
میں نے سن 2000 میں 11 سال کے عمر میں چوتھی جماعت میں سکول چھوڑ کر بنوں میں مدرسہ دارلھدی (بامقام نورنگ روڈ میراخیل ) میں داخلہ لیا
میں اور میرے والدین کی یہی خواہش تھی کہ میں ایک حافظ قرآن اور عالم دین بن جاؤں
میں نے اس مدرسے میں ڈیڑھ سال تک وقت گزارا اس ڈیڑھ سال میں 20 سے زیادہ احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی اور ایک ہی نعرہ لگا رہے تھے مشرف غدار اور اے این پی ہندو پارٹی ہے
میں اس وقت ایک بچہ تھا میں باچا خان، ولی خان، اسفندیار ولی، بشیر بلور اور غلام بلور کو جانتا تک نہیں تھا لیکن ان سیاسی مولویوں نے میرا ذہن ایسا بنایا تھا کہ میرے سامنے جہاں بھی اے این پی کارکن سامنے آتا میں اسکو ہندو سمجھ رہا تھا
ڈیڑھ سال بعد یعنی 2001 کے اخر میں میں نے یہ مدرسہ چھوڑ کر شمالی وزیرستان چشمہ مدرسہ میں داخلہ لیا اور کچھ عرصہ بعد 2002 کے انتحابات کی تیاری شروع ہوگئی اور یوں ہمیں پھر جلسے جلسوں پہ لگایا گیا۔ وزیرستان سے جمیعت کے پلیٹ فارم پر مولانا نیک زمان کھڑا تھا اور ہم نے ان کے کیمپئن میں نا صرف شرکت کی بلکہ الیکشن میں زبردستی لوگوں سے ٹپے بھی لگوائے۔ الیکشن سے ایک دن پہلے میرے گاوں کے مولوی نے مسجد میں کھڑے ہوکر کہا کہ یہ صرف کتاب نہیں بلکہ قرآن ہے ہم نے ان پر ٹپہ لگانا ہے۔ اور یوں مولانا نیک زمان کامیاب ہوگیا خوب 5 سال کرسی کے مزے لئے
دو ڈھائی سال بعد یہ مدرسہ چھوڑ کر دوبارہ بنوں میں مدرسہ نصرت الھدی (بامقام نظم بازار حامیدی روڈ پیردل کلی) میں داخلہ لیا وہاں بھی وہی حالات تھے
غالبن 2004 یا 2005 میں ایک دفعہ میں مدرسے سے چھٹی پر آیا تو میرے چچا زاد بھائی اور گاؤں کے لوگ عمران خان کا مشرف کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے اسلام آباد جا رہے تھے تو میں نے چچا ذاد بھائی سے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ جاتا ہوں جب گیا اور وہاں عمران خان کو سنا تو اسی دن مجھے عمران خان سے پیار ہوگیا۔
خیر 2007 میں 18 سال کی عمر میں شناختی کارڈ بنوایا اور اپنا ووٹ اس لئے رجسٹر کیا کہ اس دفعہ میں وزیراعظم عمران خان کو ووٹ دوں گا لیکن 2008 الیکشن میں عمران خان نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور میں نے بھی اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا۔ الیکشن میں کے پی کے سے اے این پی جیت گیا اور مجھے بڑا افسوس ہوا کہ ایک ہندو پارٹی جیت گئی۔
2008 میں حالات سے مجبور ہو کر دبئی گیا تب بھی میرے ذہن میں اے این پی ایک ہندو پارٹی کے طور پر ذہن نشین تھی پردیس میں عمران خان کو شوق سے سننے کے بعد سیاسی شعور آگیا
2013 الیکشن ہوا، کے پی کے سے جمیعت کو شکست ہوئی عمران خان کی مخلوط حکومت بنی جیسا ہی فضل الرحمان کو معلوم ہوا کہ کے پی حکومت کامیاب ہوتا جا رہا ہے تو جمیعت والوں نے اے این پی کو چھوڑ کر عمران خان پر یہودی ایجنٹ کا الزام لگانا شروع کیا
2018 قریب ان پہنچا اور جمیعت کا یہودی والے نعرے سے جان نکل گئی تو پہلے جمیعت نے ایم ایم اے بنائی اس کے بعد الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے عمران خان پر قادیانیوں کو سپورٹ کرنے کا الزام لگایا اس کے باجود 2018 الیکشن میں کے پی کے عوام نے ایم ایم اے کو مسترد کر دیا اور عمران خان کو دو تہائی اکثریت سے سیٹیں دی اس کے باوجود فضلو باز نہیں آرہا عمران خان امریکہ میں جلسہ کریں تو یہ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ قادیانیوں نے جلسہ کیا تھا لندن میں جاتے تو قادیانی کے الزامات ان کے مشیروں پر بھی قادیانیوں کے الزامات لگا دئیے۔
آخر میں جے یو آئی والوں کو اتنا کہتا ہوں کہ اب وہ سادہ دور نہیں ہے جو سادہ عوام آپ لوگوں کی منافقت میں آجائے اب آپ لوگ الزامات کی بجائے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ حاصل کریں اور اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ فضل الرحمن کی بجائے مولانا طارق جمیل صاحب جیسے لوگ عمران خان کے ساتھ ہیں