پاکستان میں جب بھی الیکشن ہوا ہے خواہ وہ عام انتخابات ہو، ضمنی انتخابات ہو یا سینٹ انتخابات ہو ان کو ہارنے والوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا اور اسے متنازعہ بنانے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے اور کی جاتی یے ۔
حالانکہ پاکستان کی تقریبا تمام سیاسی جماعتیں اس میں شامل ہیں جو کبھی جیت جاتی ہیں اور کبھی ہار جاتی ہیں۔
جب جیت جاتے ہیں جشن منایا جاتا ہے اور ہارنے والے اسے متنازعہ کہہ کر ریاستی اداروں پر الزمات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں۔
جب ہارنے والوں کی حکومت آتی ہے تو وہ کبھی اصلاحات کی کوشش نہیں کرتے اور جب بھی اس کو فائدہ ہوتا ہے خواہ وہ عارضی کیوں نہ ہو وہ اصلاحات لانے والوں کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ سلسلہ ایسی طرح جاری رہتا ہے۔
حکومتی پارٹی کو کرپٹ نظام کی وجہ سے زیادہ فائدہ ملتا ہے کیونکہ سارے اختیارات اور خاص کر الیکشن کمیشن کو کنٹرول کرتے ہیں اور ہم نے یہ ماضی میں دیکھا ہے کہ اپوزیشن کی مطالبہ پر 4 حلقے 4 سال میں وپن نہیں ہوئے اور اس کے لیے اس وقت اپوزیشن جماعت جو اب حکمران جماعت ہے 126 دن کا دھرنا دیا تھا اور عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد پاکستان میں شفاف انتخابات اور کرپشن کا خاتمہ ہے خواہ وہ ملک کے اندر ہو یا ملکی اداروں میں کرپشن ہو سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور آزاد ادارے چاہتے ہیں جو سیاسی اثر رسوخ سے پاک ہو اور اس میں پاکستان کی بہتری یے۔
عمران خان کی حکومت نے اداروں کو کتنا آزاد کیا ہے اس کی تازہ مثال ڈسکہ حلقہ 75 کی ضمنی انتخاب ہے جو حکمران جماعت کا دعوئ ہے کہ یہ الیکشن ہم جیت چکے ہیں اور اپوزیشن جو 11 جماعتوں پر مشتمل ہے الیکشن کمیشن میں دوبارہ الیکشن کے لیے درخواست دیتے ہیں اور حکومت اس کے خلاف ہے لیکن پھر بھی فیصلہ حکومت کے خلاف آتا ہے اور یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا فیصلہ ہوگا جو الیکشن کمیشن نے حکومت وقت کے خلاف دیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان نے کتنی آزادی دی ہے۔
سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کتنی ہوتی ہے سب سیاسی جماعتوں کے سربراہ کو پتہ ہے ۔ جس طرح عمران خان نے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اپنے 20 ارکان کو پارٹی سے نکالا تھا اور اس کی ویڈیو بھی منظرعام پر آچکی یے اس ویڈیو میں دوسری پارٹیوں کے ارکان بھی شامل تھے لیکن کاروائی صرف اور صرف عمران خان نے کی باقی سب خاموش۔
موجودہ حکومت کو قانون سازی میں دشواری کا سامنا ہے کیونکہ سینٹ میں اپوزیشن کے اکثریت ہے اور وہ قانون سازی میں بڑی رکاوٹ ہے وہ نہیں چاہتے کہ ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہو۔
سینٹ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس بھیجا کہ ووٹنگ وپن ہونی چاہئیے نہ کہ خفیہ طریقہ سے اور ساتھ سپریم کورٹ سے اس سلسلے میں رائے بھی طلب کی۔
سپریم کورٹ میں اپوزیشن جماعتوں کیساتھ ساتھ الیکشن نے بھی حکومتی آرڈیننس کی مخالفت کی اور خفیہ طریقہ پر ووٹنگ کی حمایت کی اس سے اندازہ کریں کہ ایک حکومتی ادارہ نے حکومت کی مخالفت کی اور یہی عمران خان کی کامیابی ہے۔
سپریم کورٹ میں کیس چلتا رہا اور بالآخر آج سپریم کورٹ نے حکومتی آرڈیننس پر اپنی رائے دیں اور حکم دیا کہ ووٹنگ خفیہ ہوگی کیونکہ سینٹ الیکشن آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ہوتے ہیں اور آرٹیکل 222 پارلیمنٹ کو قانون سازی کی اجازت دیتا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنی رائے کی مزید تشریح کی اور کہا کہ شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور شفاف الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کریں۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی رائے کے برعکس حکم دیا کہ ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رکھا جاتا، بے شک ووٹ خفیہ ہی ڈالا جائے گا لیکن ہر پارٹی کی سربراہ کی خواہش پر اس کو بتایا جاسکے گا کہ ووٹ کہاں ڈالا گیا ہے ورنہ الیکشن کمیشن تو کہتی کہ ووٹ تا قیامت خفیہ ہی رہی گی۔
اب جبکہ ووٹ کا پتہ چل سکے گا کہ کس نے کس کو ووٹ دیا ہے اور ووٹ قابل شناخت ہوگی تو یقینا ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہوگا اور کرپٹ مافیا اپنے چال نہیں چل سکے گے اور یہی عمران خان اور حکومت کی جیت ہے۔
اگر دیکھا جائے تو خفیہ ووٹنگ کا زیادہ فائدہ حکمران جماعت کو ہوتا ہے کیونکہ سارے اختیارات حکومت کے پاس ہوتے ہیں اور اگر حکومت چاہیے خزانے کا منہ کھل دیں اور سب ارکان کو پیسوں سے خریدیں جس طرح ماضی کی حکومتیں کرچکی ہیں لیکن عمران خان کی نیت صاف ہے وہ چاہتے ہیں کہ ادارے آزاد ہو اور پاکستان میں صاف و شفاف انتخابات ہو اور جس کا حق بنتا ہے اس کو اتنا ہی ملے اور کرپشن کا خاتمہ ہو۔
پاکستان کے تمام سیاسی پارٹیوں اور اداروں سے درخواست ہے کہ پاکستان کو عظیم ملک اور کرپشن سے پاک پاکستان بنانے میں حکومت کا ساتھ دیں اور تمام سیاسی پارٹیوں کے اندر جو کرپٹ مافیا کے لوگ موجود ہے اس کا قلع قمع کریں اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے دیں۔
پاکستان زندہ اپاد