
اُٹھو لوگوں بغاوت سے قیامت کا سماں کردو!
جان لاک جنہیں معاہدہ عمرانی کا خالق کہا جاتا ہے۔
جان لاک کا سیاسی نظریہِ زندگی،
آزادی اور جائیداد کے قدرتی حقوق پر مرکوز ہے، جو افراد کے لیے موروثی ہیں یعنی وہ اس حق کو انسان کا پیدائشی حق تصور کرتا ہے، اور یہ ایک سماجی معاہدہ ہے جہاں لوگ ان حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت سے رضامندی ظاہر کرتے ہیں یعنی عوام حکومت کو اپنے حقوق کے تحفظ کی ضمانت کیساتھ حق حکمرانی عطا کرتے ہیں۔ اس کا فلسفہ ایک محدود حکومت کی وکالت کرتا ہے کہ جو حکومت کرنے والوں کی رضامندی سے ہو اور قانون کی حکمرانی پر مبنی ہو یعنی کہ قانون کی بالادستی قائم کرنے والی ہو جس میں عوام کو یہ حق ہے کہ اسکے ہونے والی زیادتی یا معاہدہ عمرانی کی پاسداری نا کرسکنے پر مزاحمت کرے یا ظالم حکومت کو ختم کردیا جائے۔
کلیدی تصورات
قدرتی حقوق: لاک نے استدلال (یعنی دلائل یا شواہد کی بنیاد پر کسی نتیجے پر پہنچنا) کیا کہ افراد ناقابل تنسیخ حقوق — زندگی، آزادی اور جائیداد — کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جو حکومت کی طرف سے عطا نہیں کیے جاتے ہیں لیکن آزادانہ طور پر موجود ہیں۔
فطرت کی حالت:
حکومت کی غیر موجودگی میں، افراد ان فطری حقوق کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر فطری قانون کے تحت حکومت ہوتی ہے۔
سماجی معاہدہ:
لوگ سماجی معاہدے میں داخل ہوتے ہیں، اپنے حقوق کے تحفظ کے بدلے گورننگ باڈی کو کچھ انفرادی آزادیوں سے دستبردار ہوتے ہیں۔
حکومت کی رضامندی:
کسی حکومت کے جائز ہونے کے لیے، اسے اپنے لوگوں کی رضامندی حاصل ہونی چاہیے، چاہے وہ باضابطہ انتخابات کے ذریعے ہو یا خاموش رضامندی سے۔
ظلم کے خلاف مزاحمت کا حق:
اگر کوئی حکومت فطری حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو کر یا جابر بن کر سماجی معاہدے کی خلاف ورزی کرتی ہے تو عوام کو اس میں ردوبدل یا اسے ختم کرنے کا حق حاصل ہے یعنی ایسی ریاست کیخلاف عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کے برخلاف کام کرنے پر کسی بھی حکومت کیخلاف بغاوت کریں۔
اُٹھو لوگوں بغاوت سے قیامت کا سماں کردو
تمہاری یہ چُپ رہنے کی عادت تمہیں مار ڈالے گی
ریاست گر بچانی ہے سیاست چھین لو،
ورنہ یہ سیاست تمہیں مار ڈالے گی
اگرچہ اسی معاہدہ عمرانی کیمطابق اکثریت کو حق حاصل ہے کہ وہ آئین میں اکثریت رائے سے ردوبدل کرے مگر اس حق کا تصور تب ہی قائم ہوسکتا ہے جب جمہوریت کی روح انتخابات صاف و شفاف طریقے سے ہوں چونکہ پاکستان میں انتخابات میں شدید دھاندلی کرکے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقلیت بنادیا گیا اور اسکے بعد آئین میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں جو کسی بھی طرح سے ایک تو عوامی حقوق کا تحفظ نہیں کرتی دوسرا آئین کی روح کے سراسر خلاف ہیں- ریاست نے ملک میں ظلم و جبر کا نظام کررکھا ہے ایسی ریاست کیخلاف بغاوت ہر شخص کا حق ہے اور یہ حق اسے جان لاک کا نظریہ دیتا ہے ۔
ریاست نے ماورائے عدالت ملک کی مقبول ترین قیادت کو جیل میں بند کررکھا ہے، اس وقت تہتر کے آئین کی رو سے تمام بنیادی حقوق کا آئین کے پہلے باب میں درج ہیں جو کہ سلب کرلیئے گئے ہیں ـ یعنی بنیادی حقوق کے منافی تمام قوانین کالعدم ہیں فرد کی سلامتی کے منافی ملکی احکامات اسوقت عام ہیں اور احتجاج کرنے والوں پر براہ راست گولیاں برسائی جاتی ہیں اور قتل عام کیا جاتا ہے ، گرفتاری اور نظربندی سے تحفظ کی شق اسوقت منہ چھپاتی پھر رہی ہے یعنی ریاست جب چاہتی ہے جسے چاہتی گرفتار کرکے حبس بے جا میں رکھ لیتی ہےـ منصفانہ سماعت کا یہ عالم ہیں کہ پاکستان کے مقبول ترین رہنما عمران خان صاحب جوکہ سابق وزیراعظم بھی ہیں کا جیل سے ٹرائل کیا جاتا ہے اور انکے وکلاء و رفقاء سے مُلاقات کی اجازت نہیں دی جاتی ـ
اسی طرح ہزاروں سیاسی کارکنوں کو بغیر مقدمات کے جیلوں میں بند کرکے رکھا ہوا ہے ، نقل و حرکت میں آزادی والا معاملہ تو اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ ایک سیاسی جماعت (یعنی تحریک انصاف)کا نام لینا بھی ملک میں جُرم ہے ایک صوبے کے علاوہ وفاق کی تمام اکائیوں میں پی ٹی آئی کا جھنڈا اُٹھانا جرم ہے ، اجتماع کی آزادی ملک کی حکومتی جماعت یا اتحادیوں کو جلسے جلوس کرنے کی کھلم کھلا آزادی ہے مگر ملک کی مقبول ترین جمعاعت تحریک انصاف کو نا جلسہ کرنے کی آزادی ہے نا جلوس نکالنے کیلیے اجازت دی ہے ۔ ملک میں مسلسل دفعہ ۱۴۴ نافذ ہے تقریر و تحریر کی آزادی کا حق فائر والز اور پیکا ایکٹ لگاکر بند کردیا گیا ہے تحریک انصاف کا نام کسی بھی نشریاتی ادارے سے نشر نہیں ہوتا اور عمران خان کا نام تک کسی چینل سے نشر نہیں ہوتا اور انہیں بانی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ معروف جرنلسٹ پرتشدد کاروائیوں کا شکار ہیں ارشد شریف کا قتل ایسے ہی سلسلے کی کڑی ہے جب وہ اپنی جان بچانے کیلیے دیس پردیس میں دھکے کھاتے رہے اور بلا آخر ان کی سازش کی بھینٹ چڑھ کر شہید ہو گئے ۔ عمران ریاض لمبے عرصے سے ان کے عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنے رہے پھر ملک چھوڑنا پڑا، کاشف عباسی جیسے معروف اینکر کی زندگی اسوقت اجیرن کرکے رکھی گئی ہے انکے اور انکی اہلیہ کے بینک اکاؤنٹس تک منجمد (فریز) کردییے گئے ہیں۔
مساوی انصاف کے نظام کا اسوقت پاکستان میں سرے سے تصور نہیں ہےآئین کے برخلاف آئینی عدالت کو وجود میں لایا گیا تاکہ صرف تحریک انصاف کو رگڑا دیا جاسکے جسکے ذمہ سو سے زیادہ کیسز نہیں ہیں انتخابی بے ضابطگیوں کیخلاف مقدمات الیکشن کمیشن میں بتور سماعت کیلئے بےتاب ہیں۔
اُٹھو لوگوں بغاوت سے قیامت کا سماں کردو
عمران درانی
Tags:Imran Khan
