
ایک خاتون حکومتی وزیر کی ایک وڈیو نظر سے گزری جس میں وہ ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کی عزت و تکریم میں کمی لانے کی گستاخی کر رہی ہیں، وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ عوام کے لئے لگاۓ گئے رمضان بچت بازار میں غیر معیاری پھل سبزیاں بک رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں جب سوشل میڈیا دیکھنے کا اتفاق ہوا تو سیالکوٹ کی سونیا دیکھتے ہی دیکھتے پورے پاکستان کی سونیا بن چکی تھی۔ اس واقعے کی مذمت و حمایت میں سینکڑوں لوگوں کو اظہار خیال کرتے دیکھا۔ سوشل میڈیا پر یہ ملا جلا رد عمل ہمارے معاشرتی تقسیم کا عکاس تھا۔ اظہار راۓ کی آزادی ہے لہذا کسی کو برا یا بھلا کہنے کی میں کیونکر گستاخی کرتا۔ لیکن میں خود سے کچھ سوال کرنے لگا، انھی سوالوں کے ساتھ خیالوں کے ایک سمندر میں اتر گیا۔ سوچنے لگا کہ
آج عوام کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں سے مہنگائی، اشیاۓ خوردونوش کا غیر معیاری ہونا اور ضروریات زندگی کی بازار میں مصنوعی قلت جیسے مسائل سر فہرست ہیں۔ عوام کو ان مسائل سے چھٹکارا دلانا حکومت وقت کا کام ہوتا ہے، حکومتیں ایک مربوط نظام کے تحت چلتی ہیں اور وہ نظام ہمارے ملک میں بیوروکریسی کہلاتی ہے۔ بیوروکریسی سرکاری ملازمین کا انتظامی ڈھانچہ ہوتا ہے جسکا کام ہوتا ہے حکومت وقت کی پالیسیوں پر عمل درآمد کروانا۔ مہنگائی کی ایک اہم وجہ بازاروں میں حکومتی ریٹ لسٹ پر عملدرآمد کروانے میں ناکامی ہے اور یہ عمل درآمد کروانا ہمارے انتظامی ڈھانچے یعنی بیوروکریسی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اگر ہمارا یہ انتظامی ڈھانچہ یعنی بیوروکریسی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کوتاہی برتتی ہے تو اس کا نزلہ سیاسی منتخب حکومت پر گرتا ہے، عوامی رد عمل، غم و غصہ حکومت وقت پر قہر بن کر نازل ہوتا ہے۔ میڈیا اپوزیشن اور عوام یہی طعنے دیتے ہیں کہ حکومت ناکام ہے، بیوروکریسی حکومت کے کنٹرول میں نہیں لہذا حکومت نا اہل بھی ہے
اگر رمضان المبارک کے مہینے میں حکومت عوام کو سستی اشیاۓ ضرورت مہیا کرنے کے لئے رمضان بچت بازار لگاۓ اور اس کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرے مگر اس بازار میں غیر معیاری اشیا بکیں یا اشیاۓ ضروریات نا ملیں تو ذمہ دار کون؟ ان بچت بازاروں کو کامیاب کرنا ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے، اگر ضلعی انتظامیہ اس ذمہ داری میں کوتاہی برتے اور عوام کو ریلیف دینے میں رکاوٹ بنے تو کیا حکومت یہ حق نہیں رکھتی کہ انتظامیہ سے سوال کرے؟ اسے اسکی غلطی کا احساس دلاۓ؟
فردوس عاشق اعوان نے یہی کیا، فردوس عاشق اعوان کو ایک بڑھیا خاتون نے گڑ گڑا کر شکایت کی بچت بازار میں ناقص اور مہنگی اشیا کے بارے میں، اسسٹنٹ کمشنر سونیا صاحبہ کی تلاش شروع ہوئی تو وہ ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں آرام فرما رہی تھیں، انھیں بلایا گیا اور بچت بازار میں غیر معیاری چیزوں پر سر زنش کی گئی، انکے طریقہ سرزنش سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ مگر عالی پناہ سونیا صاحبہ کا رد عمل ملاخطہ ہو، انھیں اپنی عزت و تکریم میں کمی اس قدر بری لگی کہ حکومتی وزیر کی بات پر غم و غصّے کا اظہار اور وہ جگہ احتجاجا چھوڑ کر چلے جانا چوری اوپر سے سینا زوری کے مترادف ہے
میں سوال کرتا ہوں سونیا صاحبہ سے، یہ انگریزوں کے دور کا آقا غلام مائنڈ سیٹ کی سول سروس عام عوام کی عزت و تکریم کا کتنا خیال رکھتی ہے؟ جب ایک عام آدمی انکے دفتر میں اپنا مسلۂ لیکر آتے ہیں تو عام آدمی کے ساتھ انکے دفتر میں کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ یہ پولیس، نوکر چاکر کے پروٹوکول میں دندناتے افسر بازاروں میں کس طرح عام آدمی کی آبرو ملیا میٹ کرتے ہوۓ گزرتے ہیں؟ بازاروں، دکانوں میں جب یہ شاہی افسر دکانداروں اور ریڑھی بانوں کی ناموس کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں تو ایک عام آدمی کو کیسا محسوس ہوتا ہوگا؟ لوگوں کے وہ مسائل جو انکے دائرہ اختیار میں آنے کے باوجود حل نہیں کرتے اور انھیں دفاتر کے چکر لگوا لگوا کر جوتے گھسا دیتے ہیں تب انکی غیرت و حمیت کو جوش نہیں آتا؟ ایک اسسٹنٹ کمشنر گوشت کی دکان سیل کرنے آتا ہے تو 4،5 دکانداروں کو سخت گرمی میں دکان کے اندر سیل کرکے چلا جاتا یے؟ اس حیوانیت پر کسی ساتھی بیوروکریٹ کو غیرت کا دورہ نہیں پڑتا؟
عجیب بات یہ ہے کہ اس بیوروکریسی کو شریف اور زرداری جب جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، سو پیاز اور سو جوتے کے مصداق ان سے ہر کام کرواتے ہیں، ذاتی غلام بنا کر رکھتے ہیں، قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں، رانا ثنااللہ اور سعید غنی جیسے اچکے انھیں اور انکے بچوں کو سنگین نتائج کی گیدڑ بھپکیوں سے ڈراتے ہیں تو ساری بیوروکریسی ستو پی کر سورہی ہوتی ہے، مگر فردوس عاشق اعوان کا ایک جملہ اتنا بھاری پڑا کہ اسکی گونج چیف سیکرٹری تک سنائی دی، میڈیا ، سوشل میڈیا کے دانشوروں میں آگ بھڑکا گئی اور نئے نئے بھرتی ہوۓ سول سرونٹ یعنی عوام کے نوکر میں تڑپ پیدا کر گئی
اس ملک میں اگر کسی وکیل کو اسکی غلطی بتانے کی کوشش کی جاۓ تو اس گستاخی کے نتیجے میں وہ ہسپتال میدان جنگ بنا دیتے ہیں، عدالتوں کو اکھاڑا بنا دیتے ہیں، کسی ڈاکٹر کو کچھ کہہ دو تو وہ اس گستاخی کا بدلہ ہسپتال کے مریضوں سے لیتے ہیں، اگر کسی استاد کو کچھ کہہ دو تو وہ تدریسی عمل معطل کر دیتا یے، کسی ملا کو کچھ کہہ دو تو وہ ملکی املاک تباہ کرنے کے درپے ہو جاتا ہے، کسی بیوروکریٹ کو کچھ کہہ دو تو الامان و الحفیظ قیامت ٹوٹ پڑے گی بھائیوں قیامت
اگر کوئی کام نہیں کرنا تو اپنی اصلاح نہیں کرنی۔ یہ قوم یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ یہ ملک ایک نعمت ہے اللہ کی طرف سے، اسکی تعمیر و ترقی کا راستہ یہ نہیں جس پر ہم چل رہے ہیں، یہ ملک ہماری ذات سے بہت بڑا ہے، اپنی ذاتی اناء اور اپنی برادری کی انا سے یہ ملک کہیں بڑا اور مقدم ہے۔ اسی غیر ذمہ داری، اسی خود غرضی اور اسی بددیانتی کا ثبوت ہم دیتے رہے تو اسکا انجام بہت بھیانک ہوگا۔ حساب ہر کسی کو دینا ہے چاہے وہ یہاں دے یا وہاں حساب دینا یے۔ ڈرو اس وقت سے جب عوام نے حساب مانگنے کی گستاخی شروع کر دی تو اس گستاخی کی زد میں آنے سے کوئی نہیں بچے گا نا کوئی جج، نا بیوروکریٹ، نا کوئی وکیل، نا ڈاکٹر، نا استاد سب کو حساب دینا ہوگا
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ فردوس عاشق اعوان کو سونیا کی سرزنش مہذب انداز میں کرنی چاہئے تھی۔ اب اگر وہ ناراض ہو ہی گئی ہیں تو انھیں منانے جانا پڑے گا، کوئی گلدستہ یا بیش قیمت تحفہ دینا پڑے گا، معافی بھی مانگی پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہئے۔ دیکھیں نا کارہاۓ سرکار کون سنبھالے گا؟ یہ بیوروکریسی گھر بیٹھ گئی تو نظام تو رک جاۓ گا؟ کون ذمہ دار ہوگا اس تباہی کا؟ لہذا سونیا کو منایا جاۓ، ناراض ہو کر اس طرح بازار سے جانے سے لوگوں کے دل پسیج گئے ہیں، لوگ صبح سے ہلکان ہورہے ہیں سونیا سے اظہار یک جہتی میں۔ اب فردوس آپا کو ہی اس مسلۓ کا حل نکالنا ہوگا