Pakistani Women's Interest In Politics - Insaf Blog | Pakistan Tehreek-e-Insaf
Pakistani Women's Interest In Politics - Insaf Blog

 

پاکستانی خواتین کی سیاست میں عدم دلچسپی ۔پھر حقوق کی پامالی کا رونا کیوں؟؟؟؟؟؟؟

تحرير ۔ جویریہ اسد، الخبر

قارئین میری اس سوچ سے تو آپ بھی متفق ہوں گے کہ اپنے حقوق کی جنگ ہرانسان کو خود لڑنی پڑتی ہے بالخصوص جہاں جنگل سے بدتر قانون کا راج ہو ۔ مقامی اور معاشرتی سطح پر حکومت کے اعلی ایوانوں تک ، خواتین کو اکثر قیادت کے عہدوں پر زیربحث رکھا جاتا ہے ۔ انہیں فیصلہ سازی میں  میں اور انتخابی حلقے کی حیثیت سے نظرانداز کیا جاتا ہے۔ خواتین عالمی سطح پر قومی پارلیمانی عہدوں کا صرف 22 فیصد ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو سیاسی عمل کے تمام پہلوؤں میں اکثر معاشرتی اور ثقافتی رکاوٹوں ،  سیاسی تربیت کی کمی ،سیاسی تنظیم سازی کے لئے وسائل کی عدم موجودگی ، اور غیر یقینی معاشی چیلنجوں کی وجہ سے سیاسی عمل کا حصہ بننے نہیں دیا جاتا۔

 ایک مناظرے کے شرکاء کی طرف سے گفتگو میں خواتین کی سیاسی شرکت میں کمی کی وجوہات عوامی / معاشرتی تعاون اور سیاسی جماعت کی حمایت کا فقدان ، روایتی خیالات ، اعتماد کا فقدان ، مالی وسائل کا فقدان ، صلاحیت کے مواقع کا فقدان ،  ٹیکنالوجی سے دوری اور صنفی امتیاز بیان کی گئیں۔مگر میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق  اس کی وجہ خواتین کی سیاست میں ذاتی عدم دلچسپی بھی ہے۔

ہمارے ملک اور معاشرے میں آج بھی بہت سے محازوں پر خواتین کو ناکامی دیکھنی پڑتی ہے۔ کیونکہ ان میں سیاسی آگاہی کا شدید فقدان ہے۔ اکثّر خواتین تو کہتی ہیں کہ سیاست میں حصہ لےکر ہم کون سا تیر مار لیں گے۔ تو میری بہنو اگر یہی سوچ   تحریک پاکستان میں نہایت باوقار انداز میں حصہ لینے والی خواتین کی بھی ہوتی تو کیا آج ہم محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے نام فخرسے لے پاتے۔ ان کی اپنے گھر کے مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کوششوں نے قیام پاکستان کی تحریک کو ایک جلابخشی۔ اور یہ سب کرنے کے لئے انہیں کسی لانگ مارچ یا موم بتی مارچ کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ ان کو اپنے حقوق کا بخوبی علم تھا اور پاکستان کے قیام کے بعد بھی انھوں نے اپنی آواز ایوان بالا تک پہنچائ ۔ان کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ کتنی ہی خواتین پاکستانی سیاست کا حصہ بنیں اور حقوق نسواں کی علمبر دار بنیں۔ جن میں بینظیربھٹو کا نام قابل ذکرہےجنہوں نے  پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم  ہونےکا اعزاز حاصل کیا۔ نظام میں تبدیلی کےلۓ نظام کا حصہ بننا پڑتا ہے ورنہ حقوق کی پامالی کا رونا بے وجہ ہے۔
ہم بحیثّیت خواتین اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کا ذمہ دار مردوں کوٹھرادیتی ہیں مگرکسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے اگر خود احتسابی کر لی جاۓ تو کچھ مسائل کا حل آسان ہو جاتا ہے۔ہمارے ملک کی آدھے سے  زیادہ آبادی خواتین پر مشتمل ہے جس کا بیشتر حصہ دیہاتی آبادی پر مقیط ہے جہاں خواتین دن رات کولہو کے بیل کی طرح اپنے کام میں جتی رہتی ہیں اور ان کو اپنے حقوق کے بارےمیں کوئ آگاہی نہیں ہے ،اور جو خواتین شہروں میں مقیم ہیں وہ اکثّر اس الیٹ کلاس کے زیر اثّر ہیں جنہوں نے ان کو اصل مدعا سے بھٹکا کر دو سالوں سے ہونے والے بےہودہ لانگ مارچ کی طرف راغب کردیا ہے۔جہاں لاؤڈ سپیکر پر خواتین کے جائزحقوق جیسے کہ وراثّت میں حصہ، بنیادی تعلیم کا حق، جہیز کے مسائل اور گھریلو تشدد شامل ہیں کے بجاۓ میں کھانا کیوں  گرم  کروں اور میرا جسم میری مرضی جیسےگھٹیا نعرے لگاۓ جاتےہیں۔باقی خواتین اپنےگھر والوں کی وجہ سے کشمکش کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان کو ہوم منسٹر کہنے والے ان کو سیاسی  نظام کا حصہ نہیں بننے دیتے۔ تو میرے بھائیوں اگرآپ  اپنی گھر کی عورتوں  کی قائدانہ صلاحیتوں کے معترف ہیں تو خدارا ان کا حوصلہ بڑھائیں تاکہ ہمارے ملک میں رائج ہونے والے قانون  میں ہماری آبادی کا یہ آدھا طبقہ بھی نہ صرف حصہ لے بلکہ اپنے  جائز  مذہبی،سیاسی ،معاشرتی اور سماجی حقوق کا تحفظ  بھی کرسکے۔ صرف نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی تعریف کر دینے سے آپ  عورتوں  کے حقوق کے حامی نہیں بننیں گے بلکہ آپ کو عورتوں کو ویسا ہی اعتماد دینا ہوگا جیسا کہ قیام پاکستان میں حصہ لینے والی خواتین کو انکے گھر کے مردوں نے دیا۔   
جس طرح مرد اور عورت  زندگی کی گاڑی کے دو پہیے  ہوتے ہیں اور وہ دونوں مل کر گھر کےنظام کو چلاتے ہیں بالکل  اسی طرح ہمارےملک کے نظام کو عدل اور انصاف  کے ساتھ چلانے کے لئے دونوں کرداروں کی یکساں  بنیاد پر شمولیت بہت اہم ہے۔