جہالت کے احرام مصر
کچھ دن پہلے لاہور میں ایک نامور قبضہ مافیا سے اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمین واگزار کروائی گئی۔ مریم نواز اور دیگر نون لیگی قائدین کا کانفیڈینس اور حوصلہ ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے کھلے عام اس قبضہ مافیا کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور سرکاری زمین کا قبضہ چھڑوانے کو انتقامی کروائی قرار دیا۔
پہلی بات تو یہ کہ ہر ایک کو معلوم ہے کہ جن سے زمین کا قبضہ واپس لیا گیا وہ نامی گرامی قبضہ مافیا ہیں، دوسری بات کہ اگر آپ کا ایک مرلہ بھی حق حلال کا ہے اور آپ نے اس پر کوئی تعمیر کررکھی ہے تو آپ جان دے دیں گے لیکن اسے بلڈوز نہیں ہونے دیں گے ناکہ لاہور کے بیچوں بیچ اربوں روپے کی زمین اور تعمیرات۔ تیسری بات یہ کہ جس زمین پر قبضہ کیا ہوا تھا وہ کسی پارسی خاندان کی تھی اور جب اس کا کوئی وارث سامنے نہیں آیا تو جعلی کاغذات بنا کر اس پر قبضہ کرلیا گیا۔
واپس آتے ہیں اصل بات کی طرف کے مریم نواز اور دیگر نون لیگی قائدین کے پاس کس چیز سے اتنا کانفیڈینس آتا ہے کہ وہ ایسی چوری اور ڈاکوؤں کا بھی کھلے عام دفاع کرلیتے ہیں جو سورج کی روشنی کی طرح عیاں ہوتے ہیں اور ہر خاص و عام کو ان کا پتہ ہوتا ہے؟
نون لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، اس کی لیڈرشپ کے پاس ایسا کانفیڈینس جہالت کے ستونوں کے باعث آتا ہے جو ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ جہالت کے یہ ستون انہیں اتنی آسانی سے نہیں گرنے دیں گے چاھے وہ سیاہ کریں یا سفید۔ نہیں تو مہذب ممالک کے کئی واقعات ہم دیکھ چکے ہیں کہ جہاں اس طرح کے لوگوں کو خود عوام اٹھا کر کچرے کے ڈھیروں میں پھینک دیتے ہیں۔
پاکستان میں خواندہ یعنی پڑھا لکھا ہونے کی تعریف یہ ھے کہ جو شخص بھی اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتا ہے وہ پڑھا لکھا یا خواندہ کہلائے گا۔ اس تعریف کے تحت بھی ہماری شرح خواندگی ساٹھ فیصد کے قریب ہے۔ اور پھر ستم یہ کہ جس طرح کی تعلیم یہاں دی جاتی ہے وہ کسی بھی انسان میں شعور بیدار نہیں کرسکتی۔
مریم نواز اور ہمنواؤں کو یقین ہے اور بجا طور پر یقین ہے کہ وہ جہالت کے احرام مصر میں محفوظ ہیں لہٰذا وہ ساری دنیا کے سامنے بھی کسی کی جیب کاٹ لیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کسی ڈاکو یا قبضہ مافیا کا دفاع کرنا تو دور کی بات ہے۔
یہ حکومت یا آئندہ حکومتیں جتنے مرضی قبضے چھڑوالیں یا محلات گرالیں، یہ دوبارہ بنتے رہیں گے تاوقت کہ جہالت کے احرام مصر شعور کے تھپیڑوں سے گرجائیں۔