سرکاری سکولوں کے استاد اور موجودہ حکومت | Pakistan Tehreek-e-Insaf
Current Govt and the Government Teachers - Insaf Blog

 

 

سرکاری سکولوں کے  اساتذہ جو اپنے حقوق کیلئے موجودہ حکومت سے لڑ رہے ہیں ۔یہ صحیح ہے یا غلط۔ اگر صحیح ہے تو پھر میرے ساتھ جو سرکاری سکول کے اساتذہ نے کیا  ہے اس کا ذمہ دار کون؟ 

یہ بات ہے 1997کی جب میرا  بھائی مجھے اپنے گاؤں کے ایک اسکول میں داخل کروانے کے لیے گیا۔ تو میں بہت سہما ہوا تھا کیوں کہ اسکول میں پہلا دن قمیض کے بٹن کھلے ہوئے۔ شلوار پھٹی ہوئی اور پلاسٹک کے جوتے وہ بھی پھٹے پرانے۔۔بھائی نے کہا کہ آپ اسکول کے باہر انتظار کرو جب استاد آئے گا تو میں اس کو بتاؤں گا کہ اس کو داخل کر لیں۔ میں خوش ہوا اور سوچنے لگا چلو آج کا دن تو پھر کھیل کود میں نکل جائے گا۔ ایسے میں استاد محترم اسکول تشریف لاتے ہیں دن کے ساڑھے دس بجے ہیں۔ استاد محترم اپنی کرسی پر براجمان ہوئے۔۔۔دراز میں سے ایک رجسٹر نکالا  اور آنے والے ہفتے کی حاضریاں لگا دیں۔ اپنی اور اپنے تین اور محترم دوستوں کی جو اسی اسکول کے استاد محترم تھے۔ یہ سلسلہ جب ختم ہوا تو استاد محترم نے آواز دی  کے چہارم جماعت والے اپنی اردوکی کتاب نکالیں۔ بچوں نے کتاب کھولی اور استاد محترم نے دو لائن بچوں کو پڑھائیں اسی طرح اسکول میں تین جماعت اور بھی تھیں ۔اور ان تینوں جماعتوں کو بھی اردو کا پیرڈ لگا دیا، اب میں باہر دھوپ میں کھڑا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اور ساتھ سوچ رہا تھا کہ یار یہ اسکول تو بہت آسان ھے ایسے میں گھنٹی کی آواز آئی اور بریک ٹائم ہوگیا۔ میں اور خوش  ہوا کہ ابھی تو کرکٹ کھیلیں گے۔ کرکٹ کھیلنے کے بعد بریک ٹائم جب ختم ہوا تو دن کے بارہ بجے تھے ایسے میں میرا بھائی استاد کے پاس گیا  اور کہا کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لایا ہوں  آپ اسے اسکول میں  داخل کر لیجئے۔استاد محترم نے بولا آپ نے بہت تیر مارے ہیں ۔اب اس کو لے آئے ہو۔۔چلو ٹھیک  ہے داخل خارج والا رجسٹر لے آؤ میں اس کو داخل کر دیتا ہوں۔ انہوں نے پوچھا "بتاؤ تمہارا نام کیا ہے۔" میں نے بتایا میرا نام ریحان نواز ہے۔ اس نے کہا دوبارہ سے بتاؤ میں تھوڑا ڈر گیا اور پھر بتایا میرا نام ریحان نواز ہے۔ تو استاد محترم نے میرے بھائی سے پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے۔۔میرے بھائی نے بھی یہی بتایا کہ اس کا نام ریحان نواز خان ہے۔ تو استاد محترم سوچ میں پڑ گئے اور بولے یار یہ کیسا نام ہے ؟ میرے بھائی کو بولا تم لکھ سکتے ہو تو لکھ دو۔ میرے بھائی نے بولا استاد جی مجھے تو لکھنا نہیں آتا۔ اب اسی طرح ایسی باتوں میں تقریبا آدھا گھنٹہ گزر گیا ساڑھے بارہ ہوگئے۔استاد محترم نے میرے بھائی کو بولا چلو تم گھنٹی بجاؤ چھٹی کا ٹائم ہو گیا اور مجھے بتائیں یار تمہارا نام ربنواز خان ہو گیا۔ تب سے لے کر آج تک میں سوچ میں ہوں  استاد محترم کو میرا نام  پسند نہیں تھا یا تو رب نواز خان لکھنا مشکل تھا ؟ 

میں  ہرگز یہ نہیں کہہ رہا  کہ جو استاد محترم  اسکول میں موجود تھے وہ نالائق تھے اور جو اسکول میں غیر حاضر استاد تھے وہ حق حلال کی تنخواہ لے رہے تھے۔ اب یہ ہمیں معلوم نہیں کہ حکومت نے اساتذہ کا حق مارا ہے یا اساتذہ  نے بچوں کا۔ کیونکہ اچھی تعلیم ہر ایک پاکستانی بچے کا حق ہے لہذا میری طرح بہت سے بچے اس حق سے محروم رہ گئے ہیں کیونکہ وہ بھی میری طرح اسکول کے ٹائم پر انجیر ناشپتی سبزی اور دیگر سودا سلف وغیرہ لانے لے جانے میں مصروف رھتے تھے ۔کیوں کہ حکم جو ماننا تھا استاد محترم کا۔  اسی طرح استاد محترم  اعلیٰ تعلیم دیتے ہوئے ہماری زندگی کے پانچ سال جو کہ بہت قیمتی تھے میرے نام کی  طرح اس قیمتی پانچ سالوں کو بھی  بدل دیا گیا۔

 بتائیے میں کس سے اپنا حق مانگوں اور کس سے گلہ کروں؟ 

حکومت سے جو تعلیم کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے یا اساتذہ سے جن کی وجہ سے میرے نام کی طرح میری زندگی کے پانچ سال تبدیل کر دئیے گئے۔ لہذا آپ نے ساری صورت حال دیکھ لی ۔آپ کو تو پتہ لگ گیا کہ میں ایک نیم پڑھا انسان ہوں اگر کوئی غلطی ہوئی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔