیوں کے لیے ہو، سوشل میڈیا صارفین کے لیے یا پھر معشیت کے لیے ہر لحاظ سے پاکستان تنزلی کا شکار رہا، لگاتار ساڑھے تین سال سے ترقی کرتی معشیت جس کی گروتھ ریٹ 6 فیصد تھی وہ معشیت یک دم زمین بوس ہوگی۔
عام انسان جس کو مہنگائی کم کرنے کے خواب دیکھائے گے تھے وہ مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گے، تمام اشیائے ضروریہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگی، مہنگائی اس قدر بڑھ گئی کہ عوام بھوک پیاس سے مرنے لگی۔
ایک جانب عوام سے وعدہ کیا گیا کہ ان کو سہولیات فراہم کی جائیں گی مگر امپورٹڈ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ہر شے مہنگی کردی، گرمی ہوتے گھروں سے بجلی غائب ہوگی، یک دم بجلی کے بلوں میں اس قدر اضافہ ہوا کہ خواتین کو اپنے زیورات بیچ کر بل ادا کرنا پڑھے۔
حکومت نے اپنا فوکس اگر کسی شے پر رکھا تو وہ تھا خود کو این آر او دینا اور دوسرا حق سچ کی آواز کو دبانا اقتدار کے پہلے روز ہی سے سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے والوں پر زندگی تنگ کردی، صحافیوں پر زمین تنگ کی جانے لگی عام آدمی جو سوشل میڈیا پر آواز اٹھا رہا تھا اسے دھمکی آمیز کالز موصول ہونے لگی، الغرض فسطائیت کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی گئی، مگر بات یہاں رکی نہیں، جب سب کچھ کرنے کے باوجود عمران خان اور عوام قابو میں نہ آئے تو شہباز گل اور دیگر کو اٹھایا گیا انہیں برہنا کر کے باقیوں کے لیے مثال بنائی گی، مگر عوام نہیں مانی نہ ڈری نہ جکی۔
اس امپورٹڈ حکومت نے اپنے ماتھے پر کئی کالے جھومر سجائے 24 مئی اور 25 مئی کو عوام پر جس طرح ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گے اسکی مثال نہیں ملتی اپنی ہی عوام کو مارا گیا جیسا بھارت جموں کشمیر کی عوام پر ظلم و ستم و بربریت کرتا ہے کچھ یوں ہی پاکستان میں دیکھنے کو ملا۔
پاکستانی عوام کے ہردلعزیز لیڈر کو دیوار سے لگانے کی ہر ممکن کوشش کی گئ، فرح گوگی، توشہ خانہ اور کئی کیسز بنائے گے مگر 17 جولائی کو پنجاب میں ہونے والے انتخابات نے عوام نے امپورٹڈ سرکار کو حیران کردیا اور وہ حکومت جو اوچھےہتھکنڈوں سے چھینی گی تھی اور عوام نے اپنے کپتان کو واپس دلائی۔
ہر طرح کی مہم چلانے کے بعد اپنی مرضی کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات کروائے گے مگر عوام کی محبتوں کی بدولت کپتان نے وہاں بھی تاریخ رقم کیا دنیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی نے ایک ساتھ حلقوں سے فتح سمیٹی۔
اس سیاہ دور کا ایک خوبصورت اور حسین پہلو بھی اور وہ پہلو ہے عوام کا باشعور ہوجانا حق اور سچ کی خاطر ڈٹ جانا، 9 اپریل کو کپتان کی حکومت ختم کی گئ اور دس اپریل کو عوام سٹرکوں پر نکل ہر گھر میں رنج و غم کا ماحول تھا دل میں گہری خاموشی اور سناٹا تھا مگر اب عوام باشعور ہوچکی تھی اور اپنے کپتان کی ہر آواز پر لبیک کہنے کے لیے بھرپور تیار تھی، اس سارے وقت میں عمران خان/تحریک انصاف نے کوئی 100 سے زائد ایونٹس کیے جن میں جلسے ریلیاں احتجاج شامل ہیں، پہلی بار تاریخ میں عوام اتنی بڑی تعداد میں نکلی بلکہ کئی ایسے موقع بھی تھے جب بنا لیڈرشپ کے عوام نے باہر نکل کر احتجاج ریکارڈ کرایا اور بند کمروں میں فیصلے کرنے والوں کو پیغام دیاکہ اس ملک کے فیصلوں کا اختیار صرف اس ملک کی قوم کو ہے۔
یہی روشن پہلو اس سیا ترین دور کا ہےکہ آج عوام اپنا حق لینا جانتی ہے اور فیصلہ کر چکی ہے کہ حقیقی آزادی کے حصول تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ خوف و حراس پھیلانے والوں نے ہر طرح کے اقدامات اٹھائے یہاں تک کے حق اور سچ کی بلند ترین آواز اور نامور صحافی ارشد شریف پر پہلے پاکستان کی زمین تنگ کی گئ، اور پھر دیار غیر میں اسے شہید کر دیا گیا، جب اسکے باوجود عوام کو ڈریا نہ جاسکا تو ملک کے مقبول ترین لیڈر پر قاتلانہ حملہ کروایا اور بفضل خدا کپتان محفوظ رہے اور اللّٰہ نے اس ملک کو یتیم ہونے سے بچا لیا،مگر اس سانحے کے بعد بھی عوام ڈری نہیں چھپی نہیں بلکہ آج بھی سڑکوں پر ہے اور اپنا حق با آواز بلند مانگ رہے اور حقیقی آزادی کے حصول تک انشاء اللہ یوں ہی ڈٹی رہے گی۔
Tags:Imran Khan