
پاکستان تاریخ کے حساس ترین دور سے گرز رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب ذولفقار علی بھٹو نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور تاریخی جملہ کہا" ہم گھاس کھائیں مگر ایٹم بم بنائیں گے"
بس پھر کیا تھا بھٹو تو کر گزرا البتہ گھاس کھانے کی نوبت نہ آئی۔ مگر تاریخ میں اسکی شیر دلی آج بھی سنہری الفاظ میں ثبت ہے۔
اب پھر وہی وقت آن پڑا ہے ایک طرف دنیاوی سپر پاور کی غلامی ہے دوسری طرف آزادی و خودمختاری ہے۔ امریکہ افغان جنگ ہار کر رخصت ہوا تو اسے یقین تھا کہ پاکستان سے چند ڈالروں کے عوض اڈے لے کر افغانیون سے اپنی بدترین شکست کا بدلہ لے گا۔ یوں جوابا پاکستان پر کاونٹر اٹیک بھی اسے ہی سوٹ کرتے۔ یقینا اس تناظر میں پاکستان کی سابقہ نواز و زرداری حکومت کا تجربہ ملحوظ رکھا ہوگا۔ جس دس سالہ اقتدار مین 400 ڈرون حملے ہوئے۔ اور 2012 میں تو حد ہی ہوگئی امریکی ہیلی کاپٹر نے افغانستان کے سرحدی علاقے سے ملحقہ پاکستانی چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 20 سے زیادہ سیکیوریٹی اہلکارون کو شہید کیا۔
ہاں اسپر امریکہ نے غیر مشروط معافی ضرور مانگی مگر وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے احتجاج کی وجہ سے۔ جنہوں نے نیٹو سپلائی بند کردی تو امریکہ کو مجبورا معافی مانگنا پڑی۔ یاد رہے اس میں زرداری حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ حالانکہ شیری رحمان بلاوجہ اسکا کریڈٹ پی پی حکومت کے سر دھرتی رہتی ہیں یہ ایسے ہی ہے جیسے نواز شریف ایٹمی دھماکوں کا سہرا اپنے سر لیتے ہیں۔
اب کی بار حکومت بدل چکی تھی مگر ڈریکولا کے منہ لگے خون کا ذائقہ، اوپر سے بنا کسی رکاوٹ سے دسترس کا غرور بھی تھا۔
مگر جونہی اڈے ڈیمانڈ کیے گئے طاقت کے نشے میں چور بابو کو 'ایبسلوٹلی ناٹ' سنے کو ملا۔۔۔۔۔۔
بھوکھلا کر سر جھٹکا کہیں سننے میں غلطی تو نہیں ہوگئی۔ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران احمد خان نیازی نے تاریخی جملہ کہا"امن میں ہم سب کے ساتھ ہیں جنگ مین نہیں" سونے پر سہاگا 24 سال بعد روس کا دورہ کر ڈالا۔ اس لڑئی کا آغاز تو افغانستان سے فرار کے وقت ہی ہوگیا تھا۔ مگر منظر عام پر دیر سے آئی۔
کھینچا تانی چلتی رہی۔ مگر سامنے کھلاڑی تھا۔ کھلاڑیوں کا سٹیمنا عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ عمران نے ثابت کیا کہ اصل کھلاڑی تھکانے والون میں سے ہوتا،تھکنے والوں میں سے نہین۔
وزیراعظم پاکستان پر مسلسل دباو ڈالا جاتا رہا مگر جس کا دامن صاف ہو،اسکو جھکانا آسان نہین اور لا الہ الا اللہ کے سپاہی تو صرف اللہ کے آگے جھکتے ہیں۔ کفار یہ بات بھول گئے تھے۔ یا پھر سابقہ حاکموں کا ایمان پہلے تول چکے تھے۔ مگر ان نادانون کو کیا خبر تھی۔ اسلام وہ دین ہے جسے کے حقیقی وارثوں کو دبایا نہیں جاسکتا۔اس پر غلبہ ممکن نہین۔ ہر دور میں پرچم توحید لیے فرزندان اسلام عبدالحمید، کبھی ٹیپو سلطان،کبھی محمد علی جناح،کبھی عمران خان کی صورت میں اللہ کے احکام اور اسکے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کے پابند رہتے ہیں۔
چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری
وقت فرصت ہی کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
علامہ اقبال رح
پسپائئ ہوئی مگر کفار کا شیوا ہے۔ وہ سازشیں کرنے سے باز نہیں رہتے۔ پھر ان قوتوں کے ہاتھ وہی ترپ کا پتہ لگ گیا جو جان بچانے کے لیے دوائی لینے انکے پاس گیا تھا۔ اب پاکستان اور اسکے اداروں کے جوڑوں میں سنوئیل کی سوجھی تھلی کی طرح بیٹھ گیا۔ جس نے اغیار کے ساتھ مل کر ایک خوفناک پلانگ کی ایک مضبوط ادارے کو گھٹنوں کے بل بیٹھا دیا جو کھلاڑی تھا اسے گراونڈ کا تماشائی بنا کر رکھ دیا۔ اقبال نے کیا خوب کہا
ہر مسلماں رگ باطل کے لیے نشتر تھا
اس کے آئینہ ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسہ تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمھیں موت کا ڈر اسکو خدا کا ڈر تھا
باپ کا علم نہ اگر بیٹے کو از بر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو
علامہ اقبال رح
اسوقت عمران خان جو نظریہ پاکستان کا پرچم لیے تن تنہا محاظ پر ڈٹا ہوا ہے۔ اسکے مقابل اغیار کی آلہ کار بنی وہ قوتیں ہیں۔ جن کو پاکستان کے ساتھ کچھ غرض نہیں وہ اپنے بنائے مال کو بچانے کے لیے ایلیئنز کے ساتھ مل چکے ہیں۔ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے وہی کرنے جا رہے جو قیام پاکستان کے وقت سکھ رہنماون نے محمد علی جناح کا ساتھ نہ دے کر کیا تھا۔ ہوا کا رخ دیکھ کر کچھ فصلی بٹیرے اسی طرف چل دیے۔ انہیں شعور ہی نہیں وہ کتنی بڑی سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
کون ہے تارک آئین رسولﷺ مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار؟
ہوگی کس کی جگہ طرز سلف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمدﷺ کا تمہیں پاس نہیں
علامہ اقبال رح
ابھی دیا روشن ہے۔ افسوس اسی بات پر سکونت ہے۔ تند و تیز ہوا کے جھونکے اسے بجھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیونکہ روشنی جھمکوں سے سہی، میسر تو ہے۔ کچھ نیم آسودہ اسی میں خوش ہیں۔ یہ فکر نہیں اگر یہ دیا بجھ گیا تو تاریکی چھا جائے گا۔ پنجرے مین قید چڑیاں حیرت سے دیے کی بے بسی دیکھ رہی ہے۔ ہوا کی تیزی نے انکے دلوں پر دھاک بٹھا رکھی ہے۔ خوف نے انکی چہچہاہٹ چھین لی ہے۔
لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزہ جینے میں
کچھ مزہ ہے تو یہی خون جگر پینے میں!
کتنے بے تاب ہیں جوہر میرے آئینے میں
کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں
ساری صورتحال واضع ہے۔ سوکھی لڑکیاں بک گئی۔ سر سبز اشجار اپنی جگہ پر لہر لہا رہے ہیں۔ وہ انمول تھے بچ گئے جن کی قیمت ان کے خالق کے ہاتھوں لگنی ہو وہ اسکے بندوں کے ہاتھوں کیسے بک سکتا ہے؟ وقت مشکل ہو تو ہی ثابت قدمی کا پتہ چلتا ہے۔ گوہر اور دھول اکٹھی ہوگئی تھی۔ وقت کی آندھی نے مختصر وقت کے لیے دھول کو آسمان پر پہنچا دیا۔ دھول جتنا بھی اونچا اڑ لے یہ محض وقتی اڑان ہے۔ یہ وقتی نقصان بہت سے جوہر قابل کو عیاں کرگیا۔ بارش کی چند بوندیں جہاں دھول کو زمین بوس کریں گی یہ ہیرے اور چمک اٹھیں گے۔
مثل بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا
رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا
ہے تنک مایہ،تو ذرے سے بیاباں ہو جا
نغمہ موج سے ہنگامہ طوفاں ہو جا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمدﷺ سے اجالا کردے
علامہ اقبال رح
اللہ پاک وطن عزیز اور اسکے پیارے بیٹے عمران کی نصرت فرمائے۔
آمین!
نعرہ تعبیر
اللہ اکبر