دیدہ ور - انصاف بلاگ | Pakistan Tehreek-e-Insaf

 

میری تحریر کا محور دو پاکستانی ہیں۔
ایک فخر عالم اسلام ، فرزند پاکستان ، عمران خان
دوسرے معمار صوابی، فخر صوابی اور فرزند صوابی اسد قیصر ۔
کپتان نے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کیا تو اسد قیصر نے صوابی کو پاکستان
میں شناخت دی 
میں کیوں حسد کروں؟
میں کیوں ان کے خلاف سازش کا حصہ بن جاؤں ؟؟
جبکہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے ک
نظام خداوندی ہے کہ بڑے کاموں کی لئیے ایسے افراد کو چن لیا جاتا ہے جو مختلف ہوں، جن کی فکر ایک دائرے میں چکر کھانے والوں سے الگ ہو اور جن کی سوچنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت کسی بھی نظام سے چمٹے رہنے والے سے بہتر ہو ۔۔ تاریخ کے آئینے میں جھانکا جاۓ تو دنیا میں جتنے بھی بڑے مفکر، سائینس دان، موجد اور رہنما گزرے ہیں ان میں سے واضح اکثریت کی ذاتی زندگی انہی وجوہات کی بنا پر خلفشار کا شکار رہی ہے ۔ مصائب کا سامنا کرنا پڑا ۔آگ کے دریا عبور کئے تب مقام عطا ہوا

ایسے لوگوں کو پاگل بھی کہا جاتا ہے اور ان پر سفر کے آغاز میں ہنسنے کے ساتھ آوازیں بھی کسی جاتی ہیں لیکن یہ لوگ پیچھے
مڑ کر نہیں دیکھتے بلکہ بڑھتے جاتے ہیں ۔۔راستہ پتھر ہو یا کہکشاں، ان کی رفتار مدہم تو ہو سکتی ہے مگر ٹھہر جانا ان کی خمیر میں شامل نہیں ہوتا ۔۔ ان کے ذہن، جسم اور روح کا امتحان بہت کڑا ہوتا ہے اسی لئیے ان کی تخلیق کا معیار بہتر رکھا گیا ہوتا ہے ۔
اب یہ رب العالمین کے فیصلے ہیں تو میں کیوں حسد کی آگ میں جل جل کے جیوں؟؟
 اگر سائینس دان ہو تو ایک دن ایسا حیران کرتا ہے کہ آنکھیں ششدر رہ جاتی ہیں، موجد ہو تو ایسی ایجاد سامنے لاۓ کہ صدیاں اس کی مقروض ٹھہریں اور اگر رہنما ہو تو قوم پر ایسا احسان کر جاۓ کہ دنیا اس قوم کی طرف دیکھے اور اپنا آپ سنوارے۔
صوابی کا جائزہ لیں ۔ مخالفین بھی رشک کرتے ہیں کہ واقعی صوابی بدل چکا ۔

رہنمائ کا پہلو دیکھا جاۓ تو یہ دیدہ ور بڑی مشکل سے پیدا ہوتے ہیں ۔۔ ان کا مشکل وقت میں ساتھ دینے والے کڑی دھوپ میں دامن سے ہوا دینے والے اور طنز و طعن کے تیر اپنے سینے پر کھا لینے والے عظیم تو شائید نہیں ہوتے لیکن راہ میں کانٹے بچھانے والوں اور روڑے اٹکانے والوں سے بہر طور بہتر ضرور ہوتے ہیں ۔۔ یہ سب وہ محبت میں کر رہے ہوتے ہیں، اس درد اور اس تکلیف میں کر رہے ہوتے ہیں جو پسی ہوئ قوم کو دیکھ کر ان کو چین نہیں لینے دیتی ۔۔ وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی اس قوم کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں جنہیں اپنی زنجیروں سے انس ہوتا ہے

 جب وہ اپنے رہنما کو دیکھتے ہیں تو جان لیتے ہیں یہی ہے نظام قدرت کا جلایا ہوا وہ چراغ  جس کی روشنی میں قوم اپنی منزل اور اپنی کامیابی کی راہ متعین کر سکتی ہے ۔۔ وہ پہچان لیتے ہیں کہ اگر اس کی قدر نہ کی تو دعائیں بے اثر جائیں گی اور آہیں فلک تک پہنچنے سے پہلے روک لی جائیں گی ۔۔ ظلم کا سورج ایسا طلوع ہو گا کہ انصاف کی چھاؤں دیتے بچے کھچے درخت بھی سایہ دینے کے قابل نہ رہیں گے ۔۔ پھر چاہے موسم تپتی دھوپ کا ہو یا طوفانِ باد و باراں کا یہ کبھی ساتھ نہیں چھوڑتے۔ یہی وجہ ہے کہ صوابی کے گوہر نایاب دھڑا دھڑ تحریک انصاف میں شامل ہو کر جان کی بازی لگانے کا فیصلہ کر رہے ہیں جیسے آج صوابی خاص میں پسران غلام نبی جان مرحوم نے کیا۔ چار دن پہلے شیر زمان و شیر اسلم اور ان کے سینکڑوں احباب نے کیا۔ اور یہ سلسلہ ابھی تھمے گا نہیں۔
 جد و جہد کے بےکراں سمندر میں موجیں چاہے جتنی بھی طلاطم خیز کیوں نا ہوں یہ گھبراتے نہیں ہیں ۔۔ یہی وہ “بادبان” ہوتے ہیں جن کے بل بوتے پر ایک رہنما قوم کی نیا پار لگاتا ہے ۔۔ یہ بادبان آندھیوں کے تھپیڑے خوشی سے سہہ جاتے ہیں کیونکہ وہ "ملاح" کے احسان مند ہوتے ہیں اور ملاح جان پر کھیل کر سفینہ ساحل تک پہنچاتے ہیں ۔
ان دونوں کے ساتھ بغض و عناد رکھنا فضول ہے کیونکہ یہ خالق کائنات کی طرف سے بڑے کام انجام دینے کے لئے مامور ہیں۔

Tags:Imran Khan