قومی اسمبلی کے فلور پر 4 فروری کو احسن اقبال نے الزام لگایا کہ اسپیکر قومی اسمبلی جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اپوزیشن اراکین کو بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور ان کے مائیک بند کئے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
کہتے ہیں کہ چاند پر تھوک اپنے ہی منہ پر گرتا ہے ۔
پوری اپوزیشن مگر بالخصوص ن لیگ جھوٹ اتنی صفائی اور ڈھٹائی کے ساتھ بولتی ہے کہ ان کو یہ دھیان بھی نہیں رہتا کہ تواتر کے ساتھ جھوٹ بولنے پر ان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
درحقیقت قومی اسمبلی کی پوری تاریخ میں اسد قیصر جیسے خصوصیات رکھنے والا اسپیکر اس ایوان کو نصیب ہی نہیں ہوا اور یہ صرف دعوے نہیں بلکہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے کہتا ہوں۔
یہ اپوزیشن جو پی ٹی آئی کے خلاف متحد ہوکر این آر او کے حصول کے لئے تگ و دو کر رہی ہے ان کے اسپیکر کے پاس کبھی کسی قسم کا اختیار ہی نہیں رہا بلکہ پارٹی قائدین کے مکمل غلام رہے۔ان کی ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کاروائی کا مظاہرہ شاید احسن اقبال بھول گئے ہیں مگر ہمیں یاد ہے۔ ان کے دور میں گرفتار ممبران پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر جاری کروا کر کھلی فضا میں آنے کا تصور ہی نہیں تھا۔ احسن اقبال صاحب خدا را جھوٹ نہ بولیں اور ماضی قریب میں آپ کے لیڈر شہباز شریف کے جتنے پروڈکشن آرڈر جاری ہوئے وہ گن کر اسد قیصر کو چیلنج کریں۔ سعد رفیق عرف لوہے کے چنے نے فلور آف دی ہاوس پر اعتراف کیا اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا شکریہ ادا کیا ۔
یہی نہیں بلکہ کئ دفعہ خورشید شاہ اور شہبازشریف بھی اسد قیصر صاحب کا بحیثیت سپیکر غیر جانبداری کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ اسمبلی کے فلور پر ان کو خراج تحسین پیش کر چکے ہیں جو ریکارڈ پر ہے۔
مزید یہ کہ اگر موجودہ اپوزیشن کی پارلیمانی تاریخ میں اگر کوئی ایک حادثہ پیش آیا ہو کہ اپوزیشن کے پابند سلاسل ممبر کا پروڈکشن آرڈر جاری کروایا گیا ہو تو بطور مثال احسن اقبال پیش کرتے!
ہم اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے بحیثیت کسٹوڈین آف دی ہاوس اپنی ذمہ داری انتہائی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور عین پارلیمانی روایات کے مطابق نبھائی۔
Tags:Imran Khan