کوئی بھی ڈرامہ نگار اپنے فن کو تراشتے وقت اختتام تک ڈرامے میں سسپنس ضرور رکھتا ہے تا کہ ناظرین کی طرف سے زیادہ سے زیادہ پذیرائی حاصل ہو مگر پی ڈی ایم والے ڈرامے کا اختتام یوں ہوا کہ ناظرین کو بھی پچھتاوا ہوا کہ ایسے فضول ڈرامے پر وقت کیوں برباد کیا۔
اختتام پر اویس نورانی نے مولانا کو پریس کانفرنس سے خطاب کے بعد کسی اور کو سنے بغیر جانے کا اشارہ کیا اور مریم صفدر اعوان مولانا کو تکتی رہی ۔
زرداری کے مفادات شریف خاندان کے مفادات سے بالکل مختلف تھے ۔ مولانا کے مفادات تھے ہی نہیں ۔ مفت میں سیاسی بدنامی مول لی۔باقی پارٹیاں قابل ذکر نہیں۔
پاکستانی عوام کے لیے اس ڈرامے میں بہت کچھ موجود ہے۔ باشعور عوام اس ڈرامے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔
عوام کو دیکھنا ہے کہ یہ کوئی سیاسی تحریک تھی یا مفادات حاصل کرنے کی کوشش تھی۔
عوام جانچ لیں کہ اقتدار ان کو عزیز ہے اور پاکستان سے زیادہ عزیز ہے۔
عوام سمجھ لیں کہ جاوید لطیف کے بیان کے پیچھے کیا ارادے ہیں اور کتنی حب الوطنی پائی جاتی ہے۔
اس ڈرامے کے فلاپ ہونے کا بہت زیادہ فائدہ عوام کو پہنچنا چاہیئے کیونکہ سارے حالات سامنے ہیں کہ کون وطن عزیز کے ساتھ مخلص ہیں اور کون چوریاں اور ڈاکے بچانے کے چکر میں ہیں۔
عوام یہ بھی یاد رکھیں کہ ن لیگ کی قیادت کی آئندہ حکمت عملی ممکنہ طور پر کیا ہو گی۔ اب یہ ایم کیو ایم الطاف گروپ کے نقش قدم پر چلیں گے ۔ خون خرابہ اور لاشوں کی سیاست کر کے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کریں گے اور ملک دشمنی اور عمران دشمنی میں ہر حد پار کریں گے جیسا کہ یہ کر بھی چکے ہیں اور ملک کے حساس اداروں تک کو نشانہ بنا چکے ہیں۔
عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے لوگوں کو مکمل طور پر دیوار کے ساتھ لگائے رکھیں کہ اسی میں پاکستان کے بقا کی بھی ضمانت ہے اور پاکستان کے آگے بڑھنے کی بھی ضمانت ہے!