وفاق حکومتِ پاکستان میں ایک اہم وزارت “امورِ کشمیر و گلگت بلتستان” اور اہم ایک کمیٹی “ کشمیر کمیٹی” کے نام سے کام کر رہی ہے جن کا آئینی مقصد حکومتِ آزاد کشمیر کے ساتھ باہمی مشاورت سے مسلہ کشمیر کو اُجاگر کرتے ہوۓ مقبوضہ جموں و کشمیر میں “بھارتی نام نہاد جمہوریت” کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی افواج کی طرف سے نہتے کشمیریوں پر ڈھاۓ جانے والے مظالم کے خلاف ناصرف آواز بلند کرنا ہے بلکہ عالمی اداروں تک اس گھناؤنی سازش کو بے نقاب کر کے کشمیریوں کے جائز حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ پاکستان کا موقف حقِ خود ارادیت کی حمایت کرتے ہوۓ کشمیریوں کے جائز حقِ راۓ دہی کے مطالبے سے منسلک ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام کو سیاسی، اخلاقی اور سفارتی تعاون فراہم کرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کے لۓ اقوامِ متحدہ کی قرارداوں کے مطابق مسلہ کشمیر کا پُر امن حل نکالنے کے لۓ اقدامات کرنا بھی اسی کشمیر کمیٹی اور وزارت امورِ کشمیر و گلگت بلتستان کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر ماضی کی حکومتوں کا جائزہ لیا جاۓ تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وزارت امورِ کشمیر و گلگت بلتستان اور کشمیر کمیٹی کی سربراہی اکثر و بیشتر ایسے ہاتھوں میں دی جاتی رہی جنہوں نے اس وزارت اور کمیٹی کا خوب مذاق اُڑایا اور کشمیریوں کے زخموں پر خوب نمک چھڑکا جاتا رہا۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری بُربریت پر سابقہ حکومت۲۰۱۳-۲۰۱۸ کے نامزد کردہ وزیر اور چئرمین کشمیر کمیٹی نے کوئی ایسا قدم اُٹھانے کی زحمت نہیں کی جس سے کشمیریوں کی دادرسی ہی کی جا سکتی۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی، مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی تسلط پر آواز اُٹھانا تو دور کی بات، آزاد کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر روزانہ درجنوں شہریوں اور محافظ افواج ِ پاکستان کے معصوم سپاہیوں کی لاشیں، بھارتی درندہ صفت افواج گراتی رہی جس کے اوپر سابق متعلقہ وزیر اور چئیرمین کشمیر کمیٹی کی کارکردگی صفر رہی۔ جس کی بڑی وجہ غیر سنجیدہ لوگوں کے ہاتھ کشمیر جیسا حساس شعبہ فراہم کرنا تھا۔ خیر بات نکلے گی تو دور تلک جاۓ گی۔ گفتگو کو مختصر کرتے ہوۓ موضوع کی طرف آنا چاہوں گا۔ یہ ۱۰ اگست ۲۰۱۸ کی بات ہے جب وزیرِ اعظم عمران خان نے حلف نہیں اُٹھایا تھا۔ مقبوضہ کشمیر (ہندوستانی زیرِ تسلط کشمیر) کے ایک نوجوان سے ایک طویل گفتگو ہوئی جس کا مقصد ریاستی حالات کو جاننا تھا۔ وہ نوجوان مقبوضہ جموں وکشمیر کی ایک یونیورسٹی میں سِول انجینئرنگ کا طالبعلم ہے۔ نوجوان نے درد مندانہ انداز میں کہاکہ” نواز شریف اور زرداری کی پالیسیوں نے پاکستان اور کشمیر کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سُنا ہے عمران خان وزیرِ اعظم بننے جا رہے ہیں۔۔۔۔۔ہم سب یہاں کشمیر میں عمران خان سے پُر اُمید ہیں کہ وہ روایتی پالیسیوں سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہتے ہیں” نوجوان نے مزید بتایا “اس سال کے آغاز سے سرینگر کے علاقے میں ۲۰۰ سے زائد کشمیری حُریت پسندوں کو مارا گیا ہے جبکہ ستر سے زائد عام شہری شہید کیۓ گیۓ ہیں”۔ نوجوان سے گفتگو کے اختتام پر میں نے پوچھا کہ ہمارے لائق کچھ ہو تو ضرور بتایۓ گا، جواب مِلا عمران خان وزیرِ اعظم بن جائیں تو اُن تک میرا پیغام ضرور پہنچایۓ گا۔ کہ کشمیری قوم آپ سےبہتری کی آس لگاۓ بیٹھی ہے۔ میں نے کوشش کی اُس نوجوان کو یہ سمجھانے کی کہ ساری پاکستانی قوم اور آزاد کشمیری آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ماضی میں حکمرانوں سے غلطیوں ضرور ہوئی ہیں لیکن عوام کے دل کشمیر کی آزادی کے لۓ دھڑکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک اقتصادی ، دفاعی اور سیاسی طور پر پاکستان مضبوط نہ ہو جائے، کشمیریوں کی خاطر خواہ مدد ناممکن ہے۔ گو کہ موجودہ حکومت نے چند دِنوں میں بڑے دلیرانہ فیصلے کیے ہیں جن سے مُلکی وقار بلند ہوا ہے۔ اقتدارِ اعلٰی جو کہ ریاست کا اہم جُزو ہوتا ہے اُس کی مضبوطی موجودہ حکومت کی اوّلین ترجیح رہنی چاہیۓ۔ اقتدارِ اعلٰی کی مضبوطی کے لۓایک اچھی ٹیم کا ہونا بہت ضروری ہے۔ فردِ واحد سب کچھ تنہاء ٹھیک نہیں کر سکتا۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں شرح تعلیم میں بتدریج اضافہ علم دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے یہی وجہ ہے کہ حالیہ مردم شماری میں آزاد کشمیر کے اضلاع تعلیمی شرح میں سرِفہرست ہیں کشمیری قوم کی طرف سے وزیرِ اعظم عمران خان کو میں پیغام دینا چاہوں گا کہ ہم اُمید کرتے ہیں وزارتِ امورِ کشمیر و گلگت بلتستان اور چئیرمین کشمیر کمیٹی کے لۓ ایسے نام منتخب ہوں گے جو آپ کی نگرانی میں انقلابی اقدامات سر انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے جو ریاستی عوام کو ساتھ مِلا کر کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے لۓ آواز بلند کر سکیں گے۔ جنوبی ایشیاء کا امن، جموں و کشمیر میں امن سے وابسطہ ہے۔ کیونکہ جموں و کشمیر کی جغرافیائی صورتحال کا جائزہ لیا جاۓ تو اس کے اطراف میں ایٹمی طاقتیں موجود ہیں۔ اگر ایک بھی ایٹمی مُلک غلطی کرے گا تو خمیازہ پورے خطے کو بھگتنا پڑے گا۔ کشمیریوں کی نسل کُشی ۷۱ سالوں سے جاری ہے۔ لیکن تحریکِ آزادئ کشمیر تیز سے تیز ہوتی جا رہی ہے جو اس بات کی ضمانت ہے کہ کشمیری عوام جھکنے ، بِکنے یا ڈرنے والی نہیں ہے۔ جدوجہدِ آزادی کی یہ تحریک، بُرہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد ایک نۓ رُخ میں داخل ہو چُکی ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ اپنی جان کی پرواہ کیۓ بغیر جدوجہدِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے جس میں خواتین کی شمولیت ایک مثبت بہلو ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان جناب عمران خان سے گزارش ہے کہ مسلہ کشمیر کے پُرامن حل کے لۓ وزارت امورِ کشمیر اور کشمیر کمیٹی کوایک مثبت شکل دی جاۓ تاکہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھا جاۓ یہ کشمیریوں کا ایک جائزہ مطالبہ ہے۔ اگر وزارت امورِ کشمیر اور کشمیر کمیٹی کو کشمیری عوام سے براہِ راست منسلک جاۓ جس میں کارکردگی رپورٹ کا آپ خود جائزہ لیں تو مجھے اُمید ہے کثیر تعداد میں پڑھا لکھا طبقہ بے لوث اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا کُلیدی کردار ادا کرے گا۔ کیونکہ مسلہ کشمیر انسانیت اور قوم کا مقدمہ ہے۔ پاکستان پائندہ باد جموں و کشمیر زندہ باد
Tags:Imran Khan