تحریک عدم اعتماد اور پاکستانی عوام | Pakistan Tehreek-e-Insaf

 

عدم اعتماد پر جاری کشمکش کا نتیجہ کچھ بھی ھو۔ خان صاحب کے جلسوں میں بھر پور عوامی جوش و خروش اس بات کا غماز ھے کہ پاکستانی قوم دنیا میں اب سر اٹھا کر فخر سے جینا چاھتی ھے فارن پالیسی کے اندر خودمختاری اور دوررس نتائج کو مد نظر رکھ کر جو کڑوے اور جرات مندانہ فیصلے عمران خان صاحب نے کیے ھیں ان کی افادیت کا تعین تاریخ اور تاریخ دان نے کرنا ھے۔ معاشی فرنٹ پہ حکومت کے اقدام کو پالیسی اور  سسٹم ریفارم کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ھے۔ کیا خان نے ٹیکس اھداف کو پورا بلکہ ٹارگٹ سے زیادہ محصولات بنا کر یہ ثابت نہیں کر دیا کہ ملک کی معشیت کو درست سمت میں گامزن کرنے سے معاشی مسعلے کا مستقل حل موجود ھے۔ آج تک حکومت اور سرمایہ دار کے درمیان میچ فکس تھا جس کو خان نے انتہائی تدبر سےختم کیا ھے۔مہنگے علاج والی بیماریاں کب غریب کی دسترس میں تھیں کتنے ھی لوگ جہنیں علاج کے بغیر مرنا تھا ھیلتھ کارڑ کی بدولت زندہ ھیں میں قوم کے اندر شعور اور آرزو دیکھ رھا ھوں وہ اب کسی ڈکیت/ مداری  کے بہکاوے میں آنے کے لیے تیار نہیں ھے جنہوں نے ریڑی والے سے لیکر اپنے باورچیوں کے اکائونٹس تک کرپشن کے نت نئے انداز متعارف کروائے ھیں۔ 
لیکن ان تمام چیزوں سے ھٹ کر ایک نڈر، بیباک اور شفاف قیادت سے عالمی سطح پر پاکستان کا جو امیج بہتر ھوا ھے اس کی امید پیپلز پارٹی یا ن لیگ کی قیادت سے کسی طور نہی رکھی جا سکتی۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں پڑی پاکستان سے چوری شدہ بےشماردولت کی بدولت دنیا کا کوئی ملک ان کو سیریس لینے کے لیے تیار نہیں ھے
درحقیقت بھٹو صاحب کے بعد پہلی بار پاکستان کو ایک ایسا ویژنری لیڈر ملا ھے جو صحیح معنوں میں اپنی ملت کا درد رکھتا ھے اور پاکستان کو دنیا میں ایک باوقار ملک بنانا چاھتا ھے۔ لہذا یہ وقت اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ھو کر تمام سیاسی قیادت کا ایک دفعہ تقابلی جائزہ ضرور لیں اور یہ سوچیں کہ آپ کی آنے والی نسلوں کا مستقبل کون بہتر کر سکتا ھے اور اقوام عالم میں پاکستان کو ایک باوقار ملک کوبنا سکتا ھے۔  سوچیے گا ضرور۔