وزیراعظم نے قوم سے 19 اپریل 2021 کے اپنے خطاب میں جو درد مندانہ گفتگو کی اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے.
بدقسمتی سے اجتماعی طور پر ہم سب اپنی مسلم اور برصغیر کی مجموعی معاشرتی اور سیاسی تاریخ سے واقف نہیں ہوتے اس لئے جذبات زیادہ ابھر جاتے ہیں اور شاید فیصلہ سازی بھی بہتر نہیں ہو پاتی. تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی مسائل انتظامی انداز سے حل نہیں ہوا کرتے.
اصل اسوہ حسنہ اور اس کا تاریخی پس منظر کچھ اور ہے
جبکہ تقریباً ہر خطیب و عالم جذباتی تقاریر میں صرف مضبوط اواخر کا مدنی دور اور خلفائے راشدین کے اولین ادوار کا خواب دکھاتا ہے.
جبکہ 23 سال دور بعثت کا سیکھنے اور سمجھنے کی نظر سے بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں سے پہلے دس برس تو مکی زندگی ہے جس کے حالات سے سب واقف ہیں جن میں ہجرات حبشہ، سفر طائف کے واقعات سمیت اہل مکہ کے جبر و ستم کی ان گنت داستانیں ہیں جس کے باعث ہجرت کا تاریخ ساز واقعہ ہوا.
مدینہ منورہ میں بھی سب سے پہلے مواخات (جس کا معاشی impact تھا) قائم کی گئی. ابتدائی غزوات، حملوں سے دفاع کے لئے تھے. اس وقت کے مروج قبائلی نظام میں جب تک ایک ایسی مضبوط ریاست قائم نہ ہو گئی ، جس کی بنیاد عدل و انصاف پر تھی، اسلام کی دعوت اس تیزی سے نہ پھیلی. دعوت اسلام کے فروغ اور ریاست مدینہ کی معاشی، انتظامی اور عسکری مضبوطی میں براہ راست تعلق (directly proportional) ہے. پھر صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے واقعات نے انسانی تاریخ ہمیشہ کے لئے بدل تھی اور خطبہ حجتہ الوداع نے تاقیامت انسانی چارٹر عطا کر دیا.
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب بھی مسلمان جہاں کہیں بھی مضبوط تھے کسی میں جرات نہ تھی کہ گستاخی کی بات کرے اور اگر علم ہوتا تھا تو مسلم حکمران کے ایکشن کو ہر مخالف قوت کو سنجیدگی سے لینا پڑتا تھا. اس کی وجہ 20 ویں صدی تک دنیا بھر میں مسلم وسیع ترین علاقوں پر ایک ہی خلافت / بادشاہت / سلطنت کی مرکزی حکومت تھی. دوسری جانب بھی عموماً بادشاہی نظام (empires) ہوا کرتا تھا جہاں بادشاہ / حکمران کی حکم عدولی ناممکن تھی. اپوزیشن کا تصور تقریباً ناپید تھا اور ہر اختلاف بغاوت سمجھا جاتا تھا. تلوار اور طاقت فیصلوں کا معیار ہوا کرتی تھی.
موجودہ دور میں دنیا بھر میں بحیثیت مجموعی قومی ریاستوں (نیشن اسٹیٹ) کا جمہوری زمانہ ہے. ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں. آزادی اظہار کے ہر کسی کے اپنے اپنے قوانین ہیں. بیشتر ممالک میں انتخابات کے ذریعے حکومت تبدیل ہوتی ہے اور سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے منشور کے پرچار کا حق بھی قانون کے مطابق دستیاب ہے. ہر ملک آزاد جغرافیائی حدود، اپنی مرکزی حکومت اور خارجہ پالیسی رکھتا ہے. مشرق وسطیٰ کی جبری آمریت میں بھی عدنان خویشگی جیسے مسائل میں حکومتوں کو بین الاقوامی پریشر کا سامنا کر کے ملوث افراد کو سزا دینا پڑتی ہے. میڈیا کے باعث دنیا گلوبل ولیج تو بن ہی چکی تھی لیکن سوشل میڈیا نے تو اب افراد کو بھی ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے.
لہذا ماضی کی مثال بعینہ منطبق نہیں کی جا سکتی.
مومن اللہ کے نور سے دیکھ کر ہر دور کے تقاضوں کے مطابق با حکمت فیصلے کرتا ہے. جب جب یہ ہوتا رہا مسلمان مضبوط اور حاکم رہے.
گزشتہ 3 سو سالوں میں بیشتر مسلم علاقے نو آبادیاتی نظام میں بتدریج محکوم ہوتے چلے گئے. پجھلے 70 سال میں وہ آزاد تو ہوئےلیکن ان کا اپنا اندرونی نظام ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکا.. بے شمار ممالک اب بھی خانہ جنگی کا شکار ہیں.
اپنے قیام کے نصف صدی بعد اسلامی ممالک کی تنظیم OIC آج بھی درحقیقت Oh I See سے زیادہ کچھ نہیں.
اسی پس منظر میں وزیراعظم نے قوم کو سمجھایا اور بتایا کہ وہ ان تھک کوشش کر رہے ہیں کہ امت مسلمہ اجتماعی طور پر فیصلہ سازی کر کے ایسے معاملات کو مستقل روکنے کی پوزیشن میں آ جائے.
اللہ تعالٰی ہمارے ملک کو اپنی حفظ و امان میں رکھتے ہوئے ہمیں 27 رمضان المبارک کو قائم ہونے والے اس خداداد تحفے کی خدمت کرنے کی توفیق وہمت عطا فرمائے.