اوورسیز پاکستانی ، مظلومِ پاکستان نوازشریف | Pakistan Tehreek-e-Insaf

اوورسیز پاکستانی ، مظلومِ پاکستان نوازشریف۔ 
نوازشریف کا نام پانامہ میں صرف اس لیئے آیا ہے کہ وہ حسن حسین اور مریم کے والد ہیں ورنہ خود تو ہر لحاظ سے صادق و امین ہیں۔ ساری زندگی رزق حلال کمایا، کھایا اور اپنی اولاد کو کھلایا ہے بلکہ اپنے والدین اور ایک بھائی کی اولاد کو بھی کھلایا ہے دوسرے بھائی نے کھانے سے انکار کردیا تھا۔ 
رزق حرام سے نواز شریف کو اتنی ہی نفرت ہے جتنی نفرت انہیں اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال اور اپنے خاندان و اقرباء کو فائدہ دینے سے ہے۔ 
نوازشریف کو کاروبار سے بھی شدید نفرت ہے اور سیاست میں آنے کے بعد سے وہ کاروبار کرنے کو گناہ عظیم سمجھتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے اپنے والد محترم سے کہا تھا مجھے کاروبار پسند نہیں ہے لہذا آپ اپنی تمام وراثت مجھے نہ دیں بلکہ اپنے پوتے پوتیوں کو دے دیں وہ کاروبار میں بہت تیز ہیں۔ 
یوں نوازشریف نے دنیاوی دولت کو ٹھکرا دیا اور باپ نے سب جائیداد، کاروبار، مال و دولت اپنے تیسرے بیٹے کی اولاد کو محروم کرکے پہلے دو بیٹوں کی اولاد کو دے دی۔
اور تب سے ان کے خاندان کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے، اب اگر ان کی اولاد شیرخواری اور عہد طفولیت میں ہی کامیاب سرمایہ کار اور ارب پتی بننے کی صلاحیت رکھتی تھی تو اس میں نوازشریف کا کوئی قصور نہیں تھا، نہ ہی ان پر انگلی اٹھائی جاسکتی ہے اور نہ ہی یہ کوئی جرم ہے۔ 
بلکہ یہ تو پاکستان کے لئے فخر کی بات ہے کہ ان کی دودھ پیتی اولاد نے کم سنی میں ہی کاروبار میں وہ کارنامے سر انجام دیئے کہ پاکستان کے تمام ادارے آج تک ان کی کامیابی کا راز جاننے کی کوشش میں سرگرداں ہیں مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے کیونکہ کامیاب بزنس مین وہی ہے جو اپنی کامیابی کے طریقے اینٹی کرپشن، نیب اور ٹیکس والوں سے چھپا کر رکھے۔ 
انہوں نے نہ صرف تاریخ کا دھارا موڑا ہے بلکہ تاریخ کو ہی پیچھے کی طرف موڑ کر تاریخ رقم یعنی تاریخ الٹی کردی ہے۔ اولادِ نواز شریف دنیا کی معلوم تاریخ میں پہلے بچے ہیں جنہوں نے کاروبار شروع کرنے سے پہلے ہی اربوں روپے کے منافع کمانے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بلکہ پورے خاندان نے کاروباری دنیا میں ایسے حیرت ناک کارنامے سرانجام دیئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے مثال کے طور پر یہ چند باتیں ملاحظہ فرمائیں۔ 
نوازشریف کے ابو جان محمد شریف 1919 میں پیدا ہوکر لاہور مزدوری کےلئے آتے ہیں اور صرف 11 سال کی عمر میں 1930 میں کامیاب بزنس مین بن جاتے ہیں۔ 
پھر گوالمنڈی کی ایک دکان میں 1969 میں اتفاق فونڈری قائم کرکے پاک فوج کو لوہا سپلائی کیا جس سے فوج نے 1965 میں انڈیا کو شکست دی۔ 
نواز شریف 1999 میں کپڑے اور برتن بریف کیسوں میں بھر کر جدہ ہجرت کر جاتے ہیں اور جدہ سٹیل مل خریدتے ہیں پھر 2006 میں جدہ سٹیل بیچ کر 1992 میں لندن فلیٹ خریدتے ہیں۔ 
بیٹے حسن حسین نے دوستوں سے قرض لیکر 2001 میں دادا کی طرح 11 سال کی عمر میں کاروبار شروع کیا اور ارب پتی بن کر 1992 میں لندن فلیٹ دوبارہ خریدے کیونکہ یہی فلیٹ پہلے ان کے ابو بھی خرید چکے تھے۔ 
بیٹی بیگم صفدر اعوان 2007 میں بننے والے کیلبری فونٹ کو 2004 میں استعمال کرکے قطر سے اپنے کاروبار کے ثبوت دیتی ہے۔ 
اس طرح کی کاروباری جدوجہد کسی اور خاندان کی ہے تو اعتراض کرنے کی بجائے مثال پیش کریں۔ 
نوازشریف پر ہمیشہ ایک الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کا کاروبار شادیاں سب کچھ باہر ہے جبکہ سیاست پاکستان میں ہے تو یہ بلاوجہ اعتراض ہے کیونکہ میں (محمد عبدہ) ایک عام پاکستانی ہوں میری شادی، میری اولاد، میرا گھر، کاروبار سب کچھ باہر اور میری سیاست پاکستان میں ہے اور یہ صرف میں ہی نہیں لاکھوں اوورسیز پاکستانیوں کی کہانی ہے جب ایک عام پاکستانی کا جینا باہر اور مرنا پاکستان میں ہے تو پھر نواز شریف اکیلے پر ایسا الزام مناسب نہیں ہے ظلم ہے۔ اسی لئے میں نوازشریف کو “مظلوم پاکستان” کہتا ہوں۔ 
نوازشریف پر ایک اور اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کی شادیوں کے فنکشن باہر ہوتے ہیں جبکہ یہ فضول سوال ہے کیونکہ شریف خاندان کی شادیاں باہر نہیں ہوتیں بلکہ حقیقت یہ ہے سادگی سے ہوتی ہیں۔ اب دیکھیں جب مریم کی شادی ہوئی تو نواز شریف وزیراعظم تھا پھر بھی اتنی سادگی سے ہوئی کہ کسی کو نہیں بلایا تھا، حسین نواز نے جب جدہ میں اپنے بچوں کو ہوم ٹیوشن پڑھانے والی لبنانی ٹیچر ایلا تغرید سے شادی کی تو کسی تو نہیں بتایا تھا۔ شہباز شریف نے جب دوسری تیسری اور چوتھی شادی کی تو وہ وزیراعلی پنجاب تھے پھر بھی سادگی ایسی کہ کسی کو بلانا تو درکنار بتانا بھی مناسب نہ سمجھا۔ حمزہ شہباز نے عائشہ احد سے شادی نہایت خاموشی سے کی تھی۔ تو شریف خاندان کی یہ عظمت ہے کہ کھرب پتی ہوکر بھی شادیوں پر فضول خرچی کرنے کی بجائے سادگی سے چھپا کر کرتا ہے اور سادگی ایسی کہ بعض دفعہ خاندان کو بھی نہیں بتایا جاتا۔ 
یہ تو ہیں نوازشریف اور اس کے خاندان کی باتیں جن سے پاکستان کا نام پوری دنیا میں پھیل گیا ہے اور دوسری طرف عمران خان کو دیکھیں تو اس نے دعوی کیا تھا میری حکومت آئی تو سبز پاسپورٹ کی پوری دنیا میں عزت ہوگی جبکہ حکومت کو تین سال گزر چکے ہیں اور عام پاکستانی تو درکنار تین بار کے وزیراعظم نواز شریف کو اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے اور بیٹوں کو برطانوی شہریت دلوانے کے باوجود برطانیہ نے ویزہ کی معیاد آگے بڑھانے سے انکار کرکے سبز پاسپورٹ کی توہین کی ہے۔ 
اس نااہلی پر عمران خان کو شرم آنی چاہیے اور مریم صفدر سے معافی مانگ کر استعفی دے دینا چاہیے۔ 
نوازشریف اوورسیز پاکستانی ہے اور ہم اوورسیز پاکستانیوں کا نمائندہ ہے لہذا میں حکومت سے کہتا ہوں جو حقوق ہمیں حاصل ہیں وہی حقوق لندن میں نوازشریف کو بھی دیئے جائیں۔