
وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب 19 اگست 2018
عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں اسلامی فلاحی ریاست کے اصولوں کا ذکر کیا ،وزیراعظم نے اس بات کو باور کروایا کہ کس طرح چودہ سو سال پہلے دیے گئے اسلام کے اصولوں کو اپنا کر آج مغرب اور یورپ نے ترقی کی ہے ،عمران خان نے ان دو باتوں کے درمیان ایک ربط قائم کیا کہ اسلامی اصول کس قدر با موثر ہیں اور کس طرح آج وہ مغرب میں لاگو ہیں اور ان کی ترقی کا باعث بن رہے ہیں
وزیراعظم عمران خان کی تقریر اس طرح شروع ہوتی ہے :
سب سے پہلے میں اپنے ہر ایک کارکن کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس سفر میں میرے ساتھ بنے .سیاست دو طرح کی ہوتی ہے. ایک وہ جس میں آپ ذاتی مفاد چاہتے ہیں اور دوسری وہ جس میں آپ لوگوں کی زندگی بہتر کرنے کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں .میں نے سیاست کو کبھی ایک کیرئیر نہیں سمجھا ،میں نے جب سیاست شروع کی تو میں نے ہمیشہ اس ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانا اپنا مقصد سمجھا .ہمارا مقصد پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا جس میں اصول ، انصاف اور مساوات ہوں ،آج میں ان تمام لوگوں کو یاد کرنا چاہتا ہوں جو اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں
احسن رشید جو کہ کینسر کے ساتھ لڑائی لڑتے ہوئے ہار گئے اور سلونی بخاری جو اس پوری جدوجہد میں ہمارے ساتھ تھیں ، میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور سلام پیش کرتا ہوں
ان لوگوں نے اس وقت میرا ساتھ دیا جب لوگ میرا مذاق اڑاتے تھے ،سلونی بخاری شروع سے ہمارے ساتھ رہیں ،میں ان تمام کارکنان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو مشکل ترین وقت میں ہمارے ساتھ رہے ، وہ کارکن جن کا ان کے گھر والے بھی مذاق اڑاتے تھے ، میں آپ سب کے بغیر اس مقام پر نہ ہوتا
سب سے پہلے میں اپنی قوم کے سامنے یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور ہم یہاں سے کتنا آگے جا سکتے ہیں . ہمارے ملک میں آج تک اتنا بڑا معاشی بحران کبھی نہیں تھا . آج ہمارا قرضہ اٹھائیس ہزار ارب ہے . ہماری ساٹھ سالہ تاریخ میں یہ قرضہ چھ ہزار ارب تھا ، سال دو ہزار تیرہ میں یہ قرضہ پندرہ ہزار ارب تک پہنچا اور سال دو ہزار اٹھارہ تک یہ قرضہ اٹھائیس ہزار ارب تک پہنچ چکا ہے .ذرا سوچیں کہ بطور قوم ہم کدھر کھڑے ہیں اور ہم کس قدر مقروض ہیں.ہم اس بات کا مکمل آڈٹ کریں گے کہ یہ پیسا کدھر گیا
اگر آپ غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہم ان قرضوں پر بھاری سود ادا کر رہے ہیں اور پھر قرضے ادا کرنے کیلئے مزید قرضے لے رہے ہیں ،پیپلز پارٹی کے آخری دور میں سالانہ خسارہ دو ارب ڈالر تھا . پچھلے سال تک ہمیں دو ارب ڈالر ماہانہ قرض لینا پڑا ، سال دو ہزار تیرہ میں ہمارا بیرونی قرضہ ساتھ ارب ڈالر تھا اور آج وہ پچانوے ارب ڈالر ہے ، روپے پر سارا دباؤ صرف اسی وجہ سے ہے کہ ہمارے بیرونی قرضے اس قدر بڑھ گئے لیکن میں آپکو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گھبرانا نہیں ہے ہم اس کو مل کر حل کر سکتے ہیں
دوسری چیز جس پر میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں وہ ہے ہماری انسانی ترقی
یو این ڈی پی کے رپورٹ کے مطابق ہم ان پانچ ممالک میں سے ہیں جہاں گندہ پانی پینے کی وجہ سے بچوں کی اموات ہوتی ہیں ، جہاں عورتوں کی ایک بڑی تعداد بچوں کو جنم دیتے وقت وفات پا جاتی ہیں ، بد قسمتی سے ہم ان چند ملکوں میں سے ہیں جہاں بچے مکمل خوراک نہ ملنے کی وجہ سے پوری طرح نشونما نہیں کر پاتے جس کا اثر براہ راست انکے دماغ پر ہوتا ہے اور دماغی نشونما نہیں ہو پاتی
یہ ملک کے پینتالیس فیصد بچوں کے ساتھ ہوتا ہے یعنی کہ ہر دوسرا بچہ خوراک کی کمی کا شکار ہے ،باقاعدہ خوراک نہ ملنے کی وجہ سے بچے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں ذرا سوچیں کہ ان ماں باپ پر کیا گزرتی ہوگی جو اپنے بچوں کو اس طرح دیکھتے ہیں
میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ ہم آج کہاں کھڑے ہیں اور انشاء الله یہ ضرور بدلے گا ہمارے سامنے اب دو راستے ہیں . ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اپنے بچوں کیلئے، نہ انصاف ہے غریبوں کیلئے نہ کسانوں کیلئے مدد ہے اور نہ بچوں کو پینے کا صاف پانی دے سکتے ہیں ،روزگار نہیں دے سکتے اور ہمارے قرضے بھی بڑھ رہے ہیں
اور دوسری طرف ہمارے پاس ایک اور راستہ ہے
یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ نے ان حالات کو ایک طرف رکھا اور دوسری طرف اپنے شاہانہ لائف سٹائل کو
پاکستان کے وزیراعظم کے پانچ سو چوبیس ملازم ہیں ،یہ ایک مقروض ملک ہے اور اسکے اخراجات دیکھیں ،وزیراعظم ہاؤس کی اسی گاڑیاں ہیں جن میں سے تیتیس بلٹ پروف ہیں اور ہر ایک بلٹ پروف گاڑی کی قیمت پانچ کروڑ سے اوپر ہے اسکے علاوہ ہیلی کاپٹر اور جہاز ہیں ،پھر گورنر ہاؤس اور چیف منسٹر ہاؤس ہیں اور ان سب کی بھی اسی طرح اپنی گاڑیاں ہیں ہمارے کمشنر اور ڈی سی بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں ،ایک طرف ایک مقروض قوم ہے جو اپنے لوگوں پر پیسا نہیں خرچ پاتی اور دوسری طرف حکمران ایسے رہتے ہیں جیسے آزادی سے پہلے یہاں انگریز شاہانہ انداز میں رہتے تھے
یہ گورنر ہاؤس انہی کی جانب سے بنائے گئے تھے ،یہاں عوام کی بنیادی سہولیات کیلئے پیسا نہیں ہے اور وزیراعظم کے بیرونی دوروں پر ہی پینسٹھ کروڑ روپیہ خرچ ہوگیا
آخر یہ پیسا جاتا کدھر ہے،قومی اسمبلی کے سپیکر کا بجٹ سولہ کروڑ روپے تھا اور اس نے اٹھارہ کروڑ بیرونی دوروں پر خرچ کیا ،آخر یہ کرنے کیا جاتے ہیں ؟ کیا یہ ان ممالک کو فتح کرنے جاتے ہیں؟ میں یہ سب حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا کیونکہ ہم تباہی کی طرف جا رہے تھے
الله کا بھی یہ فرمان ہے کہ میں تب تک اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک اسکو خود اپنی حالت بدلنے کی فکر نہ ہو
ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اپنا رہن سہن بدلنا ہوگا ہمیں ہمدردی دکھانا ہوگی کیونکہ ہمارے ملک کی آدھی آبادی دو وقت کی.خوراک کی کمی کی یہ بیماری اسی وجہ سے ہے کہ ہم اپنے بچوں کو مکمل خوراک نہیں دے پاتے .جب تک ہمارا سوچنے کا انداز نہیں بدلے گا تب تک سوچ نہیں بدلے گی
جو ہمارے اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جا پاتے ان کا کیا بنے گا ؟ .جس رفتار سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے ان کی تعلیم مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ان کو نوکری کون دے گا ؟
پانی اور ماحول کا مسئلہ
ہم ان ممالک کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کا منفی انداز میں شکار ہیں ،آج ہم اس چیز کا وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ان معاملات کو بدلیں گے
ہمارے لئے سب سے بڑے رول ماڈل ہمارے نبی صلی علیہ و آلہ وسلم ہیں انہوں نے اس ماحول کو بدل دیا جہاں لوگ صحرا میں رہتے تھے اور چند سالوں میں ہی وہ دنیا کا ترقی یافتہ اور انصاف پسند معاشرہ بن گیا ،اس وقت بنائے گئے اصولوں نے ان معاشروں کو با اختیار اور طاقت ور بنایا ،انہی اصولوں کو اپنا کر آج مغربی معاشرہ ترقی یافتہ ہے
وہ اصول کیا ہیں؟
اپنے آپ کو بدلنے کیلئے ہمیں قانون کی بالا دستی قائم کرنی ہوگی کوئی قوم تب تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو ،قانون کا مطلب کہ سب برابر ہوں اور قانون سے بالا تر کوئی نہ ہو ،حضرت علی رضہ اور حضرت عمر رضہ قانون کی بالا دستی کیلئے عدالت میں کھڑے ہوئے ،حضرت علی رضہ نے عدالت میں ایک یہودی کے سامنے مقدمے میں اپنی شکست تسلیم کرلی,
خلیفہ وقت بھی قانون کے سامنے جواب دہ تھا. اقلیتیں بھی برابر کی شہری ہیں اور اس وقت بھی اسلام نے یہ کہا کہ تمام انسان قانون کے سامنے برابر ہیں
زکات کے پیچھے سوچ کیا ہے ؟ اسکا مطلب ہے کہ آپ اپنی سکت کے مطابق ٹیکس ادا کریں ،جتنا آپکے پاس پیسا زیادہ ہے اتنا ہی آپ غریبوں کی فلاح کیلئے خرچ کریں ،اس کو کہتے ہیں ترقی کیلئے دیا گیا ٹیکس جہاں لوگ اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس دیں اور تمام مغربی ممالک اب اسی پر عمل کرتے ہیں
ناروے، سویڈن اور ڈنمارک میں بھی اسی طرز پر ترقیاتی ٹیکس لیا جاتا ہے اور اسکو غریبوں کی فلاح پر خرچ کیا جاتا ہے
اس طرح ان کے ادارے بنائے جاتے ہیں ،ہمارا مذھب قانون کی بالا دستی کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے، ایسا نظام جہاں غریب ، معذور اور بیواؤں کو دیا جاتا ہے ، ریاست اپنے شہریوں کی ذمہ داری لیتی ہے اور یہاں تک کہ جانوروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں
ہمارے مذھب میں تو جانوروں کیلئے بھی حقوق ہیں اور مغرب میں ان حقوق پر عمل کیا جاتا ہے ، جانوروں کیلئے گھر ہیں اور آپ کو سڑکوں پر بھوکے مرتے جانور نظر نہیں آتے
مسلم دنیا پر عروج آیا کیونکہ وہاں میرٹ کا نظام تھا ، میرٹ کا مطلب کہ جس کسی کا بھی حق بنتا ہو وہ آگے آئے
خالد بن ولید نے کئی جنگیں مسلمانوں کے خلاف لڑی تھیں مگر جب وہ مسلمان ہوئے تو انکی صلاحیت کے مطابق ان کو مسلمانوں کی فوج میں بڑا عہدہ دیا گیا
یہ تمام میرٹ کی مثالیں ہیں اور یہ سب آج مغرب میں ہوتا ہے ، ایک قیادت کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے ؟ ایمانداری اور انصاف کرنا ، یہ وہ اصول ہیں جن کی مغرب میں تائید کی جاتی ہے،ایک صدر کا احتساب کیا گیا کیونکہ اس نے جھوٹ بولا ، ایک برطانوی وزیراعظم کو ہٹا دیا گیا ،ہماری رول ماڈل اسلامی فلاحی ریاست میں لیڈرز کا احتساب ہوتا تھا،وہ خود کو احتساب کیلئے پیش کرتے تھے اور عوام کو جواب دہ تھے ،حضرت عمر سے ایک بار پوچھا گیا کہ انہوں نے جو کپڑے پہن رکھے ہیں وہ کہاں سے لئے تو ان کو اس بات کا جواب دینا پڑا ،آج مغرب میں ساری لیڈرشپ اپنے عوام کو جواب دہ ہے جب پانامہ پیپرز سامنے آئے تو برطانیہ کے وزیراعظم کو جواب دینا پڑا کہ انکے پاس وہ پیسا کدھر سے آیا اور اسکا کیا بنا
مفادات کا تصادم: حضرت ابوبکر رضہ خلیفہ بنے تو اپنا کاروبار بند کردیا یہ کہہ کر کہ میں طاقت میں ہوں اور اگر میں کاروبار کرونگا تو کوئی میرا مقابلہ نہیں کر سکے گا کاروبار میں اور آج یہ تمام قوانین مغرب میں لاگو ہو چکے ہیں .. مگر دیکھیں کہ ہم آج کہاں ہیں ، ہمارے تمام حکمرانوں کو دیکھیں کہ اقتدار ملنے سے پہلے انکے پاس کیا کچھ تھا اور اب کیا کچھ ہے
مغرب میں جس جس نے بھی ترقی کی انہوں نے اس قانون پر عمل کروایا کہ جو کہ طاقت میں آئے اسکے لئے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ اس اقتدار اور طاقت کا ناجائز استعمال نہ کر سکے
یہ قانون مدینہ کی ریاست میں آج سے چودہ سو سال پہلے موجود تھا
تعلیم؛ یہ مسلم دنیا کا سب سے اہم پہلو تھا ،بدر کی جنگ کے بعد ہمارے نبی صلہ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہ تعلیم پر تھی اس وقت بھی جب اس معاشرے کے پاس اور کچھ نہیں تھا انہوں نے تب بھی تعلیم پر ہی توجہ دی
انہوں نے تعلیم کو ترجیح بنایا اور قانون بنا دیا کہ جنگ کا جو قیدی دس لوگوں کو تعلیم دے گا اس کو آزاد کردیا جائے گا
اور آج ہمارے ملک کی حالت دیکھیں ، اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جا رہے اور مغرب میں تعلیم پر بڑے بڑے بجٹ خرچ کئے جاتے ہیں
ہم ان میں سے کسی بھی اصول پر عمل نہیں کر رہے
آپ کیلئے پریشانی کی کوئی بات نہیں لیکن ہمیں اپنے مستقبل کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے اور اسکو تبدیل کرنا چاہیے
یہ ملک صرف امیروں کیلئے نہیں بنا تھا بلکہ یہ علامہ اقبال کی سوچ پر بنا تھا جو کہ بہترین سکالر اور شاندار مفسر تھے
ان کا خواب بھی ریاست مدینہ جیسی ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم نے کرنا کیا ہے
پوری زندگی مجھے کہا گیا کہ میں وہ نہیں کر سکتا جسکا میں نے خواب دیکھا ہے ، کہ میں ایک کرکٹر نہیں بن سکتا ایک فاسٹ بولر نہیں بن سکتا ،ورلڈ کپ نہیں جیت سکتا، کینسر ہسپتال نہیں بنا سکتا ، پسماندہ علاقے میں یونیورسٹی نہیں بنا سکتا ، دو پارٹیوں کا سسٹم نہیں توڑ سکتا ، میں نے اپنی پوری زندگی یہ سب سنا ہے
لیکن میں نے اپنی پوری زندگی میں ایک چیز سیکھی ہے اور وہ ہے مقابلہ کرنا
تو آپ .. میری قوم میری ٹیم ہیں اور میں نے یہ معرکہ آپ کے ساتھ مل کر لڑنا ہے
میں شروعات اپنے آپ سے کرونگا ،میں وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہونگا میں تین کمروں کے ایک گھر میں رہوں گا جو کہ ملٹری سیکٹری کا گھر ہے اور میں دو ملازم رکھوں گا جسکے ساتھ صرف دو گاڑیاں ہونگی، میں تو اپنے گھر بنی گالا میں ہی رہنا چاہتا تھا تا کہ یہ خرچہ بھی نہ ہو لیکن ہماری سکیورٹی ایجنسیز نے کہا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے اسلئے مجھے یہاں رہنا پڑے گا
میں تمام لگژری گاڑیوں کو نیلامی کیلئے پیش کرونگا اور تمام کاروباری حضرات سے اپیل کرتا ہوں کہ اس میں حصہ لیں اور یہ پیسا ہمارے سرکاری خزانے میں جائیگا
تمام گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس سادگی اختیار کریں گے ،ہم اخراجات کم کرینگے اور آپ کو بتائیں گے کہ ہم کتنی بچت کر رہے ہیں ، کوئی گورنر اب گورنر ہاؤس میں نہیں رہے گا اور ہم ایک کمیٹی بنائیں گے جو یہ فیصلہ کرے گی کہ ان کو عوام کے فائدے کیلئے کیسے استعمال کرنا ہے
وزیراعظم ہاؤس کی جگہ ہم ایک بہترین ریسرچ یونیورسٹی بنائیں گے
ہم ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس بنائیں گے جس کا کام ریاست کے اخراجات کو کم کرنا ہوگا ، ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے اوپر جو خرچہ کریں گے وہ ان لوگوں کی جیب سے جائیگا جو دو وقت کا کھانا نہیں کھا سکتے
ہمیں ان لوگوں کیلئے کام کرنا ہے جو معاشرے میں پیچھے رہ جاتے ہیں ، ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے ، یہ ملک جس طریقے سے چلتا رہا ہے یہ مزید اس طرح نہیں چل سکتا
ہم پر جتنا زیادہ قرضہ ہوگا اتنا ہی ہم اپنی آزادی کو کھوتے رہیں گے، ہمیں عادت پڑ چکی ہے دوسرے ملکوں کے رحم و کرم اور ان کے قرضوں پر رہنے کی اور ہمیں اس بات کی شرم بھی نہیں محسوس ہوتی ، کوئی قوم اس طرح آگے نہیں بڑھ سکتی اور نہ ترقی کر سکتی ہے ، قرضے لینا ہمیشہ ایک وقتی حل ہوتا ہے ، ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے
جو بھی آپ کو قرضے دیتا ہے وہ آپ کی آزادی بھی چھین لیتا ہے اور بطور قوم آپ کی عزت بھی
آپکو کیسا محسوس ہوگا اگر پاکستان دنیا کے سامنے بھیک مانگ رہا ہو؟ آپکو شاید اس چیز کا احساس نہ ہو لیکن یہ کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا
میں نے جب شوکت خانم ہسپتال کیلئے پیسا اکٹھا کرنے کی اپیل کی تو میں نے اپنے پاکستانیوں سے پیسا مانگا لیکن میں کسی اور ملک سے کبھی پیسا نہیں مانگوں گا
جب ایک ملک کشکول اٹھا کر بھیک مانگنے جاتا ہے تو پورے ملک کی عزت برباد ہوجاتی ہے ، دنیا اس قوم کی عزت کرتی ہے جو خود اپنی عزت کرتی ہو ، میں نے بارہا بیرون ممالک کا سفر کرتے ہوئے یہ دیکھا ہے کہ پاکستانیوں کو الگ لائن میں لگا دیا جاتا ہے صرف اور صرف سبز پاسپورٹ کی وجہ سے
کتنے شرم کی بات ہے ہمارے لئے. دنیا میں کوئی قوم بھیک کا کشکول اٹھا کر عظیم نہیں بنتی
ہمیں پیسا اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے ، بیس کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف آٹھ لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں ، یہ ملک اس طرح نہیں چل سکتا ، بڑی بڑی گاڑیوں اور گھروں والے لوگ ٹیکس نہیں دیتے ، میری پہلی ترجیح ایف بی آر کو ٹھیک کرنا ہوگی جس پر لوگ اعتبار نہیں کرتے اور ٹیکس نہیں دیتے ، ایف بی آر کے پاس قوم کا اعتماد نہیں ہے
یہ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ قوم پر اعتماد محسوس کرے گی اور آپ کے پیسے کی حفاظت میں خود کرونگا ،آپ کے ٹیکس کا پیسا عوام پر خرچ کیا جائیگا ، ہم بچت کرنے کیلئے جو مہم شروع کریں گے ہم قوم کو روزانہ آگاہ کرینگے کہ آج ہم نے اتنے پیسوں کی بچت کی ہے
لیکن ایک طرف جب ہماری ذمہ داری پیسا بچانا ہے تو دوسری طرف آپ کی ذمہ داری ہوگی ٹیکس ادا کرنا ، اس کو ایسا سمجھیں کہ آپ یہ اپنے ملک کی عزت اور خود مختاری کیلئے کر رہے ہیں ، اگر آپ ٹیکس ادا کر رہے ہیں تو آپ ملک کی خدمت کر رہے آپ لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں
کراچی میں جا کر دیکھیں کہ لوگ کس طرح گندے پانی کے قریب کھانا کھا رہے ہیں ، یہ سوچیں کہ اگر آپ زکات دیں تو کیسے غریبوں کو اوپر اٹھایا جا سکتا ہے
اگر آپ ہمیں ٹیکس میں یہ اعتماد دیں تو ہم کبھی بھی نقصان میں نہیں ہونگے
آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اخراجات کو پورا کرنے کیلئے پیسا نہیں ہے ، ہم ایک طاقتور فورس تشکیل دے رہے ہیں جو پاکستان کا لوٹا ہوا پیسا وطن واپس لیگی ، امریکا کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے ایک ہزار ارب کی منی لانڈرنگ ہورہی ہے ، اس چیز نے ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور یہ مجرمانہ عمل ہے
جو لوگ اپنے کاروبار اور دولت ملک سے باہر رکھتے ہیں وہ کس طرح اس ملک کے ساتھ مخلص ہو سکتے ہیں ، ایسے لوگوں کو کبھی ووٹ نہ دیں ، یہ آپ کی غلطی ہے اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو آئندہ کبھی ووٹ نہ دیں
ہمیں اپنی برآمدات بھی بڑھانی ہیں ، اور وہ اس وقت بڑھائیں گی جب ہماری حکومت صنعتوں کی مدد کرے گی ، ان کو جتنی بھی رکاوٹیں ڈر پیش ہیں ان کو ختم کرنے میں کردار ادا کرے گی ، ہم نے ایک بزنس ایڈوائزری کونسل بنائی ہے اور ہم اس ملک میں سرمایا کاری لانے کیلئے بھی کام کریں گے ، سرمایا کاری کا ایک ماحول بنائیں گے
بیرونی سرمایا کاری کیلئے ایک ون ونڈو آپریشن کا آغاز کیا جائیگا جو کہ صرف اور صرف سرمایا کاری میں آنے والی مشکلات کو حل کرے گا
ہماری چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتیں ہمارے لئے ریڑھی کی ہڈی ہیں ، ان کیلئے بہت زیادہ مشکلات ہیں اور ہمیں ان مشکلات کو ختم کرنا ہے تا کہ وہ منافع بخش کاروبار بن سکیں اور روزگار کے مواقع فراہم کر سکیں
ہمارے جتنے بھی سفارت خانے ہیں ہم ان سب کے ساتھ رابطہ بہتر کرکے کہیں گے کہ ان ممالک میں موجود پاکستانیوں کی زندگی بہتر کرنے کیلئے کام کریں ، خاص طور پر ہمارے مزدور اور ایسے لوگ جو جیلوں میں ہیں جن کو بغیر کی وجہ سے صرف دہشتگردی کی جنگ کی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا
ہم انھیں قانون نمائیندگی دیں گے، ہم اپنے بیرون ملک مزدوروں کو بتائیں گے کہ وہ اس وقت اکیلے نہیں ہیں، پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ ہمارا سب سے بڑا سرمایا ہیں
میں اپنے بیرون ملک پاکستانیوں سے خصوصی طور پر بات کرنا چاہتا ہوں، ہم آپ کیلئے سرمایاکاری کے مواقع پیدا کریں گے ، میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنا پیسا واپس پاکستان لے کر آئیں ، اپنا پیسا پاکستان کے بینکوں میں رکھیں ، ہمیں اس وقت ڈالرز کی ضرورت ہے ،اس وقت ایک بڑا تجارتی فرق ہے ، ہمیں آپ کی طرف سے بھیجی گئی رقوم کی ضرورت ہے ، اپنا پیسا بینکنگ کی مدد سے گھر بھیجیں تا کہ زر مبادلہ میں اضافہ ہو،اس مشکل وقت سے گزرنے کیلئے میں بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنا پیسا پاکستان لائیں اور پاکستانی بینکوں میں رکھیں کیونکہ پاکستانی قوم کو آپکی ضرورت ہے
اب بات کرتے ہیں کرپشن کی
جس پیسے کو عوام کی فلاح پر خرچ ہونا چاہیے وہ اپنی جیبوں میں بھری جاتی رہی اور جب قیادت کرپٹ ہوتی ہے وہ وہ سارے اداروں کو بھی تباہ کر دیتی ہے تا کہ اداروں کے پاس ان کو پکڑنے کی طاقت نہ رہے
ہم نیب کی ہر طرح سے مدد کریں گے ، انسانی وسائل میں اضافہ کریں گے اور وسل بلور ایکٹ لے کر آئیں گے جس طرح ہم پختونخوا میں لے کر آئے ، وہ اگر کسی بھی کرپشن کی نشاندھی کریں گے تو ان کو اس رقم میں سے ایک مخصوص رقم بطور انعام دی جائیگی
ایس ای سی پی کو بھی ٹھیک کیا جائیگا کیونکہ اسک ابھی بری طرح تباہ کیا گیا ، ایف آئی اے میں اصلاحات کرنا ہونگی تا کہ ان لوگوں پر نظر رکھی جا سکے جو ملک کا پیسا لوٹ رہے ہیں ، وزارت داخلہ میں اپنے پاس رکھ رہا ہوں تا کہ ایف آئی اے کے زریعے منی لانڈرنگ پر نظر رکھی جا سکے ، ہم اپنے لوگوں کی حالت یہ سب کئے بغیر نہیں بدل سکتے
اور میں آپ کو ابھی بتا دوں کے جب ہم یہ مہم شروع کریں گیا تو ہر ادارے میں موجود کرپٹ لوگوں کی طرف سے بہت شور مچایا جائیگا ، ہر ایک ادارے میں یہ مافیاز موجود ہیں جو پیسا بنا رہے ہیں ، یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ یہ شور کریں گے اور شاید "جمہوریت بھی خطرے میں آ جائے" اور یہ لوگ سڑکوں پر بھی آ سکتے ہیں ، لیکن آپ نے میرا ساتھ دینا ہے ، اس قوم کو بچانے کیلئے ہمیں ان کو شکست دینا ہوگی ، کیونکہ یا تو یہ قوم رہے گی اور یا پھر یہ کرپٹ
تو اس سب کیلئے تیار رہیں ، میری ہمیشہ سے فائٹ کرنے کی ٹریننگ ہوئی ہے اور میں اب بھی انکا بھرپور مقابلہ کرونگا
ایک عام آدمی کیلئے ہمیں انصاف کا ایک نظام لانا ہوگا وہ لوگ جن کے مقدمے سالہا سال چلتے رہتے ہیں ، اس سلسلے میں ہم چیف جسٹس سے ملاقات کریں گے
ہم اس پختونخوا میں ترامیم کیلئے اسی طرز کی ملاقات ہائی کورٹ پشاور کے چیف جسٹس سے بھی کر چکے ہیں اور ایک سال کے اندر اندر تمام سول کیس نمٹائے جا چکے تھے کیونکہ ہم نے پختونخوا میں فیصلہ کیا کہ ایک سال میں تمام کیسز کو حل کیا جائے ، اس میں عدلیہ نے بھی ہماری مدد کی اور اب ہم اسی چیز کو قومی سطح پر کرنا چاہتے ہیں ، ہمیں لوگوں کیلئے فوری انصاف فراہم کرنا ہے
میں چیف جسٹس سے اپیل کرتا ہوں کہ ان بیواؤں کے کیسز بھی جلد سے جلد حل کریں جن کی زمینوں پر قبضے کر لئے گئے ہیں اور وہ انصاف کیلئے در بدر پھر رہی ہیں
ایک خاتون میرے پاس آئی اور اس نے بتایا کہ اس کے خاوند کو قتل کردیا گیا ہے اور پولیس جان بوجھ کر کیس میں تاخیر کر رہی ہے اور اسکی جائیداد ہتھیا لی گئی ہے
جب میں نے سیاست شروع کی تو اس وقت کا ایک قصہ میں آپ کو سناتا ہوں
ایک خاتون نے مجھے اپنے خون سے خط لکھا ، اس کے خاوند کا قتل ہو چکا تھا ، وہ انصاف کیلئے تھانے جاتی تھی اپنی بیٹی کے ساتھ . اور وہاں تھانے میں پولیس والے اسکا مذاق اڑاتے تھے ، اسکو اور اسکی بیٹی کو بری نظروں سے دیکھتے تھے ، تو آج میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ہم اپنے سب سے زیادہ پسے ہوئے اور مظلوم طبقے کی خدمت کریں گے
ہماری جیلوں میں بھی صرف غریب نظر آتے ہیں ، ہم ان کی مدد کیلئے وکیلوں کی ٹیمیں بھیجیں گے اور ان سے پوچھیں گے کہ ان کے مسائل کیا ہیں ، ان میں سے اکثریت کے پاس کسی وکیل کو دینے کیلئے فیس نہیں ہے اور اسلئے وہ بیچارے جیلوں میں پڑے ہیں ،ان کا واحد جرم صرف غریب ہونا ہے
پختونخوا کی پولیس میں ایک بڑی تبدیلی آئی اور میں اس پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس تبدیلی نے ہمیں پختونخوا میں دوبارہ جیتنے میں مدد دی ، جرائم کی شرح کم ہوئی اور اس ساری اصلاحات اور تبدیلی میں آئی جی ناصر درانی کا ایک اہم کردار رہا ، ہم ان کی خدمات دوبارہ حاصل کریں گے تا کہ وہ پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں استعمال کریں
جیسا کہ پولیس ایک صوبائی شعبہ ہے اسلئے ہم اس میں براہ راست تو عمل داخل نہیں دے سکتے مگر ہم سندھ حکومت سے بھی براہ راست اپیل کرتے ہیں کہ وہ پولیس پر خصوصی توجہ دیں
ایک اور اہم معاملہ جہاں پولیس بری طرح ناکام ہوئی وہ ہے بچوں کے ساتھ زیادتی ، سانحہ قصور ایک سیاہ کیس ہے ہماری تاریخ میں ، اور بہت سارے کیسوں میں تو والدین شرم کی وجہ سے کچھ بتاتے نہیں ، ہمیں پولیس کے ساتھ معاملات ٹھیک کرکے اس مسئلہ کو حل کرنا ہے ، یہ انسانی حقوق کا ایک بہت اہم مسئلہ ہے جس کو ہم نے اس ملک سے ختم کرنا ہے ، ہماری انسانی حقوق کی وزارت اس پر سختی سے عمل کرے گی
اب بات کرتے ہیں تعلیم کی ، ہمیں سب سے زیادہ توجہ اپنے سرکاری سکولوں پر دینی ہے ، سرکاری سکولوں کی حالت خطرناک ہے اور ہمارا تنخوا دار طبقہ اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں پڑھا کر ایک بڑی قربانی دے رہا ہے ، نجی سکولوں میں فیسوں پر کوئی ریگولیشن ہی نہیں ہے ، والدین قربانی دیتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں ، اس لئے ہمیں سرکاری سکولوں کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے
پختونخوا میں سرکاری سکولوں کی حالت اس قدر بہتر ہوئی کے ڈیڑھ لاکھ بچے نجی سکولوں کو چھوڑ کر سرکاری سکولوں میں داخل ہوئے ، جو بچے سکولوں میں نہیں جاتے ہمیں ان کو بھی سکولوں میں لانا ہے
نجی سکولوں کو آگے بڑھ کر حکومت کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور سکولوں میں ایک دوسری شفٹ شروع کرنی چاہے جہاں نجی سکول اپنی خدمات پیش کر سکیں ، یہ ایک ایمرجنسی ہے ، سکولوں سے باہر یہ اڑھائی سکول بچے.. .ان کو تعلیم یافتہ بنانا ہے
ہمیں اپنے مدرسوں کے بچوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے ، ہمارا یہ ویژن ہے کہ مدرسہ کے بچوں کو بھی ایسی تعلیم دی جائے کہ وہ اپنے خواب پورے کر سکیں اور ڈاکٹر اور انجینئر بن سکیں مسقتبل کے لیڈر بن سکیں ، ہم نے آج تک انھیں سہولیات کیوں نہیں دیں؟ چوبیس لاکھ بچے مدرسوں میں پڑھتے ہیں
ہم نے ہسپتالوں کیلئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے ، ہم نے پختونخوا میں ایک ٹاسک فورس بنائی جس کا مقصد ہسپتالوں کو شوکت خانم ہسپتال کی طرح بنانا تھا جہاں میرٹ کا نظام ہو کیونکہ میرٹ کے نظام میں اداروں کو ٹھیک کرنا آسان ہے بجائے اسکے کہ پرانے فرسودہ نظام کے تحت اداروں کو ٹھیک کرنا
ہمیں پختونخوا میں پانچ سال لگے ، ہمیں سرکاری ہسپتالوں کو ٹھیک کرنا ہے اور ایک ٹاسک فورس تشکیل دینی ہے ، ہم اس پر سندھ حکومت کے ساتھ بھی کام کرینگے ، ہم انصاف صحت کارڈ کی طرح پورے ملک میں ہیلتھ انشورنش کارڈ متعارف کروایں گے جہاں ایک غریب کا پانچ لاکھ روپے تک کا علاج مفت ہوجاتا ہے
کسی نے بھی پینے کے پانی پر توجہ نہیں دی ، یہ ایک ایمرجنسی ہے ، کراچی کوئٹہ اور اسلام آباد جیسی جگہیں جہاں پانی نہیں ہے مگر ٹینکر مافیا ضرور ہے
ہم اس پر بھی ایک ٹاسک فورس تشکیل دے رہے ہیں کہ کس طرح پانی کو محفوظ کیا جائے ، ہم اپنے کسانوں کو بھی بتائیں گے کہ کس طرح پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے ، ہمیں ہر صورت میں ڈیم کی تعمیر کرنا ہے ، چیف جسٹس نے اس سلسلے میں اہم قدم اٹھایا ہے اور ہم اوورسیز پاکستانیوں کو اس معاملے میں ساتھ ملائیں گے
اب بات کرتے ہیں ہمارے کسانوں کی ، جب تک ان کو فنڈز اور سرمایا کاری نہیں ملے گی وہ اپنی زمینوں اور کھیتوں پر پیسا نہیں لگا پائیں گے ، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان کے اخراجات کو کم کیا جائے ، ہمیں ایک بہترین زرعی ریسرچ کی ضرورت ہے ، ہمارے کسان سبزیوں کا بیج بھارت سے خریدتے ہیں ، ہم کیوں نہیں انکے لئے یہ کر سکتے؟ ہم انکو سکھائیں گے کہ پانی کو بہتر طریقے سے کیسے استعمال کرنا ہے
سول سروس میں اصلاحات اور اسکی پالیسیوں پر عمل درامد ضروری ہے ، ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کی سول سروس کو ایشیا میں سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا، یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ سیاسی مداخلت اور میرٹ کی خلاف ورزی کی وجہ سے ادارے تباہ ہو گئے ، ڈاکٹر عشرت اب اس چیز پر کام کر رہے ہیں کہ میرٹ کو کس طرح واپس لایا جائے ، ہم اپنی حکومت میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت برداشت نہیں کرینگے ، ہم آپکو اس چیز سے بالا تر ہوکر سپورٹ کریں گے کہ آپ کس سیاسی جماعت کو کے سپورٹر ہیں,
اور ہم آپکو اس چیز کی حفاظت بھی فراہم کرینگے کہ آپ اپنا پیشہ ورانہ دور پورا کریں
لیکن میں اپنے سرکاری افسران کو کہتا ہوں کہ عام آدمی کو عزت دیں جو آپ کے دفتر میں داخل ہوتا ہے ، یہ اس کا حق ہے ، ہم رائٹ ٹو سروس ایکٹ لے کر آ رہے ہیں جو کہ عام آدمی کا حق ہے ,
پاسپورٹ آفس اور شناختی کارڈ کے آفس، جہاں جہاں جو اچھی کارکردگی دکھائے گا اسکو انعام دیں گے اور جو بری کارکردگی دکھائے گا اسکو سزا دی جائے گی
اس کے بعد بلدیاتی نظام، ہم نے اسکے بارے میں پختونخوا میں بہت کچھ سیکھا ، ہم ناظمین کیلئے براہ راست الیکشن کروایں گے تا کہ فنڈز نچلی سطح تک جا سکیں ، ابھی سارے فنڈز صرف وزیر اعلیٰ اور ایم این ایز تک رہتے ہیں اور پوری دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا
نوجوانوں کیلئے ہم نوکریاں پیدا کرنا چاہتے ہیں ، ہم پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کریں گے جو کہ پانچ سال پر محیط ہوگا ،ہم نے ماہرین سے بات کرلی ہے اور انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے
یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا لیکن اگر یہ کامیاب ہوگیا تو یہ براہ راست پچاس صنعتوں کو اٹھا دے گا
ہمیں ہنر کی تعلیم پر توجہ دینی ہوگی اور نوجوانوں کو بلا سود قرضے فراہم کرنا ہونگے تا کہ وہ کاروبار کر سکیں ، اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ نوجوانوں کے سپورٹس کیلئے کھیلوں کے میدان بنائے جائیں اور دیگر سہولیات دی جائیں ، ہمارے کھیلوں کے گراؤنڈ پر قبضہ مافیا قبضے کئے بیٹھا ہے
جاوید میانداد نے مجھے بتایا کہ بہت سارے گراونڈز پر اب گھر تعمیر کئے جا چکے ہیں ، ہم نے پارک بنانے ہیں تا کہ ہماری خواتین باہر جا سکیں بچے کھیل سکیں
ہم درخت لگانے کی ایک بڑی مہم شروع کریں گے ، ہم نے پختونخواہ میں ایک ارب درخت لگائے ہیں اور ہم نے اس سے سیکھا ہے ، اور اب ہم ملک بھر میں اربوں درخت مزید لگائیں گے ، خاص طور پر ہمارے کراچی جیسے شہر کو کنکریٹ کا جنگل بن چکے ہیں ، ہمیں سڑ سبز پاکستان کیلئے ایک بڑے ویژن کی ضرورت ہے ، ہم اس میں اپنے نوجوانوں کو ساتھ ملائیں گے جو کہ ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں
لاہور میں فضائی آلودگی جو کہ بچوں اور بڑوں پر بری طرح اثر کرتی ہے ، ہم اپنے وزیر ماحولیات امین اسلم کو اس پر ساتھ ملائیں گے
پھر اسکے بعد آلودگی اور گندگی ، کراچی کو دیکھیں ہم کس طرح سمندر کو تباہ کر رہے ہیں ، ہمیں اس اپنے پانیوں کو شفاف رکھنا ہے ، ہمیں یہ سب کرنے کیلئے باہر سے کمپنیوں کو ٹھیکے دینے کی ضرورت نہیں ہے ، ہمیں صرف اپنے آپ کو مزید منظم کرنا ہے ، ہمیں انشاء الله اگلے پانچ سال میں کسی مغربی ملک کی طرح صاف اور شفاف دکھنا ہے
سیاحت کا پاکستان میں بہت بڑا پوٹینشل ہے ، ہم ہر سال چار نئے سیاحتی مقامات کھولیں گے ، ہمارے پاس خوبصورت ساحل ہیں ، ہم ان کو باقاعدہ طور پر تعمیر کرنا چاہتے ہیں تا کہ ہماری فیملیز وہاں جا سکیں اور غیر ملکی سیاح گوادر جیسی جگہوں پر جا سکیں
فاٹا میں جنگ کی وجہ سے تباہی ہوئی ، ہم فاٹا اور پختونخوا کے انضمام پر تیزی سے کام کرہے ہیں تا کہ وہاں جلد از جلد ترقی شروع ہو سکے وہاں بھی بلدیاتی نظام آ سکے
یہ ایک آسان کام نہیں ہے لیکن ہمیں کرنا پڑے گا ، بلوچستان میں بھی معاملات کچھ ایسے ہی ہیں ، ہم ہر ایک کے ساتھ ان کے مسائل کے حل کیلئے بات کریں گے
جنوبی پنجاب کیلئے ہمیں ایک الگ صوبہ بنانے کی ضروت ہے کیونکہ لاہور میں بیٹھ کر اس علاقے کی بہتر نہیں کی جا سکتی
کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور اگر کراچی بہتر حالت میں نہیں ہوگا تو یہ ملک بہتر نہیں ہوگا اسلئے ہمیں سندھ حکومت کے ساتھ مل کر سندھ پولیس کو بہتر بنانا ہے کیونکہ ہم کراچی میں امن و امان کیلئے صرف اور صرف رینجرز پر انحصار نہیں کر سکتے ، کراچی میں آلودگی کو کم کرنا ہوگا اور عوام کو پانی فراہم کرنا ہوگا
ہمارے نیشل ایکشن پلان میں بیس نکات تھایا یر تیس پارٹیوں نے اس پر اتفاق کیا تھا اور جب تک ہم اس پر عمل نہیں کریں گے ملک میں امن نہیں آئے گا، ہم اپنے ہمسایہ ملکوں سے اپیل کرتے ہیں کہ خطے میں امن کیلئے ہمارا ساتھ دیں ، ہمیں دہشتگردی کو ختم کرنا ہوگا ، ہم تک امن نہیں ہوگا تب تک ترقی نہیں ہوگی
میں ان تمام ہمسائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے کال کی اور شکریہ ادا کیا ، جب تک خطے میں امن نہیں ہوگا ہم میں سے کوئی بھی ترقی نہیں کر پائیگا
میرا آخری نکتہ یہ ہے کہ ہم پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں جسکی شروعات ہم بے گھر بچوں کو اپنانے سے کریں گے ، یہ ہمارے بچے ہیں اور ہمیں اپنی قوم کے بچوں کی ذمہ داری لینا ہوگی ، ریاست کو بے گھر بچوں ، بیواؤں اور معذوروں کی ذمہ داری لینا ہوگا
آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے اندر ہمدردی پیدا کرنا ہوگی ، انسانوں اور جانوروں میں فرق کیا ہے ؟ انسانی معاشروں میں ہمدردی ہونی چاہیے ، ہمیں ان لوگوں کیلئے ہمدردی رکھنی چاہیے جو ہم جتنی سہولیات نہیں رکھتے ، ہمیں اپنے لوگوں کو اوپر اٹھانا ہے اور انسانی ترقی پر کام کرنا ہے
ریاست مدینہ میں کیا کیا گیا تھا ، انہوں نے انسانی ترقی پر توجہ دی ، سادہ زندگی گزاری
اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہمارا فرض ہے اور میں سادہ زندگی گزار کر ایک مثال بن کر آپکو دکھاؤں گا
سکیورٹی وجوہات کی بنا پر مجھے گارڈز رکھنا ہونگے لیکن اسکے علاوہ میں سادہ زندگی گزاروں گا اور سادگی اختیار کرکےجو اخراجات بچیں گے ان کا پچاس فیصد سے زائد حصہ ہم اپنے لوگوں پر خرچ کریں گے
میں کوئی کاروبار نہیں کرونگا ، حکمران جب کاروبار کرتا ہے تو وہ اپنے لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے
یہ بات یاد رکھیں کہ جس نے بھی آپ کا پیسا چوری کیا ہے اس نے عوام کو نقصان پہنچایا ہے وہ آپ کا دشمن ہے اور وہ میرا بھی دشمن ہے
میری کسی کے ساتھ کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے ، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے ملک کا پیسا لوٹ کر باہر لے جاتے ہیں اور ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں تو آپ کو ان لوگوں کو پکڑنے میں میری مدد کرنا ہے ، ہم یہ آپ کیلئے کر رہے ہیں ، اگر کوئی آپ کے گھر سے چوری کرتا ہے تو کیا آپ اسکو پولیس کے حوالے نہیں کرتے؟ ان کو روکنا آپ کی ذمہ داری ہے
اسی طرح اگر ہم کچھ غلط کریں آپ کے ٹیکس کا پیسا غلط استعمال کریں تو یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے آپ ہمارا بھی احتساب کریں ، اس ملک کے مفاد کیلئے میری ٹیم کا حصہ بنیں اور آپ کے پیسے کی حفاظت کرنا میرا کام ہے
الله نے ہمارے ملک کو ہر چیز سے نوازا ہے ، یہ ہمارا اثاثہ ہے اور ہم نے اسکی حفاظت کرنی ہے ، جب ریاست کا پیسا چوری ہوتا ہے تو آپکا پیسا چوری ہوتا ہے ، ہمیں اس کی حفاظت کیلئے بطور ایک ٹیم کام کرنا ہے
میرا یہ خواب ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب شاید میں تو نہیں ہونگا لیکن اس ملک میں کوئی زکات لینے والا نہیں ہوگا اور ہم ان ملکوں کی مدد کریں گے جو ضرورت مند ہیں
یہ ہے وہ پاکستان جو میں دیکھنا چاہتا ہوں
پاکستان .. زندہ باد
