وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس 5 ستمبر 2018 | Pakistan Tehreek-e-Insaf

Error message

Warning: Creating default object from empty value in ctools_access_get_loggedin_context() (line 1864 of /home/insafpk/public_html/sites/all/modules/ctools/includes/context.inc).

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس 5 ستمبر 2018
شاہ محمود قریشی کی گفتگو یہ ہے :

"پاکستان کا رویہ مثبت تھا ، میں نے پاکستان کا موقف پیش کیا اور آپکو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ حقیقت پسندانہ موقف پیش کیا ، میں ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہوں گا جس سے قوم کے سامنے غلط بیانی ہو ، ناجائز توقعات بڑھانا میرا ایجنڈا نہیں ہے پاکستان کے مؤقف کا دفاع کرنا میری ذمہ داری ہے چنانچہ میں یہ آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا کہ میں نے پاکستان کا نطقہ نظر بردباری سے ، خوداری سے اور ذمہ داری سے پیش کیا اور نتیجہ یہ ہے کہ میٹنگ خوشگوار بھی تھی ، اختتام کس چیز پر ہوا؟ ایک اور دعوت نامے پر اور اب مجھے یہ بتاتے ہوئے مسرت محسوس ہورہی ہے کہ سیکرٹری پومپیو نے مجھے واشنگٹن آنے کی دعوت دی ہے اور میں انشاء الله جب نیویارک جاؤں گا اقوام متحدہ کے اجلاس کیلئے، تو میں اسی دورے کے ساتھ انشاء الله انکے ساتھ ایک مزید ملاقات کا ارادہ رکھتا ہوں جو کہ آج کی گفتگو کے سلسلے کی کڑی ہوگی

یہ ماحول جو میں نے آج مثبت دیکھا، اسکی ایک بنیادی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکا نے بھی اپنی پالیسی کا از سر جائزہ لیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ افغانستان کا جو حل ہے وہ ایک سیاسی سیٹل منٹ ہے اور یہاں امریکا اور پاکستان کا ایک مرتبہ پھر یکساں مؤقف ہے ، یہ وہ مؤقف ہے جو عمران خان صاحب برسوں سے کہہ رہے تھے کہ اسکا کوئی فوجی حل نہیں ہے ، ایک سیاسی حل کی طرف ہمیں جانا ہوگا , تو یہ ایک شفٹ آیا ہے جس میں بات چیت ہو اور سیکٹری پومپیو نے کہا یہ ساری کوشش سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی لیڈ میں ہوگی ، یقیناً اس میں جو اور عوامل ہیں وہ شامل ہونگے جتنے ادارے وہاں مصروف ہیں ان کا ان پٹ بھی ہوگا , انکا تعاون اور انکی مشاورت بھی ہوگی ، تو اسکا عندیہ یہ ملا کہ آج وہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ ڈائیلاگ کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں

اور دوسری بات جو انہوں نے کی ، جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت معنی خیز ہے کہ امریکا افغانستان پر بے جا وقت کیلئے اپنا فٹ پرنٹ نہیں رکھنا چاہتا ، ظاہری طور پر آپ ٹائم لائن تو نہیں دے سکتے کیونکہ وہ وہاں کے زمینی حالات سے منسلک ہے لیکن اس میں ایک بہت بڑا اشارہ بھی ہمیں دکھائی دے رہا ہے
میں نے واشگاف الفاظ میں ان سے کہا کہ اگر اس تعلق نے آگے بڑھنا ہے تو اسکی بنیاد سچائی پر ہونی چاہیے ، بلا ججھک گفتگو ہونی چاہیے ، جو آپ کہنا چاہتے ہیں کہیں میں سنوں گا اور جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ آپ کو سننا ہوگا
جب تک ہم ایک دوسرے کے تحفظات سامنے نہیں رکھیں گے ، سنیں گے نہیں تو پیش رفت نہیں ہوگی , آج ہم نے انکی خواہشات کو بھی سمجھا اور اپنی جو توقعات ہیں وہ بھی ایک اچھے انداز میں پیش کیں , میں نے سیکٹری پومپیو کو واضح اشارہ کیا کہ انکو دیکھنا ہوگا کہ یہ جو نئی حکومت منتخب ہوکر آئی ہے اسکا مینڈنٹ کیا ہے ، لوگوں کی اس سے توقعات کیا ہیں ، جب تک آپ اسکو نہیں سمجھیں گے آپ ہمارے مائنڈ سیٹ سے آگاہ نہیں ہو پائیں گے

یہ ایک نئی حکومت ہے اس سے نئی توقعات وابستہ ہیں اور اسکی ایک نئی اپروچ ہوگی اور اس اپروچ سے میری مراد یہ ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں کو از سڑ نو دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اسی تناظر میں ہم اپنے ہمسایوں کے ساتھ ایک مثبت اپروچ کا اردہ رکھتے ہیں ، تحریک انصاف کی حکومت کا ایک ریفارمز ایجنڈا ہے اور اس ایجنڈے کا مقصد عوام کی بہتری ہے ایک عام پاکستانی شہری کی بہتری ہے , ہمارا مقصد امن ، استحکام اور علاقائی تعلقات کی بہتری اور معاشی ترقی ہے ,اور اگر یہ ہمارا ایجنڈا ہے تو اس کو آگے بڑھانے کیلئے ہماری خارجہ پالیسی کو معاون بننا ہوگا اسلئے ہم ایک نئی اپروچ کے تحت آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں
اور میں آپکی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اسکو سامنے رکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میرا پہلا غیر ملکی دورہ افغانستان کا ہوگا ، جسکی مجھے دعوت بھی ملی ہے
اور افغانستان جو کہ ہمارا ہمسایہ ہے ، ہم ایک دوسرے کا سہارا بھی ہیں ایک دوسرے کی ضرورت بھی ہیں ، جغرافیہ نے ہمیں جوڑا ہے ، روایات ، مذہب اور کلچر نے ہمیں جوڑا ہوا ہے اور ہمارا مستقبل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، وہاں امن ہوگا استحکام ہوگا خوشحالی ہوگی تو یقیناّ پاکستان مستفید ہوگا اور پاکستان اگر ترقی کرے گا تو اسکے فوائد افغانستان کو بھی پہنچ پائیں گے

تو اس اپروچ کے تحت میں انشاء الله جلد ہی افغانستان جانے کا ارادہ رکھتا ہوں اور انشاء اللہ وہاں بات کو آگے بڑھائیں گے
آج کی جو گفتگو تھی وہ پہلے دفتر خارجہ میں ہوئی اور اسکے بعد وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ہوئی ،وزیراعظم سیکریٹریٹ کی گفتگو کا جو فارمیٹ ہے وہ ہم نے اس طرح سے مرتب کیا کہ جب سیکٹری پومپیو سے ملاقات ہورہی تھی تو اس میں وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل باجوہ ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل مختار صاحب موجود تھے اور ہم نے مل بیٹھ کر تبادلہ خیال کیا اور اسکے پیچھے ایک سوچ تھی. عام تاثر دیا جاتا تھا ، جیسے ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ وہ یہاں آئے ، پھر جی ایچ کیو تشریف لے گئے ، وہاں ملاقاتیں ہوئیں اور پھر بہت سے لوگوں نے یہ تاثر دیا کہ دیکھیں جی سویلین کچھ کہتے ہیں اور ملٹری لیڈرشپ کچھ کہتی ہے ، آج کی اس مشرکہ نشست سے ایک بڑا واضح پیغام گیا ہے کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں کوئی تقسیم نہیں ہے

پاکستان کا مفاد سب کو عزیز ہے اور سب پر مقدم ہے اور ہم انشاء الله مل کر اس مفاد کو آگے لے کر چلیں گے ، میں نے جہاں ان سے یہ بات کہ اگر افغانستان میں مذاکرات میں آگے بڑھنا ہے تو پاکستان کی مدد درکار ہوگی وہاں پاکستان یقیناً اپنا مثبت کرداد ادا کرے گا لیکن میں نے ان کو واضح طور پر کہا اگر ہم نے اپنی مغربی جانب دیکھنا ہے اور توجہ دینی ہے تو ہمیں مشرقی جانب سے آسانی اور سہولت درکار ہے ،مثال کے طور پر یہ جو آئے دن لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزی ہوتی ہے اسکا فائدہ کسکو ہورہا ہے؟ اس سے معصوم لوگ متاثر ہوتے ہیں .. تو یہ ضروری ہے کہ ہم اس سمت بھی دیکھیں کہ ہم کس طرح اس میں بہتری لا سکتے ہیں اور کون کیا کردار ادا کر سکتا ہے

میں سمجھتا ہوں کہ آج کی نشست ایک دوسرے کے نطقہ نظر کو سمجھنے کیلئے ایک سیر حاصل نشست تھی ، اور اسکو سمجھ کر اپنے مسقبل کا ڈھانچہ تشکیل دینے کیلئے اگلی نشست واشگٹن میں ہوگی ، میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ اس بلیم اور شیم گیم سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا
ہمارے چیلنجز ہیں ، کئی چیزوں پر ہماری سوچ جداگانہ ہوگی لیکن ہماری میسجنگ بہت اہم ہے ، میں نے جو واضح مثبت چیز محسوس کی وہ یہ ہے کہ آج کی نشست نے ہمارے باہمی تعلقات کو ری سیٹ کرنے کا ماحول بنا دیا ہے ، آخری بات میں یہ کرنا چاہوں گا، کہ جو آپ نے سوالات بھی کیے کہ تین سو ملین ڈالر روک دیا گیا ہے کہ یہ خبر نئی نہیں تھی ، یہ فیصلہ بھی پرانا ہے اور یہ خبر بھی پرانی ہے
وہاں پر انہوں نے فیصلہ کرنا تھا کہ پیسا رہ گیا ہے اس کو ری پروگرام کرنا تھا اور کانگرس کو لکھنا تھا اور وہ اسکے تحت کیا گیا لیکن یہاں یہ تاثر دیا گیا کہ آنے سے پہلے ایک قسط روک دی گئی ، ایسی بات نہیں ہے
دوسری بات ، میں نے غور کیا کہ کیا مجھے ان سے بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے؟ یا نہیں؟ تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ نہیں ! میں یہ نہیں کرونگا کیونکہ ہمارا رشتہ صرف لینے دینے کا نہیں ہے اور خودار قومیں اسی انداز میں سوچتی ہیں ، الله نے ہمیں ایسی آب ہوا اور موسم دیا ہے کہ ہم اپنی کھانے کی گندم اگا سکتے ہیں ، ہم اپنے وسائل سے اپنے لوگوں کو روٹی کھلا سکتے ہیں اور عزت کی دال روٹی کھانے کی ایک بڑی گنجائش موجود ہے ، اسلئے میں نے فیصلہ کیا کہ کسی پیسے کی بات نہیں کرنی ، اصولوں کی بات کرنی ہے اور ایک نئی سمت کی بات کرنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس لحاظ سے آج کی نشست بڑی مفید رہی "