ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کا اردو ترجمہ | Pakistan Tehreek-e-Insaf

Error message

Warning: Creating default object from empty value in ctools_access_get_loggedin_context() (line 1864 of /home/insafpk/public_html/sites/all/modules/ctools/includes/context.inc).
avenfield-reference-urdu-translation

 

ایون فیلڈ ریفرنس

 

بعدالت جناب محمد بشیر ، جج احتساب عدالت اسالم ٓاباد 17A) ، 17،  Aریفرنس نمبر 2017/20 )ایون فیلڈ اپارٹمنٹس نمبر 16 ، 16 سرکار بنام

 

میاں محمد نواز شریف ولد میاں محمد شریف ، عمر 69 سال ، سکنہ (1) شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ الہور

 

مریم نواز )مریم صفدر( دختر میاں محمد نواز شریف ، عمر 43 سال ، (2) سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ الہور

 

کیپٹن )ر( محمد صفدر ولد محمد اسحاق ، عمر تقریباً 54 سال ، سکنہ (3) سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ الہور

 

حسین نواز شریف ولد میاں محمد نواز شریف ، عمر تقریباً 45 سال ، (4) (سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ الہور )مفرور ملزم

 

حسن نواز ولد میاں محمد نواز شریف ، عمر تقریباً 41 سال ے سکنہ (5) (شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ الہور )مفرور ملزم

 

فیصلہ

 

استغاثہ کا موقف حسب ذیل ہے

 

اور نیب ٓارڈیننس 1999 کی  (g)مقدمہ کے حقائق یہ ہیں کہ زیر دفعہ 18 کو ساتھ مال کر پڑھا جائے( کے تحت مندرجہ باال پانچ ملزمان ) ( (dدفعہ 24 کے خالف عبوری ریفرنس دائل کیا گیا۔ ان ملزمان میں سے دو حسین نواز اور حسن نواز سمن ، وارنٹ کے اجراء کے باوجود عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر انہیں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 87 ، 88 کے تحت

 

 

اشتہاری قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد ان دو ملزمان کو مقدمے میں مفرور ؍ اشتہاری قرار دیا گیا۔

 

مبینہ طور پر ’’پانامہ پیپرز‘‘ پانامہ کی الء فرم موسیک فونسیکا کے  -2 ریکارڈ سے منظر عام پر ٓائے جن میں میاں نواز شریف ، مریم صفدر )نواز( ، کیپٹن )ر( محمد صفدر ، حسین نواز اور حسن نواز پر ٓاف شور کمپنیوں کے ساتھ مبینہ تعلق کا الزام سامنے ٓایا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ ٓاف پاکستان میں اٹھایا گیا۔ سپریم کورٹ میں کیس کی کارروائی کے دوران ملزمان نے اپنے اپنے موقف ، خطوط اور دیگر دستاویزات پیش کیں۔

 

معزز عدالت عظمیٰ نے سواالت تیار کئے اور معاملے کی تحقیقات ،  -3 شواہد اکٹھے کرنے کیلئے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم )جے ٓائی ٹی( تشکیل دی ۔

 

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو ایک متفرق درخواست سی ایم اے نمبر -4 2939 سال 2017ء )آئینی پٹیشن نمبر 2016/29 وغیرہ میں( میں 5 جوالئی 2017ء کو تحقیقات سے متعلق ضابط فوجداری 1898 ، نیب ٓارڈیننس 1999 ء اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 1975ء کے تحت تمام اختیارات دئیے گئے ۔

 

جے ٓائی ٹی نے تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ ٓاف پاکستان -5 کو 12 والیمز کی صورت میں پیش کی۔

 

معزز عدالت عظمیٰ نے نیب کو چھ ہفتوں میں ملزمان کے خالف ایون  -6 واقع ایون فیلڈ ہائوس ، پارک لین  17A ، 17،  Aفیلڈ فلیٹس نمبر 16 ، 16 لندن سے متعلق جے ٓائی ٹی کی جانب سے اکٹھے اور پیش کئے گئے شواہد کی روشنی میں ریفرنس تیار اور دائر کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی ہدایت کی کہ اگر ایف ٓائی اے اور نیب کے پاس بھی ان فلیٹس سے متعلق کوئی شواہد ہوں تو انہیں بھی شامل کیا جائے۔ مدعا علیہ نمبر 1 میاں نواز شریف ، مدعا علیہ نمبر 6 مریم نواز شریف )مریم صفدر( ، مدعا علیہ 7 حسین نواز شریف ، مدعا علیہ 8 حسن نواز شریف اور مدعا علیہ 9 کیپٹن )ر( محمد

 

واقع ایون  17A ، 17،  Aصفدر کے خالف ایون فیلڈ فلیٹس نمبر 16 ، 16 فیلڈ ہائوس ، پارک لین لندن جائیداد کے سلسلے میں ریفرنس کی تیاری اور دائر کرتے وقت پہلے کی جانیوالی تحقیقات کے دوران اکٹھے کئے گئے شواہد کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

 

نیب ٓامدن سے زائد اس جائیداد )فلیٹس( کے حصول کے سلسلے میں  (e) مدعاعلیہ نمبر 1 ، 6 ، 7 ، 8 اور 10 کے ساتھ بالواسطہ یا بال واسطہ معاونت فراہم کرنے پر شیخ سعید ، موسیٰ غنی ، کاشف مسعود قاضی ، جاوید کیانی اور سعید احمد سمیت دیگر تمام افراد کو کارروائی میں شامل کرے گا۔

 

اگر ملزمان کے خالف ٓامدن سے زائد کسی اور جائیداد کا پتہ چلے تو (f) نیب ان کے خالف سپلیمنٹری ریفرنس )ریفرنسز( دائر کر سکتا ہے۔

 

اگر احتساب عدالت ملزمان یا ان کے ایماء پر کسی اور کی جانب سے  ( (h پیش کی گئی کسی دستاویز ، معاہدے یا بیان حلفی کو جعلی یا غلط پائے تو متعلقہ افراد کے خالف قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔

 

اس سے قبل سال 2000ء میں مدعا علیہ 1 اور دیگر کے خالف انہی  -7 الزامات پر تحقیقات کی گئی تھیں لیکن تازہ تحقیقات سپریم کورٹ کے حکم پر 3 اگست 2017ء کے خط کی بنیاد پر کی گئیں اور نیب الہور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد عمران کو مجاز بنایا گیا۔

 

یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ملزمان کو تحقیقات کے دوران بالیا گیا لیکن  -8 انہوں نے یہ موقف لیا کہ سپریم کورٹ کے 28 جوالئی 2017ء کے حکم نامے پر نظر ثانی کی ایک درخواست دائر کی ہے ٰلہذا اس کے فیصلے تک تحقیقات موخر کی جائیں۔

 

نومبر 2017ء کو ایک عبوری ریفرنس دائر کیا گیا جس میں ملزمان -9 7 کے تحت کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز ، (xii) اور (a)(iv)(v)پر دفعات 9

 

نیب ٓارڈیننس 1999ء کی دفعہ 10 )کو منسلکہ شیڈول کے ساتھ مال کر پڑھنے سے( کے تحت جرم کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا۔

 

اس عدالت نے قانون کے مطابق ملزمان کے سمن جاری کئے، دو -10 ملزمان حسین نواز اور حسن نواز پیش نہ ہوئے جس پر انہیں اشتہاری قرار دیا گیا جبکہ باقی پیش ہونیوالے تین ملزمان کو ریفرنس ، دستاویزات کی نقول فراہم کی گئیں۔

 

تینوں ملزمان پر مشترکہ فرد جرم عائد کی گئی بعد میں مدعا علیہ نمبر -11 2 اور 3 کی درخواست پر اس میں ترمیم کی گئی۔ ملزمان کے خالف جو ٓاخری الزام عائد کیا گیا اس کا متعلقہ حصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔

 

 

 

 

ٓاپ ملزم میاں محمد نواز شریف عوامی عہدے پر فائز تھے۔ ٓاپ اور ٓاپ ’’ کے اہل خانہ ؍ زیر کفالت افراد ایون فیلڈ مے فیئر جائیداد اپارٹمنٹ نمبر 16 ، واقع پارک لین لندن کے مالک و قابض ہیں اور یہ فلیٹس  17A ، 17،  16A 1993ء سے ٓاپ اور ٓاپ کے اہل خانہ کے قبضہ میں ہیں۔ مذکورہ جائیداد کی خریداری کے لئے سرمائے کا ذریعہ ٓاف شور کمپنیاں میسرز نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور میسرز نیسکول لمیٹڈ اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹ انہی کمپنیوں کی ملکیت کا جواز درست نہیں اور ان کمپنیوں کے حصص رکھنے والوں کو مذکورہ جائیداد کے ذریعے شفاف بنایا گیا۔

 

ٓاپ ملزم میاں محمد نواز شریف ، مریم نواز اور مفرور ملزمان حسین نواز اور حسن نواز مذکورہ جائیداد کی خریداری کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔

 

ٓاپ ملزمہ مریم نواز ایون فیلڈ جائیداد کی ملکیت رکھنے ان کمپنیوں کی بینفشل اونر ہیں۔ کیلبری فونٹ میں جعلی معاہدہ از مورخہ 2 فروری 2016ء پیش کیاگیا حاالنکہ ُاس سال میں ایسا فونٹ اس طرح کے معاہدوں کے لئے دستیاب نہیں تھا۔ اس معاہدے پر ٓاپ ملزمہ مریم نواز اور شریک ملزم کیپٹن

 

)ر( محمد صفدر نے بطور گواہ دستخط کئے۔ یہ معاہدہ پیش کر کے ٓاپ نے تحقیقاتی ایجنسی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔

 

ٓاپ ملزمہ مریم نواز شریف نے جان بوجھ کر مذکورہ اثاثوں کی ملکیت کے بارے میں اصل حقائق اور کمپنیوں کو چھپایا۔ اور ٓاپ سمیت تمام دیگر ملزمان بشمول اشتہاری قرار دئیے گئے ملزمان دستیاب فنڈز کے ذرائع اور ان کی بیرون ملک قانونی منتقلی بتانے میں ناکام رہے۔ جس وقت یہ جائیداد خریدی گئی اس وقت مفرور قرار پانے والے ملزمان کے ذرائع ٓامدن موجود نہ تھے۔

 

اس طرح ٓاپ ملزمان میاں محمد نواز شریف ، مریم نواز شریف اور کیپٹن اور نیب ٓارڈیننس 1999ء کی  ((a)(iv)(v)&(xii)ر( محمد صفدر دفعات 9 دفعہ 10 کے تحت قابل سزا جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔

 

(a)نیب ٓارڈیننس 1999ء کے ساتھ منسلک شیڈول کی سیریل نمبر -12 3 کے تحت جرم سے متعلق حکم نامہ جاری کیا گیا ، یہ عدالت فیصلے کے اعالن میں اس جرم کو سنجیدگی سے لے گی۔

 

ملزمان نے الزامات ماننے سے انکار کیا۔ -13

 

استغاثہ نے 18 جنوری 2018 کا ریفرنس جو 22 جنوری 2018ء کو -14 دائر کیا گیا اس میں ٓاٹھ گواہان پیش کئے۔

 

اس مقدمہ میں کل 18 گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے۔ 8 مئی  -15 2018ء کو استغاثہ نے شہادتیں ختم کیں۔

 

ٹرائل کا سامنا کرنیوالے تینوں ملزمان کے بیانات ضابطہ فوجداری کی  -16 دفعہ 342 کے تحت قلمبند کئے گئے۔انہوں نے اپنے دفاع میں گواہان پیش نہ کرنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ )2(340 کے تحت جرح بھی نہیں کی۔

 

میں نے دالئل سنے اور ریکارڈ کا جائزہ لیا۔ -17

 

استغاثہ کی جانب سے درج ذیل شہادتیں پیش کی گئیں۔ -18

 

 

گواہ استغاثہ : 1 جوائنٹ رجسٹرار ٓاف کمپنیز کمپنی رجسٹریشن ٓافس الہور ایس ای سی پی مسماۃ سدرہ منصور نے نیب کے خط مورخہ 15 اگست 2017ء جو چیئرمین ایس ای سی پی کو لکھا گیا تھا ، کی روشنی میں بتایاکہ وہ نیب الہور کے انوسٹی گیشن ٓافیسر کے روبرو 23 اگست 2017ء کو پیش ہوئیں اور ریکارڈ کی مصدقہ نقول پیش کیں۔ یہ ریکارڈ تفتیشی افسر نے بذریعہ سیزر میمو اپنے قبضہ میں لے لیا اور اس پر انہوں نے دستخط کئے اور انگوٹھے کا نشان ثبت کیا۔جو ریکارڈ پیش کیا اس کی تفصیل یہ ہے۔

 

سال 2000 سے 2005ء تک طویل مدتی قرضوں سے متعلق ساالنہ ٓاڈٹ (i) اکائونٹس رپورٹ معہ کورنگ لیٹر مورخہ 18 اگست 2018

 

جون 2000ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر (ii) 30 ملز لمیٹڈ کے ساالنہ ٓاڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول

 

جون 2001 ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ  (iii) 30 پیپر ملز لمیٹڈ کے ساالنہ ٓاڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول

 

 

 

 

جون 2002ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ  (iv) 30 پیپر ملز لمیٹڈ کے ساالنہ ٓاڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول

 

جون 2003 ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ  (v) 30 پیپر ملز لمیٹڈ کے ساالنہ ٓاڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول

 

جون 2004ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ  (vi) 30 پیپر ملز لمیٹڈ کے ساالنہ ٓاڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول

 

جون 2005 ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ  (vii) 30 پیپر ملز لمیٹڈ کے ساالنہ ٓاڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول

 

 

مسماۃ سدرہ منصور اوپر بیان کئے گئے نقول کا اصل ریکارڈ ساتھ الئیں جو کمپنی نے عدالت کے جائزے کے لئے فراہم کیا تھا )ریکارڈ دیکھ کر واپس کر دیا گیا(۔ طویل مدتی قرضہ -/494,960,000 روپے تھا۔ اس طویل مدتی قرضے کا سٹیٹس 30 جون 2000ء سے لے کر 30 جون 2005ء تک ایک جیسا رہا۔ تفتیشی افسر نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت مسماۃ سدرہ منصور کا بیان بھی قلمبند کیا۔

 

استغاثہ گواہ : 2 محمد رشید ولد محمد مسکین )کورٹ کلرک( اوور ڈگنم اینڈ کمپنی ، ماریانہ ہائٹس سیکنڈ فلور 109 ، ایسٹ جناح ایونیو بلیو ایریا اسالم ٓاباد نے بیان کیا کہ ایک لیٹر بمورخہ 5 ستمبر 2017ء جو نیب الہور کی طرف سے مسٹر ریاض سینئر پارٹنر اموور ڈگنم اینڈ کمپنی کو لکھا گیا ، موصول ہوا۔

 

نیب الہور سے وصول کیں، کچھ دستاویزات اس خط کے ذریعے طلب کی گئیں اور وہ 17/9/6کو دستاویزات کے ہمراہ نیب ٓافس الہور میں تفتیشی افسر عمران سے مال ،اس نے اسے لفافے میں بند دستاویزات حوالے کیں ،جس نے لفافہ کھوال تو اس میں سے یہ دستاویزات نکلیں، اول ،17/9/5کا ایک کورنگ لیٹر ،دوئم ،کوئین بنچ کے حکم کی فوٹو کاپیاں،جوکہ چار صفحات پرمشتمل تھیں ،سوئم ریفرنس کے صفحہ نمبر 117تا122پر مظہر خان بنگش کے بیان حلفی کی فوٹو کاپیاں دستیاب ہیں ،پی ڈبلیو3مظہر خان بنگش ایڈوکیت اور راجہ برکت گلیٹی ایڈوکیٹ سکنہ اسالم ٓاباد نے بتایا کہ میں 17/8/30کو نیب کے تفتیشی عمران کے سامنے نیب الہو ر میں پیش ہوا ،،اسے چند دستاویزات دکھائیں،جن میں کوئین بنچ کے 1999کے حکم کی کاپی سروس بیان حلقفی کی کاپی اور شیزی نقوی کا بیان حلفی بھی شامل تھا ،وکیل نے بتایا کہ سروس کا بیان حلفی اس سے متعلق تھا ،وہ کو بھجوایا گیا تھا ،اس نے کہا کہ اسے نہیں معلوم کہ OrrDignam & Co

 

کمپنی کے مالک نے کیا طریقہ کار اختیارکیا تھا ،تفتیشی نے اس کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کیا تھا ،پی ڈبلیو 4 تھانہ نیب الہور کے سب انسپکٹر مختار احمد نے بیان کیا کہ اسے تفتیشی نے ریفرنس نمبر 2017/20میں 5دفعہ طلب کیا تھا اور وہ شمیم فارم رائے ونڈ روڈ جاتی

 

 

امراء الہور گیا ،اس کے پاس میاں نواز شریف ،کیپٹن صفدر ،بی بی مریم ،حسین نواز اور حسن نواز کے طلبی کے نوٹسز تھے ، جہاناس کی مالقات سیکورٹی افسر عطا ہللا کے ساتھ ہوئی جس نے میاں نواز شریف ،کیپٹن صفدر اوربی بی مریم کے نوٹسز تو وصول کرلئے لیکن حسین نواز اور حسن نواز کے طلبی کے نوٹسز لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیرون ملک رہتے ہیں، اس نے یہ نوٹسز تفتیشی کو واپس کئے اور تفتیشی نے اس کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کیا تھا، پی ڈبلیو5محمد عدیل اختر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب الہور نے بیان کیا کہ میں نے صفحہ نمبر 62اور 111والے میمو ضبط کئے تھے ،اور ان پر میرے دستخط بھی موجود ہیں، اس نے مزید بتایا کہ وہ23اگست 2017کو محمد عمران کے سامنے میاننواز شریف کے خالف کیس میں شامل تفتیش ہوا ،تو کمپنی کی جوائنٹ رجسٹرار سدرہ منصور پیش ہوئیں اور حدیبیہ پیپرز ملز کیس کی دستاویزات پیش کیں اور ضبطگی کا میمو ان کے سامنے تیار کیا گیا ،جس پر انہوننے ،میں نے اور تفتیشی نے دستخط کئے تھے ، سدرہ منصور نے جو ریکارڈ پیش کیا تھا وہ 48صفحات پر مشتمل تھا ،تفتیشی نے ان کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کیا تھا ،17/9/6کو کے کلرک محمد رشید نے ریکارڈ پیش کیا جس میں  OrrDignam & Co کوئین بنچ کا بیان حلفی اور کورنگ لیٹر موجود تھا،تفتیشی نے ان کی

 

ضبطگی کا میمو تیار کیا اور اس پر اپنے ، محمد رشید کے اور دیگر افراد کے دستخط لئے تھے ،جبکہ محمد رشید ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان بھی قلمبند کیا تھا،پی ڈبلیو6ایدیشنل ڈائریکٹر نیب ہیڈ کوارٹر اسالم ٓاباد شکیل انجم ناگرہ نے بیان کیا کہ17/8/15کوایڈیشنل ڈائرکیٹر کوآرڈینیشن پراسیکیوشن ونگ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام جے ٓائی ٹی کی رپورٹ کے والیم 1تا10 کی مصدقہ نقول فراہم کرنے کے حوالے سے درخواستیں لکھی تھیں،جس پر 817/17کو اسسٹنٹ رجسٹرار محمد مجاہد نے والیم 1تا9کی تین تین نقول جبکہ والیم 10 کے چار سیٹ فراہم کئے ،انہوننے ان میں سے ایک سیٹ تیار کرکے کورنگ لیٹر کے ہمراہ 17/8/25کونیب الہور میں پیش ہوکر تفتیشی کو جمع کروایا اور اپنا بیان قلمبند کروایا ،پی ڈبلیو 7اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب الہور زوار منظور نے بیان

 

 

کیا کہ 23اگست 17کو وہ میاں نواز شریف کے خالف ہونے والی تفتیش میں تفتیشی کے سامنے پیش ہوا ،تو کمپنی کی جوائنٹ رجسٹرار سدرہ منصور بھی پیش ہوئیں اور دو صفحات پر مشتمل ایک لیٹر پیش کیا جوکہ مختلف ٓاڈٹ سے متعلق تھا ،یہ دستاویات تفتیشی نے ضبطگی کے میمو میں شامل کیں اور میں نے بطور گواہ اس پر دستخط کئے تھے،پی ڈبلیو 8تھانہ نیب کے سب انسپکٹر عمر دراز نے بیان کیا کہ 17/8/16کووہ طارق شفیع کو

 

طلبی کا نوٹس دینے کے لئے ان کی ماڈل ٹائون کی رہائش پر گیا تو وہاں پر تعینات ایک سیکورٹی گارڈ عبدالطیف نے بتایا کہ وہ تو اپنے خاندان کے ہمراہ 17/7/20کو بیرون ملک چلے گئے ہیں، اس نے نوٹس لینے سے انکار کردیا تو میں واپس چال ٓایا،اسی روز ہی موسیٰ غنی کی رہائش گلبرگ الہور گیا تو پویس گارڈ کے انچارج عامر سے مالقات ہوئی ،جس نے بتایا کہ یہاں پر اس نام کا کوئی شخص نہٰن رہتا ہے بلکہ یہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق دار کی رہائش ہے جوکہ اسالم ٓاباد میں رہتے ہیں، میں وہاں سے واپس ٓاگیا اورتفتیشی نے میرا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان بھی قلمبند کیا ،اس سے قبل ،17/9/6کو تفتیشی عمران کے سامنے پیش ہوا تو کا کلرک محمد رشید پیش ہوا اور اس نے کورنگ  OrrDignam & Co لیٹر کے ساتھ کچھ دستاویزات پیش کیں جن میں کوئین بنچ کے فیصلے کی نقل اور مظہر رضا خان کے بیان حلفی کی نقول تھیں ،جنہیں ضبطگی میمو میں شامل کیا گیا ،اور میں نے بطور گواہ اس پر دستخط کئے تھے تفتیشی نے اس موقع پرمحمد رشیدکا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان بھی قلمبند کیا تھا،پی ڈبلیو 9محمد عبدالواحد خان ڈی جی، ڈائریکٹوریٹ ٓاف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلیکشنز زیرو پوائنٹ نے 18/1/5کو بیان کیا کہ نیب کے دو افسران عمران اور نذیر سلطان ان کے پاس ٓائے اور انہیں وہ سارا مواد دکھایا جوکہ میں نے ہی انہیں بھجوایا تھا اور میں نے اس کی تصدیق کی ، اس مواد میں اول ،ہمارا 17/12/26کا فارورڈنگ لیٹر اور حسن نواز کے ایکسپریس نیوز کو دیئے گئے انٹرو یو کی سی ڈی اور متن شامل تھا ، دوئم 17/12/28کا لیٹر اور پروگرام کل تک کی سی ڈی شامل تھی ، سوئم 17/12/29کے لیٹر کے ساتھ حسن نواز اور حسین نواز کے کیپیٹل ٹالک اور لیکن نامی پروگراموں میں دیئے گئے انٹر ویوز کی سی ڈی اور اس کا

 

 

متن شامل تھا اور یہ نیب الہور کو بھجوائے گئے تھے،چہارم 17/12/30کا فارورڈنگ لیٹر جس کے ہمراہ میاں نواز شریف کے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی سے خطاب کی دو سی ڈیز شامل تھیں ،یہ بھی نیب الہور کو بھجوایا گیا تھا،پنجم ،17/12/28کے دو لیٹر جوکہ میرے ڈائریکٹر عاصم کچھی نے جیو نیوز اور پی ٹی وی کو پروگراموں کے ویڈیو کلپ اور متن کے ھوالے سے بھجوائے تھے ،شامل تھے ،ششم 17/12/27کا لیٹر جوکہ

ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ نے بی بی سی کے بیورو چیف ہارون الرشید کو بھجوایا تھا ،ہفتم ، نواز شریف کا قوم سے خطاب کا چار صفحات پر مشتمل متن ،ہشتم، نواز شریف کے قومی اسمبلی سے خطاب کا متن جوکہ صفحہ نمبر 31تا 36پر ہے ،جس پر وکیل صفائی جے اعتراج کیا تھا کہ یہ ٓائین کے ٓارٹیکل 66کے تحت عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے ،تاہم اسے بھی اوور رول کردیا گیا تھا ۔

 

پروگرام کل تک ایکسپریس نیوز میں حسین نواز شریف کا انٹرویو کا 9/ ترجمہ جو 22صفحات پر مشتمل اور کیس فائل میں شامل ہے پر اعتراض تھا کہ حسین نواز شریف کبھی اس کیس میں عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے نہ ہی اس میں کیس میں گواہ ہیں۔اس پر نیب پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ حسین نواز اس کیس میں اشتہاری ہیں اور وکیل صفائی نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔/10کل تک پروگرام کی سی ڈی کے عالوہ قوم سے خطاب اور قومی اسمبیل میں کی گئی تقریر کی سی ڈیز میں کیس فائل

 

کا حصہ ہیں۔جس پر ائین کے ٓارٹیکل66کے تحت اعتراض تھا پر نیب پراسیکیوٹر کا موقف تھا کہ یہ قابل قبول شواہد ہیں۔تمام چیزیں تفتیشی مقدمہ محمد عمران ڈپٹی ڈائریکٹر نیب الہور سے لی گئیں اور اس موقع پر محمد نذیر سلطان اور میں نے دستخط کئے تھے۔گواہ پی ڈبلیو /10سید مبشر توقیر شاہ ڈائریکٹر ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ ڈویژن وازارت اطالعات و نشریات 5جنوری 2018کو ایوان فیلڈ ریفرنس میں شامل تفتیش ہوئےاور تفتیشی کی طرف سے دکھائے گئی دستاویزات اور ٓارٹیکلز کی تصدیق کی۔گواہ /11وقاص احمد سینئر کوارڈینٹر جیو نیوز اسالم ٓاباد ٓافس نے بتایا کہ 8جنوری2018کو نیب کی طرف سے ایک لیٹر موصو ل

 

 

ہوا جس میں کیپیٹل ٹالک اور لیکن پروگراموں کے بارے معلومات مانگی گئیں تھیں۔انہوں نے شامل تفتیش ہوکر پروگراموں کی ڈی وی ڈی اور ٹرانسکرائب مواد کی تصدیق کی۔کیپیٹل ٹالک پروگرام کے ٹرانسکرائب صفحات13اور لیکت پروگرام کے دوصفحات کیس فائل کے ساتھ منسلک ہیں۔گواہ/ 12زاور منظور اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب الہور جھنونعبوری ریفرنس میں بیان دیا تھا۔ سپلیمنٹری ریفرنس میں بیان کے دس جنوری کو تحقیقات کیلئے پیش ہوئے۔ان کی موجودگی میں جیو کے نمائندے وقاص احمد نے ریکارڈ جمع کرایا۔گواہ گیارہ محمد سلطان نذیر ڈپٹی ڈائریکٹر نیب الہور نے بتایا کہ پانچ جنوری کوعبدالوحید خان ڈی جی ڈائریکٹر ایکٹوانک میڈیا اینڈ پبلیکیشنز نے تین سی ڈیز پیش کیں جو تفتیشی نے قبضہ میں لیں اور کیس فائل کا حصہ بنایا۔اسی طرح تفتیشی نے تین خطوط بھی ریکارڈ کا حصہ بنائے۔سید مبشر توقیر شاہ نے ایک سی ڈی اور بارہ صفحات ٹرانسکرائب مواد کے پیش کئے جو ریکارڈ کا حصہ بنائے گے۔گواہ/14رابرٹ ولیم ریڈلے جو فرانزک اینڈ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ ہیں اور 1976سے اس فیلڈ میں کام کررہے ہیں۔جن کی خدمات کوئسٹ سولیسیٹر نے حاصل کیں تھیں۔انہوں نےدونوں ٹرسٹ ڈیکلریشن،جرمی فری مین کے دستخط سمیت دیگر دستاویزات جو کوئسٹ سولیسیٹر نے فراہم کیں تھیں کاجائزہ لے کر رپورٹ تیار کی تھی۔اس کے مطابق دونوں ڈیکلریشن کے دوسرے اور تیسرے صفحات کسی اور دستاویزات کی کاپی ہیں۔جن کو ری پروڈوس کیا گیا ہے۔اسی طرح دونوں ڈیکلریشن کے صفحات نمبر دو اور تین میں سے یہ بتانا مشکل ہے کہ اصل کونسے ہیں۔اسی طرح دستخطوں کے ساتھ تاریخ بظاہر2006لگ رہی ہے۔جس کو اوور رائیٹ کرکے2004کرنے کی کوشش نظر ٓاتی ہے۔6جوالئی 2017کو دو رپورٹیں لیبارٹری کےسیل بند لفافے میں موصول کیں۔جس کی سولیسیٹر نے تصدیق کی۔کہ یہ اصل کی کاپی ہیں۔مچل لنڈسلے نوٹوی پبلک نے بھی تصدیق کی۔یہ دونوں دستاویزات نیسکول اور نیلسن اور کومبر ڈیکلیرشن کی کاپیاں تھیں۔جو ریکارڈ کا حصہ ہیں۔رابرٹ ولیم ریڈلے جو فرانزک اینڈ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ نے پہلے دیکھی گئی ڈیکلریشن کی کاپیوں اور بعد میں لیارٹری سے موصول شدہ کاپیوں کے جائزہ کے بعد سامنے ٓایا کہ گومبر اور نیس کول و نیلسن ڈیکلریشن کی

 

 

کاپیوں ے دستخط والے صفحات مختلف پائے گے۔دستاویزات میں استعمال ہونے واال فائونٹ کیلبری جو ابتداء میں ونڈو وسٹا پروگرام میں تھا۔جو31جنوری2017تک کمرشل بنیادوں پر دستیاب نہیں تھا۔رابرٹ ولیم ریڈلے جو فرانزک اینڈ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ نے رائے دی کہ لگتا ہے کہ دستاویزات 31جوالئی2017کے بعد تیار کی گئیں ہیں۔ان کا بیان15دسمبر2017کو ریکارڈ کیا گیا۔

 

استغاثہ کے گواہ نمبر پندرہ اختر ریاض راجہ کوئسٹ سولسٹر لندن نے بتایا کہ مذکورہ الفرم جو 1994میں قائم ہوئی جے ٓائی ٹی نے بارہ مئی 2017کو اس فرم کی قانونی خدمات حاصل کیں، کوئسٹ سولسٹر کی خدمات سپریم کورٹ ٓاف پاکستان میں زیرسماعت متعدد پٹیشنز کیلئے لی گئیں وہ پٹیشنز جو سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کیخالف زیرسماعت تھیں، اختر ریاض راجہ نے جے ٓائی ٹی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں زیرسماعت مقدمات کے حوالے سے کاغذات کی نقول حاصل کیں ان دستاویزات میں اسے ایک برطانوی سولسٹر فرم فری مین باکس کا پانچ جنوری 2017کا ایک خط مال مذکورہ خط سولسٹر جیریمی فری مین نے لکھا تھا اس خط میں دو ٹرسٹ ڈیکلریشنز کا حوالہ تھا ایک ٹرسٹ ڈیکلریشن نیسکول اور نیلسن نامی ٓاف شور کمپنی جبکہ دوسرا کومبر گروپ کے حوالے سے تھا، فری مین نے پانچ جنوری 2017کے خط میں لکھا کہ حسین نواز شریف چار فروری 2006کو اس کے دفتر ٓایا اور مذکورہ ڈیکلریشن پر میری موجودگی میں دستخط کئے جن پر میں نے بطور گواہ دستخط بھی کئے، اس موقع پر وکیل صفائی نے اعتراض اٹھایا کہ یہ چیز سنی سنائی بات کے زمرے میں ٓاتی ہے کیونکہ فری مین اس عدالت کے سامنے کبھی بطور گواہ پیش نہیں ہوا )اعتراض مسترد، توجیہہ دالئل میں بیان کی گئی ہے( فری مین نے تصدیق کی کہ کوئسٹ سولسٹر کی طرف سے بھجوائی جانے والی ٹرسٹ ڈیکلریشن کی نقل وہی ہے جس پر اس نے دستخط کئے تھے، مذکورہ باال نقل پر اعتراض اٹھایا گیا کہ یہ دستاویز اصل کی نقل ہے اور قانون شہادت کے ٓارٹیکل 8کے تحت مصدقہ بھی نہیں )اعتراض مسترد، توجیہہ دالئل میں بیان کی گئی ہے( اختر ریاض

 

 

راجہ کو دونوں ڈیکلریشن کاغذات کے پلندے میں سے ملے جن کا اس نے بغور جائزہ لیا اور اسی اثناء میں جے ٓائی ٹی بھی ان دستاویزات کا جائزہ لے رہی تھی، اختر ریاض راجہ نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیکلریشن میں بہت ساری غلطیاں تھیں اور یہ ڈیکلریشن جعل سازی لگتے ہیں، وکیل صفائی نے اعتراض اٹھایا کہ یہ گواہ کی رائے ہے جو بطور شہادت قابل قبول نہیں جس پر گواہ نے کہا کہ جعل سازی اور غلطیاں اتنی زیادہ تھیں جیساکہ یہ کسی کاغذ کا )فرینکسٹائن ورژن( ہو، جب اختر ریاض راجہ نے یہ فرینکسٹائن جعل سازی دریافت کرلی تو جے ٓائی ٹی نے اس سے کہا کہ وہ اس کی تصدیق کیلئے کسی ماہر کی خدمات حاصل کریں، انہوننے کہا کہ کوئی بھی عام ٓادمی ان کاغذات کو دیکھ کر جعلی ہونے بارے تصدیق کر سکتا ہے لیکن اس کیلئے کسی ماہر کی رائے بھی ضروری ہے، اختر ریاض راجہ نے پہلے ٹرسٹ ڈیکلریشن کے حوالے سے فری مین باکس نامی قانونی فرم کے وکیل جیریمی فری مین کو 27جون 2017کو ایک خط لکھا مذکورہ خط اختر ریاض راجہ کو کیمرے پر دکھایا گیا جب وہ بذریعہ ویڈیو لنک اپنی شہادت قلمبند کروا رہے تھے، لیکن اس خط کے ساتھ جیریمی فری مین کا خط بھی لف تھا اور دونوں ٹرسٹ ڈیکلریشن بھی ساتھ تھیں، صفحہ نمبر 106سے لیکر 111تک کی منسلکہ دستاویزات انہی دستاویزات کی نقول معلوم ہوتی ہیں جو اس کے خط کے ساتھ لف تھیں، اختر ریاض نے جیریمی فری مین کو مذکورہ خط بذریعہ ای میل بھجوایا جس کا جواب نہ ملنے کی صورت میں اس نے یہ خط کسی کے ہاتھ بھجوایا اس شخص کے پاس 27جون 2017کی اس ای میل کی کاپی بھی موجود ہے، 29جون 2017کو اختر راجہ کو جیریمی فری مین کی ای میل موصول ہوئی جیریمی فری مین نے اپنی ای میل میں بیان کیا کہ حسین نواز شریف اصل ٹرسٹ ڈیکلریشن کی دستاویزات کے ساتھ اس کے دفتر ٓایا تھا اور یہ وہی دستاویزات ہیں جو اختر راجہ نے 27جون 2017کے خط کے ساتھ منسلک کی تھیں ان دستاویزات کی نقل والیم چار کے صفحہ 89پر موجود ہیں، جیریمی فری مین نے اپنے خط میں حسین نواز شریف اور ایک گواہ وقار کے دستخطوں کی نصدیق کی اس نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پانچ جنوری 2017کے خط کے مندرجات درست تھے، 29جون 2017کو جب جے ٓائی ٹی نے اختر

 

 

راجہ کو کسی ماہر کی خدمات کے حصول کیلئے مجاز مقرر کیا تو اسی دن اس نے رابرٹ ریڈلے سے رابطہ کیا اور اختر راجہ نے جے ٓائی ٹی کو ریڈلے کی خدمات لینے کی سفارش بھی کی اس نے ریڈلے کی قابلیت اور بطور ماہر گواہ موزونیت کے حوالے سے چھان بین کی تھی، اختر ریاض اور ریڈلے کے درمیان 30جون 2017تک بات چیت ہوتی رہی اس نے ریڈلے کو نیلسن، نیسکول اور کومبر کمپنیوں کی ڈیکلریشن کی نقول فراہم کیں جے ٓائی ٹی سے متعین ہدایات لینے کے بعد اختر ریاض نے ریڈلے کو کام کے حوالے سے کچھ ہدایات دیں جن کا ذکر اس نے اپنی چار جوالئی 2017کی رپورٹ میں کیا، اس نے جے ٓائی ٹی کو اپنی پہلی رپورٹ چار جوالئی 2017کو فراہم کی، پانچ جوالئی 2017کو جے ٓائی ٹی نے اسے بتایا کہ وہ اسے ڈیکلریشن کے دو ورژن مزید بھجوا رہے ہیں مذکورہ ورژن چھ جوالئی 2017کو لندن پہنچے یہ ورژن ہیتھرو ایئرپورٹ سے براہ راست مسٹر ریڈلے کی لیبارٹری تک پہنچائے گئے جن کا جائزہ لینے کے بعد ریڈلے نے ٓاٹھ جوالئی 2017کو دوسری رپورٹ دی دونوں رپورٹس ریڈلے کی لیبارٹری میں سیل کی گئیں اور ان کو پاکستان پہنچایا گیا، جب دونوں رپورٹس اور ڈیکلریشن کا دوسرا سیٹ سیل کر کے پاکستان بھجوایا گیا اس وقت ریڈلے اپنی لیبارٹری میں موجود تھا، اختر راجہ نے التوفیق کمپنی کے حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے دائر مقدمہ کے بارے میں بھی جے ٓائی ٹی کی ہدایت پر کمنٹری لکھی مذکورہ کمنٹری میں جسٹس کوئین بینچ ڈویژن لندن کے 1999کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں شہباز شریف اور شریف فیملی کے دو اور افراد مدعاعلیہہ تھے، پانچ نومبر 1999کی اس ججمنٹ میں مدعا علیہان کو دو کروڑ ڈالرز کی ادائیگی کا کہا گیا تھا، اختر ریاض راجہ کی کمنٹری ڈان اخبار میں شائع ایک ٓارٹیکل پر مبنی ہے، اختر راجہ کا بیان نیب نے قلمبند نہیں کیا، استغاثہ کے گواہ نمبر 16واجہ ضیاء نے اپنے بیان میں بتایا کہ 20اپریل 2017کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے وقت وہ ایف ٓائی اے میں بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل امیگریشن کام کر رہا تھا سپریم کورٹ نے مذکورہ فیصلے کی رو سے ایک جے ٓائی ٹی بنائی جس کا اس کو سربراہ مقرر کیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ جے ٓائی ٹی کا سربراہ ایک ایسا شخص ہونا چاہئے جس کو وائٹ کالر

 

کرائمز کی تفتیش کا تجربہ ہو، جے ٓائی ٹی کے دوسرے ممبران قومی احتساب بیورو، سیکورٹی ایکسچینج کمیشن ٓاف پاکستان، سٹیٹ بینک ٓاف پاکستان، ٓائی ایس ٓائی اور ایم ٓائی سے لئے گئے تھے، مذکورہ اداروں کے سربراہان سے کہا گیا کہ وہ اپنے اداروں سے اچھی ساکھ کے حامل افسران تجویز کریں، واجد ضیاء نے بتایا کہ ایف ٓائی اے سے تین افسران کا نام تجویز کیا گیا جن میں حتمی انتخاب میں ان کا نام بھی شامل تھا، جے ٓائی ٹی کو ان سواالت کے جواالت تالش کرنا تھا، گلف سٹیل ملز کس طرح قائم ہوئی، کن وجوہات کی بنا پر اسے فروخت کیا گیا، اس کے ذمہ واجب االدا قرضہ جات کس طرح اتارے گئے اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے واال پیسہ کہاں گیا، وہ پیسہ جدہ، قطر اور برطانیہ کیسے پہنچا، حسین نواز اور حسن نواز کے پاس کم عمری میں کیا ایسے ذرائع موجود تھے جن سے وہ لندن میں فلیٹس خرید سکتے، قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کیا ایک حقیقت ہے یا افسانہ۔ قطریوں کے ساتھ شیئرز کس طرح فلیٹس کی صورت میں متشکل ہوئے، نیلسن انٹرپرائزز اور نیسکول لمیٹڈ کا اصل بینی فشل اونر کون ہے، ہل میٹل سٹیبلشمنٹ کس طرح معرض وجود میں ٓائی، فلیگ شپ انوسٹمنٹ کمپنیز قائم کرنے کیلئے حسن نواز کے پاس پیسے کہاں سے ٓائے، مذکورہ کمپنیوں کے لئے بنیادی سرمایہ کہاں سے ٓایا اور کس طرح اس نے کروڑوں روپے کی رقومات نواز شریف کو بطور تحفہ دیں، یہ اصل سوال ہیں جن کا جواب تالش کرنے کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ جے ٓائی ٹی اس کیس کی تحقیقات اور شواہد بھی تالش کرے کہ ٓایا نواز شریف یا اس کے زیرکفالت بے نامی دار افراد کے پاس ایسے اثاثے موجود ہیں جو ان کے معلوم ذرائع ٓامدن سے مطابقت نہیں رکھتے، سپریم کورٹ نے جے ٓائی ٹی کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس سے متعلقہ مواد اور شواہد کا جائزہ بھی لے اگر ایسا کوئی مواد پہلے سے نیب یا ایف ٓائی اے کے پاس موجود ہے، جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ لندن فلیٹس کن ذرائع سے حاصل کئے گئے، واجد ضیاء نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی مصدقہ نقل پیش کی، سپریم کورٹ نے پانچ 2017کو جے ٓائی ٹی تشکیل دی جس میں سٹیٹ بینک ٓاف پاکستان کے گریڈ 21کے افسر عامر عزیز، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے بالل رسول، قومی احتساب

 

بیورو سے عرفان نعیم منگی، ٓائی ایس ٓائی سے بریگیڈیئر نعمان سعید اور ایم ٓائی سے بریگیڈیئر کامران خورشید شامل تھے، جبکہ واجد ضیاء اس کی سربراہی کر رہے تھے، سپریم کورٹ نے تحقیقات کے ضمن میں جے ٓائی ٹی کو مخصوص اختیارات بھی دیئے، جے ٓائی ٹی نے اپنا کام ٓاٹھ مئی 2017کو شروع کیا اور دس والیم پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی، جے ٓائی ٹی نے وہ تمام دستاویزات اکٹھی کیں جو سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں نے پٹیشن نمبر 29کے ساتھ لف کی تھیں، جے ٓائی ٹی نے مدعا علیہ کے بیانات اور ان کی طرف سے جمع کروائی گئی دستاویزات بھی جمع کیں، جے ٓائی ٹی نے مختلف اداروں جیساکہ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن ٓاف پاکستان، ایف ٓائی اے، نیب، مختلف بینکس اور دیگر اداروں سے بھی مواد جمع کیا، دوران تفتیش جے ٓائی ٹی نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ اس کیس میں بہت ساری دستاویزات اور واقعات کا تعلق بیرون ممالک سے ہے، بیرون ممالک سے خط وکتابت کیلئے جے ٓائی ٹی کے سربراہ کو نیب ٓارڈیننس کی سیکشن 21کے اختیارات تفویض کئے گئے اس کے بعد جے ٓائی ٹی نے بیرون ممالک سے خط وکتابت کا ٓاغاز کیا جن میں برطانیہ، برٹش ورژن ٓائی لینڈ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک شامل تھے، جے ٓائی ٹی نے ایسے افراد کے بیانات قلمبند کرنے شروع کئے جو ان واقعات کے ساتھ شناسائی رکھتے تھے جن میں نواز شریف، شہباز شریف، جے ٓائی ٹی کا والیم گواہوں کے بیانات اورتجزیوں پرمبنی ہے۔ گواہوں کے بیانات، سمن اور II گواہوں کی طرف سے پیش کئے گئے مواد وغیرہ ایک الگ فولڈر میں رکھے گئے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو پیش کئے گئے۔ عدالت کے اور 10کے سیٹ سپریم کورٹ -Aحکم پر انہوں نے والیم نمبر 2,3,4,5,9,9 سے الکر پیش کئے۔ ٓائینی پٹیشن نمبر29اور سی ایم ایز کے جائزے کے بعد جے ٓائی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے متعلق سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھایا گیا سوال درحقیقت ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سترہ، سترہ اے، 16 اور 16اے سے متعلق ہے اور پورا کیس کا جواب دہندہ اور اب اس کا کیس کے ملزم نے مختلف سی ایم ایز کے ذریعے دفاع کیا ہے۔ ان اپاٹمنٹس کی ملکیت اور تحویل حوالے سے

 

 

تفصیالت 15نومبر 2017کو پیش کئے گئے سی ایم اے میں موجود ہیں جو جواب دہندگان نمبر6، 7اور 8 اب ملزمان مریم صفدر، حسین نواز شریف اور حسن نواز شریف کے ضمنی بیانات پر مشتمل ہے، متذکرہ باال سی ایم اے میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ گلف سٹیل نام کی فیکٹری ملزم کے والد محمد شریف مرحوم نے 1974 میں قائم کی۔ یہ فیکٹری میاں محمد شفیع مالک کی حیثیت سے چالتے رہے جبکہ اس کے اصل مالک محمد شریف تھے۔ بیان میں بتایا گیا کہ گلف سٹیل کے 75فیصد شیئرز 21ملین درہم میں فروخت کر کے یہ رقم بی سی ٓائی بینک کو قرضے کی واپسی کے لئے ادا کردی گئی۔ جس کے بعد ملز کے خریدار عبدہللا علی کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کیا گیا جس کے تحت عبدہللا ایل، ایل مل )سابقہ نام گلف سٹیل( مل کے 75فیصد اور میاں شفیع 25 فیصد شیئرز کے مالک بن گئے۔ 1980میں میاں شفیع نے محمد شریف کی جانب سے یہ 25فیصد شیئرز بھی 12ملین درہم میں عبدہللا ایل کو فروخت کردیئے یہ رقم قطر کے شاہ خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری میں لگا دی۔ قطری شاہی خاندان نے متذکرہ باال اپارٹمنٹس نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے نام پر خریدے تھے اور ملزم میاں محمد نواز شریف کے بیٹوں نے بنیادی کرائے اور سروسز چارجز کی ادائیگی کے بعد ان اپارٹمنٹس میں رہنا شروع کردیا۔ 2006 میں حسین نواز شریف اور قطری شاہی خاندان )شہزادہ حماد بن جاسم الثانی( کے درمیان بیر سر شیئرز کی منتقلی کے معاہدے کے بعد ان اپارٹمنٹس کی ملکیت تبدیل ہو گئی۔ اور ملزمہ مریم صفدر 2006 میں طے پانے والی ٹرسٹ ڈیڈ کے نتیجے میں حسین نواز شریف کی ٹرسٹی بینی فشری بن گئیں اس سی ایم اے کے ساتھ کئی دستاویز پیش کی گئیں۔ سی ایم اے432بنیادی طور پر گلف سٹیل کی فروخت کی منی ٹریل کی تفصیالت بیان کرتا ہے جو پہلے ہی متذکرہ سی ایم اے اور دیگر دستاویزات میں فراہم کی گئی ہیں۔ان دستاویزات اور سی ایم اے میں قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری، بیرسر شیئرز کے ذریعے ملکیت کی منتقلی اور منی ٹریل کی منتقلی میں وقفوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ سی ایم اے جواب دہندگان نمبر7اور 8حسین اور حسن نواز نے26جنوری 1917 کو فراہم کیا تھا۔ سی ایم اے نمبر7531والیم نمبر 2017/7531کے صفحات ایک سے 7تک ان کے اعتراضات کے ساتھ

 

موجود تھے۔ پراسیکیوٹر نے ٓارٹیکل 85)3(قانون شہادت ٓارٹیکل 88مجریہ 1984 کے تحت یہ اعتراضات رد کر دیئے گواہ نے دستاویزات کا جائزہ اور مطالعہ کیا۔ )اعتراضات رد کرنے کی وجہ ادھر بیان کی گئی ہے( انہوں نے 12نومبر 2016کو متذکرہ باال سی ایم اے کے تحت طارق شفیع کے بیان کی تصدیق شدہ کاپی پیش کی جس کی فوٹو کاپی والیم سی ایم اے نمبر7531 کے صفحات 59 سے 62تک موجود ہے۔ )انہوں نے یہ تفصیالت بھی اعتراضات کے ساتھ پیش کی ہیں جو پراسیکیوٹر نے رد کر دی ہیں( طارق شفیع کا بیان حلفی بھی صفحہ 20سے 21تک موجود ہے۔ )انہوں نے بھی یہ بیان اعتراضات کے ساتھ پیش کیا ہے جسے پراسیکیوٹر نے رد کردیا( ان دو بیان حلفی میں گلف سٹیل کے قیام 1978اور 1980 میں اس کی فروخت،1980 میں اہل سٹیل کی فروخت اور12ملین درہم کی قطری خاندان کو منتقلی کی تفصیالت درج ہیں جے ٓائی ٹی نے ان دو بیان حلفی کا اپنی رپورٹ میں تفصیل سے ذکر کیا ہے )یہ رپورٹ گلف سٹیل ملز والیم 3کے صفحہ 5 سے21تک موجود ہے( جس میں جے ائی ٹی نے تضادات اور بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے اور طارق شفیع کی جے ٓائی ٹی کے روبرو تحقیقات کے دوران بھی یہی تضادات اور بے قاعدگیاں سامنے ٓائیں۔سپریم کورٹ نے اپنے سواالت سے ایک میں جے ٓائی ٹی سے خاص طور پر یہ سوال کیا کہ گلف سٹیل کیسے قائم ہوئی۔ اس سوال کا جواب بیان حلفی کے پیرا7میں موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ سٹیل مل زیرو ایکیوٹی اور 100فیصد قرضے کے ساتھ قائم کی گئی جبکہ متذکرہ بیان حلفی کا پیرا صاف طور پر کہتا ہے کہ ایک اور شخص محمد حسین جو کہ برطانوی باشندہ ہے اور یو کے میں رہتا ہے اس کا ایک پارٹنر ہے اور یہ کبھی بھی گلف سٹیل کی سرگرمیوں کا حصہ نہیں رہا طارق شفیع اور دیگر گواہ اس کی وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ اس کاروبار میں کوئی اور ایکیویٹی نہیں تھی اوروہ اس وقت اس کے ورکنگ پارٹنر نہیں ہیں۔اور یہ کہ گلف سٹیل ملز کے قیام میں ان کا کیا کردار تھا طارق شفیع اور گواہ حسین سے جے ٓائی ٹی نے کہا کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے بینک قرضہ جیسی ٹھوس دستاویزات پیش کریں جو وہ نہ کر سکے۔ انہوں نے شیئرز کی فروخت کے معاہدے کی تصدیق شدہ کاپیاں پیش کیں جن کی فوٹو

 

 

کاپیاں والیم کے صفحات 20سے 39 تک موجود ہیں۔ سی ایم اے167 تین فریقوں محمد شفیع، اہلی اور بی سی سی ٓائی کے مابین ہے جس کے مطابق فروخت سے حاصل ہونے والے تمام 21ملین درہم بی سی سی ٓائی کو جائیں گے۔کمپنی کے کل36ملین درہم کے تقریبا شیئرز تھے اور بی سی سی ٓائی کو ادائیگی کے بعد بھی گلف سٹیل کے ذمہ 14ملین درہم واجب االدا تھے۔ یہ ادائیگی طارق شفیع کے ذمہ تھی جوملز چال رہے تھے جس کے مالک محمد شریف تھے، ان میں6 ملین درہم بی سی سی ٓائی کے واجب االدا تھے جبکہ دیگر پانی اور بجلی کے چارجز کے واجبات کی شکل میں ادا کرنے تھے۔1978 میں طارق شفیع اور عبدہللا اہلی کے درمیان ہونیوالے پارٹنر شپ معاہدے کے مطابق 25 فیصد شیئر کے مالک طارق شفیع اور بقیہ 75 فیصد شیئر کے مالک عبدہللا اہلی تھے اس معاہدے کی فوٹو کاپیاں والیم سی ایم اے 7531کے صفحات40 سے 51 پر موجود ہیں جبکہ14اپریل 180کو ہونیوالے ایک اور معاہدے کی کاپیاں صفحات52 سے لیکر 55 تک موجود ہیں، یہ معاہدہ طارق شفیع کے نمائندے شہباز شریف اور محمد عبدہللا اہلی کے درمیان طے پایا تھا، جب اس بات کی تصدیق مانگی گئی تو شہباز شریف اور طارق شفیع دونوں نے اس دستاویز پر دستخط کرنے کی صحت سے انکار کیا۔14اپریل1980کو ہونیوالے اس معاہدے میں اس بات کے واضح وضاحت کی گئی تھی کہ بنک گارنٹی عبدالرحمٰن اہلی فراہم کرینگے۔

 

سی ایم اے نمبر(1) 432

 

شیئر سیل (2)

 

لیٹر ٓاف کریڈٹ کی فوٹو کاپی سی ایم اے432کے صفحات36 سے39 پر (3) موجود ہیں۔

 

حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے خطہ کی کاپی سی ایم اے نمبر(4) 7638 پر مالحظہ کی جاسکتی ہے۔

 

شیخ حماد بن جاسم کا 22 دسمبر 2016کو لکھے گئے خطہ کی کاپی  (5) میں سی ایم اے432کے صفحہ نمبر22پر مالحظہ کی جاسکتی ہے۔

 

  • شیخ حماد بن جاسم کی طرف سے لکھے گئے خط کی فوٹو کاپی دیکھی 14 اور واپس کی گئی، مذکورہ باال خط وزارت امور خارجہ کو بھیجا گیا اور

 

)EX.اس ضمن میں خط سیکرٹری امور خارجہ کو لکھا گیا )صفحہ 67 ٓافس کاپی دیکھ کر واپس کی گئی(۔)، PW-16-20

 

  • ڈائریکٹر ایس ایس پی ٓافاق احمد کی طرف سے لکھے گئے خط کی 15 فوٹو کاپی ایک بند لفافے میں موصول ہوئی یہ خط بھی دیکھ کر واپس کیا

گیا۔

 

انہوں نے جو خط پیش کیا وہ کھلی ہوئی حالت میں تھا جبکہ فوٹو کاپی جو یہ ) Ex.Pw 4622 -84 خط کی لی گئی وہ بھی پیش کی گئی صفحہ نمبر بھی دیکھ کر واپس کی گئی( ایک بند لفافے کے پہلے صفحے کی فوٹو کاپی ہے وہ بھی دیکھ کر واپس کی گئی۔ جے  Ex.pw-16/23 (جو صفحہ 92( ٓائی ٹی کے ممبر کی موجودگی میں ایک تصدیق شدہ میمو کی کاپی حوالے ہے، Ex.pw 16-24 کی گئی۔ اس میمو کے صفحہ 85 والیم نمبر5 کا صفحہ یہ بھی دیکھ کر واپس کی گئی۔

 

ایک خط جو مورخہ 207-6-23 کو لکھا گیا جس میں جے ٓائی ٹی چیئرمین کو ٓافاق احمد کی طرف سے مخاطب کیا گیا بھی اس کے ساتھ منسلک ہے، جوکہ ایک ڈیلیوری رپورٹ فیکس ٹرانسمیشن کی ہے اور اس کے ساتھ EX.PW 1625 کوریئرر کی رسید بھی منسلک ہے، یہ بھی اسی طرح دیکھا گیا، فوٹو کاپی جو عزت مآب شیخ حماد بن جاسم کو مورخہ-6-22 ہے )اس کی 2017 (Page 74)EX.PW-16/26 کو بھیجی گئی ان کا حوالہ دفتری نقل بھی دیکھ کر واپس کی گئی(۔ ایک فوٹو کاپی فیکس رپورٹ کی ہمارے دفتر نے موصول کی جوکہ 2017-6-22 کو لکھے گئے خط کی ہے یہ فیکس  EX.PW-16/25 وصولی کی بابت تھی، جوکہ منسلکہ حوالہ صفحہ )77 ہے، یہ دراصل فوٹو کاپی کی فوٹو ) EX.PW-1627 رپورٹ کاپی تھی جو تصدیق شدہ بھی نہیں تھی اس میں نہ تو گواہوں کے پتے تھے نہ وصول کنندہ کے متعلقہ کاغذات موجود تھے۔

 

 

ڈی ای ایل کی فوٹو کاپی جو درحقیقت کاغذات کی ٹرانسمیشن سے متعلق اور  PW-16-B تھی 17-6-22 بھی اس طرح دیکھی گئی اس کا حوالہ نمبر صفحہ نمبر73 ہے۔

 

ٓافاق احمد کے خط کی نقل جس میں جے ٓائی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو مخاطب کیا گیا سربمہر لفافے میں دوحہ میں واقع سفارتخانے کے ذریعے وصول ہوئی، جس میں تصدیق کی گئی کہ خط مذکورہ عبدالحماد عبدالراشد جو سیکرٹری ہیں شیخ حماد بن جاسم کے ان کو پہنچا دیا گیا ہے، اس طرح صفحہ نمبر )69 ہے اسے بھی دیکھ کر واپس ) EX.PW 16/28 اس کا نمبر کر دیا گیا۔

 

فوٹو کاپی جو حماد بن جاسم کے خط کی تھی جس میں جے ٓائی ٹی سربراہ اور صفحہ 87 ہے اسے  EX.PW 16/29 کو مخاطب کیا گیا، اس کا حوالہ بھی دیکھ کر واپس کیا گیا۔

 

دوحہ میں واقع پاکستانی سفارتخانے کے سفارت کار شہزاد کے خط کی کاپی جس میں ظاہر کیا گیا کہ منسلکہ خط عبدالحماد عبدالراشد کو پہنچا دیا صفحہ 86 ہے۔ /C) PWگیا وہ بھی اسی طرح درج ہوا جس کا حوالہ 16(

 

اسی طرح سفارتکار شہزاد احمد کی طرف سے وزارت خارجہ امور میں اور صفحہ EX.PW-130 سلمان شریف کو لکھے گئے خط کا حوالہ نمبر نمبر 88 ہے۔

 

شیخ حماد بن جاسم الثانی کی طرف سے جے ٓائی کو لکھے گئے خط کا صفحہ نمبر 89 ہے، یہ خط ایک اورخط نمبر EX.PW 16/31 حوالہ نمبر سے منسلک تھا۔ EX.PW/1630

 

چیئرمین جے ٓائی ٹی واجد ضیاء کے نام لکھے گئے خط کا حوالہ نمبر صفحہ 78 ہے جو ٓافاق احمد ڈائریکٹر ایس ایس پی نے  EX.PW 16/32 وزارت خارجہ کے ذریعے لکھا اور ہمارے دوحہ میں واقع سفارت خانے کے ذریعے وصول ہوا۔ یہ بھی سربمہر خط تھا۔

 

ایک خط سربراہ جے ٓائی ٹی نے مورخہ 2017-7-4 کو شیخ حماد بن جاسم اور صفحہ 82(سے )79 ہے یہ EX.PW 1633 کو لکھا اس کا حوالہ نمبر خط بھی دیکھ کر واپس کر دیا گیا۔ یہ خط وزارت خارجہ امور کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔

 

شیخ حماد بن جاسم الثانی کے ایک اور لکھے گئے خط مورخہ 2017-7-6 کی نقل بھی برائے مالحظہ ہمراہ ریکارڈ ہے جس میں حماد بن جاسم نے اور صفحہ نمبر 93 ہے PW-16D جے ٓائی ٹی کو مخاطب کیا اس کا حوالہ یہ خط کورنگ لیٹر کے طور پر موصول ہوا اور ایک ای میل بھی اس کورنگ لیٹر کے ساتھ مالئی گئی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے معزز رجسٹرار کی طرف سے لکھا گیا اصل خط بھی پیش کیا جو کہ ایک سربمہر لفافے میں دیا گیا تھا۔ وہ لفافہ عدالت میں کھوال گیا۔ اس طرح ایک کھال لفافہ، کورنگ لیٹر اور ایک اور لفافہ عدالتی کسٹڈی میں محفوظ رکھا گیا، جسے معزز عدالت کے حکم کے مطابق محفوظ رکھا گیا، اس کا اعالن -7-28 2017 کو کہا گیا۔ یہ لفافہ ایک ٹیپ کے ساتھ بند کیا گیا، یہ لفافہ ایک عربی کے گواہوں Dاور انگلش میں لکھے گئے خط کو لئے ہوئے ہے، جوکہ 16 جو انہوں نے دفتر خارجہ کے ذریعے خطوط وصول کئے ان سے مختلف -ہے، اور یہ خط انگریزی متن واال ہے۔ تاہم جب یہ خط دیکھا گیا تو وہ 16 سے مختلف تھا۔ D

 

گواہوں نے بھی کہا کہ یہ خط اس خط کی طرح ہے جو فائل میں موجود ہے اس موقع پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ ریکارڈ مرتب کرنے کیلئے ایک درخواست فائل کریں گے۔ اس موقع پر تمام لفافے دیکھ کر واپس کر دیئے PW- گئے۔ اسی طرح التوفیق کمپنی اور حدیبیہ پیپر ملز جو کہ حوالہ نمبر ہے پر اعتراض ہوا کہ مذکورہ کاغذات شواہد کے مطابق نہینیہ سب  16F صفحہ 189 سے 191 تک ہے۔ اسی طرح دوسرے ریکارڈ کی نقول منسلکہ صفحہ 211، حدیبیہ پیپرز کے ریکارڈ کی نقول منسلک ہوئیں جن کا نمبر EX.PW بطور ریفرنس دستیاب ہے اس کی تصدیق شدہ نقول CMA.432 ہیں جن پر یہ اعتراض درج کیا گیا کہ یہ دراصل فوٹو کاپیوں کی  1634 فوٹو کاپی ہے یہ تصدیق شدہ بھی نہیں ہیں اس لئے یہ غیر متعلقہ ہیں، اس

 

کے بعد انہوں نے دو تصدیق شدہ نقول فراہم کیں جو ایک ٓائینی درخواست نمبر 29.2016 کے دی گئیں جو عدالت عظمیٰ میں دی گئی تھی۔ اسی طرح ہے اور EX.PW 16/37 سی ایم اے نمبر 753116 جس کا مزید حوالہ ہے پیش کی گئی ہیں، جن پر یہ اعتراض درج کیا گیا  EX.PW/ 1638 مذکورہ تصدیق شدہ کاپیاں ایک کاپی کی فوٹو سٹیٹ ہیں پھر ایک تصدیق شدہ نقل دفتری بھی فراہم کی گئی۔

 

 

 

 

رجسٹرار کی ایک نقل بابت ایون فیلڈ پیش کی گئی، یہ فوٹو کاپی پہلے سے صفحہ نمبر 73 سے صفحہ نمبر 76 سی ایم اے 16/7531 موجود تھی، اس طرح رجسٹرار کی ایک دفتری نقل مزید بھی پیش کی گئی جو 17 ایون فیلڈ صفحہ نمبر EX.PW-1640 سے ہی متعلق تھی، مذکورہ دستاویزات کا نمبر 77 اور 78 ہے

 

ایون فیلڈ کی بابت بھی ایک  -Aمورخہ 1995-317 کے حوالے سے 16 ہے اور  EXPW-1642 تصدیق شدہ نقل پیش کی گئی۔ مذکورہ نقل میں ہے۔  CMA7531/16صفحہ نمبر81 سے 82 تک موجود ہے اس کا نمبر کمبور کمپنی سے متعلق ایک حلف نامہ دیا گیا جس کی نقول پیش کی گئیں جو کہ ملزمان مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان تھا جس کا حوالہ صفحہ83 سے 86 ہے اس کا حوالہ نمبر  EX.PW1643 ہے، اس کی تصدیق شدہ نقول دیکھ کر واپس کر دی  CMA7531/16بھی گئیں۔

 

نیسکول اور نیسلسن سے متعلقہ حلف کی نقول مابین ملزمان مریم نواز اور پیش کی  CMA NO7661/16صفحہ مبر3 تا6، EXPW-1614حسین نواز گئیں، یہ تصدیق شدہ نقول تھیں، انہوں نے سٹیفن ماورلے سمتھ کی رائے پر مشتمل مصدقہ نقول پیش کیں جن پر2017-1-12 کی تاریخ درج تھی، اس کی نقول والیم سی ایم اے 17/432صفحہ نمبر107 موجود ہیں اس ضمن پر اعتراض پر تصدیق شدہ نقول گواہوں کی جانب سے پیش کی گئیں اور یہ

 

 

بھی کہا گیا کہ ماہرین کی رسمی رائے کے بغیر یہ ثبوت قابل قبول نہیں ہیں۔ انہوں نے ماہرین کی رائے زیر غور الئیں۔ ایک میں کہا گیا متین نمبر 1645 پر ہے اور دوسرے کا صفحہ نمبر 68 سے صفحہ نمبر88 تک ہے ہے۔ اس کے ساتھ منسلک حوالہ  IVجس کا والیم نمبر پر بھی موجود ہے۔ EXPW16/46 ہے، جوکہ CMA896/2017نمبر

 

 

 

 

اس کی تصدیق شدہ نقل دیکھ کر واپس کر دی گئی اور کہا یہ گیا کہ رسمی شواہد کے بغیر ماہرین کی رائے قابل قبول نہیں ہے۔

 

 

 

 

(DEUTSCHEانہوں نے قرض کی ضمانت کی دو تصدیق شدہ نقول کی فراہم کیں جو کہ صفحہ130 تا 132 پر موجود ہیں۔ والیم نمبر  Bank) پر ہے اس کی  EXPW1647 سی ایم اے2017/432 اس طرح حوالہ نمبر تصدیق شدہ نقول معائنہ کے بعد واپس کر دی گئیں۔ اس پر اعتراض یکا گیا کہ تصدیق شدہ نقول جو پیش کی گئیں وہ دراصل فوٹو کاپی پر تصدیق ہے جو کہ قانون شہادت مجریہ 1984 کے تحت قابل قبول ہیں۔

 

اس ضمن میں مالیاتی تحقیقاتی ایجنسی کے خط کی نقل بھی پیش کی گئی جو کہ صفحہ نمبر 8 اور صفحہ نمبر 9 پر دستیاب ہیں ان کا والیم سی ایم اے ہے۔ نقول مصدقہ گواہوں کو واپس  EXPW16/48اور A7511 (16 )نمبر کر دی گئیں۔ اس پر بھی یہ اعتراض ہوا کہ پیش کردہ دستاویزات قانون شہادت مجریہ1984 کے مطابق قابل قبول نہیں کیونکہ یہ فوٹو کاپی کی تصدیق ہیں۔

 

اس ضمن میں مالیاتی تحقیقاتی ادارے کا ایک خط نیسکول لمیٹڈ کی بابت پش کیا گیا۔ جس کی تاریخ 22.6.2012 تھی جس کی نقول صفحہ نمبر 37 والیم بھی دیکھا جاسکتا ہے،  EXPW-16/49سی پی نمبر 292016 ہے جو کہ اس کی بابت بھی کہا گیا کہ مذکورہ دستاویزات قانون شہادت مجریہ84 کے

 

 

مطابق درست نہیں ہے اس پر گواہوں کو بھی درج نہیں کیا گیا۔ اس ضمن میں ایک خطہ متعلقہ نیلسن انٹرپرائزز پیش کیا گیا جس میں موساک فوبنز المیڈ کی طرف سے مالیاتی تحقیقاتی ایجنسی کو مخاطب کیا گیا تھا۔ جس پر ہیں جو  Iتاریخ22.6.2012 صفحہ نمبر 38 سی پی نمبر292016 پی ٹی بھی موجود ہے۔ EX-PW-16/50کہ

 

ٓائینی پٹیشن نمبر2016/29میں سی ایم اے نمبر2017/394کی تصدیق شدہ نقول۔ فوٹو کاپیز سی ایم اےکورٹ کے والیم میں دستیاب ہیں ۔ پہلے صفحے پرنوٹ اور سی ایم اے نمبر کے بغیر اور ٓاخری صفحے پر دستخطوں کے بغیر، جیسا کہ گواہ کی پیش کردہ مصدقہ نقول سے عیاں ہے۔ ) فاضل درخواست گزار نے عذر پیش کیا کہ اسے ٓافس کاپی دی گئی (یہ ہی ہے۔)اعتراض ہے کہ سی ایم اے ان دالئل پر مشتمل ہے جو EXPW-1651 ثبوت کے لیے ناقابل قبول ہیں ( اس نے منروافنانشل سروس لمیٹڈ کو لکھے گئے خط کی مصدقہ نقول کی کاپی پیش کی جو3دسمبر2005کو سامبا فنانشل گروپ کے اسسٹنٹ جنرل منیجر نے لکھا ، فوٹو کاپی سی ایم اے نمبر2016/7511 والیم کے صفحہ نمبراٹھارہ پر موجود ہے۔ یہ ہے۔)اعتراض کے تحت گواہ نہ ہی منشی کارکن، گواہ یا EX.PW-1652ہی مخاطب ہے، دستاویزات کی تصدیق دراصل نقول کی تصدیق ہے، کاغذات کی شق)5(89 کے تحت تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ اس نے  QSOکو 1984 شازی نقوی نامی کے ایفی ڈیوٹ کی مصدقہ نقول پیش کی جس کی فوٹو کاپیز سی ایم اے نمبر(2017/432 صفحہ نمبر75سے77پر موجود ہے ( یہ ہے) اعتراض کے تحت کاغذات ایک فوٹو کاپی کی EX.PW-16;53 ہی تصدیق ہیں جو ثبوت میں قبول نہیں، گواہ نہ ہی منشی کارکن، یا کاغذات کا شاہد ہے ( اس نے جرمی فری مین کا خط بھی وصول کیا، یہ خط پہلے ہی سی ایم اے نمبر 2017/432صفحہ نمبر)106میں دکھایا  EX.PW-15/1( گیا ہے۔ کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس کی مصدقہ نقول31 مارچ صفحہ)261 پر ہے اعتراض یہ 2017EX.PW16/54(تک جاری ہیں ۔ یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہیں جو قبول نہیں کیے جا سکتے، یہ غیر متعلقہ ہیں ( فنانشل سٹیٹ منٹ کی مصدقہ نقول برائے سال

 

صفحہ)278 پر ہیں 31 ex.pw-16 55(مارچ2008کیو ہولڈنگز لمیٹڈ، یہ بھی ۔) اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہیں جو قبول نہیں کیے جا سکتے( گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں ۔ فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ کے 31مارچ2008 تک کے فنانشل سٹیٹ منٹس نوٹس کی مصدقہ نقول، یہ ہی صفحہ)279 پر موجودہیں ۔ اعتراض یہ ہے کہ نقول کی ex.pw-16/56( تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قوبل نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ کی 31 مارچ2008 کی فنانشل  quint paddingon ltd غیر متعلقہ ہیں۔ صفحہ ex. pw.16/57( سٹیٹ منٹس ) جاری( کی مصدقہ نقول، یہ بھی ۲۸۲( پر بھی ہے۔اس پر اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ ہیں جو ثبوت کے طورقبول نہیں ، گواہ منشی ہے کارکن نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد۔یہ کاغذات ناقابل قبول اور غیر متعلقہ ہیں ۔ کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس ) جاری(کی مصدقہ نقول31 مارچ 2009، یہ صفحہ)291 پر ہے۔اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق ex.pw16/59(ہی شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں ۔فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ کے 31مارچ2009 کے فنانشل سٹیٹ صفحہex.pw -16/59( )300 منٹس ) جاری( نوٹس کی مصدقہ نقول، یہ ہی پر موجود ہیں ۔ )اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے نہ کارکن ، نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قابل قبول نہیں اور غیر متعلق ہیں۔

 

کی 31مارچ2009کی فنانشل سٹیٹ منٹس ) Quint Paddington Ltd صفحہ 302 پر بھی ہے۔  ex.pw.16/60 ( جاری( کی مصدقہ نقول، یہ بھی اس پر اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ ہیں جو ثبوت کے طورقبول نہیں ، گواہ منشی ہے کارکن نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد۔یہ کاغذات ناقابل قبول اور غیر متعلقہ ہیں۔ کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس ) جاری(کی مصدقہ نقول31 مارچ 2010 یہ

 

صفحہ)305 پر ہے۔اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق ex.pw16/61)(ہی شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں ۔فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ کے 31مارچ 2010تک کے فنانشل

 

  • یہ ہی ex.pw-16/62 سٹیٹ منٹس ) جاری(نوٹس کی مصدقہ نقول، یہ ہی صفحہ ) 311 ( پر موجوو ہےاعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی

ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ کی 31مار\چ 2010کی فنانشل سٹیٹ منٹس ) Quint Paddington Ltdہیں۔

 

صفحہ )313پر بھی ہے۔  ex.pw.16/63 ( جاری( کی مصدقہ نقول، یہ بھی اس پر اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ ہیں جو ثبوت کے طورقبول نہیں ، گواہ منشی ہے کارکن نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد۔یہ کاغذات ناقابل قبول اور غیر متعلقہ ہیں۔کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس ) جاری(کی مصدقہ نقول31 مارچ 2011 یہ صفحہ)325 پر ہے۔اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق ex.pw16/64)(ہی

 

شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قوبل نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر کی 31مار\چ2012کی فنانشل سٹیٹ uint Paddington Ltdمتعلقہ ہیں ۔ صفحہ 328والیم ) ex.pw16/65 منٹس ) جاری( کی مصدقہ نقول، یہ بھی )7پر بھی ہے۔ اس پر اعتراض یہ ہے کہ کاغذات نقول کی تصدیق شدہ ہیں جو ثبوت کے طورقبول نہیں ، گواہ منشی ہے کارکن نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد۔یہ کاغذات ناقابل قبول اور غیر متعلقہ ہیں۔کیو ہولڈنگزلمیٹڈ کی فنانشل سٹیٹ منٹس ) جاری(کی مصدقہ نقول31 مارچ 2012 یہ صفحہ)339 پر ہے۔اعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق ex.pw16/66)(ہی

 

شدہ کاپی ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں۔فلیگ شپ سیکورٹیز لمیٹڈ کے 31مارچ2012تک کے فنانشل

  • یہ ہی ex.pw-16/67 سٹیٹ منٹس ) جاری(نوٹس کی مصدقہ نقول، یہ ہی صفحہ )336( پر موجود ہےاعتراض یہ ہے کہ نقول کی تصدیق شدہ کاپی

 

 

ہے جو ثبوت کے طور قبول نہیں کی جا سکتی۔ گواہ منشی ہے کارکن، گواہ نہ ہی کاغذات کا عینی شاہد، یہ کاغذات قبول نہیں اور یہ غیر متعلقہ ہیں۔ چارٹ کی مصدقہ نقول پیسوں ، فنڈز کا فلو اور کمپنی کے نفع و نقصان وغیرہ کے بارے میں بتاتا ہے۔ جس کی مصدقہ نقول صفحہ400 والیم)7 میں ہے ) اصل چارٹ دکھانے کے بعد ex.pw16/68(

 

واپس کر دیا گیا( اعتراض یہ ہے کہ مبینہ طور پر جے ٓائی ٹی نے تیار کیا جو قانون میں قابل قبول نہیں اور یہ تفتیشی رپورٹ کا حصہ ہے۔ یہ ثبوت میں تسلیم نہیں ، گواہ نے اصل چارٹ جے ٓائی ٹی رپورٹ کے والیم سیون میں دکھایا ہے۔ جو قابل احترام سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ گواہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اسے اسی سائز میں اس عدالت اور ملزم کو فراہم کرے۔ 28جون2017کو متحدہ عرب امارات سے خط موصول ہوا، جس کی صفحہ236اور237 والیم تھری( پر ہیں ) اصل ex.pw.16/69( مصدقہ نقول دیکھنے کے بعد واپس کر دیا گیا ( )اس پر اعتراض یہ ہے کہ ملزم کو جو نقول دی گئی ہیں ان صفحات کا ان کے والیم میں ذکر نہیں ، جو صفحہ نمبر235پر ختم ہو جا تا ہے، مذکورہ والیم کے انڈیکس میں یہ ذکر نہیں( دریں اثنا یہ کہا گیا کہ اس کی نقول والیم تھری صفحہ نمبر80اور81 پر دستیاب ہیں ،اس کے جواب میں فاضل وکیل نے اعتراض نہیں اٹھایا جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ ) مزید اعتراض یہ کہ اس خط کے جواب میں مبینہ طور پر جو خط مال ریکارڈ پر موجود نہیں ، اس کی کاپی ملزم کو فراہم نہیں کی کی سیکشن 21کی تعمیل نہیں کرتے۔ مزید براں NAO199گئی۔ کاغذات کے تحت بھی قابل قبول نہیں۔ اس نے اس خط کا ضمیمہ Q.S.O1984یہ پیش کیا جس کی مصدقہ نقول صفحہ118اور121پر موجود ہیں ۔ یہ ہے۔ اعتراض یہ ہے کہ گواہ نہ ہی لکھنے وال ہے، نہ EX.PW 16/70ہی ہی خط کا کارپرداز ، یہ خط عربی میں ہے اور اس کی اردو ترجمہ بھی کی سیکشن21 اورnao199ریکارڈ میں موجود نہیں ۔ دستاویزات

 

کے تقاضے کو پورا نہیں کرتے ۔ اس نے اصل خط عربی میں 1984۱QSO پر۔اور ex.pw17/70پیش کیا، انگریزی میں یہ پہلے ہی دکھا دیا گیا تھا، صفحہ 78اور79 والیم تھری (اعتراض کے ex.pw16/71( عربی کی نقول کے تحت ان کو مہیا نہیں کیا qso1984کی سیکشن21اورNAO1999 تحت

 

 

گیا جو الزمی تھے (اس نے رابرٹ ریڈلے رپورٹ کی نقول فراہم کیں جو

 

پہلے ہی رابرٹ ریڈلے کے بیان میں

والیم ex.pw14/4اورex.pw.14/2,ex.pw14/3سے4اورex.pw14/1

 

تھری میں موجود ہیں ،) اصل دیکھنے کے بعد واپس کر دیا5الئی2017 کوملزمہ مریم صفدر کی طرح اس نے بھی دو ٹرسٹ ڈیڈز بھی پیش کیے، دعویٰ کی کہ یہ اصل ہیں ، اس کی نقول پہلے ہی صفحہ128تا ex.pw14/3(صفحہ122 سے)127 اور)۰ex.pw14/2

 

131والیم فورجے ٓائی ٹی رپورٹ ( اعتراض یہ ہے کہ اس کے اصل ہونے کا دعویٰ کیا گیا افواہ ہے(اس نے12جون 2012کو ڈائریکٹر فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی ان برٹش ورجن ٓائی لینڈ کی طرف جے ٓائی ٹی کو لکھے جانے والے خط کی اصل کاپی بھی پیش کی، جس کی مصدقہ صفحہ 52والیم فور( پر موجود ہے، مذکورہ خط کے ex.pw16/72(نقل

 

جواب میں جو خط مال اس کی کاپی ریکارڈ میں موجود نہیں اور یہ ملزم کو دی بھی نہیں گئی یہ بھی مذکورہ باال قانون کے تحت قابل قبول نہیں فارم اور مالزمت کا ریکارڈ کا ضمیمہ مذکورہ سرٹی فیکیٹ بھی دستیاب 9jaafza ہے یہ صفحات318,316,317پر موجود ہیں ،اعتراض یہ ہے کہ انہیں پبلک نہیں کیا جا سکتا۔

 

سیکشن 89 )5(کے تحت یہ دستاویزات پراپرچینل کے تحت پیش نہیں کی جارہیں اور جے ٓائی ٹی پاکستان کی کسی کورٹ کو ایڈریس نہینکرتا۔ دستاویزات پر تاریخ نہیں ہے اور نیب قانون کے سیکشن 21کے تحت حاصل نہیں کیاگیا۔ صفحہ نمبر 315،314،313پر موجود سرٹیفکیٹ کی کاپی کے ساتھ اسکرین شاٹس منسلک ہیں جوکہ پراسیکیوشن وٹنس 16کو کہاگیا کہ وہ اس کی بہتر کاپی فراہم کرے ۔جے ٓائی ٹی نے سپریم کورٹ سے حاصل کردہ دستاویزات کاجائزہ لیا اور اس میں اپنے بیان میں بینک گارنٹیز کا ذکر کیا اور دستاویزات میں 14اپریل 1980ء کا معاہدہ منسلک کیاگیاہے۔ سپریم کورٹ سے جو دستاویزات لئے گئے ہیں اس میں ایک جامع بیان بھی تھا جس میں کہاگیاہے کہ معاہدے کے نتیجے میں طارق شفیع کو 12ملین اے ای ڈی دیئے گئے اوراس کے بعد قطری شہزادے فہد بن جاسم

 

 

الثانی کو نقد دیئے گئے۔ بیان کے مطابق یہ جو سرمایہ کاری تھی اس کے ذریعے نہ صرف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے گئے بلکہ العزیزیہ کے نام سے سعودی عرب میں اسٹیل فیکٹری بھی لگائی گئی اور 8ملین ڈالر التوفیق انویسٹ منٹ فنڈ کا 8ملین قرضہ ادا کیا گیا جو قطری شہزادے نے اس سرمایہ کاری سے حسن نواز کو پیسے دیئے اسی سرمایہ کاری سے حسن نواز کو پیسے دیئے اسی سرمایہ کاری سے حسن نواز نے یو کے میں کمپنیاں بنائیں ۔ یہ جو معاہدہ تھا یہ دستاویزی ثبوت تھا کہ ہالی اسٹیل سے حاصل کردہ پیسے میں یعنی جو ہالی اسٹیل فروخت کی اس سے حاصل کردہ رقم تھی اور اس معاہدے پر دبئی کے نوٹری پبلک کے اسٹیمپ موجود ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے ایم ایل اے کے نتیجے میں حاصل کردہ ریسپانس میں کہاگیا کہ دبئی کورٹ کے ریکارڈ میں معاہدے کو تالش کیاگیا اس کے بعد انہوں نے تصدیق کی کہ معاہدہ تاریخ 1980-4-14نہیں مال اور ہالی اسٹیل مل کے %25شیئرز بیچنے سے حاصل کردہ بارہ ملین درہم کے حوالے سے کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہوئی ور اس طرح کا کوئی ریکارڈ نہیں مال کہ نوٹری پبلک نے اس طرح کے معاہدے کی تصدیق کی ہو اور گواہ نے کہاکہ یہ معاہدہ جھوٹا ہے۔ سپریم کورٹ سے حاصل کردہ دستاویزات میں ایک دستاویز ہالی اسٹیل مل کے اسکریپ مشینری دبئی سے سعودی عرب بھیجی گئی اس سے متعلق ہے۔ ایم ایل اے کے نتیجے میں حاصل کردہ ریسپانس کہتا ہے کہ ان کے ریکارڈ کے مطابق اس طرح کا اسکریپ نہیں بھیجا گیا اورپی ایم اے 432اور 7531 مینموجود جامع بیان کہتا ہے کہ ہالی اسٹیل سے بارہ ملین درہم لئے گئے جو کہ طارق شفیع نے قطری شہزادے کو دیئے ۔ جے ٓائی ٹی نے کہا کہ اس سے متعلق دستاویزی ثبوت نہیں دیئے گئے۔ 1978ء کے معاہدے کے تحت گلف اسٹیل مل کے واجبات میں سے 21ملین اسٹیل مل کے 75فیصد شیئرز کی فروخت سے پیسے دیئے گئے اور تقریباً 14ملین کے واجبات طارق شفیع کی ذمہ داری تھی جو کہ میاں شریف کی جانب سے کام کررہا تھا۔ سپریم کورٹ نے ذمہ داریوں سے متعلق استفسار کیا۔ طارق شفیع، ملزمان میاں محمدنوازشریف، حسین نوازشریف، حسن نوازشریف اورمریم صفدر کی طرف سے کوئی دستاویزات پیش نہیں کئے گئے کہ یہ ذمہ داریاں کیسے ادا ہوئیں۔ متحدہ

 

عرب امارات کے حکام نے تصدیق کی کہ طارق شفیع کو بی سی سی ٓائی کے قرض نادہندگی کے الزام میں سزا ہوئی طارق شفیع نے یہ قرضہ اسی بینک یعنی بی سی سی ٓائی سے حاصل کیا جس سے اس نے 1978ء میں اہلی اسٹیل ملز کے 75فیصد شیئرز کی فروخت سے 6ملین اے ای ڈی حاصل کئے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے سواالت کے جے ٓائی ٹی نے جواب دیئے۔ میرے اور جے ٓائی ٹی کے تمام اراکین کے دستخطوں کو جو والیم 3 کے صفحہ 40 پر ہیں میں پہچانتا ہوں اس نے جے ٓائی ٹی کی تفتیشی رپورٹ کا اصل والیم 3 پیش کیا۔

 

نواز شریف ،مریم نواز اور حسین نواز نے 5نومبر 2016 کو قطری شہزادے حماد بن جاسم التھانی کا خط جمع کرایااور اسکے بعد ایک اور خط بھی 22 دسمبر کوجمع کرایا،حسن اور حسین نواز نے جے ٓائی ٹی رپورٹ کا والیم نمبر فائیو )5( میں مذکورہ دونوں خطوط کے حوالے سے تضاد پایاجاتاہےاور اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ خطوط جے ٓائی ٹی کا حصہ نہیں تھےلہذا یہ ثبوت کے طورپر قابل قبول نہیں ہوسکتےیہ اعتراض استغاثہ کا تھا،طارق شفیع نے قطری شہزادے کو 12 ملین اے ای ڈی ایس نقد دئیے اور رسید نہیں لی اس پر بھی عدالت نے اعتراض کیا اسے بھی ثبوت کے طورپر قبول نہیں کیا جاسکتا،عدالت نے قراردیاہےکہ اس حوالے سے ملزمان دستاویزاتی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ۔قطری شہزادے سے 2006 میں ڈیل ہوئی حسین نواز اور قطری شہزادے کے درمیان ، جس کے تحت اس قطری شہزادے نے کمپنی نیسکول اور نیلسن جو کہ ایون فیلڈ اپارٹمنس کے مالک ہیں کے شیئرز حسین نواز کو دئیے یہ کاٖغذات ثبوت کے طورپر قابل قبول نہیں کیے جاسکتے کیونکہ1980 میں جو معاہدہ شریف فیملی اور قطری شہزادے کے ساتھ ہوا تھااس کی کوئی تفصیالت یا دستاویزاتی ثبوت نہیں اور اس کے بعد 2006 میں جو معاہدہ ہوا ان کے درمیان اس کا بھی کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جاسکا،ساالنہ منافع جوآیا اور اس کو میاں شریف کی ہدایت پر تقسیم ہوتا رہا اور اس میں حسین نواز کو 4 مرتبہ ادائیگیاں وصول ہوئیں جس سے یہ سرمایہ کاری برطانیہ میں فلیگ شپ انوسٹمنٹ سمیت دیگر کمپنیاں قائم کی گئینتاہم کورٹ نے قرارد یا ہےکہ

 

 

مذکورہ 4 ادائیگیاں ہوئیں ان کی کوئی رسید یا ثبوت کورٹ میں پیش نہیں کیا گیااسی طرح مزید 3 ادائیگیاں حسین نواز نے بھی وصول کینجس کے زریعے حسین نواز نے العزیزیہ اسٹیل مل سعودی عرب میں قائم کی لیکن اس حوالے سے بھی کوئی ثبوت نہیں دئیے گئے کہ فنڈز کیسے منتقل ہوئے ایک اور ادئیگی 2000 میں ال توفیق کمپنی مینسرمایہ کاری کی مد میں 8 ملین ڈالرز بھی میاں شریف کی ہدایت پر ال توفیق کمپنی کو سرمائے کی بنیاد پر دی ،لمبی مدت کےلیے لیا گیا قرضہ 8 ملین ڈالرزجو 5جنوری 2000 کو لیا گیا تھا جسے رپورٹ میں ختم ظاہر کیا گیالیکن یہ بات ثابت نہیں کرسکے کہ قرضے کی رقم کس نے ادا کی لہذا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرضہ کو ختم کرنے کے حوالے سے کوئی ثبوت جے ٓائی ٹی کو بھی نہیں دئیے گئےکہ اس قطری شہزادے سے تعلق ثابت نہیں ہوسکاجے ٓائی ٹی کے مطابق جو شاہی خاندان کا مذکورہ اپارٹمنٹ سے کوئی تعلق نہیں وہ اس کے مالک نہیں،جے ٓائی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ ال توفیق کمپنی

 

  • اجو معاہدہ ہوا تھا اس معاہدے کے وقت اپارٹمنٹ کے مالک شریف فیملی کے ممبر ان ہی تھے اور ان میں نواز شریف بھی شامل تھے اور اس نے

 

بظاہر اپنے بچوں کو شامل کیا تاکہ وہ اس ملکیت کو چھپا سکیں ،عدالت نے ورک شیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاہےکہ دستاویزات پر دستخط نہیں ہیں جو غیر مصدقہ ہونے کو ظاہرکرتی ہیں ،عدالت نے ٓابزرو کیا کہ نیلسن اور نیسکول کمپنی کے بیان کے مطابق حماد بن جسیم کے نمائدے نے حسین نواز کو منتقل کیا تھا لیکن دونوں کمپنیوں کے شیئرز منتقل کیے گئے ہیں اور 8ملین ڈالرز کے اثاثے کے حوالے سے کوئی رسید یا دستاویزات نہیں دیے گئے،عدالت نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ جے ٓائی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی اور اسے نوٹس بھی جاری کیا جس پر قطری شہزادے نے جواب دیا اور جے ٓائی ٹی نے ہرممکن کوشش کی لیکن قطری شہزادے نے تاخیری حربے استعمال کیے اور پھر بعد میں پاکستان پاکستانی عدالت میں پیش ہونے کے لیے قانونی نقطے اٹھاتارہااور ٓاخر کار جے ٓائی ٹی کو بتایاقطری شہزادے نے کہاکہ اگر اس کے بیان کو ریکارڈ کیا تو اس بات کی ضمانت دی جائے کہ قطری شہزادے کو رٹ میں نہیں بالیاجائے گا،عدالت نے مزید کہاہےکہ دستیاب

 

ثبوت کی روشنی میں جے ٓائی ٹی نے یو اے ای کو بھی خط لکھا اور سپریم کورٹ میں اٹھائے گئے سواالت جو جے ٓائی ٹی کی فائنڈنگ ہے اس کا جواب بھی ملزمان نہیں دے سکے،واجد ضیاء نے کہاکہ ہےکہ اپارٹمنٹ کا قبضہ لینے کے حوالے سے اپنا موقف جمع کرایا اور مختصراً کہا کہ قطری شہزادوں سے یہ اپارٹمنٹ خریدے ہیں 2006 میں جو ڈیل ہوئی اس کےنتیجے میں کیونکہ کمپنی کے شیئرز حسین نواز کو منتقل ہوئے اور اس ٹرسٹ شیٹ پر دستخط مریم نواز کے ہیں اور مریم نواز نے ٹرسٹی کی حیثیت سے دستخط کیے جبکہ حسین نواز جو اسکا بینفیشری کے طورپر جبکہ کیپٹن صفدر کا گواہ کے طورپر نام ٹرسٹ شیٹ پر درج ہے،جے ٓائی ٹی نے عدالت کو بتایاکہ ٹرسٹ شیٹ میں بھی تضاد ہے مذکورہ اپارٹمنٹ کا جب قبضہ لیا تو اس قوت حسین نواز طالب علم تھا برطانیہ میں اس وقت ،ٹرسٹ شیٹ کے مطابق 1993 سے 1996 تک حسین نواز تعلیم حاصل کررہا تھا تاہم دستاویزاتی ثبوت اس حوالے سے پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔عدالت نے مذکورہ ٹرسٹ شیٹ کو بوگس قراردیدیا ہے اور اس ٹرسٹ شیٹ کی بنیاد پر ہی مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزا سنائی گئی ہے کہ ان دونوں نے نواز شریف کے ساتھ ملکر یہ جعل سازی کی ہے ۔

 

دونوں حسن اورحسین اورنوازشریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اپارٹمنٹ نمبر 16 نوازشریف کے استعمال میں رہا سوائے اس مختصر عرصے کے جب ان کے والد میاں شریف نے 1990ء میں لندن میں اسے چند ماہ کے لئے استعمال کیا جب وہ وہاں زیر عالج تھے۔ ملزمان نے مزید کہا ہے کہ اس وقت سے گرائونڈ رینٹ اپارٹمنٹس کے سروس چارجز دیتے ٓارہے ہیں۔ صفحہ 83سے لیکر 86تک ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق -Aجی ایم اے 7531 دستاویزات ہیں صفحہ نمبر 84,85,86خود ٹرسٹ ڈیڈ ہے ۔جے ٓائی ٹی کو معلوم ہوا کہ دوسرے اورتیسرے ٹرسٹ ڈیڈ کے صفحات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور دونوں دوسرے اور تیسرے صفحے پر سالسٹرجیریمی فری مین کے دستخط کے نیچے تاریخ موجود ہے جس کو تبدیل کیاگیا ہے جس کو ایک دوسرے کے اوپر لکھنے کی وجہ سے یا تو 2006یا 2004 لگتے ہیں۔ جے ٓائی ٹی نے ٓابزور کیا کہ 2006اہم سال تھا اس لئے کہ جو

 

 

شیئرتھے ان کو 2006 تک کسٹوڈین کے پاس جمع کراناتھا اورمالک کی تفصیالت بھی دینی تھیں جس کامقصد جو شیئر ہولڈر تھا اس کی شناخت بھی گمنام نہیں رہنی تھی۔ جے ٓائی ٹی نے اس سال کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے دو کام کئے ایک تو جے ٓائی ٹی نے سالسٹرفرم کے ذریعے فری مین واکس سالسٹر سے ان ڈیڈ سے متعلق پوچھا ۔فری مین نے کہاکہ انہوں نے اصل دستاویزات دیکھے ہیں جو کہ بالکل جے ٓائی ٹی نے دستاویزات دی ہیں اس سے ملتے جلتے ہیں۔جے ٓائی ٹی نے فیصلہ کیا دستاویزات کا رابرٹ ریڈلے سے معائنہ کروانے کا فیصلہ کیا ۔ جے ٓائی ٹی نے رابرٹ ریڈ لے کی رپورٹ کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ دستاویزات جھوٹے بنائے گئے ہیں۔جے ٓائی ٹی نے دستاویزات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مریم نواز سے 2017-7-5کو سامنے پیش ہو کر ٹرسٹ ڈیڈ کی اصل کاپیاں پیش کرنے کا کہا۔ اس نے پیش ہو کر دوٹرسٹ ڈیڈ دیں جو کہ اس نے کہاکہ اوریجنل ہیں۔ جے ٓائی ٹی نے وہ ڈیڈ رابرٹ ریڈلے کو معائنے کے لئے بھیجیں۔ جے ٓائی ٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا )رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کے بعد( کہ ملزمہ مریم نواز نے جھوٹے دستاویزات جمع کرائے ہیں۔ ملزم حسین نواز، مریم صفدر اورکیپٹن صفدر نے جھوٹے دستاویزات پردستخط کئے اور یہ دستاویزات سپریم کورٹ میں پیش کئے۔ ملزم حسن نواز نے بھی ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں جمع کرائیں تاکہ سپریم کورٹ کو گمراہ کرے۔

 

جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم )جے ٓائی ٹی( کا کہنا ہے کہ یہ ایک مختصر فیصلہ ہےجس میں ان سے وقف نامہ یا دیگر متعلقہ دستاویز کے بارے میں نہیں پوچھا گیا اور مزید کہا کہ برٹش ورجن ٓائی لینڈ، ویلز اور انگلینڈ کے قوانین میں ایسی کوئی الزمی شرط نہیں کہ وقف نامہ کا اندراج کیا جائے۔ )اعتراض یہ ہے کہ بیان کا یہ حصہ ماہر کی رائے پر ایک رائے ہے جو نمایاں طور پر ناقابل قبول ہے۔( ایک اور ماہرانہ رائے پر پہلے ہی اعتراض کیا جاچکا ہے جو جلد چہارم کے صفحہ 68 سے صفحہ 88 پر موجو ہے، یہ فیصلہ گلیڈ کوپر کے حوالے سے اور وقف نامہ اور دیگر دستاویز پر غور کرنے کے بعد تفصیل کے ساتھ دیا گیا۔)اس میں اعتراض اس بات پر ہے کہ گواہ اس حقیقت پر شاہد نہیں۔( اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ متولی

 

 

کو درشنی ہنڈی کی صورت میں حصص کو رکھنا پڑا تاکہ یہ ایک جائز ٹرسٹ بن جائے۔ )اس پر اعتراض یہ ہے کہ گواہ ماہر انہ طور پر حلفیہ گواہی دے رہا ہے جو اس حوالے سے گواہ ہی نہیں۔( جے ٓائی ٹی کا کہنا ہے کہ سی ایم ایز میں سے کسی نے بھی فائل نہیں کیا یا ملزمان مریم صفدر اور حسین نواز میں سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ مریم صفدر ان حصص کی تنہا مالک ہیں۔ )اس پر اعتراض یہ ہے کہ گواہ دستاویز کے مندرجات پر حلفیہ شہادت دے رہا ہے، مزید یہ کہ اس نے جے ٓائی ٹی کے سامنے ملزم کے بیان کا حوالہ دیا ہے جو کہ نمایاں طور پر ناقابل قبول ہے۔( گلیڈ کوپر کی دوسری رائے یہ ہے کہ درشنی ہنڈی نے ایک مرتبہ حکام کو رقم بطور ضمانت رکھوائی تھی جسےختم کردیا گیا۔)اس پر اعتراض یہ ہے کہ گواہ ماہرانہ رائے دیتے ہوئے حلفیہ شہادت دے رہا ہے جو کہ گواہ نہیں ہے۔( بطور حوالہ دیکھئے سی ایم اے 895 جلد نمب 7 ے صفحہ 261، 278، 279، 282، 291، 300، 302، 305، 311، 313، 325، 328، 339 اور 336 ، یہ مالی گوشوارے حسن نواز کی کمپنیز کیو ہولڈنگ، فلیگ شپ سیکیورٹیز اور کوئنٹ پیڈنگٹن کے سال 2007 سے 2012 تک کے ہیں۔ یہ دستاویز اس نقشہ کی بنیاد ہیں جو پہلے ہی جلد 7 پر دیا گیا ہے۔ دستاویز سے پتہ چلتا ہے  ex.pw -16 '68 کے صفحہ 400 پر کہ قرضہ کومبر سے لے کر کیو ہولڈنگ کو دیا گیا تھا جو کہ حسن نواز ہی کی ملکیت تھی جبکہ 2008 میں مزید قرضہ کوئنٹ پیڈنگٹن کو بھی دیا گیا۔

 

)اس پر اعتراض یہ ہے کہ گواہ دستاویز کے مندرجات کیلئے حلفیہ بیان دے رہا ہے جو کہ قابل قبول نہیں۔( اسی کمپنی یعنی کوئنٹ پیڈنگٹن کو 614000 پائونڈز کا قرضہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی جانب سے دیا گیا جو کہ دبئی میں قائم ہے جہاں کے مالک ملزم حسن نواز ہیں۔

 

اور جے ٓائی ٹی کی پیش کردہ دستاویزات کے مطابق ملزم نوازشریف ایک مالزم ہیں۔ )اعتراض کے تحت کہ گواہ اس حقیقت کا گواہ نہیں کہ وہ دستاویز کے مندرجات کے مطابق گواہی دے رہا ہے(۔ سی ایم اے7511 میں ایک اور دستاویز کے صفحات 8 اور 9 پر فنانشیل انوسٹی گیشن ٹیم کے ڈائریکٹر ایرل جورج کی جانب سے 12جون 2012ء کو خط پہلے ہی دکھایا

 

گیا ہے جو منی النڈرنگ رپورٹنگ ٓافیسر موسیک فونسیکا اور کمپنی کو لکھا گیا جس میں نیسکول اور نیلسن کے بارے میں معلومات مانگی گئیں۔

 

)اعتراض کے تحت انہوں نے اس دستاویز کا مواد پیش کیا جسے نہ تو انہوں نے تحریر کیا یا مخاطب ہیں۔ شہادت میں بھی یہ قابل قبول نہیں۔ سی پی۔2016ء 29 کے صفحہ۔37 پر )ایکس پی ڈبلیو۔ 491-16 نیسکول کے بارے میں موسیک فونسیکا کا جواب ہے۔ جبکہ صفحہ۔38 پر نیلسن کے بارے میں جواب دیا گیا ہے۔ ایم ایل اے کو جواب میں برٹش ورجن ٓائی لینڈ کے حکام نے اپنے کورنگ لیٹر پر جواب دیا ہے۔ )اعتراض کے تحت دستاویز این اے او ٓارڈیننس 1999 کی دفعہ۔21کے تحت ضرورت پوری نہیں کرتا۔ صفحہ۔52تا 56 فنانشیل انوسٹی گیشن ایجنسی کا جواب بھی موجود ہے۔ فنانشیل انوسٹی گیشن ایجنسی )ایف ٓائی اے( نے نیسکول کے بارے میں موسیک فونسیکا کا 22 جون 2012ء کو جواب ملنے کی تصدیق کی۔ ریکارڈ کے مطابق کمپنی کی بینی فیشل مالک مریم صفدر ہیں۔ جنہوں نے سرور محل جدہ کا پتہ دیا۔ یہ بھی بیان کیا گیا کہ ان کے پاس ٹرسٹیز کے نام نہیں ہیں۔ اسی طرح نیلسن کے بارے میں موسیک فونسیکا کا جواب جس کی ایف ٓائی اے نے تصدیق کی، کمپنی کی مالک مریم صفدر ہی ہیں۔ جنہوں نے پتہ سرور محل جدہ کا دیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے پاس ٹرسٹیز کے نام نہیں ہیں۔ مورخہ 12جون 2012ء کو فنانشیل انوسٹی گیشن ٹیم کے خط میں دو قانونی دستاویزات کا حوالہ دیا گیا۔ بی وی ٓائی انٹی منی النڈرنگ ریگولیشنز 2008اور بی وی ٓائی منی النڈرنگ اینڈ ٹیررسٹ فنانسنگ کوڈ ٓاف پریکٹس 2008جس میں صارفین کے لئے تفصیلی طریقہ کار دیا گیا ہے۔ جے ٓائی ٹی نے ٓاخر میں کہا کہ مریم صفدر ہی نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کی مالک ہیں۔ جن کی ملکیت میں لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ہیں۔ اس حوالے سے پیش کردہ وقف نامے نہ صرف جعلی ہیں بلکہ رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی متعلقہ کمپنی کو پیش کئے گئے۔ جے ٓائی ٹی رپورٹ میں متعلقہ سواالت کے جوابات موجود ہیں۔ جے ٓائی ٹی نے جے ٓائی ٹی رپورٹ کے کا بھی تجزیہ کیا ہے۔ جس میں صفحہ 6 تا 7 حسین نوازشریف  IX-A حجم کے اثاثے اور ایک خاکہ انکم اور دولت ٹیکس کی بنیاد پر دکھایا گیا ہے۔ حسن نوازشریف کے انکم اور دولت ٹیکس کا ریکارڈ صفحہ 8 تا 14 ہے

 

پر دیا گیا ہے۔ تینوں  -Aاور اس حوالے سے خاکہ صفحہ 280اور 280 ملزمان کی اتنی ٓامدن نہیں تھی کہ وہ 1990 کی دہائی کے شروع میں ان اپارٹمنٹس کی ملکیت کا جواز دے سکیں۔ 3دسمبر 2005 کو سامبا کی جانب سے منریوا فنانشیل سروسز کے نام خط مریم صفدر کا تعلق 2006 سے قبل منریوا سے جوڑتا ہے۔ مذکورہ دستاویز کا اعتراف مریم نے بھی کیا۔ صفحہ ایک تا صفحہ 254 جلد ایک۔ جلد 10 کو چھوڑ کر جے ٓائی ٹی رپورٹ کا بیانیہ ہے۔ نیب میں ڈائریکٹر جنرل ٓاپریشنز ظاہر شاہ جو بین االقوامی تعاون کے معامالت دیکھتے ہیں ان کا بیان ہے کہ ایون فیلڈ جائیداد سے متعلق دستاویزات نمائندہ عثمان احمد کے ذریعہ 27 مارچ 2018 کو برطانوی ہائی کمیشن کے ذریعہ موصول ہوئیں۔ جنہوں نے برطانوی سینٹرل اتھارٹی کی

 

  • -Aجانب سے دستاویزات حوالے کیں۔ انہوں نے رجسٹر بنام مکان نمبر16 ایون فیلڈ ہائوس کی سرکاری نقول پیش کیں۔ انہوں  17/5، 17A، 17/4، 17 کے پانی کے بل پیش کئے۔ اسی طرح دیگر  -Aاور 17 17، -Aنے 16، 16 دستاویزات بھی دی گئیں۔ نیب الہور میں تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد عمران کا بیان ہے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مجاز حکام کو نوازشریف، حسن، حسین، مریم اور صفدر کے خالف تحقیقات کا 28 جوالئی 2017 کو اختیار دیا۔ دوران تحقیقات سپریم کورٹ IX-A سے مکمل تحقیقاتی رپورٹ حاصل کی گئی۔ جلد نمبر ایک اور ریفرنس کے الزمی جزو ہیں جو ریفرنس کے ساتھ عدالت میں پیش کئے گئے۔ پاناما کیس کے بارے میں سپریم کورٹ کے پاس موجود ریکارڈ بھی حاصل کیا گیا۔ ایس ای سی پی کی جوائنٹ رجسٹرار سدرہ منصور 23 اگست 2017کو شامل تفتیش ہوئیں جنہوں نے 2000 تا 2005 حدیبیہ پیپرز ملز کے ٓاڈٹ شدہ حسابات پیش کئے۔ )پی ڈبلیو۔)6 نیب ہیڈکوارٹرز اسالم ٓاباد کے ٓاپریشن ڈویژن میں ایڈیشنل ڈائریکٹر کوآرڈی نیشن 25 اگست 2017 کو شامل تفتیش ہوئے اور ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ جے ٓائی ٹی کے سربراہ )پی ڈبلیو۔)16 واجد ضیاء نے 30 اگست 2017کو شامل تفتیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ اسی روز مظہر رضا بنگش نے بھی بیان ریکارڈ کرایا۔ محمد رشید 6 ستمبر 2017 کو شامل تفتیش ہوئے، کوئنز کورٹ لندن کے حکم کی نقول پیش کیں۔ مظہر رضا خان بنگش کا حلف نامہ پیش کیا۔ موسیٰ غنی،

 

 

طارق شفیع اور سب انسپکٹر تھانہ نیب الہور عمر دراز گوندل کو طلبی کے نوٹس جاری ہوئے۔ 16اگست 2017 کو ان کے بیانات ریکارڈ کئے گئے۔ نوازشریف، حسن نواز، حسین نواز، مریم صفدر اور کیپٹن )ر( صفدر کو بھی نوٹسز جاری ہوئے جو )پی ڈبلیو۔)04 سب انسپکٹر تھانہ نیب الہور مختار احمد کے حوالے کئے گئے۔ 18 اگست 2017 کو بیان ریکارڈ کیا گیا۔ مذکورہ افراد کو طلبی کے نوٹس میں کہہ دیا گیا کہ عدم پیشی کی صورت یہ اخذ کرلیا جائے گا کہ انہیں اپنے دفاع میں مزید کچھ نہیں کہنا ہے۔ ملزمان تفتیشی کارروائیوں میں شامل نہیں ہوئے۔ تاہم نوازشریف، مریم اور کیپٹن

 

)ر( محمد صفدر کی طرف سے ان کے وکیل امجد پرویز کی طرف سے مجاز نمائندے سلطان کے ذریعہ 22 اگست 2017کو موصول ہوئے۔ مزید یہ کہ دستاویزات ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں تھیں۔ جہاں تک تحقیقاتی رپورٹ میں دستاویزات کے حوالے کا تعلق ہے، یہ ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں تھیں اور تین دستاویزات کا نہیں بلکہ صرف ایک خط کا حوالہ دیا گیا۔ خط کا حوالہ عبوری رپورٹ میں بھی حوالہ دیا گیا۔ خطوط کی نقول اور دستی تحریری بیان ملزم کے دونوں وکالء کو فراہم کئے گئے۔ دونوں خطوط مورخہ 22 اگست 2017 ملزم نوازشریف، مریم اور کیپٹن )ر( صفدر کی طرف سے ہیں۔ دستی تحریری بیان سلطان محمود خان کا ہے۔ حاصل کردہ مواد جس کا حوالہ جے ٓائی ٹی رپورٹ میں ہے۔ انہوں نے 6 ستمبر 2017ء کو عبوری تحقیقاتی رپورٹ تیار کی۔ مزید کارروائی کے دوران انہوں نے

 

کیس افسر سلطان نذیر کے ساتھ برطانیہ کا دورہ کیا اور 14 دسمبر 2017کو راجا اختر )پی ڈبلیو۔)15 کا بیان ریکارڈ کیا۔ 15 دسمبر 2017 کو پی ڈبلیو۔14 رابرٹ ریڈلے کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ پی ڈبلیو۔9ڈائریکٹر جنرل ڈائریکٹوریٹ ٓاف الیکٹرونک میڈیا اینڈ پبلی کیشن سردار عبدالواحد خان شامل تفتیش ہوئے۔ 5 جنوری 2018 کو انہوں نے نوازشریف کے خطاب اور تقاریر کا ریکارڈ پیش کیا۔ جاوید چوہدری کے ساتھ حسین نواز کا انٹرویو بھی پیش کیا گیا۔ پی ڈبلیو۔10 ڈائریکٹر ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ سید مبشر توقیر شاہ 5 جنوری 2018 کو شامل تفتیش ہوئے۔ انہوں نے بی بی سی کے پروگرام ’’ہارڈ ٹاک‘‘ میں ملزم حسن نواز کے انٹرویو کا متن پیش کیا۔ 10 جنوری 2018کو جیو نیوز اسالم ٓاباد کے سینئر کوآرڈینیٹر وقاص احمد

 

 

نے شامل تفتیش ہو کر سی ڈیز اور نقول پیش کیں جو مریم نواز کی پروگرام ’’لیکن‘‘ میں گفتگو اور حسین نواز کے حامد میر کو انٹرویو پر مشتمل تھیں۔ نوازشریف، مریم نواز صفدر اور کیپٹن )ر( محمد صفدر کو 28 دسمبر 2012 کو دوبارہ طلبی کے نوٹس جاری ہوئے تاہم ملزمان تفتیشی کارروائی میں شامل نہیں ہوئے۔ ان کے وکیل چوہدری نصیر احمد بھٹہ کی جانب سے 30 دسمبر 2017 کو خط مال۔ انہوں نے کیپٹن )ر( محمد صفدر اور مریم صفدر کی جانب سے دو خطوط پیش کئے )اعتراض کے تحت یہ دستاویزات استغاثہ کو 30 دسمبر 2017 سے دستیاب تھیں اور انہوں نے ضمنی ریفرنس میں ان کو شامل نہیں کیا جو 22 جنوری 2018 کو دائر کیا گیا۔ اب یہ 5 ماہ بعد گواہ کا بیان قلم بند کئے جانے کے وقت پیش کیا گیا۔

 

مزید یہ کہ یہ گواہ ان دستاویزات کا نہ ہی کاتب تھا اور نہ ہی تعمیل کنندہ ، جن دستاویزات کو بطور شہادت دیکھا گیا۔ضابطہ فوجداری کے سیکشن کے تحت ملزم کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔)وکیل کے اعتراض کو 265-C مسترد کیے جانے کی وجہ بات چیت میں بیان کی گئی ہے(اوپر بیان کیے گئے حاضری کے نوٹس میں یہ تحریر تھا کہ ان کے حاضر نہ ہونے کی صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ انہیں اپنے دفاع میں مزید اور کچھ نہینکہنا۔)قابل وکیل دفاع اس بات پر بحث کررہے تھے کہ بیان کے اس حصے کا تعلق دستاویز کے متن سے تھا، مزید یہ کہ دستاویز ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں تھااور یہ شہادت اتنی مستحکم نہیں تھی کہ اس کی بنیاد پر کسی نتیجے پر پہنچا جاتا ، جیسا کہ انہوننے کہا تھا(۔اس کے بعد انہوں نے 12جنوری ،2018کو ضمنی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی ، جس میں ان کے دستخط تھے)ضمنی ریفرنس کے صفحہ 6تا18میں موجود ہے(اور یہ سفارش کی گئی کہ ملزمان کے خالف ضمنی ریفرنس دائر کیا جائے۔مجاز اتھارٹی نے ضمنی تحقیقاتی رپورٹ اور موجود مواد کے تجزیے کے بعد ملزمان کے خالف 22جنوری 2018کو ضمنی ریفرنس دائر کیا۔جے ٓائی ٹی کے دیئے گئے حوالے اور جمع کیے گئے مواد کی بنیاد پر نیب نے بھی ایم ایل اے کی درخواست پر عمل کیا ، جس کا ٓاغاز جے ٓائی ٹی نے کیا تھا۔27مارچ 2018کو انہیں ظاہر شاہ)پی ڈبلیو۔)17ڈی جی ٓاپریشن نیب ہیڈ

 

کوارٹر اسالم ٓاباد کی جانب سے کال موصول ہوئی اور انہوننے اطالع دی کہ برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی سے ایم ایل اے کا جواب موصول ہوچکا ہے۔اگلے روز 28مارچ2018کو وہ ڈی جی ٓاپریشن کے دفتر گئے اور انہوننے برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی کی جانب سے موصول شدہ ریکارڈ کی نقول انہیں دیں تاکہ معاملہ ٓاگے چالیا جاسکے۔اس ریکارڈ مینایون فیلڈ ہائوس لندن کے فلیٹ نمبر16، 16۔اے، 17 اور 17۔اےکی لینڈ رجسٹریاں،یوٹیلیٹی بلز اور کونسل ٹیکس موجود تھیناور ریکارڈ کو اس عدالت کے ریکارڈ میں بذریعہ درخواست پہنچایا گیا۔جے ٓائی ٹی رپورٹ میں جے ٓائی ٹی کی جانب سے جمع کیے گئے اور حوالہ دیئے گئے مواد کی بنیاد پر تحقیقات میں یہ بات سامنے ٓائی کہ ملزم میاں محمد نواز شریف کی ملکیت میں بحیثیت عوامی عہدیدارایون فیلڈ جائداد تھی اور وہ اس کے مالک تھے۔ان کے نمبر 16،16۔اے،17،17۔اے ہیں جو کہ ٓاف شور کمپنی جن کا نام نیلسن اور نیسکول اور جو کہ بےنامی ناموں پر تھیں اور وہ ان جائدادوں کے حصول کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے اور یہ جائدادیں ملزم میاں محمد نواز شریف اور دیگر ملزمان کی ملکیت میں1993سے ہیں )قابل وکیل دفاع نے اس پر اعتراض کیا کہ ان تمام باتوں کی بنیاد تحقیقاتی افسر کی رائے پر ہےجو قانون کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔جبکہ دوسری جانب قابل وکیل کا کہنا تھا کہ گواہوں کے بیان کے اس حصے کی بنیاد وہ حقائق، ریکارڈ یا مواد ہے جو تحقیقات کے دوران جمع کیا گیا اور ان کا تجزیہ کیا گیا(۔)وکیل کے اعتراض کو مسترد کیے جانے کی وجہ بات چیت میں بیان کی گئی ہے(۔ملزمان حسن نواز شریف، حسین نواز شریف ،مریم صفدر اور کیپٹن محمد صفدر نے متعدد دستاویزات جمع کرائے ۔ان میں نیلسن اور نیسکول اور کومبر کی ٹرسٹ ڈیڈشامل تھیں جسے معزز سپریم کورٹ ٓاف پاکستان مینپاناما کیس کی سماعت کے دوران جمع کرایا گیاجو کہ ملزمان کی ایون فیلڈ جائداد کی ملکیت کے حوالے سے لیے گئے موقف کی تائید میں تھا۔نیلسن ، نیسکول اورکومبر کی ٹرسٹ ڈیڈ ملزمہ مریم نواز نے بھی جے ٓائی ٹی میں اصل پیش کیں ۔تاہم بعد ازاں یہ ٹرسٹ ڈیڈ رابرٹ ریڈلی کی فارینزک رپورٹس کی بنیاد پر نقلی اور جعلی ثابت ہوئیں ۔قابل وکیل دفاع نے اعتراض کیا کہ یہ شہادت جے ٓائی ٹی کے سامنے جو کچھ الیا گیا اس کی

 

 

شہادت نہیں ہےاور یہاں تک بیان کا حصہ قابل قبول نہیں ہے۔)وکیل کے اعتراض کو مسترد کیے جانے کی وجہ بات چیت میں بیان کی گئی ہے(۔ملزمان حسن نواز، حسین نواز ، مریم نواز اور کیپٹن محمد صفدر بحیثیت بےنامی ملزم میاں محمد نواز شریف کے معاون ومددگار،شریک جرم، سازش میں شامل اور ان کے ساتھ ملوث تھےاور وہ کرپشن کے جرائم اور کرپٹ اعمال میں این اے او1999اور اس سے منسلکہ شیڈول کے تحت ملوث پائے گئے )قابل وکیل دفاع نے اعتراض اٹھایا کہ یہ حصہ تحقیقاتی افسر کی رائے ہے ، جب کہ دوسری جانب قابل وکیل کا کہنا تھا کہ شہادتی بیان کا یہ حصہ ان حقائق ، ریکارڈ، مواد کی بنیاد پر ہے جسے تحقیقات کے دوران جمع یا اس کا تجزیہ کیا گیا تھا۔)وکیل کے اعتراض کو مسترد کیے جانے کی وجہ بات چیت میں بیان کی گئی ہے(۔جے ٓائی ٹی رپورٹ پر انحصار کرنے کے عالوہ دیگر پی ڈبلیوز کی جانب سے پہلے سے پیش کردہ دستاویزات پر انحصار کیا گیا ۔اس کے عالوہ انہوں نے درج ذیل دستاویزات اور مواد پر بھی انحصار کیا۔

 

 

 

 

کے IV ۔خاندانی اثاثہ جات کے تصفیے کا معاہدہ)عبوری ریفرنس کے والیم1 صفحہ 152تا 184تک موجود ہے(جو کہ سابقہ پی ڈبلیو(12/18اعتراض یہ تھا کہ دستاویز نقل ہے ، جب کہ اصل معزز سپریم کورٹ کے پاس موجود نہیں تھی اور یہ دستاویز گواہ/تحقیقاتی افسر نے نہ ہی موصول کی اور نہ ہی اپنے قبضے میں رکھی۔جب کہ قابل وکیل کا کہنا تھا کہ یہی مصدقہ نقل ہے جو کہ گواہ نے معزز سپریم کورٹ سے حاصل ی ہےاور یہی عدالتی سماعت کا حصہ تھا(۔2۔ملزم میاں نواز شریف کے اثاثوں اور قرضوں کے کے IX تجزیے/چارٹ سے جو کہ جے ٓائی ٹی نے تیار کیا تھاجو کہ والیم صفحہ 418میں موجود ہے۔)اعتراض یہ ہے کہ پہلی بات یہ دستاویز گواہ نے تیار نہیں کیا، جب کہ دوسری بات واجد ضیا بطور جے ٓائی ٹی سربراہ پیش ہوئے اور انہوننے کبھی ایسا نہیں کہا کہ یہ دستاویزجے ٓائی ٹی نے تیار کیے ہیں ، ٰلہذا یہ دستاویز بطور شہادت قابل قبول نہیں ہے(3۔جے ٓائی کے صفحہ 01تا40میں موجود ہے۔4۔جے ٓائی ٹی III ٹی رپورٹ جو کہ والیم

 

کے صفحہ 01سے 36تک میں موجود ہے۔5۔جے IV رپورٹ جو کہ والیم کے صفحہ 01سے 24میں موجود ہے۔V ٓائی ٹی رپورٹ جو کہ والیم

 

قابل وکیل کے دالئل

 

۔قابل وکیل نے استغاثہ کا کیس مکمل کرتے ہوئے منجملہ درج ذیل دالئل 19 دیئے۔

 

موزاک فونیسکا دنیا کی چوتھی بڑی الء فرم ہے۔آئی سی ٓائی جے نے کچھ معلومات شائع کیں جنہیں پاناما کی ال فرم کے ڈیٹا بیس سے ہیک کیا گیا تھا۔تقریباًایک کروڑ دس الکھ دستاویزات ہیک کی گئی تھیں ، جنہیں پاناما پیپرز کہا جاتا ہے۔اس میں متعدد افراد کے ناموں کا انکشاف ہوا تھا جنہوننے کئی جگہوں پر ٓاف شور کمپنیاں قائم کی تھیں۔پاکستان کے اس وقت کے پہلے خاندان کے افراد پر بھی مبینہ الزام تھا کہ ان کا ٓاف شور کمپنیوں سے تعلق ہے۔شریف خاندان کی ملکیت میں بھی ٓاف شور کمپنیاں ہیں اور وہ جائداد اثاثے کبھی ظاہر نہینکیے گئے۔پاناما پیپرز کے اجرا کے بعد ایون فیلڈ اپارٹمنٹ جس کا ریفرنس معزز سپریم کورٹ میں بھی دائر کیا گیا تھا ، جو کہ ٓائینی پٹیشن نمبر 2016/29، 2016/30 اور 2017/03کے تحت تھا۔اس معاملے کا فیصلہ کرتے وقت پانچ رکنی معزز بینچ نے جو فیصلہ دیا اس میں بینچ کے معزز تین ارکان نے الزامات پر تحقیقات کے لیے جے ٓائی ٹی کی تشکیل کا کہا اور اس کی تحقیقات 60روز میں مکمل کرنے کا کہا ۔جے ٓائی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ دس والیم میں 10جوالئی 2017کو جمع کرائی۔جے ٓائی ٹی کو قانون کے تحت تحقیقات کے لیے وہ تمام اختیارات دیئے گئے جو کہ ضابطہ فوجداری 1998 اور این اے او 1999 اور وفاقی تحقیقاتی ایکٹ 1975 میں موجود تھے۔جے ٓائی ٹی کو معاونت کے لیے مقامی یا غیر ملکی ماہر کی خدمات بھی حاصل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

 

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سپریم کورٹ ٓاف پاکستان کی ٓابزرویشن تھی کہ بادی النظرمیں یہ مقدمہ ملزم کے خالف بنایا گیا تھا اور نیب کوہدایت کی گئی تھی کہ جے ٓائی ٹی کے جمع کردہ شواہد اور مواد کی بنیاد پر ریفرنس

 

 

تیار کرے اور عدالت میں دائر کرے۔مقدمے کا الزام 19اکتوبر 2017 میں عائد کیا گیا اور اس میں ترمیم 08نومبر 2017 میں کی گئی۔ضمنی ریفرنس یہ تھا کہ ان کے اثاثے معلوم ٓامدنی سے ذائد ہیں، جس سے این اے او 1999کے تحت کرپشن اور کرپٹ اعمال ثابت ہوتے ہیں۔جب اس بات کا اطمینان ہوجائے تو ملزم پر یہ بوجھ منتقل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی جائداد کے حوالے سے تسلی کرائے ۔اس میں ناکامی کی صورت میں عدالت جرم کے ارتکاب کا تصور کرے گی۔انہوننے کیس اتھارٹی پی ایل ڈی 2017 ایس سی 265کا حوالہ دیا اور کہا کہ فیصلے کے پیرا 10اور 11میں ہے کہ جب یہ الزام عائد کیا جائے کہ عوامی عہدیدار یا ان کا کوئی رشتہ دار یا بے نامی کسی قسم کے اثاثہ جات کی ملکیت رکھتا ہے یا اس کے وسائل اس کی معلوم ٓامدنی سے زائد ہوں تو ا س پر کرپشن کا جرم ثابت ہوتا ہے۔اس میں مزید کہا گیا کہ استغاثہ ابتدائی بوجھ زائل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔جس میں اقرار تھا کہ ملزم نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کا زمینی کرایہ ادا کیا ،جو کہ مالکان ادا کرتے ہیں۔ضمنی مختصر بیان مینملزم کی جانب سے جو اقدام کیا گیا)فریق مخالف نمبر 7،6اور )8وہ یہ تھا کہ محمد شریف ان کے دادا تھے وہ اپنے گھروالوں کے ہمراہ اتفاق فائونڈری کے مالک تھے ، جسے 02جنوری 1972میں حکومت نے بغیر کسی ادائیگی کے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔1973میں مرحوم میاں محمد شریف یو اے ای منتقل ہوئے

 

اور گلف اسٹیل ملز قائم کی وہ یہ کاروبار طارق شفیع کے ذریعے چال رہے تھے۔جب کہ محمد حسین کمپنی میں شراکت دار تھے۔کمپنی سے متعلق اسٹیل فیکٹری دبئی کے مقامی بینک سے قرضہ حاصل کرکے تعمیر کی گئی تھی ۔اس کے لیے پاکستان سے کوئی رقم منقل نہیں کی گئی۔1978 میں مرحوم میاں محمد شریف نے کمپنی کے 75فیصد شیئرز عبدہللا قید اہلی فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔تاکہ کمپنی کے واجب االدا قرضہ جات ادا کیے جاسکیں۔اسی طرح 1978میں طارق شفیع نے کمپنی کے 75فیصد شیئرز فروخت کیے ۔کمپنی کا کاروبار اہلی ملز کمپنی کے نام سے چل رہا تھا ۔1980 میں میاں محمد شریف نے فیصلہ کیا کہ وہ دبئی کے اسٹیل کے کاروبار سے اپنے ٓاپ کو علیحدہ کرلیں ، جس پر اہلی کمپنی میں 25فیصد شیئرز عبدہللا قید اہلی کو فروخت کردیئے گئے ۔اسی سال اس 25فیصد

 

 

شیئرز کی فروخت سے جو رقم حاصل ہوئی تھی ا سے قطر کی الثانی خاندان سے رئیل اسٹیٹ کاروبار میں لگادیا گیا۔فلیٹ نمبر 16،16۔اے، 17اور 17۔اےالثانی خاندان نے خریدا تھا اور اس کی ملکیت نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ اور نیسکول کمپنی کے نام پر محفوظ کرلی گئی۔الثانی خاندان کے مرحوم میاں محمد شریف سے تعلقات کے باعث انہوں نے اپنی جائداد کے استعمال کی اجازت شریف خاندان کو دی ، جب کہ اس کے تمام اخراجات الثانی خاندان نے خود برداشت کیے۔10دسمبر 2000 میں پاکستان سے اپنی جالوطنی کے بعد مرحوم میاں محمد شریف نے الثانی کو تجویز دی کہ یہ باہمی کاروبار اور اس سے حاصل منافع ان کے بڑے پوتے فریق مخالف نمبر 7کے لیے ہے۔جب کہ فریق مخالف نمبر 6اس کا ٹرسٹی ہوگا ، ایسا 2006کی ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق تھا۔قابل وکیل نے ورجن ٓائی لینڈ فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 2003کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایم ایل اے کی معلومات کی درخواست جو کہ ایف ٓائی اے بی وی ٓائی کے ذریعے موصول ہوئی وہ ان قوانین کے تحت مستند ہیں۔رقم منی النڈرنگ کے ذریعے بھجوایا گیا ۔جب کہ بیئرر شیئرسرٹیفکیٹ نے اپنی افادیت بی وی ٓائی کمپنیز ایکٹ 2004کے سبب کھودی ۔انہوں نے ایس 69کا حوالہ دیا ، جو کہ تیار ریفرنس کے لیے دوبارہ درج ذیل ہے۔بیئرر شیئرز کے 69مسئلہ اور رجسٹرڈ شیئرز کی تبدیلی1۔ جہاں کمپنی بیئرر شیئرجاری کرے گی یاٹریژری شیئرز ٹرانسفرکرے گی تو یہ بیئرر شیئر ہوگا ۔یہ کسی ایسے شخص کو شیئرادا نہیں کرے گا جو کہ نگہبان کے عالوہ ہوگا اور وہ شیئررکھنے پر رضامند ہوگا۔2۔کمپنی تبدیل شدہ بیئرر شیئر جو کہ رجسٹرڈ شیئر سے ہوگا ادا نہیں کرے گا ، کسی ایسے شخص کو جو کہ نگہبان کے عالوہ ہوگا ۔بیئرر شیئرز کی ادائیگی نگہبان کو ڈویژن کے مطابق ہوگی جو کہ نگہبان کو کمپنی کا شیئر ہولڈر نہیں بنائے گا۔4۔جہاں کمپنی ایکٹ شق 1اور2کے تحت ہوگا ، وہاں جرم کا ارتکاب ہوگا جس پر جرمانے کی سزا ہوگی۔بی وی ٓائی بزنس کمپنیز ایکٹ 2004کا ایس 70بیئرر شیئرز جو نگہبان کے پاس نہ ہو کو معذور کردیتا ہے۔انہوننے یہ درخواست کی کہ یہ ظلم تھا کہ اصل مالک کا نام بیئرر کے ضمن میں افشا ہوگا۔

 

 

رجسٹرڈ شیئر ایسا اسٹاک ہے کہ جو مالک کے ہی نام ہو ۔اگر شیر کا مالک اسے فروخت کردیتا ہے تو نیا مالک اسے اپنے نام اور دیگر ذاتی معلومات کے  s پر رجسٹرڈ کرائے گا ۔بی وی ٓائی بزنس ایکٹ 2004 کے سیکشن 71 تحت حامل شیئر کا بینفیشل اونر جس کا اس شیئر میں مفاد ہو اس کا پورا نام اور دیگر معلومات ضروریات کے مطابق فراہم کرے گا ۔اس وقت جب حامل شیئر ز کو کسی شخص کو دیے جائیں گے ۔ایف ٓائی اے بی وی ٓائی خط کے مطابق مریم صفدر کو نیلسن اور نیسکول لیمیٹڈ کمپنیز میں بینفشل اونر بتایا گیا ہے ۔ایون فیلڈ اپارٹمنٹس مذکورہ دونوں ٓاف شور کمپنیوں کے نام پر تھے ۔اونر شپ کی اصل شناخت 2006 تک چھپائی گئی کہ جب برٹش ورژن ٓائی لینڈ قوانین تبدیل ہوئے اور یہ ممکن نہ رہ سکا کہ بینفشل ٓانر شپ کی اصل شناخت کو چھپا یا جائے جیسا کہ مندرجہ باال قانون میں بتایا گیا ۔پراسیکیوٹر نے اینٹی منی النڈرنگ قوانین 2008 اور ٹیررسٹ فنانس کوڈ ٓاف پریکٹس 2008 کا بھی حوالہ دیا حامل شیئرسرٹیفکٹ کو رجسٹرڈ شیئرمیں بدل دیاگیا (Exh PW ۔ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملنے والی وضاحت میں الئے گئے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے خط پر الزام ExhPW16/12)اور16/11 کے پیرا 4ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے متعلق ہے جو کہ Exh PW 16/11ٓایا۔ -تیار ریفرنس پر دوبارہ بنایاگیا ۔ایون فیلڈ ہائوس کے فلیٹ نمبر 17,17 ۔-16-16جائیدادیں ہیں پارک لین لندن دو ٓاف شور کمپنیوں کی ٓانر شپ A رجسٹرڈ کی گئی ۔جن کے شیئر کے سرٹیفکٹس اس وقت قطر میں رکھے گئے یہ رئیل اسٹیٹ بزنس کے طریقے سے خریدے گئے تھے ۔یہ خاندان کے تعلق پر بنائے گئے ،میاں محمد شریف اور ان کے خاندان نے جائیدادیں استعمال کیں جبکہ جائیداد کے تمام اخراجات برداشت کیے ۔جس میں گرائونڈ رینٹ اور سروس چارجز شامل ہیں ۔مذکورہ حمام بن جاسم جے ٓائی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے لیکن ان کی طرف سے خط پیش کیاگیا اور انہوں نے مختلف اوقات میں خود کو پیش کرنے سے گریز کیا ۔انہوں نے والیم -پانچ کے 20 تا 22 کا حوالہ دیا ، جے ٓائی ٹی کی جانب سے خط کو فرضی کہاگیا ۔ایم ایل اے کے ذریعے حاصل کی گئی دستاویزات ظاہر شاہ نے پیش کیے اور اس کے ساتھ پچھلے دستاویزات بھی تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپارٹمنٹس نیلسن اور نیسکول کمپنیوں نے 1993-06-01کو خریدے تھے

 

نیسکول a ۔فلیٹ نمبر 17 نیسکول نے 1996-07-23کو فلیٹ نمبر 17 لیمیٹڈنے 1995-07-31کو لیاگیا۔بیٹے )شریک ملزم (الزام نمبر ایک میں مذکورہ سالوں میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں رہتے تھے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ اپارٹمنٹس اسی وقت سے ان کی ملکیت تھے ۔بیٹوں کے انٹرویو میں الزام نمبر ایک میں صاف ہے کہ وہ اپارٹمنٹس ان کے استعمال میں تھے ۔گرائونڈ رینٹ ادا کیا گیا جو کہ مالک کو ادا کرنا ہوتا ہے ۔ٹرسٹ ڈیڈ بھی جعلی معلوم ہوئی جو کہ کیلبری فونٹ میں تھا اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سال 2006 میں تیار نہیں کیےگئے تھے ۔رابرٹ ریڈلے کی ماہرانہ رپورٹ سے پتہ چال کہ ڈیڈ جھوٹی ہے ۔مذکورہ ماہر کاکہنا تھا کہ کیلبری فونٹ جنوری 2017سے پہلے کمرشل طور پر دستیاب نہیں تھا ،ٹرسٹ ڈیڈ کے مواد پر اعتماد پیدا نہیں ہوتا ۔ٹرسٹ ڈیڈ کی ڈیوٹی پرپورٹڈ سیٹلر کے انتقال کے بعد ادا کی گئی ۔ملزم کی جانب سے اپنے دفاع میں کوئی دستاویز پیش نہیں کی گئی جبکہ ان کے پاس پراسیکیوشن کیس میں گواہ یا تحریری ثبوت دینے کا موقع تھا ۔ٹرسٹ ڈیڈ اوران پر دستخظ کی تصدیق کیلئے کوئی گواہ پیش نہیں ہوا ۔مزید کہاگیا کہ اگرجے ٓائی ٹی قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ نہیں کرسکتی تو پھر ڈیفنس کے پاس موقع ہے کہ دستاویزی ثبوت کے ساتھ حاضر کرے ۔اسی طرح کمپنیوں سے متعلق ثبوت پیش کرے تاہم یہ مرضی سے نہیں تھا ۔1993 سے مے فیئر اپارٹمنٹس ملزم کی ملکیت میں تھے اور کیس میں پراسیکیو شن کی جانب سے پیش دستاویز ات کے مطابق مریم صفدر نیلسن اور نیسکول کی بینفشل اونر ہے ۔یہ بھی شامل ہے کہ ملزم نے سال 1993 سے گرائونڈ رینٹ ادا کیا جو کہ ہمیشہ مالک کی جانب سے ادا کیا جاتا ہے ۔یہ بھی کہا گیا کہ ملزم میاں نواز شریف ،مریم صفدر،حسن نوازاور حسین نواز ٓامدنی کے ذرائع ثابت کرنے میں ناکام رہے ۔مزید یہ کہ مریم نواز نے اصل حقائق چھپائے اور کیپٹن )ر(صفدر نے جھوٹی ٹرسٹ ڈیڈ پر بطور گواہ دستخط کیے اور دونوں نے تحقیقاتی ایجنسی اور معزز سپریم کورٹ ٓاف پاکستان کو گمراہ کیاگیا ۔پراسیکیوٹر نے مفرور ملزم حسین نواز کے جے ٓائی ٹی کو دیاگیا بیان بھی پڑھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ مذکورہ فلیٹ میں سال 1993 سے رہ رہے ہیں اور خاندان نے دیگر فلیٹوں کی ملکیت 1995 اور 1996 میں حاصل کی

 

 

۔پراسیکیو ٹر نے مزید کہا کہ قطری شہزادے کا خط غیر مصدقہ ثابت ہوا ،قطری کو کی گئی سرمایہ کاری کا کوئی دستاویز ی ثبوت نہیں ہے اور نیلسن انٹر پرائززاور نیسکول لیمیٹڈ کے حامل شیئر زقطر میں نہیں تھے اور منیورا سروس کے حوالے سال 2006 میں کے گئے ۔اس کا مطلب ہے کہ دونوں کمپنیاں اور فلیٹس پہلے سے ہی سال 1993 سے شریف فیملی کی ملکیت تھے ۔مزید کہا گیا کہ حسین نواز کو قطری شہزادے سے منتقلی کا ریکارڈ ہے جیسا کہ جے ٓائی ٹی کے سامنے دعویٰ کیاگیا تھا ۔حماد بن جاسم کا بیان غیر متعلقہ ہے ،حتیٰ کہ جے ٓائی ٹی نے ان کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی ۔جے ٓائی ٹی نے حماد بن جاسم کو 2017-05-24اور -06-22 2017کیلئے سمن جاری کیا اور وہ جے ٓائی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے ۔مزید یہ کہ جے ٓائی ٹی نے کہا کہ وہ بیان ریکارڈ کرنے کیلئے دوحا جاسکتے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ وہ سفارتخانے میں بیان ریکارڈ نہیں کرائینگے اور نہ ہی عدالت میں پیش ہونگے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر جے ٓائی ٹی نے ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا تو وہ دفاع میں گواہ کے طور پر عدالت کے روبرو پیش ہوسکتے ہیں ۔ملزم کی جانب سے ویڈیو لنک کے ذریعے ان کے بیان ریکارڈ کی درخواست کی جاسکتی ہے ۔پراسیکیوٹر نے کہا کہ جے ٓائی ٹی کے مطابق ان کے لیٹر کی فائنڈنگ محض کہا نی ہے ۔پراسیکیوٹر نے مزید یہ بھی کہا کہ جے ٓائی ٹی نے طارق شفیع کے بیان حلفی کا بھی تجزیہ کیا ،تاہم اس میں کہیں بھی دبئی کورٹ سسٹم میں 1980 میں گلف اسٹریٹ کے 25 فیصد شیئر کے فروخت کا ثبوت نہیں مال ،رابرٹ ریڈلے نے ان کی رپورٹ کی PW14 ۔پراسیکیوٹر نے دالئل دیے کہ تصدیق کی اور اس پر اعتراض نہیں تھا ۔سامبا بینک کے خط کا تعلق بھی

 

اہم تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ مریم صفدر کا ماقبل 2006 تعلق تھااور مزید یہ کہ دو پیش کی گئیں ٹرسٹ ڈیڈ ناصرف جعلی بلکہ سمجھ سے باال تھیں ۔یہ بھی کہا کہ مفرور ملزم نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں یہ اعتراف کیا کہ شریعت کے مطابق ان کے والد فلیٹ کے مالک ہیں ۔ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق مریم نواز کے انتقال کی صورت میں مریم نواز کو حق ہوگا کہ وہ جائیداد

 

کی تقسیم کردیں،جب ٹرسٹ ڈیڈ کا قانونی اہمیت پر جائزہ لیاگیا تو گیلڈ کوپر کیو سی کی جانب سے قانونی نکتہ پیش کیا گیا جو کہ انہوں نے شریعت کے

 

 

مطابق تقسیم کا بغور جائزہ لیا تھا کہ اگر صرف اس مقصد کیلئے ہے تو اس کیلئے وصیت ہوسکتی ہے ۔دستاویزات میں ملزم نے کچھ پیش نہیں کیا جبکہ پراسیکیو شن کیس ڈاکو منٹس پر بنایاگیا ۔ڈیفنس وکیل خواجہ حارث کی جانب سےدالئل کے دوران مندرجہ ذیل پیش کیے گئے ،1جے ٓائی ٹی کے اختیارات 2017-05-05کو دیے گئے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔جے ٓائی ٹی کو قانون کے مطابق تمام اختیارات دیے گئے ہیں جو کہ کریمنل کوڈ پروسیجر میں ہیں ۔نیب ٓارڈیننس 1999اور ایف ٓائی اے ایکٹ 1975 میں کے مطابق تحقیقات کا مطلب دستاویزات کو جمع کرنا ہے ۔S(4)-28ہیں۔1

 

2017-07کو فائنل ٓارڈر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نیب کو ہدایت کی گئی کہ احتساب عدالت راولپنڈی /اسالم ٓاباد کے سامنے جمع مواد کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرے ۔اس لیے تجزیہ ،خیاالت ،جے ٓائی ٹی کی طرف سے نتیجہ دائر کیے گئے ریفرنس کی بنیاد پر نہیں ہے ۔ان کے پاس -06-14 2017 کا ریفر ٓارڈر بھی ہے ،پیرا 6 ریکارڈ بیان کے ساتھ پڑھا گیا ۔موجودہ فیصلہ تفصیلی فیصلے میں ہے۔نظر ثانی اپیل ملزم کی جانب سے فائل کی گئی ،جس کا کچھ حصہ ڈیفنس وکیل نے پیرا 14 میں 2017-09-15کو بنایا۔دالئل دیے کہ ہدایات غیر مبہم طور پر جے ٓائی ٹی کی جانب سے مواد جمع کیاگیا،جس کی شہادت ہونا ابھی باقی ہے ۔ٹرائل کورٹ کسی بھی صورت میں ثبوت کا اندازہ کرے گی جس میں جے ٓائی ٹی کی جانب سے جمع شدہ مواد بھی شامل ہوگا ۔ورنہ فیصلے میں تمام ٓابزرویشنز ٓازمائشی ہونگی ٹرائل کورٹ کو اپنے فیصلے میں پابند نہیں کرسکے گی ،ڈیفنس سید SCMR550وکیل نے مندرجہ ذیل اتھارٹیز کا بھی حوالہ دیا ۔1993 سعید محمد شاہ کا عنوان اور ایک دوسرا ورژن پیرا 10 ہے جو مندرجہ ذیل میں ہے ۔کریمنل پروسیجر کوڈ کا سیکشن 173اس چیپٹر میں انتہائی اہم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سیکشن کے تحت مجسٹریٹ کو پولیس افسر کی جانب سے تحقیقاتی رپورٹ بھیجی جائے گی ،اس رپورٹ میں پارٹیز کے نام شامل ہونگے ،معلومات کی نوعیت اور شخصیات کے نام ہونگے ۔ریفرنس راجا محمد افضل چودھری محمد الطاف حسین اور دیگر کا بن سکتا ہے ۔پی ایل ڈی 2018 سپریم کورٹ 178 کا 1986scmr1736 عنوان ہےصوبہ پنجاب پنجاب پبلک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے اور

 

 

دیگر محمد رفیق اور پیرا13 میں ذیل میں دیے گئے ہیں ۔مذکورہ وکیل نے جے ٓائی ٹی کی رپورٹ پر اعتبار کیا اور مخصوص پیرا گراف بھی پڑھا لیکن مذکورہ رپورٹ جے ٓائی ٹی اراکین کا خیال ہی ہے اور اس پر غور کیا کے کیس میں ہے ۔ٹرائل کورٹ v جاسکتا ہے ۔سید سعید محمد شاہ اور دیگر اس صورت میں اس کو سراہے گی کہ جب قابل قبول مواد کی حمایت کرے گی ۔کیونکہ عدالت صرف مواد میٹریل کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی اور کسی پولیس افسر کے خیال پر فیصلہ نہیں ہوسکتا چاہے وہ ٓائی جی پولیس رینک کا ہو ۔3پی ایل ڈی 2011 سپریم کورٹ 350محمد ارشد اور دیگر کا عنوان ہے جس کا پیرا 35 میں یوں بتایا گیا ۔ہمیں لگتا ہے کہ وقت ٓاگیاہے کہ جب ہمیں خود سے تحقیقات میں پولیس کے قانونی کردار اور قابل قبول متعلقہ ثبوتوں کی ضرورت ہے ۔2003-4ایم ایل ڈی (676کراچی (آصف جمیل اور دیگر کیلئے ہے ،جس میں ہے کہ مزید اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ کئی دیگر کیسوں میندیکھاگیا کہ جب پولیس افسر/تحقیقاتی افسر گواہوں کے بیان ریکارڈ کرتا ہے تواسے پراسیکیوشن کی جانب سے کسی مقصد کیلئے مقبول P Cr. L J 1198(Lahore)استعمال نہیں کیاجاسکتا ۔1999-5 احمدبنام ایس ایچ او ہیں ،پولیس اسٹیشن چھانگا مانگا ،ضلع قصور اور دیگر ریاست محمد انوربنام ریاست کا M L D 2005(Lahore)ہیں ۔1991-6 عطاہللا عرف قاسم اور دیگر M L D372( Karachi)عنوان ہے ۔2007-7 حاجی ( P Cr. L J 62 (Peshawar بنام ریاست کا عنوان ہے ۔1991-8 P Cr. L J محمد جاوید بنام ریاست اور دیگر دو کا عنوان ہے ۔1998-9

 

مسعود بیگم بنام محمد معروف اور دیگر دو کا ہے ۔پیرا 6 ذیل 56(Lahore) میں ہے ۔ٹرائل میں ثبوت ،یا گواہوں کی صالحیت فیصلے کیلئے ثبوت کا معیار اور کوالٹی ایجنسی کی طرف سے ہے یا حقائق کی تہہ تک ثبوت جمع درگاہی اور -P L D 1958(W.P)Lahore 300کرنا ایجنسی کا کام ہے ۔10 ذیل میں ہیں ۔پیرا F &23 F 22دیگر کا بنام ریاست کے عنوان ہے ۔پیرا 22 میں ہے کہ ہم نے سیشن جج کا فیصلہ بغور پڑھا ہے اور اس میں کمی دیکھ رہے ہیں ،سیشن جج کو کو لگا کہ اگر وہ اس معاملے میں بے یارو مدد گار ہیں تو ان کا دماغ تحقیقاتی افسر کے خیال کی طرف جاسکتا ہے ۔جوکہ غیر متعلقہ تھا اور ایویڈنس ایکٹ کے تحت ناقابل قبول تھا ۔ایک تحقیقاتی افسر کو

 

حق ہے کہ قصور اور بے گناہی کے خیال پر ٓاسکتا ہے ،وہ ضمانت بھی دے سکتا ہے ۔کورٹ میں چاالن کے بعد کورٹ کا یہ کام ہے کہ ثبوتوں اور گوہی کی بنیاد پر مجرم یا بے گناہی کو دیکھے ۔تحقیقاتی افسر ان سیکشنز میں واضح کیاگیا کوئی شخص نہیں ہوسکتا اور اس کا قصور وار یا بے گناہی سے متعلق خیال مخصوص معاملے میں نہیں ہوسکتی ۔مذکورہ سیشن

 

  • کو یہ ادراک ہو ا کہ تحقیقاتی افسر کا خیال قانونی ثبوت نہیں تھا اور کوئی بھی عدالت اس کی بنیاد پر فائنڈنگ نہیں دے سکتی ۔ہم نے اس کی

 

طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اس کیس میں تحقیقاتی افسر کو سیشن جج کی جانب سے اجازت دی گئی کہ پبلک پراسیکیوٹر کے کردار کو قبول کرلے ،کیس کو گواہی کی بنیاد پر بنایاجائے گا اور اسے قانونی طریقہ کار کے مطابق چالیا جائے گا۔

 

اور  Fکے پیراگراف PCL1958LHR300 22 درگاہی وغیرہ منعم ہوگا میں بنایا گیا ہے کہ ہم نے معزز سیشن جج کے فیصلے کو احتیاط سے  23F پڑھا اور اس کی عملدرآمد سے متعلق رولنگ کو تالش کرنے میں بے کار میں کوشش کی ایب رائٹس کی بریت کا حکم عدالتی فیصلہ پر انحصار نہیں کرتا جو کہ نقاط کہیں کے تھے لیکن معزز سیشن جج بھول گئے کہ انہوں نے اپنی سوچ پر تفتیشی افسر کو حاوی کرنے دیا اور شہادت کے قانون کے مطابق ہماری ٓارا غیر ضروری اور قابل قبول نہیں ہوتی جبکہ جب کوئی تفتیشی افسر کسی ملزم کے گناہگار ہونے اور بے گناہی سے متعلق اپنی ٓارا

 

  • 2کے تحت اس ملزم کو ضمانت B9 قائم کرتا ہے تو وہ اسے سیکشن دے سکتا ہے اسے اس جرم سے ڈسچارج کرسکتا ہے لیکن جب چاالن

 

عدالت میں ٓا جائے تو اس کے بعد یہ اختیار عدالت کے پاس ہوتا ہےۃ کہ وہ کسی مجرم کی بے گناہی اور گناہگار ہونے سے متعلق ہو تو وہ مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے لیکن ہم نے ایسی کوئی سکشین اور عدالتی فیصلہ نے دیکھا جس میں تفتیشی افسر کی ٓارا کو تسلیم کیا ہو کسی کی رائے اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک شہادت ایکٹ کے سیکشن 45-41 میں بیان کئے گئے واقعات سے مطابقت رکھتی ہو اور تفتیشی افسر وہ بندہ نہیں ہے جو کہ کسی کی بے گناہی اور گناہگار ہونے سے متعلق حقیقت سے مطابقت

 

 

رکھتا ہو اور معزز سیشن جج اور نہ .ۜ اس کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔پیراگراف۔23۔کسی جوڈیشل افسر کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ جوڈیشل مائنڈ کو تفتیشی افسر کی ٓارا سے منسلک کرے کسی مجرم کی بے گناہی اور اس کا گناہگار ہونے سے متعلق معاملہ قانون کے مطابق ہی قابل قبول ہونا چاہئے اور اب یہ انتہائی خطرناک ہوگا کہ پولیس ٓافیسرز کی رائے پر انحصار کیا جائے تو اس سے ایسا ہی لگے گا کہ لوگوں کا عدالتوں سے اعتماد متزلزل ہوا ہے ہمیں عدلیہ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ صاف شفاف انصاف کیلئے کسی حلف نامے پر کام کرے اور ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں سیشن جز صرف قانون کے مطابق فیصلے کرسکے۔11۔ الطاف حسین وغیرہ بمع سرکار میں بتایا گیا ہے کہ اگر تفتیشی ٓافیسر کی ٓاراء حقیقت PLD2000LHR216

 

سے مطابقت رکھتی ہے تو اسے ایکسپرٹ رائے تصور کرتے ہوئے حقیقت سے قریب ترین تصور کیا جائے، اس طرح ٓاراء سے کسی مجرم کو سزا نہیں دی جا سکتی لیکن یہ کیس کو کمزور ضرور کرتی ہے۔ پراسیکیوشن میں چھوٹا سا کریک بھی مجرم کوفائدہ دیتا ہے اور ملزم کو دی جانیوالی رعایت ہمارے روایتی طریقہ تفتیش کیخالف ہے۔12۔رائو عبدالجبار خاں بنام میں Bکے پیرا گراف PLD2013SC4724 الہور ہائیکورٹ الوہر بعنوان بتایا گیا ہے کہ یہ ایک سیٹلڈقانون ہے کہ تفتیشی افسر کی کسی مجرم کی بے گناہی اور گناہنگار ہونے سے متعلق عدالت کو رائے پابند نہیں میں الہور ہائیکورٹ نے بتایا کہ پولیس افسران PLD2002LHR261ہے۔

 

کی شہادت کو فیصلے کے وقت دیکھا جائیگا، کسی مجرم کی بے گناہی اور اس کے گناہنگار ہونے سے متعلق رائے شہادت میں قابل قبول نہیں ہے لیکن یہ اس وقت ہی مانی جا سکتی ہے جب فیصلہ کوئی فراہم کیا جائے جیسا کہ الہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے الطاف حسین وغیرہ بنام سرکار میں بتایا کے PCD 1992 LHR314 ہے۔بعنوان حاجی محمد حنیف بنام سرکار پیراگراف 25 اور 27 میں بتایا گیا ہے تفتیشی افسر کا کسی خاص مجرم کی بے گناہی اور اس کے گناہگار ہونے سے متعلق رائے صرف رائے کا اظہار ہو سکتی ہے جو کہ غیر ضروری اور ناقابل قبول شہادت ہے۔ کیس کے واقعات سے متعلق کوئی رائے قائم کرنا عدالتی معاملہ ہے جو کہ

 

 

صرف اور صرف عدالت ہی کر سکتی ہے اور اگر کوئی گواہ واقعات سے متعلق بتانے کے عالوہ اپنی رائے جو اس نے 3 چیزوں کو محسوس کرتے ہوئے بنائی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی دے سکتا ہے۔14شاکر کے پیراگرف 45 میں بتایا گیا ہے کہ  PCD2015 Pesh 157 بنام سرکار سیکشن161ض ف 1898کے تحت کسی مجرم یا کسی پراسیکیوشن کے گواہ کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ معاون مجرم کے خالف بھی ثابت نہیں کی جائے گی۔ قانون شہادت ٓارڈر 1984 کے ٓارٹیکل 43 کے تحت جب کوئی مجرم کوئی اقبال جرم کرتا ہے تو وہ صرف اقبال جرم کرنے والے مجرم کے خالف ہی ثابت ہو سکتا ہے اگر ان کو ایک ساتھ ٹرائل کیا کیا جا سکتا ہے۔  Consider جا رہا ہو تو لیکن دوسروں کے خالف صرف کے پیراگراف4 میں بتایا گیا ہے  15MLD 1253، اکمل بنام سرکار 1997 کہ 161 ض ف کے تحت ریکارڈ کیا گیا بیان ناصرف اس کے دینے والے کے خالف قابل قبول ہے بلکہ معاون مجرم کے خالف بھی نہیں کیا جا سکتا۔ میں -Qکے پیراگراف 16 SCMR 660 37، محمد احمد بنام سرکار 2010 کہا گیا ہے کہ کسی مجرم کو بے گناہ اور گناہگار ہونے سے متعلق صرف اور صرف عدالت کا اختیار ہے۔ یہ کسی پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مالزم کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے اگر یہ اختیار پولیس افسران کو دے دیا جائے تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہونگے۔ سیکشن 157-155 اور 174ضابطہ فوجداری پولیس ٓافیسر کو کیس میں صرف اور صرف تفتیش تفتیشی ٓافیسر کا کام کیس میں صرف ثبوت اکٹھا کرنا ہیں اور ان ثبوتوں کو عدالت کے حوالے کرنا ہے۔ گزشتہ 110 سال سے جب سے فوجداری ضابطہ وجود میں ٓایا ہے کسی تفتیشی افسر کو ایکسپرٹ نہیں تسلیم کیا گیا کہ وہ کسی مجرم کو بے گناہ اور کسی مجرم کو گناہگار ثابت کر دے۔17، -کے پیراگراف PLD PcrL-T LHR 895 10 عبدالحمید وغیرہ بنام سرکار میں بتایا گیا ہے کہ کیا کسی مجرم کی بے گناہی اور گناہگار ہونے سے A,B متعلق پولیس افسر کی رائے شہادت بھی قابل قبول ہے؟ تو اس کا جواب بڑا سادہ سا ہے کہ بے گناہی اور گناہگار ہونے سے متعلق پولیس ٓافیسر کی رائے قابل قبول نہیں ہے اور عدالت کیس کو قانونی طور پر دستیاب شہادت پر فیصلہ کرے۔ بعنوان محمد احمد وغیرہ بنام سرکار میں سپریم کورٹ ٓاف

 

 

پاکستان نے یہ جائزہ لیا تھا کہ کسی بھی مجرم کو بے گناہ کرنے اور اسے گناہگار ٹھہرانے کا پورا اختیار عدالت کا ہے جس کی اجازت کسی طور پر ٓاغا وزیر عباس وغیرہ -Aبھی پولیس مالزمین کو نہیں دی جا سکتی۔ 18، 13 اور 14 میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی  -A,Bبنام سرکار کے پیراگراف 13 فیصلہ مکمل طور پر دستیاب شہادت کے پرکھنے کی بنیاد پر دیا جائے۔ یہ عدالت کا بندھا ٹکا اصول ہے کہ کسی مجرم کو بری کرنے کا فیصلہ صرف دستیاب شہادت کو نہ پرکھنے اور نہ دیکھنے پر تبدیل کیا جائے۔ معزز وکیل استغاثہ یہ ثابت نہیں کر سکے کہ بریت کے فیصلہ سے کسی کے قانونی

 

  • اشتہاری مہرمل جگوانی کی جانب -Bورثاء کو کوئی بیماری ہے۔ 13،19 سے چیئرمین نیب کو لکھا گیا خط قابل قبول شہادت نہیں ہے۔ قانون شہادت ٓارڈر کے ٓارٹیکل 43 کے مطابق اسے اقبال جرم کا بیان نہیں تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس بیان کو ٓارٹیکل 46 کا بیان مانا جا سکتا ہے۔ ٓارٹیکل

 

43کے مطابق جب کسی کیس میں ایک مجرم سے زیادہ کا اکٹھا ٹرائل ہو رہا ہو تو ان میں سے کوئی ایک اعتراف جرم کرتا ہے اور وہ ثابت بھی ہو جاتا شہادت کے طور پر  CIRMUTANCUAL ہے تو وہ دوسروں کیخالف استعمال کیا جاتا ہے اشتہاری مجرم اورمہرمل جگوانی کی طرف سے بھیجا گیا خط کیس میں بطور اعتراف جرم نہیں جانے جائیگا اگر وہ ابھی تک اشتہاری ہو اور نہ ہی دوسرے ہمراہی ملزمان کیساتھ اس کا کیس مال ہو۔حتیٰ کہ اگر ٓارٹیکل 48کو صرف پڑھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ بیان صرف ان افراد کا ہے جو وفات پا گئے یاجو مل نہیں سکتے یا جن کی تالش نہیں کی جا سکتی ہے لیکن اس کیس میں مجرم مہرمل جگوانی زندہ بھی ہے اور انڈیا میں موجود بھی ہے۔ اس وقت یہ بتانا ضروری ہے کہ کسی مجرم کا اعتراف جرم لینے سے متعلق سیکشن 364,164صفحات میں مکمل پروسیجر دیا گیا ہےجو اس کیس میں نہیں ہے۔مندرجہ باال خط کو سیکشن 364,164کے مطابق لئے گئے بیان کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا حتیٰ کہ ملزم کا زبانی بیان بھی اگر اسے تفتیشی افسر کی جانب سے تحریر کیا گیا ہو تو اس کا پروسیجر بھی اس کیس میں موجود نہیں ہے ۔ اسسٹنٹ کی جانب سے P.W.A.D KHUWJA ڈائریکٹر انوسٹی گیشن ایف ٓائی اے دیاگیا خط کسی بھی بطور شہادت قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی اسےپیش

 

 

کرنے کا مجاز تھےیہ مندرجہ باال دستاویزات جیسا کہ رسید اور لفافہ جو کہ پاکستان میں موصول ہوا بھارت سے بھیجا گیا لیکن FEDEX OFFICE اس دفتر سے کوئی بھی ا س کی وصولی جرم ثابت نہیں کر پائے۔حتیٰ کہ کا پتہ بھی اس کے اوپر نہیں لکھا ہوان تھالیکن FIA اسسٹنٹ ڈائریکٹر ریکارڈ دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس خط کو نوٹری پبلک ممبئی انڈیا نے تصدیق کیا ہوا ہےاور اس کے دستخط گورنمنٹ مہاراشٹر کے سیکشن افسرہوم ڈیپارٹمنٹ نے ویری فائی کیا ہے۔اب تک یہ کسی بیرون ملک کا جوڈیشل ریکارڈ نہیں ہے اس لئے اسکا اصل ہونا اور حقیقی ہونا ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔انڈیا میں پاکستان ایمببی نے بھی اسے تصدیق نہیں کیا او ر نہ ہی کسی پاکستانی ایمبیسی کے ذریعے بھیجا گیا ہے۔اس لئے اسے کسی بھی صورت قابل قبول دستاویزی شہادت نہیں مانا جا سکتا۔ قابل سماعت ہونے

 

اور دستاویزات کے ثبوت کے حوالے سے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔ جو درج ذیل ہیں 2010 -1 سی ایل سی 722 سید امداد حسین شاہ بنام سید مخدوم حسین رضا کاپیرا 11جی تصدیق شدہ نقل وہ ہے جو پبلک ریکارڈ کا حصہ ہے اور اس اتھارٹی نے جاری کی جسے رجسٹر یا اصل دستاویز سے موازنہ کرکے جاری کرنے کا اختیار ہے۔ صرف یہ بات کافی نہیں کہ دستاویز پر نقل کنندہ یا سیکرٹری یونین کونسل کے دستخط نظر ٓا رہے ہیں جب تک کہ تصدیق شدہ نقل پیش نہ کی جائے اور وہ اصل ریکارڈ سے ثابت شدہ نہ ہو۔ محمد اسلم کے کیس 2000ایم ایل ڈی کے متعلقہ حصے میں کہا گیا ہے۔ فاضل وکیل نے کہا کہ ’’ڈس پلیڈ‘‘ کا لفظ ایک بالکل مختلف صورتحال کیلئے ہے۔ متاثرہ شخص ضروری نہیں کہ ڈس پلیڈ پرسن ہو۔ مدعا علیہان کے فاضل وکیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ مدعا علیہان نے ترمیم کی درخواست دائر کرتے ہوئے سرٹیفکیٹس کے قانونی اور اصلی ہونے اور ان کے قبول کئے جانے پر اعتراض کیا تھا۔ ان کا جواب مورخہ 7نومبر 1992ء صفحہ 182پر ریکارڈ میں ہے۔ فاضل وکیل نے یہ بھی کہا کہ سرٹیفکیٹ ’’قانون شہادت ٓارڈر19861 ‘‘ کے ٓارٹیکلز 87 اور 89 کے مطابق تصدیق شدہ نہیں تھے اور 1991سی ایل سی صفحہ 1201پر انحصار کیا گیا۔ جہاں قراردیا گیا کہ دستاویزات کی تصدیق قانون شہادت کی متعلقہ شقوں کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ ایسی دستاویز پر انحصار نہیں کیا جا

 

 

سکتا جو ان کے مطابق تصدیق شدہ نہ ہو۔ پی ایل ڈی 1962 الہور 92 پر انحصار کیا گیا جس میں قرار دیا گیا کہ صرف شہادت ایکٹ کی دفعہ 76 )آرٹیکل 87 قانونی شہادت ٓارڈر )1984 کے مطابق تصدیق شدہ نقل ہی تصدیق شدہ نقل مانی جائے گی اور نقل پر صرف نقل کنندہ اور تصدیق کنندہ کے دستخط کافی ہیں۔ اصل اور درست نقل لکھنا بھی ضروری ہے۔ -2 1991سی ایل سی 1201 )الہور( محبوب علی اور دیگر تمام شریفاں بی بی

  • دیگر -3 21 پی ایل ڈی1962 )ڈبلیو پی( الہور 492خضر محمد و دیگر بنام غالم محمد و دیگر -4 فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 2003 ورجن ٓائی لینڈ 1995 -5سی ایل سی 153(پشاور( جنرل منیجر ایچ بی ایف سی و دیگر بنام علی رحمٰن پیرا 13جی اور 14میں کہا گیا ہے اس کیس میں دستاویز کے گواہ اور تحریر کنندہ پر جرح کی گئی لیکن اپیل کنندہ فضل محمود نے دونوں دستاویزات پر اپنے دستخط سے انکار نہیں کیا قانون

 

جب دستاویزات کیلئے استعمال کیا جائے Proved شہادت کی دفعہ 3میں لفظ تو اسے اس ایکٹ کے سیکشن 67کے ساتھ پڑھا جائے۔ اس لئے کوئی نہیں سمجھی  Proved دستاویز اس وقت تک ایویڈنس ایکٹ کے مطابق جائے گی۔ جب تک یہ شہادت نہ ہو کہ دستخط واقعی دستاویز لکھنے والے کے ہی ہیں۔ قانون کی نظر میں دستاویز تصدیق شدہ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ تصدیق کے ساتھ اس کے متعلقہ کے لکھنے کا ثبوت بھی ضروری ہے۔ اس لئے ہماری رائے ہے کہ تحریر کنندہ اور تصدیق کرنے والے گواہ کی شہادت کے عالوہ تحریر اپنے وا لے اپیل کنندہ فضل محمود سے بھی

 

پوچھا جائے کہ کیا دستاویزات پر دستخط اسی کے ہیں۔ اگر وہ التعلقی ظاہر کرے تو قانون شہادت پر عمل کرتے ہوئے فضل محمودکے دستخطوں کی تصدیق کیلئے ایک یا زیادہ طریقے استعمال کئے جائیں گے۔ کسی دستخط یا تحریر کی تصدیق کیلئے قانون شہادت کا تسلیم شدہ طریق کار درج ذیل ہے۔ اس شخص کو طلب کرکے جس نے دستاویز لکھی یا اس پر دستخط  (I) ااس شخص کو طلب کرکے جس کی موجودگی میں دستاویز لکھی (II) کئے۔ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کو طلب کرکے (III) گئی اس پر دستخط کئے گئے۔ ایسے شخص کو طلب کرکے جو مذکورہ دستاویز لکھنے والے یا اس (IV) تحریر کرنے یا  (V) پر دستخط کرنے والے کی تحریر سے واقف ہو۔

 

 

دستخط کرنے والے کے تسلیم شدہ دستخط اور تحریر کے عدالت میں تحریر کرنے یا دستخط  (VI) متنازعہ تحریر یا دستخط سے موازنہ کرکے کوئی شخص تصدیق  (VII) کرنے والے کے اس بات کے اعتراف کرے۔ کرے کہ اس نے تحریر کرنے والے کی درخواست پر اس پر دستخط کئے کسی دوسری واقعاتی شہادت سے۔ 6۔ 1996سی ایل پی (74کراچی  (IX) کسی دستاویز کی تصدیق کا طریقہ کار یہ ہے  V) نیشنل بینک ٓاف پاکستان کہ اول دستاویز کے مسئوالت قانون نہیں ہے۔آرٹیکل 72سے 76 کے مطابق پرائمری یا ثانونی شہادت سے ثابت ہوں۔ دوم یہ کہ دستاویز کے مسثوالت کا ثبوت اس کے تعین کرنے کا ثبوت نہیں ہے۔ ایسے ٓارٹیکل 76 کے تحت دستخط یا تحریر سے ثابت ہونا چاہئے۔ سوم یہ کہ کسی دستاویز کا حصہ ہونا قانون شہادت میں رہنے کے طریقہ دے یا دستاویز کے مشموالت یا ریکارڈ پر موجود دوسری دستاویزوں سے ثابت ہو جو عدالت اپنی صوابدید کے مطابق کافی سمجھے۔7۔ 2004 کی ٓار ایل جے 371 )فیڈرل شریعت کورٹ( محمد ارشد نسیم بنام سٹیٹ پیرا8اے اور بی ہم نے فریقین کے وکالء کے دالئل کا بغور جائزہ لیا ہے اور ان کی اعانت سے ریکارڈ کا معائنہ کیا ہے۔ وہ درخواست جس میں مدعی کے خالف زنا کا الزام لگایا گیا پیش نہیں کی گئی۔ قانوناً جو شخص کسی دستاویز پر انحصار کرتا ہے اسے ثابت کرنا اس کا کام ہے۔ قانون شہادت ٓارڈر1984ء کا ٓارٹیکل72 کیا ہے کہ دستاویزات کے مشموالت پرائمری یا سیکنڈری شہادتوں سے ثابت کیے جا سکتے ہیں جبکہ ٓارٹیکل73 میں بتایا گیا ہے کہ پرائمری شہادت کا مطلب خود وہ درخواست ہے جو عدالت کے معائنے کیلئے پیش کی گئی اورآرٹیکل 75 کا تقاضا ہے کہ دستاویز الزماً ثابت کی جائے ماسوائے ان معامالت میں جن میں سیکنڈری شہادت دی جا سکے یہ نوٹ کی جائے کہ عدالت کے ریکارڈ یا کہیں اور موجود دستاویزات کا تعلق حقائق کے سلسلے میں جائزہ لیا جا سکتا ہے لیکن جب تک ان کی تصدیق نہ ہو جائے انہیں شہادت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ دستاویزات خود ایسا ثبوت نہیں ہوتیں اور محض عدالت میں پیش کر دینے سے ان کی مشموالت درست ثابت نہیں ہو جائے ا س لیے و ہ دستاویزات جن پر کوئی فریق انحصار کر رہا ہے پہلے عدالت میں پیش کی جائیں اور پھر گواہوں کو بال کر ان کی تصدیق کی جائے۔ اس سلسلے میں

 

 

ہماری رائے کو مندرجہ ذیل رپورٹڈ فیصلوں سے تقویت ملی محمد اعظم (ii)عبدالقیوم بنام محمد رفیق2002ء ایس سی جے300،((iہے۔

 

فضل محمد بنام مسماۃ چھوہارا وغیرہ،1992ء ایس (iii)بنام محمد اقبال وغیرہ بشوا ناتھ بنام سچیدہ ٓانند اے ڈی ٓار1971ء ایس سی (iv)سی ایم ٓار2182، راج ولی الدین بنام جوائنٹ ڈائریکٹر کنسالیڈیشن 1983 (v) ممبئی 1 اور حکومت بہار سٹیٹ اے ٓائی ٓار1989ء پٹنہ8،66۔پی ایل ڈی2016ء الہور570 ریحانہ انجم بنام ایڈیشنل سیشن جج پیرا9ایف،کوئی دستاویز بطور شہادت پیش کرنا، اس کے مشموالت ثابت کرنے سے مختلف بات ہے، کسی دستاویز کے بطور شہادت قبول کر لینے سے پیش کرنے واال ٓارٹیکل79 کے تحت اسے ثابت کرنے کی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو جاتا۔الیکٹرانک ٹرانزیکشنز ٓارڈیننس 2002کے تحت الیکٹرانیکلی تیار کردہ دستاویزات پر دستخط کی ضرورت نہیں، کوئی دستاویز پیش کرنا اور دستاویز کا ثبوت دو الگ الگ باتیں ہیں۔ کوئی دستاویز بطور شہادت پیش کی جا سکتی ہے بشرطیکہ وہ ٓارٹیکل 78کے تحت تفصیلی ثابت کی جائے۔ ایسا نہ ہو تو اس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیکو لیگل رپورٹ یا بنکروپسی رپورٹ لکھنے والے میڈیکل ٓافیسر کو اس کا ایک ایک لفظ ثابت کرنا ہوتا ہے کیونکہ دفعہ 510ض ف کے تحت نہیں ٓاتی جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے کیمیکل ایگزامینر یا اسسٹنٹ کیمیکل ایگزامینر، چیف کیمسٹ سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن لمیٹڈ، کسی سیرولوجسٹ یا حکومت کے مقررکردہ فنگر پرنٹ یا فائر ٓارم ایکسپرٹ کی رپورٹس انہیں بالئے بغیر بطور شہادت قبول کی جا سکتی ہیں البتہ عدالت انصاف کے تقاضے کے تحت ضروری سمجھے تو انہیں بال بھی سکتی ہے۔ 9۔ پی ایل ڈی 1973سپریم کورٹ 160خان محمد یوسف خاں خٹک بنام ایس ایم ایوب... فارم ای )ایگزیبٹ پی ای( جو کمپنی نے کمپنیز ایکٹ کی دفعہ 32کے تحت رجسٹرار ٓاف جائنٹ سٹاک کمپنیز کو جمع کرایا ہے اس میں خان محمد یوسف خٹک کو 31دسمبر 1970کو بھی کمپنی کے ڈائریکٹرز میں سے ایک ظاہر کیا گیا ہے۔ اس فارم میں یہ سرٹیفکیٹ بھی ہے۔ ’’میں محمد یوسف خاں خٹک تصدیق کرتا ہوں کہ مندرجہ باال فہرست اور سمری ان حقائق کو بالکل درست بیان کرتی ہے جو 31دسمبر 1970کو تھے۔ )دستخط( محمد یوسف خٹک منیجنگ

 

 

ڈائریکٹر۔‘‘ جب میں کہتا ہوں کہ دستاویز )پی ای( غیر تصدیق شدہ ہے تو میرے ذہن میں قانون شہادت کی دفعہ 67ہے، اگر مدعا علیہ کا موقف یہ ہے کہ دستاویز پی ای اور اس کے ساتھ سرٹیفکیٹ پر اپیل کنندہ نے دستخط کئے تھے تو یہ ثابت کرنا چاہئے تھا کہ دستخط اپیل کنندہ کے ہی ہیں لیکن اس کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ بنگل فرینڈز اینڈ کمپنی بنام گور ہنوڈ سہا اینڈ کمپنی کے کیس میں اس عدالت نے یہ نکتہ اس طرح بیان کیا تھا۔ ’’عدالتی ریکارڈ کی نقول کے سوا کوئی دستاویز دستخط اور تحریر کے ثبوت کے بغیر بطور شہادت قبول نہ کی جائے‘‘ میرا خیال ہے کہ اگر ایسی دستاویزات کی نقول ریکارڈ پر الئی جائیں اور ان پر کوئی اعتراض بھی نہ کیا جائے تو انہیں تصدیق کے بغیر سیکشن 67کے مطابق بطور شہادت قبول نہ کیا جائے۔ اگر نقل کی بجائے اصل فارم ای پیش کیا گیا ہو جو پرائمری شہادت ہو سکتی ہے تو قبول کیا جا سکتا ہے کہ دستخط اور تحریر اصلی ہے۔ اسے غلط ثابت کرنا مخالف فریق کی ذمہ داری ہو گی۔ فارم ای لکھنے والے اور دستخط کرنیوالے پر شک کے پیش نظر یہ ضروری نہیں کہ اس موقف کا جائزہ لیا جائے کہ اس میں اپیل کنندہ کا یہ اعتراف موجود ہے کہ وہ 31 جنوری 1971تک کے کے اینڈ کمپنی لمیٹڈ پر منیجنگ ڈائریکٹر رہا تاہم کمپنیز ایکٹ کے سیکشن 32کے تحت الیکٹرانک ٹربیونل اور ہائی کورٹ نے اس دستاویز پر پورا انحصار کیا ہے۔ ہمارے روبرو یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ایگزیبٹ پی ای ایک جعلی دستاویز ہے جسے چوری چھپے ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔ اسے قانون شہادت کے سیکشن 145کے مطابق قانون شہادت ثابت نہیں کیا گیا اس لئے اسے اپیل کنندہ کیخالف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ دستاویز کی قانون کے مطابق تصدیق نہیں ہوئی، میں سمجھتا ہوں کہ واقعی سیکشن 67اور 47پر عمل نہیں کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ یہ دستاویز رجسٹرار جوائنٹ سٹاک کمپنیز پشاور کے ایک افسر نے ٹربیونل میں پیش کی لیکن اپیل کنندہ کی تحریر اور دستخط کے بارے میں کوئی شہادت ریکارڈ پر موجود نہیں۔ دستاویز پیش کرنے والے افسر سے اس بارے میں کوئی سوال یا جرح نہیں کی گئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس نے بھی اپیل کنندہ کے تحریر اور دستخط سے واقف ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا، جس تاریخ کو یہ

 

 

دستاویز پیش کی گئی اپیل کنندہ خود عدالت میں نہیں تھا اس کا وکیل موجود تھا تاہم 19فروری 1972کو دالئل مکمل ہونے کے بعد 28فروری 1972کو اپیل کنندہ کی طرف سے الیکشن ٹربیونل میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ ایگزیبٹ پی ای کو اس بنیاد پر ریکارڈ سے کی  XIII نکال دیا جائے کہ یہ تصدیق شدہ نہیں اور سی پی سی کے ٓارڈر پابندی نہیں کی گئی۔ ٹربیونل نے درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ اپیل کنندہ کے فاضل وکیل نے دالئل کے دوران دستاویز کو تسلیم کیا تھا اور کہا تھا کہ اپیل کنندہ نے اس پر غلطی سے یا غیر قانونی طور پر دستخط کئے ہوں گے۔ یہ قانون کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ایک رجسٹرڈ شدہ ڈیڈ بذاتِ خودکسی ثبوت اوراس کےذریعےلین دین کی اصلیت کے بغیر کوئی حق نہیں دیتی۔ اسی طرح کوئی تبدیلی جو ریونیوریکارڈ میں کی گئی ہو وہ بھی لین دین کی حقیقت کو ثابت کرنےکیلئے کافی نہیں ہےیہاں تک کہ لین دین کی حقیقت ثابت ہوجائے۔ اس تجویز کے ساتھ کوئی اعتراض نہیں ہے کہ دستاویزات پبلک ریکارڈ کاحصہ ہونے کے ناطے ثبوتوں میں قابلِ قبول ہیں لیکن وہ اپنی طاقت میں اپنی اصلیت اور اس کی تعمیل ثابت نہیں کرسکتے جس کےبارےمیں وہ ہےحتٰی کہ ان میں کی گئی ٹرانزیکشن کسی ٓازاداورقابلِ اعتماد ذریعےسےکی گئی ہو۔ دستاویز کی اصلیت اور حقیقت جانچنےکیلئےقانونی طورپرقابل ثبوت ہونا چاہیے۔ اس سے قبل ہونے والی قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے عدالت میں زیرسماعت درخواست اور عذربھی مدعی کے خالف اٹھائے گئے تھے ۔لیکن ہمیں پتہ لگا کہ ہائی کورٹ نے انھیں اطمنان بخش طریقے سے حل کرلیا کیونکہ یہ کہاگیاتھاکہ استغاثہ نے جن دستاویزات پرانحصار کیا وہ دھوکے پر مبنی تھے اور لہذا

 

ان کی بنیاد پر حالیہ مقدمے کو عدالت میں کارروائی سے روکا نہیں جاسکتا یا مدعی کے خالف عذرعارضی کااصول اپالئی نہیں ہوسکتا۔

 

کراچی(،عنوان صدرِ پاکستان بمقابلہ بے نظیر بھٹو: ) 111992MLD283 اب یہ مان لیاگیاہے کہ حتٰی کہ جہاں ثبوتوں میں کوئی دستاویز قبول کیاجاتاہے اور واضح طورپر دکھایاجاتاہے کہ وہ واقع بذاتِ خود سچائی اور ایمانداری کےمعیارپرپورانہیں اترتا اگرچہ مواد خودغیرمشروط طورپر ثابت کیاجائےاور وہ سب کچھ ہوگا جو کیس کیلئےضروری ہے۔ مثال کے طورپر

 

 

جہاں دستاویز میں کوئی قصہ بیان کیاگیاہو یا کسی تنازع میں پارٹیوں کیلئے کوئی شرائط بیان کی گئی ہوں جیساکہ کسی معاہدے میں کوئی ڈیڈ یا کوئی اور باہمی انتظامات کیلئے۔ جب کسی مصنف کے ذریعے کوئی دستاویز پیش کیاجاتاہے یا کسی اور قابل اجازت طریقے سے اور کارروائی کے دوران دکھایاجاتاہے تو مصنف یا گواہ جراح کیلئے کھال ہوتا ہے اور مواد کی درستگی پرجراح کےدوران سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح محض یہ حقیقت کہ ایک دستاویز کو ثابت کیاگیاہے اور دکھایاگیاہے اس سے اس کی مطابقت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ مطابقت ایک قانونی چیز ہےجو پیش کیے گئے حقائق سے سامنے ٓاتی ہے۔ اسی طرح کسی دستاویز کی مطابقت اور ثبوت جب یہ اپنے کردار میں مختلف چیزیں ہیں اسی دوران عام طورپر اس میں کوئی چیز شامل نہیں ہوتی جس سے ان میں دونوں کسی ایسےدستاویزاصلیت ثابت کرسکیں جسے الگ طور پر زبانی ثبوت کےذریعےمناسب طریقے سےپیش کیاگیاہو ۔حتیٰ کہ جہاں کسی بھی قابلِ اجازت طریقے میں کوئی دستاویز مرضی سےقبول کیاجاتاہے اس کے مواد کی درستگی پر بھی قبولیت الگو ہوتی ہے۔ تاہم مطابقت ہمیشہ کیس سندھ ) CLCکےحقائق اورقانونی شرائط کےذریعےہوتی ہے۔ 2017 .12

 

)سکھر بنچ( یورس بمقابلہ زاور حاجی اور 3دیگر پیرے(13سی( اور )ڈی( یہاں دوبارہ پیش کیے جارہے ہیں: قانون شہادت ٓارڈر1984کا ٓارٹیکل 72کہتا ہے کہ کسی دستاویز کامواد کسی پہلے یا دوسرے ثبوت کے ذریعے ثابت کیاجاسکتاہے۔ قانون شہادت کے ٓارٹیکل 73میں پرائمری ثبوت کی تعریف کی گئی ہے کہ دستاویز خود عدالت میں معائنے کیلئے پیش کیےجائیں۔ جبکہ سیکنڈری ثبوت کی تعریف قانون شہادت کےآرٹیکل 74میں اس طرح کی گئی ہے جس کا مطلب ہے اور اس میں اصل کی نقول یا اس کا موازنہ قانون شہادت کاآرٹیکل 78 کہتا ہے کہ اگر کسی دستاویز پر  (d ) شامل ہو۔ دستخط کا الزام ہو یا مکمل طورپرلکھاگیاہو یا کسی شخص کی جانب سے کچھ حصوں میں لکھا گیاہوتودستاویز پر دستخط یا لکھائی اسی شخص کی ہونی چاہیے اور اسے ثابت کرناضروری ہے۔ جبکہ قانون شہادت کا ٓارٹیکل 79 کہتا ہےکہ اگر قانونی طورپر کسی دستاویز کی تصدیق کی ضرورت ہو تو اسے ثبوت کے طور پر استعما نہیں کیاجاسکتا جب تک کم از کم دو

 

 

تصدیق کرنے والے گواہان اس کی تصدیق کیلئے پیش نہ ہوں۔ دوسری جانب قانون شہادت کاآرٹیکل 80 کہتاہے کہ اگر تصدیق کیلئے کوئی دو گواہان نہ مل سکیں تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ گواہان یا تو مر گئے ہیں اور یا مل نہیں سکتے اور دستاویز کسی ایسے شخص کی جانب سے پیش کیاگیاہے جو کہتا ہے کہ اس نے یہ کیاہے۔ یہ بھی جمع کرایاگیا کہ جرم کی نوعیت کا حوالہ یہاں جمع شدہ شیڈول کے (a)(iv)(v )(xii) NAO1999عبوری ریفرنس 9 کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہے  (a)(iv)سیریل نمبر 2 میں دیاگیاہے۔ 9

 

  • ضمنی ریفرنس میں تبدیلی کا ذکر کیاجاسکتاہے۔ انہوں نے مندرجہ ذیل ارادے کے ساتھ انتظامیہ سے رجوع کیا ہےکہ پراسیکوشن پر ذمہ داری

 

کے تحت ملزم پر ثابت کرنے کی ذمہ داری (c)CrPCعائد ہوتی ہے کہ 14 ڈالنے سے پہلے وہ جرم کے مندرجات ثابت کرے۔ جرم کے مندرجات یہ جائیداد  (ii) یہ ثابت ہوناچاہیے کہ ملزم کسی عوامی عہدے پر تھا۔ (i) :ہیں کے حصول کے ذرائع اور ان کی نوعیت جو ان کی ملکیت میں پائے گئے۔ یہ ثابت کرناہوگا کہ اس کی ٓامدنی کے ذرائع کیاتھے یعنی پراسیکیوشن  (iii) یہ غیرجانبداری سےثابت  (iv) نے مکمل تحقیقات کے بعد پتہ لگائے۔ کرناہوگاکہ یہ وسائل یا ملزم کی ملکیت میں پائی گئی جائیداد کا اس کی عنوان خالد SCMR 136ٓامدنی کے ذرائع کے ساتھ مطابقت نہیں ہے۔ 2011 عزیز بمقابلہ ریاست،اس میں یہ کہاگیاہے کہ کیس کو ثابت کرنے کیلئے استغاثہ کو جرم کے مندرجات ثابت کرناضروری ہے، جہاں )1( یہ ثابت کرنا ضروری ہو کہ ملزم کے پاس کوئی عوامی عہدہ تھا۔ )2( جائیداد کےمالی ذرائع کی نوعیت اور حد جہاں اس کی ملکیت میں پائے گئے ہوں ۔

 

  1. یہ بھی ثابت کرنا ضروری ہے کہ اس کی ٓامدنی کے ذرائع کیاتھے یعنی جنھیں پراسیکیوشن نے مکمل تحقیقات کےبعد پتہ لگائے ہوں۔ )4( یہ غیر جانبداری سےثابت کرناہوگا کہ ایسے ذرائع یا جائیداد جو ملکیت میں پائی گئی ہووہ اس کی ٓامدنی سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ایک بار جب یہ چار

 

میں بتایاگیا جرم مکمل ہوجائے گا تو جب (v)(a)9 مندرجات ثابت ہوجائیں تو تک ایک ملزم ایسے وسائل یاجائیداد کو شمارکرنےکےقابل نہیں ہوتا۔ لہذا محض ایسے مالی وسائل یا جائیداد کامالک ہونا بذات خود کوئی جرم نہیں ہے، لیکن ایسے مالی وسائل یا جائیداد کا تسلی بخش شمار نہ ہونا ناکامی ہے

 

 

جس کی وجہ سے ملکیت قابل اعتراض اور جرم بنتی ہے۔ اگر وہ واضاحت میں کہاگیاہے کہ ملزم کرپشن  (c)نہیں کرسکتا جیسا کہ ٓارڈیننس کی شق 14 اور بدعنوانی کا مجرم ہے۔ بسوا بھوشن نائک بمقابلہ ریاست )ائیر1954سپریم کورٹ )350 کا حوالہ دیاجارہاہے جس میں اسی طرح کی انسداد کرپشن ایکٹ 1947کی تشریح کی گئی تھی۔ اسی طرح کے نظریات فرخ جاوید گھمن اورریاست مہارشٹرا سپرا کے مقدمات میں بھی پیش کیے گئے تھے۔ لہذا یہ واضح ہے کہ استغاثہ کوثابت کرناہوتاہے مذکورہ باالچارمندرجات اور پھر اپنی ملکیت کو ثابت کرنے کا بوجھ اپیل میں  (c) 14کرنےوالے پر منتقل ہوجاتاہے جیساکہ ٓارڈیننس کی شق

 

کہاگیاہے۔...قانون نے قومی احتساب ٓارڈر 1999کی دفعہ 9اے کی سب دفعہ 5کے تحت جرم کے ارتکاب کا تعین کر دیا ہے ،استغاثہ کو ملزمان کی ملزمان کی ٓامدنی کے ذرائع کیا ہیں اورایک مخصوص وقت کے دوران ثابت کرنا تھا کہ یہ اثاثوں کے مطابق ہیں کہ نہیں جس کیلئے استغاثہ کی طرف سے مناسب تفصیالت مہیا کرنے کے بعد ملزمان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے اثاثوں کو قانونی ہونا ثابت کریں جس میں وہ ناکام رہے ،مذید یہ کہ مقدمے میں ٓامدنی کے ذرائع کو کبھی بھی سامنے نہیں الیا گیا جس کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ملزمان کے اثاثے غیر قانونی ہیں ۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ مذکورہ مقدمے کے تفتیشی افسر سمیت استغاثہ کے ذمہ دار لوگ اپنی نااہلی کے باعث مقدمہ میں ضروری کام نہ ٓاسکے اور مقدمے کے قابل اعتراض پہلو کو ٓاشکار نہ کیا ۔ریفرنس کے مطابق ملزم اس کی اہلیہ اور بیٹوں کے نام اثاثے جن کی مالیت 5کروڑ15الکھ35ہزار روپے بنتی ہے ذرائع ٓامدنی سے مطابقت نہیں رکھتے ،اپیلنٹ کی بیوی اور اس کے بیٹے کو اس مقدمہ میں پھنسایا گیا ،اور اپیلنٹ کی بیوی اور بیٹے کو بے نامی اورتسلیم شدہ جائیداد کیلئے معزز ٹرائل کورٹ کی طرف سے کبھی نہیں بالیا گیا تاکہ وہ اپنے حوالہ سے ملکیتی ثبوت پیش کر سکیں یا اپنی جائیداد کے بارے میں ایسے ثبوت پیش کر یں جسے حاصل کرنے کے ان کے پاس کافی ذرائع ہیں ۔2010ایس سی ایم ٓارعنوان محمد ہاشم بابربر خالف ریاست اور دیگر اے بی اور سی کا حوالہ نیچے دیا گیا ہے کیس کو ثابت کرنے کیلئے استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ جرم کے مندرجات بھی ثابت کرے ۔:1یہ

 

 

ثابت کرنا ہوگا ملزم کے پاس کوئی عوامی عہدہ ہے:2اس کی ملکیت میں پائے گئے مالی وسائل کی نوعیت اور حد:3یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس کی ٓامدنی کے ذرائع کیا ہیں4غیر جانبداری سے ثابت کرنا ہوگا کہ وسائل یا جائیداد جوملزم کی ملکیت میں پائی گئی ہیں اس کی ٓامدنی سے مطابقت نہیں رکھتی ۔مذکورہ باال مندرجات ثابت کئے جاتے ہیں تب جرم سیکشن 9اے وی کے تحت مکمل ہوتا ہے ،حتیٰ کہ ملزم ایسے ذرائع اور پراپرٹی کو شمار کرنے کے قابل نہ ہوقانونی طور پر یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ محض کوئی بھی مالی وسائل یا جائیداد کا مالک ہونا بذات خود کوئی جرم نہیں لیکن مالی وسائل یا جائیدادکا شمار کرنے میں ناکافی قابل اعتراض اور جرم ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی ملزم یہ ثابت نہیں کر سکتا یعنی ٓارڈیننس کی سیکشن (14سی( کے تحت وہ ملزم کرپشن اور بدعنوانی کا مرتکب ہے ۔ سی بسوا بھوشن نائیک برخالف ریاست)اے ٓائی ٓار 1954 ایس سی )350 یہ ثبوت جو ریکارڈ میں الئے گئے یہ ٓارڈیننس کے سیکشن 14 کے مطابق تھے۔ درخواست گزار کے وکیل نے درخواست گزار کے جرم کے بارے میں فیصلے کو دیکھتے ہوئے اخراجات کی مد میں محض 14الکھ روپےکا ذکر کیا اور وہ کسی ایسے ثبوت کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کا ماتحت عدالتوں نے غلط مفہوم لیا ہو یا ان کی نظر سے اوجھل رہا ہو۔ اس سے درخواست گزارپرآنے واال بار ثبوت ختم نہیں ہو سکتا۔ مذکورہ باال رقم کے حوالے سے ذرائع کی وضاحت درخواست گزار کے وکیل کی طرف سے نہیں کی گئی جس طرح کہ ماتحت عدالتوں کی طرف سے ریکارڈ کئے گئے جرم کے فیصلے سے واضح ہے۔ یہ قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ جائیداد کے قبضہ و تصرف کو ثابت کرنے کے لئے بار ثبوت استغاثہ پر ہے تاکہ نیب ٓارڈیننس 1999 کی رو سے کرپشن کے الزام کو ثابت کرنے کے لئے ٓامدن کے معلوم ذرائع کا پتہ چالیا جا سکے اور جب ایک دفعہ یہ بار ثبوت تسلی بخش طریقے سے ڈسچارج ہو جائے تو پھر یہ ملزم پر ڈال دیا جاتا ہے تاکہ اگر معاملہ کچھ اورہے تو ثابت ہو سکے اور اگر ملزم اپنے حق میں کچھ ثابت کرنے سے قاصر رہتا ہے تو عدالت جرم کے مفروضہ کا سوال اٹھا سکتی ہے۔ ایس سی ایم ٓار 2009کے صفحہ 790پر ’’سید قاسم شاہ بنام سرکار ‘‘ کے کیس مینجو اصول وضع کیا گیا اس کا خالصہ درج

 

ذیل ہے: ’’ٓارڈیننس کے سیکشن 14سی کی رو سے ابتدائی بار ثبوت ہمیشہ استغاثہ پر ہے۔ یہ اچھی طرح سے بتایا جا چکا ہے کہ الزام کے تمام لوازمات کو ثابت کرنے کا بوجھ ہمیشہ استغاثے پر ہی ہوتا ہے اور یہ کبھی بھی ملزم پر نہیں ہوتا جو کہ اس وقت تک معصوم ہے جب تک کہ اس کے خالف الزام ثابت نہ ہو سکے۔ دوسرے الفاظ میں جب تک ملزم پر لگایا گیا الزام شک کا فائدہ دے کر دھل نہ جائے یہی کہا جائے گا کہ الزام جھوٹا اور ملزم بے گناہ ہے۔ استغاثہ کو اس لئے کبھی بھی الزام ثابت کرنے سے چھٹکارا نہیں ہے اور بار ثبوت ملزم پر ٓاتا ہے جب استغاثہ جرم کا مفروضہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ‘‘ پی ایل ڈی 2017، الہور 27، بعنوان ’’بریگیڈیئر )ر( امتیاز احمد بنام سرکار‘‘ کے پیراگراف 19کا خالصہ یہاں بیان کیا جاتا ہے۔ ’’مذکورہ ثبوت اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ موقف اختیار کرتے ہوئے جھجک محسوس کر رہے ہیں کہ مذکورہ جائیدادیں صرف اس وجہ سے قبضے میں نہیں لی جا سکتیں کہ فیصلے وعدہ معاف گواہ کے بیانات پر منحصر تھے جو چیئرمین نیب کے حکم پر وعدہ معاف گواہ نہیں بنے تھے اور مذکورہ جائیدادوں کے مقدمہ میں فروخت کنندہ کو پیش نہیں کیا گیا تھا۔ مزید برآں، بے نامی دار ٹرانزیکشنز کے اجزائے ترکیبی جو ’’مسماۃ زاہدہ ستار بنام وفاق و دیگر‘‘ )پی ایل ڈی 2002 سپریم کورٹ )408 کے مقدمے میں مذکور اصول قانون میں مقرر کئے گئے ہیں، کو پیش نہ کیا جا سکا۔ جائیداد کا قبضہ، تحریری لین دین، اور وہ حاالت و واقعات جن میں بے نامی دار ٹرانزیکشنز کی گئیں، ‘‘YLR,2016 2547,کے بارے میں کہا گیا تھا کہ عدالت میں پیش کریں۔ پیراگراف 11کا خالصہ درج ذیل ہے۔ اوپر ذکر کی گئی پراپرٹی کے حوالے سے لگائے گئے الزام کی حمایت میں دیئے گئے ثبوت کی طرف دھیان دینے سے پہلے یہ ضروری اور فائدہ مند ہے کہ نیب ٓارڈیننس 1999کے سیکشن 9اے )وی(کے تحت جرم کو ثابت کرنے کیلئے ضروری اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیا جائے۔ اب تک یہ ایک مسلمہ اصول مانا گیا ہے کہ استغاثے کو اوپر بیان کردہ پینل کالز کی روشنی میں ملزم کی سزا ثابت کرنے کیلئے مندرجہ ذیل اجزائے ترکیبی کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔( )1(ملزم کے پاس سرکاری عہدہ ہے )2( اس نے جائیداد بنائی، اپنے نام کی

 

 

یا جائیداد کو اپنے تصرف میں ال یا یا اس کا جائیداد میں کوئی مفاد وابستہ ہے۔ )3( اس کے ٓامدن کے معلوم ذرائع کیا ہیں۔ )4(ملزم کے پراپرٹی کے قبضے پر اخراجات کیا ٓائے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ محض منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی شکل میں اثاثہ جات اپنے یا اپنے زیر کفالت افراد کے نام پر رکھنا نیب ٓارڈیننس کے سیکشن 9کے تحت ملزم کی سزا کے تعین کی ایک وجہ نہیں ہے۔ استغاثہ کو ہمیشہ بھاری بار ثبوت سے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اس طرح سے حاصل کئے گئے اثا ثے ملزم کی ٓامدن کے معلوم ذرائع سے موافقت نہیں رکھتے۔2016 پی سی ٓار ایل 300 بعنوان ’’سردار محمد نعیم بنام سرکار‘‘ میں ایسا ہی اصول وضع ہوا۔ 2016 پی سی ٓارایل جے 1343 بعنوان ’’غالم سرور خاں للوانی بنام سرکار2013 ‘‘ پی سی ایل جے 1697 اور 2007 پی سی ٓار ایل جے (1972کراچی( بعنوان ’’محمد اکرم ندیم بنام نیب سندھ‘‘ کا پیرا 9کا خالصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ )1( ملزم کے پاس سرکاری عہدہ تھا۔ -2 اس کے زیر قبضہ جائیداد کے مالی ذرائع کی نوعیت کیا ہے۔ -3 اس کے ٓامدن کے معلوم ذرائع کیا تھے یعنی مکمل تحقیقات کے بعد استغاثہ کو کیا علم ہوا۔ )4( ملزم کے زیر قبضہ جائیداد کے ذرائع ٓامدن کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے۔2007پی سی ٓار ایل جے 1997 )کراچی( بعوان ’’محمد ارشاد خان بنام چیئرمین نیب و دو دیگر‘‘۔ 2007 ایم ایل ڈی 910 )کراچی( بعنوان حاکم علی زرداری بنام سرکار حوالہ جات اے بی اور سی کا خالصہ درج ذیل ہے:۔ کیس کوثابت کرنے کے لئے استغاثہ کیلئے جرم کے اجزائے ترکیبی کو ثابت کرنا ضرور ی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں :۔ )1( اسے ثابت کرنا ہوگا کہ ملزم کے پاس سرکاری عہدہ تھا )2( جو جائیداد اس کے پاس ہے اس کے مالی ذرائع کی نوعیت کیا ہے )3( یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ٓامدن کے معلوم ذرائع کیا ہیں

 

  1. معروضی طور پر ثابت کرنا ہوگا کہ اس کی جائیداد کے معلوم ذرائع کی ٓامدن کے معلوم ذرائع سے درست ثابت نہیں رکھے۔ جب یہ چاروں

 

اجزئے بہتر مکمل ہوجائیں تو جرم مکمل ہوجائے گا۔ اس لحاظ سے محض مالی وسائل سے جائیداد کا کہیں ہونا بذات خود جرم نہیں ہے لیکن اس جائیداد کے تسلی بخش رکھنے کے ذرائع پیش کرنے میں ناکامی سے اس جائیداد کی ملکیت یا تصرف جرم بن جاتا ہے اگر ثابت نہ کرسکے ٓارڈیننس

 

 

کے سیکشن 14سی کے تحت کرپشن کا جرم تشکیل پاتا ہے جہاں تک جرم اور ٓامدن کے معلوم ذرائع کے بارے میں تیسرے اور چوتھے اجزائے ترکیبی کا تعلق ہے ’’ٓامدن کےمعلوم ذرائع‘‘کے الفاظ کا مفہوم یہ لیا جانا چاہیئے کہ ان ذرائع کا استغاثہ کو مکمل تحقیقات کے بعد پتہ چل چکا ہے ۔وہ معامالت قانون شہادت کے ٓارٹیکل 122کے تحت خصوصاً ملزم کے علم میں ہیں جو کہتا ہے کہ ’’جب کوئی حقائق خاص طور پر کسی شخص کے علم میں نہیں ہو تو اس بات کو ثابت کرنے کا بار بھی اسی شخص کے او پر ہے۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ استغاثہ ذرائع ٓامدن کے بارے میں انکوائری یا تفتیش نہیں کر سکتا۔آرڈی نینس کی رو سے سرکاری عہدہ دو قسم کا ہوتا ہے:۔سرکاری مالزم اور دوسرے افراد جن کے پاس سرکاری عہدہ ہو۔ ان دونوں کے معامالت کو الگ الگ طریقے سے دیکھا جاتا ہے۔اولذکر میں ٓامدن کے ذرائع تنخواہ تصور ہو گی اور وہ اثاثہ جات کی ساالنہ ڈیکلیریشن میں بیان کرنے کا پابند ہےجس کو متعلقہ ڈیپارٹمنٹ میں جمع کرایا جاتا ہے۔جبکہ قانون کے مطابق رسید حاصل کی جاتی ہے اس طرح سرکاری مالزم کی جائیداد یااثاثوں کا ان دستاویزات کو ساتھ رکھتے ہوئے ٓاسانی سے

 

اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی ہے۔سرکاری ٗعہدے پرفائز دوسرے افراد کو سرکاری مالزم سے کافی مختلف ہے کیونکہ ایک مخصوص ٓادمی کے ٓامدن کے ذرائع کا انحصار اس کے پیشے کے حوالے سے طرز زندگی پر ہے ٰلہذا ایسے فراد کے حقیقی ذرائع ٓامدن کو جاننے کیلئے تفصیل انکوائری کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید برآں، لفظ ’’ٓامدن‘‘ بھی قانونی لحاظ سے بہت

 

Chambers 21st Century Dictionary معنی خیز ہے اس کے معنی میں بیان کئے گئے ہیں کہ ’’یہ وہ رقم ہے جو کچھ وقت کیلئے کام وغیرہ کے عوض پے منٹ یا یہ شیئرز یا سرمایہ کاری کرنے پر مفاد یااس سےحاصل ہونے والے نفع کے طور پر حاصل کی جاتی ہے‘‘۔ نیب کہ ملزم عوامی عہدہ i پراسیکیوشن کو ثابت کرنا ہے((a ٓارڈیننس سیکشن 9

 

رکھتاہے،کہ غیر ملکی ذرائع اور پراپرٹی جو اسکے پاس ہے انکی حد کیا ہے،اسکی ذریعہ معاش کیا ہے،غیرملکی جائیداد جس کا ملزم پر الزام ہے وہ (a) غیر متناسب تو نہیں ،ایک دفعہ یہ سب چیزیں مل جائیں تو اسکے بعد 9 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے،تاہم اس وقت تک کہ ملزم v سیکشن

 

 

جائیداد خریدنے کے اپنے جائز ذرئعے نہ بتا دے جس سے اس نے یہ خریدی ہوں ،جیسا کہ نیب ٓارڈننس 14سی کے تحت مہیا کیا جائے،سیکشن میں لفظ مناسب طریقے v سیکشن(a) 9میں لفظ مطمعن استعمال کیا گیا ہے سے کا ذکر ہے، پی ایل ڈی 2004الہور 155عنوان فرخ جاویدگھمن بمقابلہ ریاست 15 ڈی کے تحت دوبارہ تیار کیا۔ ٓامد ن کے معلوم ذرائع کا مطلب پراسیکیوشن کو تحقیات کے بعد علم ہو کے اسکے ذرئعے کیا ہیں ،ظاہر ہے اس بات کی امید نہیں کی جا سکتی کے پراسیکیوشن کو ٓامد ن کے ساری تفصیالت کا علم ہو،لیکن کسی کے خالف قانون کے مطابق الزام لگانا قابل توجہ ہے،پراسیکیوشن نے معلوم ذریعہ کی تفصیالت دے چکا ، جسکا معقول طور پر جائیداد سے موازنہ کیا جا سکتا ہے،اور بعد میں کیس میں دیکھا جاتا ہے کہ غیر متناسب ہے تو کیا ریفرنس سے فائل کیا جا سکتا ہے، ایک عوامی عہدہ رکھنے والے کی تنخواہ اسکے االونس اور دیگر مراعات جیساکہ ٹرانسپورٹ وغیر ہ اسکی حقیقی ذریعہ سے ملتے ہیں ، اگر وہ زرعی زمین کا مالک ہے تو اسکی زرعی ٓامدن بھی شامل کی جاتی ہے،یہ تحقیق کرنے والے ٓافیسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ پو ری طرح سے اسکے معلوم ذریعے ٓامد ن کی تحقیق کرے اور بعد میں ملزم کو اس حوالے سے پو را موقع دیا جائے،کئی ایک وجوہات کی بنیاد پر یہ تحقیاتی ٓافیسر کیلئے زرعی ٓامد ن کا اندازہ لگانا ٓاسان کام نہیں ہے،پہال،ہمارےدیہی عالقو ں میں اسکا حساب کتاب رکھنے کا رواج بہت نایاب ہے،دوسرا یہ الزمی نہیں ہے کہ اسکا ٹیکس دیا جاتا ہے کہ نہیں ،تیسرا اگر کو ئی دیتا ہے تو الزم نہینہے کہ و ہ اسکا حساب رکھتاہو،چوتھا جب ملزم عوامی عہدہ رکھتا ہو تو یہ قانو نی شکنی نہیں ہے کہ وہ انکا حساب نہیں رکھتا، وہ اس سے متفق ہے کہ گواہوں کے بیانات جو ریکارڈ کیے گئے 161 سی ٓار پی سی کے تحت ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کے جا سکتے اور نہ ہی انکی طر ف سے پر اکسی گواہ کا کردار ادا کر سکتا ہے،کو ئی بھی ڈاکومنٹ یہ ثابت نہیں کرتا جب تک قانون کے مطابق اسکے مواد پر عملدرامد نہ کیا جائے،یہاں کہا جا سکتا ہے کہ ثبوت کو خارج کر دیا گیا ہے، وہ اور اس پر انحصار کرنے والے یا بے نام داری استعمال کیا گیا ہو , پراسکیوشن کسی بھی ملزم کا انحصار ایک نمبر ملزم سے ثابت نہیں کر سکا،بے نام دار کی تعریف این

 

 

اے او 1999 میں دی گئی ہے کہ کو ئی بھی ملزم پکڑتا ہے یہ قبضے میں رکھتاہے کو ئی بھی جائیداد ملزم کی یا اسکی طرف سے مفادات کیلئے ملزم ہے، اثاثے کی تعریف ایس 5 سی کا مطلب ہے کہ کو ئی بھی خریدی گئی جائیداد جو وہ سنبھالتاہو براہ راست یا بالواسطہ بے نامی رکھتاہے شریک حیات یا رشتے داروں کے نام سے ملک کے اند ر یا ملک کے باہر ،جس کو وہ قانونی طور پر جائزہ ثابت نہ کر سکے بے نامی اثاثے ہیں ،ڈیفنس کونسل کی طرف سے حوالہ دیا گیا ہے، 2016پی سی ٓار ایل جے 1343 الہور غالم سرور خان الل وانی بمقابلہ ریاست پیرا نمبر25کسی بے نامی ٹرانزیکشن کو ثابت کرنے کیلئے پر اسکیوٹر کو درج ذیل چیزیں ثابت کرنی ہوں گی جیساکہ پشاور ہائی کورٹ میں محمد حیات اور دو اور لوگوں کیخالف بمقابلہ ریاست )پی ایل ڈی 2002پشاور 1ٓامدان کے ذریعے پر غور

 

)ب( 2013ء پی سی ٓار ایل 1607 پشاور، سیدانور بادشاہ،512بنام چیئرمین نیب یہ بات فاضل عدالت کے مشاہدے میں ٓائی کہ استغاثہ کی طرف سے تحقیقات یا مقدمے کی سماعت کے دوران اپیل کنندہ کے ذریعہ ٓامدن کی

 

تفصیالت فراہم کی گئیں نہ ہی اپیل کنندہ کے ذرائع ٓامدن کا تعین کیا گیا تو پھرماہانہ کمیشن ثابت کرنے کیلئے قانون اب اس بارے میں ساکت ہے، اپیل کنندہ کے ذرائع ٓامدن کیا تھے یہ ثابت کرنا اب استغاثہ کی ذمہ داری ہے۔ اس خاص وقت میں اپیل کنندہ کے ذرائع اور جائیداد اس کے ذرائع ٓامدن سے کیسے مطابقت نہیں رکھتے تھے کیونکہ کسی منافع بخش ذرائع کا کسی کی دسترس میں ہونا بذات خود کوئی جرم نہیں، تاہم اس منافع بخش ذرائع ٓامدن کے اکائونٹس کے بارے میں تسلی بخش جواب نہ ہونے کی صورت میں اس کی ملکیت قابل اعتراض ہو جاتی ہے۔ )سی(پی ایل ڈی 2009ء اس سی ایم ٓار202 احمد ریاض شیخ ودیگر بنام ریاست پیرا9،لفظ’’بے نامی راء‘‘ کا مطلب ہے کہ ایسا شخص جو کسی دوسرے کی جانب سے ظاہری طور پر کسی جائیداد کا مالک ہو؟)ڈی(2003ء پی سی ٓار ایل جے1 محمد حسین بنام ریاست فیصلے کے پیرا،15کے مطابق لفظ بے نامی راء کسی جائیداد کی کم سے کم ملکیت ظاہر کرا ہے، وہ شخص جس نے جائیداد خریدی ، اب یہ جائیداد بے نامی راء کے نام پر ہے۔ بے نامی جائیداد کےتعین کیلئے سپریم کورٹ نے 4ٹیسٹ رکھے ہیں۔ محمد سجاد حسین بنا محمد حسین کیس1991ء

 

کس سے خریدی، خریداری کا معاہدہ اوردیگر (ii) ذرائع پرغور کرنا((i بے نامی رقم،لین دین (iv) جائیداد کا حصہ کس کے پاس تھا (iii) دستاویزات کی وجوہات یہ بھی معروف قانون ہے کہ بار ثبوت الزام لگانے والی پارٹی پر ہو گا۔ دفاعی ثبوتوں کی کمزوری کے باوجود اپیل کنندہ کی ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری کم نہیں ہوگی۔ )ایف( پی ایل ڈی 2004ء الہور155 اختر علی بنام جج سپیشل کورٹ )آفینس ان بینکنگ( معلوم ذرائع ٓامدن سے مراد وہ ذرائع ٓامدن ہیں جو استغاثہ نے کسی مقدمے کی تفتیش کے دوران علم میں ٓائے۔ استغاثہ کو کیو نکہ ملزم کی ٓامدن کی تمام تفصیالت معلوم نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے یہ انکوائری ٓافیسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملزم کے تمام ممکنہ ذارئع ٓامدن کی تحقیقات کرے اور اسے اس سلسلے میں تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔ وہ مطمئن ہیں کہ ملزم کے ذرائع ٓامدن کے بارے میں مکمل تحقیقات نہیں کی گئیں، مختلف چارٹس پیش نہیں کیے جاسکتے۔ پیش کیے گئے ایک چارٹ)ای ایس ایچ ، پی ڈبلیو)18.13 کے بارے میں واضح نہیں کہ یہ کس نے تیار کیا۔ یہ کسی اور ریکارڈ کی معلومات پرمبنی ہے اور اس کا اس ریفرنس سے کوئی تعلق نہیں ہے اس چارٹ کو پیش کرنے واال اس مقدمے میں گواہ بھی نہیں ہے۔ تفتیش میں بھی ایک غلطی یہ ہے کہ انہوں نے فری مین باکس سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی حاالنکہ اس یکس کے انکوائری ٓافیسرز نے متعدد بار لندن اور برطانیہ کے دورے کئے جبکہ اس نے وضاحت پیش کی کہ اس نے ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ انکوائری ٓافیسر کا خیال درست نہیں۔ اس نے مندرجہ ذیل حکام سے رابطہ کرنے کا کہا۔ )1( پی ایل ای 2018ایس سی178 )ب( 1986 ایس سی ایم ٓار 1763 )س( 2011 پی سی ٓار ایل جے 885-2010 ایس سی ایم ٓار 660 کو 1992 الہور 324 انکوائری ٓافیسر ماہر نہیں ہے )ر( پی ایل ڈی 2000 الہور 2016 )ای( پی ایل ڈی 1998 الہور300 )الف(1998 پی سی ٓار ایل جے 58 پر تنقید۔

 

عدالت میں بطورگواہ یا ثبوت پیش کرے اور عدالت میں ٓانے والے گواہوں کے بیانات ریکارڈکرے تاہم مندرجہ باال شہادت کے ضمن میں عدالت میں

 

 

وہ کسی کے نعم البدل نہیں ہونگے۔ وہ کسی ایسی دستاویزکو ثابت نہیں کرسکتا جس کا وہ خودتحریر کردہ نہ ہو۔

 

(PLD 2011 SC 554pg 576 para17)فوجداری مقدمات میں دفاع

 

انصاف کے تقاضوں کی صحیح معنوں میں تکمیل کے لئے عدالتوں کا چنداصولوں پر چلنا الزمی ہوتا ہے‘ جیسے کہ ملزم کو تب تک بے گناہ تصورکیاجائے جب تک اس پر جرم ثابت نہ ہو۔ وکیل صفائی کئی درخواستیں السکتا ہے‘ اور اگر تمام غلط بھی ہوں تب بھی پراسیکیوشن)استغاثہ( کی ذمہ دار ی ہے کہ اپناکیس ثابت کرنے کی بھرپورکوشش کرے‘ ایک انگریزی محاورہ ہے کہ یہ اچھاہے کہ دس ( گناہگار بچ جائیں مگر ایک بے گناہ کو سزا نہ ہو)ولیم بلیک سٹون

 

 

 

 

(PLD 1995 SC1)مجسم مجرم کی تشریح

 

 

 

 

 

اگر کسی بھی قانونی شق کی دو وضاحتیں ہوں تو اس وضاحت کواختیار کرنا ہوگا جو ملزم کے لئے فائدہ مند ہو۔

 

(PLD 1988 Karachi 131)دستاویزا ت کے مندرجات کا ثبوت

 

 

ہم یہ نکتہ اٹھا سکتے ہیں کہ تحریر کنندہ کے دستاویز پر دستخط اورمندرجات کی درستگی ثابت کرنے میں بڑافرق ہے‘موخرالذکر کو لکھاری کو جانچے بغیرثابت نہیں کیاجاسکتا ‘لکھاری کی غیرموجودگی ‘ موت یا کسی دوسری قابل یقین وجہ کی صورت میں ایسا فرد جو دستاویز کی تیاری میں اس کامعاون رہا ہو یا اس کے مندرجات کی درستگی کے حوالے سے معاون سے تصدیق کی جاسکتی ہے۔

 

(2010) 4 Supreme court cases 491 India

 

 

قراردیا جاتا ہے کہ عدالت میں محض دستاویزات جمع کرنا یا دکھانا اس کے مندرجات کا ثبوت نہیں۔

 

Notice U/S 19 OF NAO 1999

 

قومی احتساب بیورو کی ذمہ داریاںPLD 2012 SC 903

 

 

قومی احتساب بیورو کی ذمہ داری ہے کہ کسی فرد کو سمن بھیجنے سے قبل اس کے خالف شواہد کی شناخت کرے اوراس بات کی چھان پھٹک کرے (pg. 914)کہ ٓایاایسی اطالعات اورنیب کی انکوائری میں کوئی نزدیکی ہے

 

 

 

 

PLD 2007 Karachi 469

 

 

 

 

 

اس لئے کسی کو طلب کرتے وقت نوٹس میں حقائق ‘نکتے اورالزامات اورملزم کانام لکھا جائے تاکہ وہ ایسی معلومات مہیا کرسکے‘ اگر کوئی مطلوبہ معلومات مہیا کرے جس سے مقصدپورا ہوسکے تو اس فرد کو بذات خودحاضری سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔ اور اسے تنگ نہیں کیا جائے گا‘ اس کو تمام سہولتیں دی جائیں‘ اسے مختصر وقت میں چھوڑا جائے‘ اسے بالوجہ تحویل میں نہیں رکھا جائے‘ عالوہ ازیں ابتدائی مراحل میں اسے بذات خودحاضر ہوکر اطالعات دینے پر مجبورنہیں کیاجائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اتھارٹی کے پاس اسے بالنے کا اختیار نہیں ‘ اتھارٹی کے تحت ناگزیر صورت میں اسے بال سکتی ہے‘ ایسے  -Aسیکشن 24 اختیارات شفاف اور انصاف کے تقاضوں کوپورا کرتے ہوئے استعمال کرنے ہونگے اور ایسے حکم کے اجرا کی وجوہات دینی ہونگی۔ ایسے کسی حکم کی کاپی مقدمے کی ڈائری میں دستیا ب ہونی چاہئے۔ڈیفنس کونسل نے اپنے دالئل میں درج ذیل نکات پر زوردیا ہے۔سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود استغاثہ اس کیس میں کوئی ایک بھی شرط پوری

 

کرنے میں ناکام رہا۔ مزید برآں دونوں تفتیشوں میں ذرائع ٓامدن کے حوالے سے تحقیقات نہیں کی گئیں۔ اگر یہ تصوربھی کیا جائے کہ میاں نوازشریف فلیٹس کے مالک ہیں‘ یہ تب تک جرم نہیں جب تک استغاثہ اپنےکیس سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق قائم نہیں کرتا۔کمپنی کے سرمایہ ایف زیڈ ای کا ایون فیلڈ پراپرٹی سے کوئی تعلق نہیں پھر بھی پی وی ڈبلیو واجدضیاء جس نے لندن فلیٹس کے استعمال بارے جھوٹ بوال اسے بطور ثبوت پیش کیا‘ یہ نکتہ بھی اٹھا یا گیا کہ اس مقدمے میں معلوم ٓامدن کے ذرائع کے بارے میں کوئی معلومات اکٹھی نہیں کی گئیں مزید یہ کہ واجد ضیاء کے بیان میں بے شمار تضادات ہیں۔ جی ٓائی ٹی کے بیانات مقدمے میں بطور ثبوت پیش نہیں کئے جاسکتے۔ ملزم کا بیان صرف اس صورت میں تسلیم ہوگا اگر ان کامشترکہ ٹرائل کیاگیا ہو جس میں انہیں نے اعتراف کیا ہو۔ ڈیفنس کونسل کے مطابق نواز شریف نے کبھی یہ نہیں کہا کہ لندن فلیٹس کبھی ان کی ملکیت رہے۔ نہ کبھی حسن نوازنے یہ بیان دیا کہ ملزم نوازشریف ان فلیٹس کے مالک رہے یا ان میں رہائش پذیررہے۔ بی وی ٓائی اور17اے فلیٹوں کے A سے موصولہ دستاویزات کے مطابق نوازشریف 16 Neilson مالک نہیں۔ پراسکیوشن کے پاس کوئی گواہ نہیں کہ نوازشریف ٓاف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔یہ استغاثہ پر الزم تھاکہ  Nescoll اور ذرائع ٓامدن اورٹرانزیکشن ثابت کرتا تاکہ اس کی بے نامی پراپرٹی کی ملکیت ظاہر کی جاسکتی ‘ مزیدیہ نیب کے پاس ٹرانزیکشن کے حوالے سے کوئی ثبوت ہوتا ‘ واجدضیاء نے یہ بھی تسلیم کیا کہ جے ٓائی ٹی نےایسی کوئی دستاویز وصول نہیں کی جس کی بنیادپریہ بات کہی جائے کہ نوازشریف مذکورہ کمپنیوں کے مالک ہیں‘ واجد ضیاء نے یہ بھی مانا کہ کسی بھی گواہ نےآف شورکمپنیوں کے بارے میں بیان نہیں دیا۔سدرہ منصور نے تسلیم کیا کہ اس کے پاس نوازشریف کی فلیٹوں کی ملکیت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ کونسا جواب ایم ایل اے دستاویزات بارے اس نے وصول کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ نیب مقدمات میں انوسٹی گیشن ایک اہم ذمہ داری ہے لیکن اس کیس میں وہ نہیں نبھائی گئی۔ مزید یہ کہ نیب کے پاس کوئی شواہد نہیں کہ بے نامی پرپراپرٹی ملزم نوازشریف کے بیٹوں کی ہے۔تفتیشی ٓافیسر اورنیب حکام نے

 

 

لندن کا دورہ کیا لیکن وہ وہاں پر ایسے کسی بھی متعلقہ گواہ کی تفتیش کرنے میں ناکام رہے ہیں جس میں الئرنس ریڈلی جیسے اہم گواہ تھے جنہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے 1993 میں شریف خاندان کی ہدایت پر کوئی بھی فلیٹس نہیں خریدے۔اسی طرح نیب حکام نے جیری فری مین سے بھی انکی موجودگی Trust Deed تفتیش نہیں کی جنہوں نے کہا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ میں دستخط کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں میاں نواز شریف کومجرم ثابت کرنے کے لئے کوششیں کی گئیں جس میں التوفیق کے فیصلے کی روشنی میں بتایا گیا کہ شریف خاندان کے ہی فیلٹس زیر ملکیت ہیں۔ایسی تمام دستاویزات جو واجدضیاء نے پیش کیں جس میں قطری شہزادےکے خط،گلف سٹیل مل کی خریدوفروخت اورطارق شریف کی طرف سےدیئے گئے بیان حلفی وغیرہ قابل قبول نہینتھے جس کوبطورثبوت کے طورپر پیش کیا جاتا۔ان دستاویزات کو نہ ہی اصل اور نہ ہی فوٹوکاپی کی شکل میں بطورگواہی حوالہ کے طورپر پیش کیا گیا۔اسی طرح پراسیکیوشن کی جانب کے طورپر پیش کیا گیا جوکہ متعلقہ گواہی کے Opinion سےایکسپرٹ زمرے میں نہیں ٓاتا۔میاں نواز شریف کی فیلیٹس کی ملکیت کے حوالے سے پراسکیوشن کی طرف سے جمع کردہ شہادتوں پرمختلف سی ایم ایز کی طرف سے اعتراضات بھی اٹھائے گئے ،قانونی نقطہ نظر کے مطابق سپریم کورٹ ٓاف پاکستان کی طرف سے سی ایم ایز کی تصدیق بھی نہیں کی گئی ہے۔گلف سٹیل ملزدوبئی کی فروختگی کے حوالےسےہونے والے معاہدے اورطارق شریف کی طرف سے پیش کردہ بیان حلفی اوردیگردستاویزات جس مینمیاں نواز شریف کی مداخلت اورلین دین کے بارے میں بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔قانون کے مطابق تمام شہادتیں فوٹوکاپیز کی شکل میں پیش کی گئی ہیں جومبینہ طورپر قابل قبول نہیں ہیں۔ اسی طرح شیزی نیکوی پیپرزمیں جوکہ پراسکیوشن نے Settlementکےبیان حلفی اورالتوفیق کے پیش کیا ہے میں بھی ملزم نوازشریف کا ذکرنہیں ہے۔ مریم صفدر اورکیپٹن

 

)ر( صفدر کی جانب سے انکے وکیل امجد پرویز کے دیئے گئے دالئل 1۔سریم کورٹ ٓاف پاکستان کی طرف سے ملزمہ مریم صفدر اور کیپٹن )ر(

 

صفدرکو جے ٓائی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا بھی نہینکہا گیا اور نہ ہی سپریم کورٹ کی جانب سے 13صفحات کے سواالت میں ان دونوں کا

 

 

ذکرکیا گیاہے۔ملزمان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خالف نظرثانی کو اختیارنہیں دیا گیا  JITدرخواست دائرکی گئی ہے۔جائنٹ ایوسٹی گیشن ٹیم کہ وہ وکالء کی خدمات لے سکے لیکن ابھی تک ماہرین کے مطابق جے PW-اورPW-15ٓائی ٹی نے کویسٹ وکالء کی خدمات حاصل کی ہیں۔

 

کے سواالت پروکیل اخترراجہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی فیس 16 اورخدمات کے حصول کا معاہدہ کیا گیاہے۔اس کا کیس میں دلچسپی اس حوالے سے تھی کہ وہ جے ٓائی ٹی کے سربراہ کے رشتہ دارتھے۔ملزمہ مریم صفدرجوکہ کسی بھی حکومتی عہدیدار نہیں رہی ہیں اس لئے نیب کے قوانین ان پر خالف استعمال نہیں کئے گئے،موجودہ مقدمہ ثبوتوں پر نہینبلکہخیاالت پر تیار کیا گیا ہے۔یہ ایک کمزورثبوتوں کا مقدمہ ہے جس میں ملکیت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کی مثالوں کی روشنی مینجس میناپنے ذرائع ٓامد ن سے ہٹ کراثاثے بنانے کے جرم کےبارے مینذکرکیا گیا ہے اس کیس میں مطابقت نہیں رکھتے۔قانون میں یہ بھی واضح ہے کہ ملزم کومحض مفروضوں پر مجرم نہیں قراردیا جاسکتا ہے۔انہوں نےوکیل دفاع خواجہ حارس کےایم ایل اے کےحوالے سے پیش کردہ کے Font جوابات پربھی اپنے دالئل دیئے۔انہوں نے کہا کہ رابرٹ ریڈلی

 

ماہرنہیں ہینان کی رپورٹ کو سپورٹ حاصل نہیں ہے۔انہوں نے ٹرسٹ ڈیڈ کی قسم کے بارے میں کوذکرنہیں کیا ہے۔اگر وہFont کے حوالے سے کے ماہر ہوتے تو وہ پہلی بارڈیڈ کا معائنہ بند ٓانکھوں سے نہ Font کرتے۔انہوں نے وکیل دفاع خواجہ حارس پر بھی دالئل دیئے جس میں نیب

 

کے سیکشن19کے تحت نوٹس NAO 1999 کی طرف سے ملزم کے نام پر جاری کیا گیا۔انہوں نے تفتیشی ٓافیسرکی جانب سے پیش کردہ دستاویزات پر قانونی اورحقائق پر مبنی اعتراضات اٹھاتے ہوئےعدم اطمینان کا اظہارکیاجس میں نوازشریف کے خالف کیس بنایا جائے۔ جب رکاوٹوں کوعبورنہیں کیا جاتایعنی نوازشریف اوراسکے ذرائع کوپیش نہ کیا جائے۔ ملزمہ مریم صفدر کریمنل ایکٹ کے تحت کسی بھی طورپر ذمہ دارنہیں ہیں۔ یہ کیس ملزمہ مریم صفدر اورکیپٹن )ر( صفدر کے خالف شہادتوں پر مبنی نہیں ہے۔حکام نے پیش کردہ دالئل کے حق میں مختلف پوائنٹس پیش کئے ہیں۔معروف وکیل دفاع خواجہ حارس کے پیش کردہ دالئل سے مطابقت

 

 

رکھتے ہیں۔رولنگ کے دوران وکیل دفاع کے دالئل کو وضاحت کے طورپر متعلقہ وقت میں دالئل کے طورپر پیش کیا جائے گاجوکہ قابل ذکرثبوت عنوان محمد اسارف خان ترین PLJ 196 sc appellate jurisdictionہے۔ کے ہی ہیں جوپیش کئے جاتے ہیں۔ماہروکیل برائے اپیل Eبمقابلہ سٹیٹ پیرا کنندہ کے مزید دالئل ہیں کہ پہلی رپورٹ نمبر14کینٹ پولیس سٹیشن جس میں اپیل کنندہ نے کمانچے سے فائرنگ کی جوکہ 38بور کا پستول ہےجسے ایس ایس پی فیاض خان نے برآمد کیا ہے،ڈرائیورمحمد یونس،ایس شامل ہیں۔جس کے EX-PW 12/1ایچ اوصادق حسین اورریکوری میمو جواب مینماہر وکیل کے دالئل یہ ہینکہ جان بچانے کے لئے اسلحے کا غلط استعمال جائزنہیں۔محمد گل کے کیس میں بھی ایف ٓائی ٓار میں بندوق کو بطورگن اورطماچے کو بطورریوالور ذکرکیا گیا ہے۔اپیل کنندہ کے ماہروکیل کی طرف سے عدالت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ مختلف اخبارات کی اخباری تراشوں کو بھی زیرغورالیا جائے۔اخباری تراشے بطورگواہی کے طورقانون کی لوازمات پورے نہیں کرتے۔خاص طورپر کریمنل کے مقدمات میں ایسے اخباری تراشےنہ ہی پراسکیوشن اور نہ ہی ڈیفنس کے حق میں عنوان میسرزباالگموالہ PLD 1961(w.p) Karachi مددگارثابت ہوتے ہیں کودوبارہ پیش Fکنٹون گننگ اینڈپریسنگ فیکٹری،کراچی بمقابلہ اللچند پارٹ کیا جاتاہے:ہمارے نقطہ نظر میں ماہرسب جج اخبارات میں ٓانے والے ایسے مواد سے مطمئن نہیں ہیں جوکہ ثبوت کے بنادستاویزات میں ذرائع کے بعنوان عارف  PLD 2007 Karachi 448طورپر پیش کئے گئے ہیں۔ کودوبارہ پیش Bہاشوانی اور3دیگربمقابلہ صدرالدین ہاشوانی اور3دیگر۔پیر کیا جاتا ہے۔آٹیکل70میں ٓارڈیننس2002کے مطابق اگرکسی بھی پارٹی کے الیکٹرانک معلومات سے انکارکیا جائے تواس صورت میں دستاویزات کو ثابت کیا جاتاہے۔ جیساکہ ٓارڈیننس2002میں الیکٹرانک معلومات کو قابل قبول نہ جاناجائے توایسی صورت میں ان معلومات کو بطور ٓاواز ،ویڈیو کے طورپر جاناجاتاہے۔قانون شہادت کی روشنی میں جہاں ٓارڈر1984میں بتایاگیا ہے کہ سی ڈی ڈاکومنٹس کاریکار بطورشہادت تسلیم نہیں کیا جاتاہےاور اس حوالے سے قانون سازی میں بھی ذکرنہیں ہے ۔اگر قانون شہادت ٓارڈ1984میں الیکڑانک ٹرانزیکشن ٓارڈیننس2002میں ترامیم الئی

 

 

جائیں توالیکٹرانک کی پیش کردہ معلومات اور دستاویزات بطورگواہی قابل قبول ہونگی۔میری رائے ہے کہ ٓاڈیو،ویڈیو اورسی ڈیز کی دیگرشہادتیں قابل قبول ہینتاہم اس کی تصدیق اورمخالف پارٹی کی طرف سے اس کے حقیقی بعنوان SCMR 359 ہونے سے انکارپر تنازعہ کا سبب بن سکتاہے۔1985 محمد افضل ذل ہللا، شفیع الرحمان اورمیاں برحان الدین خان،جے جے چوہدری عبدالحمید بمقابلہ ڈپٹی کمشنر اور دیگر وغیرہ کو دوبارہ پیش کیا جاتاہے:ان تما م حقائق کی روشنی مینہیڈرائٹنگ کے ماہر کی نقطہ نظرکو قابل غور کوالیا جائے گا۔جتنے بھی شواہد عدالت میں جمع کئے گئے ہیں یہ ان سب میں سب سے زیادہ غیر تسلی بخش رہیں یہ اتنے کمزور اور خستہ حال ہیں کہ ہمارے قانون میں اس کو قبول نہیں کیا جا سکتا شہادت کے اس نقطہ نظر سے یہ ایک عام اور دہرایا ہوا عمل ہے کہ ایک نتیجہ اخذ کرنے کے لئے صرف ایکسپرٹ رائے پر انحصار نہ کیا جائے صرف ہاتھ کی لکھائی کا موازنہ کرنے سے نتیجہ غیر فیصلہ کن ہوگا اور صرف ٹھوس ثبوت کے ساتھ ضمیم کےطور پر استعمال ہونا چاہیے۔فیصلہ کے پرا گراف کو دوبارہ نیچے لکھا گیا ہے ) جعفر عالم کے  (E)9 اور پیرا گراف (D) کیس میں چوہدری بمقابلہ ریاست (ہاتھ کی لکھائی کے ماہرین کی رائے میں غلطیاں ہو سکتی ہیں اور ہر ایک بہت کمزور شہادت ہے ۔ ماہر کی رائے ضروری طور پر دھوکہ دہی ثابت نہیں کرتی یہ مکمل طور پر ثابت نہیں کرتی کہ جس ٓادمی کے دستخط ہیں لیکن اس کی ظاہری افادیت کمزور ہے اس کیس میں خطاطی کے ماہر خود بھی 100 فیصد یقین نہیں رکھتا کہ چیک میں ظاہر شدہ خطاطی اور دستخط دعویدار کے ہی ہیں ۔اگال نقطہ جو معین الحق نے اٹھایا کہ نتیجہ اس کیس میں خطاطی کے ماہر کی رائے پر قائم کیا گیا تھا جو کہ ایک کمزور اور ماہر ہے اور جس کی گواہی بھی اسی طرح کمزور ہے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ خطاطی کے ماہر کی رائے غلطیوں سے پاک نہیں ہو سکتی۔اس سے شہادت کی اہمیت کافی کم ہوگئی ہے دھونک سنگھ ٹھاکر بمقابلہ ریاست گجرات کے کیس میں صورت حال یہ ہےکہ سارہ فیصلہ ماہر اچاریہ کی شہادت پر منحصر ہے عدالت کو پتہ چال ہے کہ اچار یہ )ماہر ( نے ان افراد کے بارےمیں بھی رائے دی ہے کہ جنہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ادائیگی کے لئے کئے گئے دستخط جعلی ہیں۔ یہ

 

 

ایک غیر معمولی صورت حال ہے کیونکہ جب شہادتوں نے خود کہا قسم اٹھا کر کہ یہ دستخط ان کے ہیں تو پھر ماہر کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ دستخط جعلی ہیں اس وجہ سے ماہر کی رائے پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے ایک دفعہ جب یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اپیل کنندہ نے دھوکہ دہی نہیں کی اور جس پر حکومت کا سارا کیس پر منحصر ہے پھر کوئی قانونی شہادت نہیں ،کہ یا الزام ثابت کرے یا دھوکہ دہی یہی نقطہ خاص طور پر اٹھایا گیا عدالت کے سامنے اس طرح کوئی ثبوت نہیں ملتا اس طرح یہ بات بالکل عیاں ہے کہ عدالت کیس کی مہارت سے مکمل طور پر مطمئن ہونا چاہیے کہ وہ خطاطی کا بہترین ماہر ہونا چاہیے اور پتہ ہونا چاہیے کہ ایک خاص خطاطی کسی کی ہے یانہیں جیسے ماہر کی خطاطی غیر تسلی بخش ہے عدالت کے لئے، عدالت یہ غیر محفوظ تصور کرتی ہے کہ صرف ایک الہور خواجہ اعجاز YIR 448 ماہر کی شہادت پر فیصلہ کیا جائے۔2001ء احمد اور دیگر بمقابلہ ڈی ٓار او اور دیگر کے کیس کے پیرا 12 ‘9اور 13کے مطابق مقامی اخبارات میں جب یہ رپورٹ شائع ہوئی تو کیس کے حوالے سے کوئی بھی ثبوت نہیں دیا گیا نہ ہی کوئی ایسے شواہد ہیں جن سے معلومات حاصل کی جا سکیں‘ اخبارات میں متعلقہ شخص کے حوالے سے نہ کوئی بیان ٓایا اور نہ ہی کوئی ایسا بیان حلفی اس حوالے سے ہے‘ اخبارات میں شائع رپورٹ ریکارڈ پر ہے اب یہ واضح ہے کہ اخبارات کے تراشے یا اور اخبارات میں شائع شدہ کوئی بھی مضمون کو ممکنہ طور پر ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے نہ ہی قبول کیا جا سکتا ہے ‘ عبد الولی خان کے کیس پی ایل ڈی 1976ایس سی 57میں سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ہم اٹارنی جنرل سے متفق ہیں جنہوں نے امریکن قانون کے والیو 29کو پڑھا ‘ دوسرے ایڈیشن کے صفحہ 989کے مطابق یہ بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اخبارات میں شائع شدہ رپورٹ یا کسی پروگرام )ایونٹ ( کے حوالے سے شائع رپورٹ کی اہمیت نہیں‘ اخباری رپورٹس یا تراشوں کو اس وقت پیش کیا جا سکتا ہے کہ جہاں پر ایسا واقعہ ہوا ہو یا مقامی لوگوں کا انٹرسٹ ہو یا پوری کمیونٹی کی جانب سے ہو ‘ اس کے عالوہ کسی چشم دید گواہ کا بیان جو کہ اخبار میں شائع ہوا ہوں وہ اگر موجود نہ ہو تو وہ پیش کیا جا سکتا ہے ‘ اپیکس کورٹ نے مزید قرار دیا کہ

 

 

اخباری تراشوں یا رپورٹ کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور امریکی عدالتوں میں ایسا اکثر ہو چکا ہے ‘ کوئی کاروباری ریکارڈ یا کسی حادثے کی دستاویزات نہ ہوں لیکن کیونکہ اخباری رپورٹس واقعے کے حوالے سے قابل اعتماد ہو سکتی ہے تو اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے ‘ شیر محمد بمقابلہ دی کرائون پی ایل ڈی 1949الہور 511کے کیس میں اخباری رپورٹ کو قبول کرلیا گیا تھا جو کہ مقامی روزنامہ میں شائع ہوئی تھی اس موقع پر قرار دیا گیا کہ اگر ایک شخص اس کا فائدہ نہ لے کہ اس پر جو الزامات کے حوالے سے اخبارات میں رپورٹ شائع ہوئی ہے اور کوئی شکایت بھی نہ کر تو شائع شدہ رپورٹ اس کے خالف استعمال ہو سکتی ہے ۔جہاں تک وڈیو فلم کا سوال ہے اس میں کچھ نہیں کہ وہ کسنے مہیا کی ہیں یہاں پر عبد الولی خان اور مملکت کے کیس کا حوالہ دونگا کہ جس میں ثبوت تب تک نہیں مانے گئے جب تک تصاویر ریکارڈ کرنے والے افسر کو پیش نہیں کیا گیا ۔کیس عدالت میں چاللی گئی اور متعلقہ افسر نے اوازوں کی نشاندہی کی ایسے شخص کی عدالت میں پیش اور اس کی افادیت کے بارے میں کیا گیا جائے جس کو کوئی جانتا ہی نہیں وڈیو فلم جس کو )او ٓار( افسر نے دیکھا کوئی قانونی شہادت نہیں تھی اور اس طرح اس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا ۔جہاں تک تصاویر کا تعلق ہے اس کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ کہاں ہیں تصاویر کس نے لی اور کس نے صاف (Negatines) اس کی اصل کی اس طرح یہ تصاویر بھی شہادت کے طورپر قبول نہیں کی جاسکتی کیونکہ نہیں پتہ کہ فوٹو گرافرکون تھا اور تصویریں صاف کرنے واال کون تھا ۔پی ایل ڈی 2016 الہور 570 ج شاہد حمید ریحانہ انجم بمقابلہ ایڈیشنل سیشن جج ایک دستاویز کی پیشی اور ایک دستاویزی ثبوت 2 مختلف چیزیں ہیں ایک دستاویز ایک ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے یہ ثبوت بن بھی سکتا ہے ٓارٹیکل 78 کے تحت اگر ایک دستاویز پر ایک فریق انحصار کرتا ہے او رعدالت میں دیکھایا جاتا ہے لیکن ثابت نہیں کر سکتا ٰلہذا اس پر عدالت انحصار نہیں کر سکتی قانون کے مطابق ایک میڈیکل )طبعی ( افسرکی لکھی ہوئی رپورٹ کا ہر نقطہ دستاویزات کی ہر بات کو ثابت کرنا چاہیے کوڈ 510 کے تحت ایک رپورٹ چاہیے وہ انگوٹوں کے نشانات یا بندوقوں کے ماہرین کسی بھی معاملے میں چھان بین کے لئے جمع کئے

 

 

گئے ثابت کرنا چاہیے اور یہ مبہم نہیں ہونے چاہیے عدالت ایسے شخص کو گواہ بنائے بغیر ایسے ٓادمی کو پکڑ کر اس کی ماہرانہ رائے معلوم کر سکتی ہے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے جو شخص یہ رپورٹ بناتا ہو ڈی ڈبلیو دفعہ 510 کے کسی بھی درج بند ی میں نہیں ٓاتا پٹیشنز اپنی حدود میں رہ کر دوسرے سے سوال کر سکتا ہے اس طرح کہ اس کی گواہی کی اصلیت کو جانچا جا سکے ڈیفنس وٹنس کے لئے یہ ممکن نہ ہوگا کہ عدالت اس کی شہادت کو جانچ سکے۔1995ء ایس سی ایم ٓار 1621 سپریم کورٹ ٓاف پاکستان ملک خدا بخش بمقابلہ ریاست ، پرا گراف 11 یہاں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے یہ دیکھنا ہوگا کہ نصیر بیگم بمقابلہ سائیں عدالت نے دیکھا کہ شہادتی ایکٹ اس نتیجے پر نہیں پہنچتی ٰلہذا ایک فیصلہ ایک سول کورٹ جس طرح ایم منیر نے قانون شہادت میں لکھا ’’ یہ قابل قبول نہیں ہے مجرمانہ کارروائی میں کہ شہادت میں سچائی اور حقائق کی تہہ تک پہنچاجائے ایک مجرمانہ کیس میں یہ عدالت کااستحقاق ہے کہ وہ مشتبہ شخص کی غلطی کا تعین کرے عدالت میں اس کیس میں جمع کئے گئے ثبوتوں پر فیصلہ کیا جائے ۔ایس این گپتا کے کیس میں دکن ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ بری کرنے کا فیصلہ ایک مجرمانہ کیس میں اس پر انحصار کرتا ہے کہ غلطی ثابت نہیں کی گئی ہے اور اس طرح اس قسم کی شہادت کو سچ نہیں مانا گیا ۔یہ نصیر بیگم ورسیس سیان سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق جس میں صفحہ585پر یہ قرار دیا گیا ہے "اس پیٹیشن کی سپورٹ میں کونسل نے کہا ہے کہ سول کورٹ کے فیصلے کو دیکھا جائے ہم اس فیصلے پر متفق نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ پرائوی کونسل نے کمار گپتا رامن رائے بمقابلہ اتل سنگھ میں نکتہ اٹھایا ہے کہ ؒ۔۔ ۔ ۔ جو حقائق پیش کئے گئے وہ ایویڈنس ایکٹ کے مطابق نیہں اسی لئے سول کورٹ کا فیصلہ جس کی طرف ایم منیر نے اشارہ کیا ہے کہ فوجداری مقدمات میں قابل قبول نہیں ۔فوجداری مقدمات میں عدالتیں قصوروار کو نامزد ٹھہراتی ہیں ریکارڈ بتاتا ہے کہ انوسٹی گیشن کے دوران پیٹیشنر نے سی سی ٹی وی فوٹیج کو مہیا کرنے کی کوشش کی اس میں کوئی شبہ ٓنہیں کہ عدالت حکم 164/1984/کے تحت سی سی ٹی فوٹیج مہیا کرنے کی اجازت دے سکتی ہے لیکن 1984میں جاری حکم کے تحت ہی ایسا کرسکتی ہے ۔سی سی ٹی

 

 

وی کا فوٹیج کو عدالت میں ایک ثبوت کے طور پر کافی نہیں ہیں جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ یہ جائزہیں۔ ایسے فوٹیجز کی جائز ہونے کو ثابت کرنے کیلئے یہ ڈیفنس اور پراسکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ اس شخص کا مشاہد ہ کرےجس سے سی سی ٹی وی سسٹم سے یہ فوٹیج تیار کی ہوں لہذا ملزم کو مزید شواہد اور ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے ٓارڈر 1984کے دفعات کے ساتھ سختی سے ثابت کرے۔ اور یہ محض ٓارٹکل ٹائٹل محمد اقبال 79YLR254ٓاف دی ٓارڈر 1984تک محدود نہیں ہے۔ 216 دی سٹیٹ پیرا14،13،11کو دوبارہ پیش کیاجاتا ہے۔ پی :11اس vs احمد کے NAO1999 ٓاف a)(v) (جائیدار کے کیس کے حوالے سےسیکشن نو تحت یہ ضروری اورفائدہ مند ہے کہ اس جرم کو ثابت کرنے کیلئے تمام ضروری جواز کا مشاہد ہ کیا جائے ۔ ملزم کے بارے میں ضروری ہے کہ معلوم کیاجائے کہ وہ ایک پبلک ٓافس ہولڈر ہے۔ اس نے جائیداد جمع کی اور اسکی جائیدار اس کے ٹائٹل سے ہے۔ اس کے ظاہری ذرائع ٓامدن کیا ہیں اور جو اخراجات ملزم نے خرچ کیے ۔ یہ ظاہر ہے کہ محض اثاثہ جات کا رکھنا جووہ اپنے نام پر ٹرانسفارمر یا شفٹ کرسکتا ہو یا کسی اور کے نام کرسکتا ٓاف()(vہو ، سے وہ مجرم نہیں ٹھہرتا جیسا کہ سیکشن نو)اے بھی یہی کہتا ہے۔ سپریم کورٹ ٓاف پاکستان نے غنی الرحمانNAO1999

 

میں مندرجہ ذیل )PLD2011SC1144 ) نیب اور دیگر کے کیس میں vs اصول وضع کیے تھے۔ 6۔ اب قانون وضع ہوچکا ہے کہ اس جرم کو ٓاف دی نیب ٓارڈی نیشن 1999کے تحت لیکن وکیل دفاع اس (a)(v)سیکشن 9

 

بات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا جو قانون شہادت کے ٓارٹیکل 79,78 اور 80 کے مطابق ہےلہٰذا ٓارٹیکل 84 کے تحت ماہرانہ موقف پیش کیا جائے اور یہی کچھ انگوٹھے کے نشان بارے ہے ۔ تاہم حقائق دفاع کے دعوئوں کے برعکس ہیں جو متنازعہ فروختگی سے متعلق ہیں ۔ ٰلہذا فائل میں موجود ثبوت بھی کسی اہمیت کے حامل نہیں اور نہ ہی پیش کردہ ثبوت اس قابل ہیں کہ ان پر غور کیا جا سکے۔ جب کوئی ایک فریق ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہو جائے تو اسے کوئی فائدہ نہیں دیا جا سکتا ، اس حوالہ سے سید عمر شاہ بنام بشیر احمد کیس دیکھا جا سکتا ہے ۔ ٓارٹیکل 61 ,ہینڈ رائٹنگ ماہر کی ہینڈ رائٹنگ ماہر کے ثبوت اور رائے کو ہمیشہ ایک <=رائے ، سکوپ

 

 

کمزور ثبوت تصور کیا جائے گا۔حتیٰ کہ زبردست زبانی و تحریری اور واقعاتی ثبوتوں کے باوجود ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رائے باطل قرار دی جائے گی۔پی ایل ڈی 2005 کوئٹہ : اشفاق خالد بنام سرکار ،پیراگراف 33 ، ا یم این او پی 358 اور 37 یو کو یوں پڑھا جائے۔’’ جہاں تک ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رپورٹ کا تعلق ہے تو یہ ناقابل یقین ہے ، سپریم کورٹ نے 1985ء میں اپنی ایک رپورٹ ایس سی ایم ٓارصفحہ 359 میں کہا ہے کہ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی رائے کو حتمی حیثیت حاصل نہیں۔ اس حوالہ سے عدالت نے اپنی ٓابزرویشن میں کہا ہے کہ ’’ عدالت میں جمع کردہ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹس کی ہر قسم کی رائے اب تک غیر اطمینان بخش رہی ہیں ۔ ایسے ثبوت اس قدر کمزور اور ناقص تھے کہ ان کو عدالتی نظام میں جگہ دینا ممکن نہیں، عدالتیں صرف ان پر اعتماد نہیں کر سکتیں ۔ اسی طرح 1947ءاے ٓائی ٓار صفحہ 180 کے مطابق ’’ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی رائے سے ملکیت خطرہ میں پڑ جاتی ہے ۔’’ڈی ڈبلیو 22 کے تناظر میں ٓاخری گواہی ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی ہونی چاہیے ، ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کے ثبوتوں کو متنازعہ دستاویزات میں الگ رکھا جائے ، میں ان کو قبول کرنے میں وقت اور جھجھک محسوس کررہا ہوں ۔ مسٹر وسیم نے متعدد اتھارٹیز اور کتب سے اس حوالہ سے جو رائے دی ہے میں شعوری طور پر کہتا ہوں کہ یہ بہت خطرناک ہے ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ ماہر کسی ایک فریق کے حق میں جس نے انہیں بالیا ہونفائدہ دے سکتے ہیں ۔ یہاں ہم ایک فیصلہ پی ایل ڈی 1958ء الہور صفحہ 447 کا حوالہ دے سکتے ہیں ۔’’ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی رائے کو بڑی احتیاط سے لیا جائے چاہیے وہ ایک غیر جانبدار ماہر ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ وہ ماہر غیر شعوری ہر اس ایک فریق کو فائدہ پہنچا سکتا ہے جس نے اسے بالیا ہو۔ صرف ان حقائق کو دیکھتے ہوئے کہ ایک ماہر کہے کہ دستاویز ایک خاص شخص نے لکھی ہے اس کو حتمی نہ مانا جائے بلکہ عدالت فیصلہ دینے سے پہلے تمام ثبوتوں کو متعلقہ نکتہ پر دیکھے اور ان کی جانچ کرے ۔اسی فیصلہ میں مزید کہا گیا کہ ’’ ایک ماہر کی رائے قابل قبول ہے اسے ناقابل یقین نہ تصور کیا جائے ، ایسے حاالت اور واقعات ہو سکتے ہیں ٰلہذا ایک ماہر کے بیان کی درستگی کو جانچا جائے‘‘ملکیت سے متعلق فیصلہ جو 1969ء میں

 

ہوا پی سی ٓار ایل ہے صفحہ 259،جب ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رائے پر بحث ہوئی تو ’’ ایک ہینڈ رائٹنگ ماہر کی رائے پر سوال اٹھ سکتے ہیں ۔تحریر اور دستخط ناقابل یقین ہیں لیکن ان میں غلطی ممکن ہے ایک ماہر سے بھول ہو سکتی ہے کہ مذکورہ تحریر اور دستخط اسی شخص کے نہیں جس کی تحریر اور دستخط صاف ہیں ۔بہر حال تحریر اور دستخط ایک ثبوت ہو

 

  • عدالت اپنے طور  -sسکتے ہیں لیکن ان کی حیثیت خاطر خواہ نہیں۔35‘‘ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ماہر تحریر کی رائے کو قبول کرتے ، حقائق اور حاالت کو مدنظر رکھتے ہوئے جیسے کہ پی ایل ڈی 1966 ء ، ڈھاکہ ، صفحہ 444 میں ہے اسے دوبارہ بیان کرتی ہے ۔’’ سیکشن کا مطالعہ کرتے ہوئے ،یہ عدالت ہے جس نے ماہر کی رائے کو متعلقہ بنانا ہے عدالت اسے یکسر مسترد یا منسوخ نہیں کر سکتی ۔ عدالت ایک ماہر تحریر کو مدد کے لئے بال سکتی ہے ۔ ایک کیس میں جہاں تاثر بالکل واضح ہو عدالت خود اپنے طور فیصلہ کیوں نہیں کرتی؟37 یو ۔دو مختلف ہینڈ رائٹنگ یا دستخوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک ماہر تحر یر سے کہا جائے کہ وہ دونوں تحریر وں یا دستخطوں کو دیکھے اور ان کا موازانہ کرے کہ قلم کیسے پکڑا گیا؟قلم کا دبائو کیا تھا ؟ لکھنے کی رفتار ، الفاظ کا حجم ، الفاظ کی ترتیب اور تمام الفاظ میں فاصلہ وغیرہ کیا تھا؟ اسی طرح اصول ’’ اصل اصل جیسا ہے ‘‘ کی بنیاد کو بھی دیکھا جائے ۔ اسی طرح نمونہ کی تحریر کے لئے اس شخص کو بالکل ویسا ہی کاغذ ، سیاہی اور لکھنے کے ٓاالت دیئے جائیں جس کی تحریر درکار ہے ۔ اگر متنازعہ تحریر پنسل سے لکھی گئی ہے تو پنسل میں تحریر کا نمونہ لیا جائے ۔ اگر بال پین کی تحریر ہے تو اسی میں لی جائے ۔) ’’ ہارڈلیس متنازعہ دستاویزات ، ہینڈ رائٹنگ اور انگوٹھے کی چھاپ کی شناخت ‘‘ جو ٹی جے گجر نے دہرائے تھرڈ ایڈیشن 2010)1983ء پی سی ٓارایل جے 1832 ۔ میر فیاض احمد بنام سرکار، پارس کو دہرایا جاتا ہے ۔19۔عبدالرشید کیس ) سپرا ( یہ دیکھا  Aنمبر 19,20,21 گیا ہے کہ جیسا کہ کوئی اپیل کنندہ اپنی صفائی میں ان الزامات کا ثبوت نہیں دے سکا جو اس کے خالف ہیں تو یہ اس کے خالف جائیں گے۔پی ۔20۔آخری قاضی نسیم احمد کیس میں اپیل کنندہ کو انسداد بدعنوانی کے سیکشن 5سی کے تحت ، سرکاری مالزم ہونے کے ناطے ملزم ناجائز ذرائع

 

 

سے اپنے نام پر اور اپنے زیر کفالت والدہ اور چھوٹے بھائی کےنام پر جائیدادیں خریدیں ۔ عدالت نے ہر جائیداد کاجائزہ لیاور اس نتیجہ پر پہنچی کہ الزام ثابت نہیں ہوتا۔ ماہر تحریر کی رائے پر عدالت نے ٓابزرویشن دی کہ ثبوتوں کی عدم موجودگی میں ایک ماہر تحریر کی رائے بھی کافی نہیں کہ اپیل کنندہ نے دستاویزات میں کوئی جعل سازی اور چھیڑ چھاڑ کی ہے

 

۔پی ڈی 21 ۔ مندرجہ باال مقدمہ کو دیکھتے ہوئے قانورن اس حوالہ سے واضح ہے کہ ایک ماہر تحریر کی رائے محض رائے ہی ہے اس لئے صرف رائے پر حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی ۔پی ایل ڈی 2014 سپریم کورٹ 696 لینڈ ایکوزیشن کلکٹر سرگودھا بنام محمد سلطان وغیرہ ، پیرا 5 ۔قانون شہادت حکم 1984 جس میں Dڈی اور 6 بی پڑھا جا سکتا ہے ۔5 ٓارٹیکل 59 شامل ہے ، یہ بات واضح ہے کہ ایک گواہ کی رائے اسی وقت اہمیت کی حامل ہوگی اگر وہ مذکورہ ٓارٹیکل کے تحت مخصوص میدان میں ماہر بھی ہے ۔ عالوہ ازیں رائے دینے کے مقصد کی خاطر گواہ نے پہلے کسی ماہر سے رائے لی ہو یا اس کی تعلیمی قابلیت یا تجربہ اسے حاصل ہو

 

  • اگر ایسا کچھ نہیں تو یہ رائے محض رائے ہوگی اور اسے ثبوت کی موجودہ کیس میں عدالت میں ایک ایسا شخص ٓایا ہے B-6حیثیت نہیں ہوگی۔

جو ماہر نہیں ہے ۔پی ایل ڈی 1993، سپریم کورٹ 88، اٹاال نسٹک سٹیمر سپالئی کمپنی بنام ایم وی ٹائٹس ودیگر ، ہیرا 13دوبارہ دیا جاتا ہے ۔’’ دونوں فریقوں میں تنازعہ غیر ملکی قانون کے ثبوتوں کے حوالے سے ہے ۔ثبوتوں کے حوالے سے سیکشن 38قانون شہادت اور ٓارٹیکل 52کو دیکھتے ہوئے یہ کافی ہوگا ۔52۔ کتاب قانون کے تحت بیانات میں تعلق :۔ جب عدالت کوئی رائے قائم کرے جیسا کہ کسی ملک کا قانون ہو یا ایسا بیان ہو جو اس ملک کی حکومت کی اجازت سے قانون کی کسی کتاب میں چھپا یا شائع ہوا ہوں ۔تو اس قانون کو متعلقہ مانا جائے گا ، مندرجہ باال ٓارٹیکل کے سرسری مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی قانون کو اس ملک کی حکومت کی اجازت شائع کی گئی کتاب سے ثابت کیا جاسکتا ہے ۔اسی طرح یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قانون شہادت کے ٓارٹیکل 59کے تحت ایک ماہر کابھی تجزیہ کیاجاسکتا ہے ۔مزید کہا گیا ہے کہ برطانیہ ملکی قوانین کو ماہرین کے ثبوتوں سے ثابت کیاجاتا ہے ۔پی ایل ڈی 1972سپریم کورٹ 25، مسماۃ

 

 

خیر النساء اور 6دیگر بنام ملک محمد اسحاق اور دیگر میں یہ کہا گیا کہ تحریری بیانات کو کیسز میں اس شخص کے بغیر نہیں لیا جاسکتا جس کاعدالت میں ٹرائل نہیں کیا گیا ۔صرف تصدیق شدہ ہو تاہم اس تحریری بیان کو ثبوت پر کے طور پر کیس میں پیش نہیں کیا جا سکتا ‘ اس فیصلے کیلئے جے بی روس اینڈ کو وی سی ٓار سریون اور دیگر ) ائر اور محمد صدیقی بمقابلہ پھوپندرا نارائن روئے  1917CAL269(2))

 

چوہدری سے مدد لی گئی ہے ۔پی ایل ڈی 1962ء ڈھاکہ 643اس کیس میں بھی ایسے ہی ہوا ’’ کیس خارج کرنے کیلئے تصدیق ضروری ہے ‘ اگر نہیں روکا گیا تو جھوٹ ہوگا ‘ قانون سازی کبھی مکمل نہیں ہو گی کہ مدعی کی جانب سے تصدیق شدہ تحریر بیان کو مخالف کیخالف بطور ثبوت تصور کیا جائے ‘قانون کے سیکشن 191اور 193میں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کے مطابق تصدیق شدہ تحریر بیان کو ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا تاہم سیکشن 191کو ایک خاص مقصد کیلئے نافذ کیاگیا ہے ۔2016ء ای سی ایم ٓار 274سپریم کورٹ ٓاف پاکستان عظیم خان اور دیگر بمقابلہ مجاہد سیکشن 365اے اور (XLV of 1960) خان اور دیگر )جے( پینل کوڈ (302 (V ofبی ( انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء ‘ کریمنل پروسیجر کوڈ اغواءبرائے تاون قتل ثبوتوں کا دوبارہ جائزہ مقتول کی شناخت  1998)

 

کیلئے ہڈیوں کا حصول ہڈیوں کی ڈی این اے رپورٹ یہ سب کچھ ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی سزا دینے کیلئے کافی ثبوت ہیں‘ اس کے عالوہ اگر موجودہ کیس میں ڈی این اے رپورٹ کو بطور ثبوت پیش کرکے اس پر انحصار کر دیا جائے تو یہ بھی ملزم کو سزا دینے کیلئے کافی نہیں ہو گا‘ جب ثبوت کے انبار بھی لگا دئیے جائیں پھر بھی ملزم کو سزا دینے کیلئے ڈی این اے رپورٹ پر انحصار کرنا کافی نہیں ہوگا‘ یہاں غیر جانبداری اور مکمل شفافیت ظاہر کر نا ہوگی ‘ مجسٹریٹ یا ان جیسی غیر جانبدارانہ اتھارٹی رکھنے والے حکام کی موجودگی میں مقتول کے جسم کے جو نمونے حاصل کرکے لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں اور جائے وقوعہ سے بھی قتل کے حوالے سے ثبوت اکٹھے کرکے لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں انہیں محفوظ کرنا ہو گا لیکن اس کیس میں ان تمام امور کو نظر انداز کیا گیا ‘ سپریم کورٹ نے ایک طرف ملزم کو جرم کا مرتکب قرار

 

 

دیتے ہوئے اس پر ذمہ داری عائد کی اور اسے سزائے موت سنائی ۔پی ایل جے 2002 الہور : 454 مقرب حسین بوساطت قانونی نمائندگان اور دیگر cاور A,7,4 10بنام پیر زادہ محمد رفیق بوساطت قانونی نمائندگان ، پیرا 8 کو دوبارہ لیا جاتا ہے پی 4 ۔ اپیل کنندہ نے کرایہ کے بارےمیں 13 جنوری 1962ء کے حکم پر تکیہ کیا دستاویزات کی غیر تصدیق شدہ نقول دیں ۔پی7 ۔ دستاویزات کے تحت جواب دہندہ کو اجازت ملی کہ بنگلہ کے سامنے پالٹ پر کوارٹر بنا سکے درحقیقت اس سے اپیل کنندہ کو پوزیشن سی مال۔پی 8 اے ۔ میں یہ کہوں گا کہ مذکرہ دستاویزات کے سرسری مطالعہ سے یہ تاثر مال ہے کہ ان غیر تصدیق شدہ دستاویزات پر بجا اعتراض اٹھایا گیا کہ اپیل کنندہ بیان ڈی ڈبلیو 3 تھا ۔ میرے ذہن کے مطابق یہ دستاویزات قانون شہادت حکم کے تحت قابل قبول نہیں ۔ ڈی ڈبلیو 3 کے تحت یہ دستاویزات غیر تصدیق شدہ نقل کی ٓاگے نقل تھی ۔ یہ بھی قابل قبول نہیں ۔بی 10 ۔ میں قانونی مشیر سے متفق ہوں کہ مذکورہ 2۔ دستاویزات ثبوتوں کے طور پر ہر قابل قبول ہیں ۔اورنہ ہی تصدیق کیا گیا ہےیہ تمام داخلے محض عدالتی کارروائی کے حوالے سے ہیں اورنہ ہی اسے بطور داخلہ موجودہ کیس میں استعمال کیا جائےجوکہ ثبوتوں کی روشنی میں اسکے اپنے میرٹ پر ہو نے بعنوان اسفندیار اوردیگر بمقابلہ SCMR2084کا ریکار ڈ کیا جائے۔2016 کامران اوردیگر وغیرہریکارڈ کے مطابق درخواست گزار نے دوران تفتیش سی سی ٹی وی کی فوٹیج پیش کینجس کودرخواست گزارنے تفتیش ٓافیسر کے سامنے پیش کیا۔عدالتی سماعت کے دوران انہیں عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لئے اجازت لی گئی لیکن ٓارڈر1984کی روشنی میں پیش کرنے کو کہا گیا۔مخالف پارٹی کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ مذکورہ فوٹیج کا جائزہ لے۔تمام جائزہ لینے کے بعد عدالت نے بتایاکہ عدالت سی سی ٹی وی فوٹیج پر بطورثبوت بھروسہ نہیں کرسکتی۔لہٰذاعدالت کے فیصلے میں ٓارڈر1984کے مطابق کیس کے ثبوت پیش کئے جائینجوکہ ٓارٹیکل 79تک بعنوان مسزنشاتا بمقابلہ clj 233 Peshawar محدود نہیں ہونے چاہیے۔2011 کودوبارہ پیش کیا جاتاہے۔مسز Para 11 B مسلم خان عرف مصلی وغیرہ نشاط ،مدعی مقدمہ اورعبدالحکیم وغیرہ کے دستخط کے حوالے سے جائزہ کے ثبوت پر بتایا گیا ہے کہ انگوٹھوں کے ACW-3 لیا گیا ہے جس میں

 

 

نشانات بھی مسزنشاط سے مطابقت رکھتے ہیں۔لہٰذایہ ثبوت کے طور قابل غورنہیں الئے جاتے جوکہ کمزورتصورکئے جاتے ہیں۔مگرمدعا علیہ قرآن شہادت کے ٓارٹیکل 8اور9پر پورانہیں اترتے اور اسکی تعمیل میں ناکام ہوئے ہیں۔لہٰذا انگوٹھوں کے نشانات بھی اس سیل ڈیڈ کو متنازعہ بنادیتے ہیں۔ مذکورہ کیس میں بھی ایکسپرٹ رائے کو بھی ثبوت کے طورپرکمزورتصورکیا جاتا ہے۔جب پارٹی اپنے کیس کو ثابت کرنے میں کوترجیح دی Expert Opinion ناکام ہوجائے توایسی صورت میں بھی جاتی ہے جوکہ ثبوت کا کمزورذریعہ تصورکیا جاتاہے۔ جیساکہ سید محمد عمر شاہ بمقابلہ بشیراحمد کے کیس میں بتایا گیا ہے کہ ٓارٹیکل 61کے کی ماہر ین کے رائے کو بھی ثبوت کے طورپر Hand writing مطابق

 

کمزورتصورکیا جاتاہے،بیشترزبانی،دستاویزی اوردیگرحقائق پرمبنی ثبوت PLD 2005ہونے کے باوجوداس پر ایسے ثبوتوں پر ترجیح نہیں دی جاتی۔

 

عنوان اشفاق خالد بمقابلہ سٹیٹ پیرا33 کودوبارہ پیش کیا  Quetta SCMRکے ماہر کا تعلق ہے ۔1985میںHandwriting جاتاہے:جہاں تک کاسپریم کورٹ میں کیس رپورٹ ہواجسکے پیج359میں بتایا گیا کہ ایکسپرٹ کی رائے کو فائنل تصورنہیں کیا جاتاہے۔اس Handwriting حوالے سے متعلقہ ٓابزویشن دوبارہ پیش کی جاتی ہیں۔ہینڈرائیٹنگ کی رائے، ایکسپرٹ ہینڈرائٹنگ کی رائےاورتمام قسم کے شواہد جو عدالت میں جمع کیے گئے غیرتسلی بخش تھے۔ یہ شواہد اتنے کمزور اورپرانے تھے کہ جسے قانونی نظام میں پیش کرنے کے قابل نہیں ۔عدالتیں محض ایکسپرٹ کے فیصلے AIR1947 oudh page 180 رائے پر انحصار نہیں کرتیں ۔ کے مطابق جج نے بتایا تھا کہ ہینڈ رائیٹنگ ایکسپرٹ کی رائے پر انحصار کے سلسلے میں ٓاخری گواہ ہ پر غور DW 22کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ کیاجاسکتا ہے میری خواہش ہے کہ کہوں کہ ہینڈ رائیٹنگ ایکسپرٹ کی جانب سے متنازعہ دستاویزکے حوالے سے پیش کی گئیں ثبوت کافی نہیں۔ میں اسے منظور کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہوں۔ مسٹر وسیم نے رائے کا اظہار کیا مختلف کتابوں میں ہینڈرائیٹنگ ایکسپرٹ کی شواہد کے حوالے سے ۔ لہذا میں مکمل طور پر حوش وہواس میں کہتا ہوں کہ ایسے گواہوں کے شواہد پر انحصار کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ بعض

 

 

اوقات ایک ماہر مختلف کیسز میں تعصب پسند ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم پی ایل ڈی 1958الہور پیج 447کے فیصلہ کا حوالہ دے سکتے ہیں، ہینڈنگ رائیٹنگ ایکسپرٹ کی رائےسے متعلق احتیاط برتنا چاہیے تاہم ایک ایکسپرٹ جانبدار بھی ہوسکتا ہے لہذا اس حوالے سے کورٹ کو تمام پہلوئوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ اسی طرح کے ایک اور فیصلے میں بتایا گیا کہ ایک ماہر کی رائے قابل قبول ہے لیکن اس پر فیصلہ نہیں کیاجاسکتا ۔ لہذا وہاں کچھ شواہد ہونے چاہیے تاکہ ان بیانات کی تدرستگی کا جائزہ لیاجاسکے۔ 1969 ء کے‘ پی سی ٓار ایل جے‘ کی ملکیت کے حوالے سے فیصلے میں ہاتھ کی لکھائی کے ماہر کی رائے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جس کے مطابق ’’ہاتھ کی لکھائی اور دستخط کے حوالے سے ماہرکی رائے ہے کہ لکھائی اور دستخط قابل یقین نہیں تاہم ان میں ردوبدل ہو سکتا ہے اور ماہر اسے جعلی ثابت نہیں کر سکتا جب تک لکھنے والے اور دستخط کرنے والے کی لکھائی اور دستخط صاف نہ ہوں جس کیلئے لکھائی اور دستخط کا ایک متن بھی دیکھنا ہوگا لیکن ایسے عمل کی قانون حیثیت انتہائی کمزور ہوتی ہے‘‘۔اسی طرح لکھائی کے ماہر کی رائے پر غور کرنے کے بعد حاالت و واقعات کے تحت عدالت ٓازادانہ طور پر اس نتیجے پر پہنچتی ہے جبکہ ڈی ایل ڈی ڈھاکہ کے 1966ء کے ایک کیس کے فیصلے کے صفحہ نمبر 444 کے مطابق ’’قانون کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عدالت کسی ماہر کی رائے کو مان سکتی ہے لیکن عدالت کی یہ ڈیوٹی بھی نہیں کہ وہ ان سب کو ہی منسوخ یا مسترد کر دے‘ عدالت حتمی فیصلے کے نتیجے پر پہنچنے کیلئے کسی ماہر کو اپنی رائے دینے کیلئے بال سکتی ہے تاہم اس کیس میں نقوش صاف ظاہر ہیں ‘ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عدالت کسی ماہر کی رائے کے بغیر ازخود ٓازادانہ طور پر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے ‘‘۔دو مختلف لکھائیوناور دسختطوں کے موازنہ کریں تو لکھائی کے ماہر تو لکھائیوں اور دستخطوں کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینا ہے جیسے کہ پین کا پکڑنا‘ پین کا پریشر‘ لچکداری‘ سپیڈ ‘سائز‘ سپیس ‘ الئن کی کوالٹی ‘ریدھم اور لمحات ‘ تمام الفاظ ‘ سیاہی اور لکھنے کے ٓاالت کا جائزہ لینا ہوتا ہے‘ اسی طرح لکھائی کے اصولوں کے موازنہ سے قبل اس کو دیکھا جاتا ہے‘ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ کسی بھی شخص

 

 

سے اس کی لکھائی یا دستخط کے حوالے سے موازنہ کیلئے نمونے ایک جیسے لئے جائیں‘ ممکن ہو تو ایک ہی قسم کی سیاہی ‘ ایک ہی قسم کے لکھائی کے ٓاالت ‘ اگر پینسل کے ساتھ لکھا گیا ہے تو پینسل کا نمونہ لیا جائے اگر بال پین ہو تو بال پین کا ۔2016ء پی سی ٓار ایل جے 1343الہور غالم سرور خان اللوانی بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 20ڈی کے مطابق ’’استغاثہ کیلئے ضرور ہے کہ و ہ تمام ثبوت اکٹھے کرے کہ جس اثاثوں سے پالٹ خریدا گیا ہے اس کیلئے وسائل کہاں سے ٓائے تاہم ایسے کوئی ثبوت اکٹھے نہیں کئے گئے ۔پی ایل ڈی 2002ء پشاور 118محمد حیات خان سمیت دو دیگر افراد بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 81کے مطابق ’’ اگر ہم کسی ڈکشنری سے ’’ڈیپنڈنٹ ‘‘ لفظ کا مطلب حاصل کر لیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک شخص معاشی طور پر کسی دوسرے شخص پر انحصار کر رہا ہے اور اسےگزر بسر کیلئے معاشی طور پر اس شخص سے تحفظ ملے ‘‘پی ایل ڈی 1993سپریم کورٹ 88ایٹالنٹک سٹیمرز سپالئی کمپنی بمقابلہ ایم وی ٹائٹسی و دیگر کیس کے پیرا13جی کے مطابق اوپر والے مضمون کے متن کے مطالعہ سے اشارہ ملتا ہے کہ کسی بھی بیرونی ملک کے قانون کے مطابق ایک شخص کسی کتاب کی چھپائی اس ملک کے قانون کے تحت کر سکتا ہے اور یہی ’’ قانون شہادت ‘‘ کے ٓارٹیکل 59سے بھی ثابت ہے کہ غیر ملک کے قانون پر ماہر کی رائے درست ہے تاہم ایک ماہر چانچ پڑتال بھی کر سکتا ہے‘‘۔پی ایل ڈی 1972ء سپریم کورٹ 25مسز خیر النساء اور دیگر 6افراد بمقابلہ ملک محمد اسحاق و دیگر افراد ’’ عدالت میں دائر کردہ کسی شخص کے تحریر بیان کو اسی شخص کے بغیر کیس میں پیش نہیں کیا جا سکتا ‘ تحریر بیان حلفیہ طور پر نہ ہو اور اس کی صرف تصدیق ہوئی ہو تو یہ کسی بھی کیس میں شہادت کے طور پر پیش نہیں ہو گا‘ اس فیصلے کیلئے جے بی روس اینڈ کمپنی سی ٓار سریون اور دیگر کے کیس سے مدد لی گئی ‘‘ ۔2010ء سی ٓار ایل جے 1832کراچی میر فیاض احمد بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 21کے مطابق ’’مذکورہ کیس کے مطالعہ سے اشارہ ملتا ہے کہ قانون بڑا واضح ہے کہ لکھائی کے ماہر کی رائےکیا ہے ‘ صرف رائے ہے تاہم مبینہ ہاتھ کی لکھائی یا دستخط کے حوالے سے کسی بھی نتیجے پر پہنچے کیلئے یہ رائے کافی نہیں ہو گی ‘ماہر کی رائے

 

 

کی حیثیت سے معمولی ہے تاہم سزا کا تعلق ماہر کی رائے سے نہیں ہو گا ‘‘۔پی ایل ڈی 2005ء کراچی 443منصور احمد قریشی بمقابلہ ریاست کیس کے پیرا 141کے مطابق ’’جہاں متعلقہ سزا کے ساتھ نیا جرم سرزد ہو جائے یا پہلے سے ہوئے جرائم پر نئی سزا دی جائے یہ ترمیم شدہ قانون کے تحت یہ سزا قابل عمل نہیں ہوگی‘‘۔پی ایل ڈی 2010ء سپریم کورٹ 1109بینک ٓاف پنجاب و دیگر بمقابلہ حارث سٹیل انڈسٹریز )پرائیویٹ ( لمیٹڈ کیس کے پیرا 30ای کے مطابق ’’ایماندارانہ تحقیقات ہوں اور غیر جانبداری کے بغیر اس تحقیقات کے منصفانہ ہونے کی گارنٹی بھی ہو تو تحقیقاتی افسر صرف ایک مریض اور الجھن کا شکار ہو گا ‘‘۔ثبوتوں کے انبار اور ملزم کی جانب سے صفائی 2007ء ایم ایل ڈی 210کراچی حاکم علی زرداری بمقابلہ ریاست کیس کے ٓاخری پیرا کے صفحہ نمبر 923کے مطابق ’’ثبوتوں کے انبار کے سلسلے میں عام قانون کے مطابق ملزم اس وقت تک معصوم ہے جب تک جرم ثابت نہ ہو اور جرم ثابت کرنا ہمیشہ استغاثہ کا کام ہے تاہم اسی ٓارڈیننس کے سیکشن (14سی ( جو کہ عام قانون سے ہی لیا گیا ہے کے مطابق کرپشن کے ممکنہ امکانات یا کرپٹ کاموں کو واضح کرنا ہوگا‘ اگر کوئی ملزم یا کوئی بھی شخص غیر ملکی سرمائے یا زمین کے حوالے سے چھوٹے سے سرمائے کیلئے کمائی کا ذریعہ بتانے میں عدالت کو مطمئن نہ کر سکے توکمائی کے ذرائع کے ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ڈالنے کیلئے قانون خاموش ہے تاہم ہمیشہ ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ہونی چاہیے ‘ قانون کے مطابق ایسے کیسز میں استغاثہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملزم کیخالف ثبوت فراہم کرکے عدالت کو مطمئن کرے کہ ملزم کے کمائی کے ذرائع کیا ہیں‘ اس نے کیسے زمین یا غیر ملکی سرمایہ حاصل کیا‘ عدالت کو ضرورت ہے کہ تصور کرے کہ قانون کے سیکشن (14سی( کے تحت فراہم کردہ ثبوتوں کے تحت ملزم نے جرم کیا ہے‘ استغاثہ کیلئے ضرورت ہے کہ وہ پہلے ملزم کے اثاثوں اور کمائی کے درمیان فرق واضح کرے لیکن جہاں ملزم اس حوالے سے مطمئن نہ کر سکے تو ثبوت کی ذمہ داری ملزم پر ہرگزنہیں ڈالی جا سکتی ہے وہ ثبوت ال کر مطمئن کرے‘ رامیشور پرساد ُادھاپیا بمقابلہ حکومت بہار ریفرنس )ائر 1971ایس سی )2474 کے مطابق ملزم کی جانب ثبوت فراہم

 

 

کرنے کی حدتک یہ کہ ملزم پر ضروری نہیں کہ اس پر جو الزامات ہیں وہ اسی کے ثبوت بھی فراہم کرےاور نہ ہی وہ اس کا ذمہ دار ہے تاہم پراسکیوشن کا کام ہے کہ وہ ثبوت فراہم کرے جو ملزم پر الزام ہے تاہم جب ملزم کیخالف الزامات کی تحقیقات کے دوران مندرجہ باالاصولوں کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اگر ملزم اس قابل ہو کہ وہ حاالت بیان کرکے عدالت کو مطمئن کر سکے تو یہ کافی ہو گا اور ملزم پرثبوت النے

 

  • ثبوتوں کے I کا سلسلہ ختم کر دیا جائے ۔ثبوت کے معیار کی تین اقسا م ہیں پیش نظر امکانات کی برابری

 

  • ممکنہ حد تک کسی شک پر ثبوت معیاری اور واضح ثبوت پر قائل کر نا II کے جرم میں معیاری  (V) (سیکشن (14سی( کے مطالعہ کے مطابق(9اے ثبوت ضروری ہیں ۔2009ء کے ایس سی ایم ٓار 790کو یہاں پیش کیا جا سکتا ہے جہاں یہ ہوا ‘ اگر این اے او کو استعمال نہ کیا جا سکے تو ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ دار ملزم پر نہیں بلکہ استغاثہ پر ہو گی اور ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری خاص ثبوت کے بغیر کبھی بھی عائد نہیں ہوگی

 

۔2010ء ایس سی ایم ٓار 1697ء

 

محمد ہاشم بابر بمقابلہ ریاست و دیگر کے کیس کے مطابق ’’یہاں یہ اضافہ کرنا ضرور ی ہے کہ کسی کیس کو ثابت کرنے کی ذمہ داری اور استغاثہ کے الزامات یا جرم کو ثابت کرنے کیلئے مندرجہ ذیل امور ہونگے ۔

 

یہ ثابت کرنا ضرور ہے کہ ملزم کے پاس کسی بھی قسم کا حکومتی (V) عہدہ تھا ۔

 

غیر ملکی سرمایہ یا زمین کے حوالے سے مکمل معلومات فراہم کرنا (VI) ضرور ہے ۔

 

یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ ملزم کے کمائی کے ذرائع کیا ہیں ۔ (VII)

 

 

یہ بھی ثابت کرنا ضرور ی ہے کہ سرمایہ یا زمین ملزم کے قبضے (VIII) سے ملی ہے اور وہ سرمایہ بھی واضح نہیں ہے ۔

 

 

اگرپہلے سے جرم ثابت ہو جائے اور قانون کے سیکشن (9اے( )وی( کے مطابق مکمل ہو جب تک ملزم سرمایہ یا زمین ثابت نہ کر سکے لیکن قانون میں یہ بھی واضح ہے کہ کسی سرمائے پر زمین پر صرف قبضہ کوئی جرم نہیں لیکن اس سرمائے یا زمین کے حصول کیلئے استعمال ہونے والے سرمائے یا ذرائع ٓامدن کے حوالے سے مطمئن نہ کرسکنے کی صورت میں اس سرمائے یا زمین پر سواالت اٹھیں گے اور ملزم ثابت نہ کر سکے تو یہ ایک جرم ضرور ہوگا ‘ قانون کے سیکشن (14سی ( کے ملزم جس ملزم پر کرپشن اور کرپٹ کام کرنے کے الزامات ہوں تو اسے ثابت بھی کرنا ہوگا‘ بصوابوشان نائیک بمقابلہ سرکاری )ائر 1954ایس سی )350 کیس کو دیکھیں کہ یہاں قانون کے سیشن 14کے تحت ریکارڈ سے ثبوت ال کر پیش کئے گئے اور اگر کونسل ثبوتوں میں کسی ایک صفحہ یا سیکشن پر یہ ثابت کردے کہ یہ پڑھنے کے قابل نہیں یا صحیح طریقے سے اس کی چھپائی نہیں ہوئی یا عدالت اس کو پڑھ ہی نہ سکے تو تو پٹیشنرکی جانب سے خرچ کردہ 14الکھ روپے ختم نہینہونگے ‘ یہ بھی قانون سے ہی واضح ہے کہ ثبوت فراہم کرنے کے حوالے سے ذمہ دار استغاثہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ملزم پر ثابت کریں کہ یہ سرمایہ یا زمین اسی کی ہے یا نہیں‘ اور یہ اس نے کس سرمائے سے کیسے حاصل کئے ہیں‘ اور نیب قانون 1999ء کے مطابق استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ اس سرمائے یا زمین کو حاصل کرنے میں کرپشن ہوئی ہے یا نہیں ‘ اگر استغاثہ اس میں ناکام رہے تو یہ ذمہ داری ملزم پر بھی عائد ہوگی کہ وہ ثابت کرے اور مطمئن کرے کہ سرمایہ کہاں سے ٓایا ‘ عدالت احتساب بھی کر سکتی ہے ۔

 

فاضل جج نے سپریم کورٹ کے فیصلے ایس سی ایم ٓار / 790سال2009 بعنوان ’’سید قاسم شاہ بنام سرکار ‘‘کا حوالہ دیتے ہوئےکہا کہ اگرچہ دفعہ (14سی( نیب ٓارڈیننس میں موجود ہے مگر اس کے باوجود ابتدائی بارثبوت ہمیشہ استغاثہ پر ہوتاہے کہ وہ جرم ثابت کرے اور جب تک ابتدائی بار ثبوت درست طور پر ڈسچارج نہ کیا جائے اس وقت تک ملزم کے حق میں بے گناہی کا ٹھوس یقین موجود رہتا ہے اور تمام حاالت میں استغاثہ کسی طور ملزم کا جرم ثابت کرنے سے بری الذمہ نہ ہو سکتا ہے۔ مزید فاضل

 

  • نے 2010ء وائی ایل ٓارصفحہ 230کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر کیس کے اپنے واقعات اور پس منظر ہے اور کسی کیس کے واقعات ٓانکھ بند کر کے دوسرے کیس پر منطبق نہ کئے جا سکتے ہیں۔ فاضل عدالت عظمیٰ و عدالت عالیہ کے نظائر کے پس منظر میں فاضل جج نے ریفرنس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا کہ سال 2016ء میں

 

صحافیوں کی بین االقوامی تنظیم نے ’’موزیک فونسیکا‘‘ جو کہ پاناما ملک میں ایک ال فرم ہے کا ڈیٹا ہیک کیا اور اس کو شائع کر دیا جس میں ان تمام لوگوں کے نام موجود تھے جنہوں نے بین االقوامی کمپنیوں سے روابط استوار کئے ہوئے تھے اور ٹیکس سے بچنے کیلئے اور اپنی دولت کو چھپانے کیلئے انویسٹمنٹ کی ہوئی تھی اور مزید یہ کہ ان کا سب سے بڑا مقصد کالے دھن کو سفید کرنا تھا۔پاناما پیپرزکے شائع ہونے کے بعد فاضل عدالت عظمیٰ نے معاملے کا جائزہ لیا اور ملزمان فاضل عدالت عظمیٰ کی تمام کارروائی میں شامل ہوئے ابتدائی طور پر فاضل عدالت عظمیٰ نے تین دو کے تناسب سے فیصلہ 20اپریل 2017؁ء کودیااور نیب کو تفتیش کرنے کیلئے ہدایت دی اور اس بارے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی اور اس بابت وضاحت دی گئی کہ اس میں ایف ٓائی اے کا سینئر ٓافیسر نمائندہ نیب ، ایس ای سی پی کا نامزد، سٹیٹ بینک کا نامزد کردہ ممبر، ٓائی ایس ٓائی اور ایم ٓائی کے سینئر افسران شامل ہونگے۔ تفتیشی ٹیم کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس امر کا تفصیلی جائزہ لے کر ٓایا ملزم نواز شریف یا اس کے بچوں یا بے نامی دارنے اپنے وسائل اور ٓامدن سے زائد اثاثہ جات حاصل کئے تھے تمام ملزمان کو تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی اور تفتیشی ٹیم کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ ایف ٓائی اے اور نیب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس یا دیگر اثاثہ جات اور ٓامدن کی بابت کوئی بھی ریکارڈ حاصل کر سکتی تھی‘ فاضل عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر تحقیقاتی ٹیم واجد ضیاء پی ایس پی ، بریگیڈئیر)ر( محمد نعمان سعید نمائندہ ٓائی ایس ٓائی، بریگیڈئیر کا مران خورشید ممبر ملٹری انٹیلی جنس عامر عزیز ایگزیکٹو ڈائریکٹر سٹیٹ بینک ٓاف پاکستان، بالل رسول ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ای سی پی اور عرفان نعیم منگی ڈائریکٹر نیب پر مشتمل تھی۔ تحقیقاتی ٹیم کو مندرجہ ذیل واقعات پر تفتیش کرنے کی ہدایت کی گئی کہ گلف سٹیل ملز

 

 

کیسے بنی ؟اور کب فروخت ہوئی، اس کی ذمہ داریوں کا کیا بنا؟ اس کی قیمت وصول شدہ کہاں استعمال ہوئی ، جدہ ، قطر اور انگلینڈ کیسے پہنچی؟ کیا ملزمان حسن اور حسین نواز کے پاس 90ء کی دہائی کے اوائل میں اتنے اثاثہ جات موجود تھے کہ وہ فلیٹ خرید سکیں؟ کیا حماد بن جاسم بن جبر الثانی کے خطوط حقائق پر مبنی تھے؟ حصص کو کیسے فروخت کر کے ان سے فلیٹ کی خریداری کی گئی؟ درحقیقت نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ اور نسکول لمیٹڈ کا مفاد اٹھانے واال اصل کون ہے؟ ھل میٹل کب اور کیسے وجود میں ٓائی؟ ، مدعا علیہ نمبر 8نے کب اور کیسے کمپنیاں بنائیں اور ان کمپنیوں کیلئے پیسہ کہاں سے ٓایا؟ اور مزید یہ کہ حسین نواز نے کس طرح ملزم نواز شریف کو کروڑوں روپے گفٹ کئے؟ تحقیقاتی ٹیم نے 16جوالئی 2017ء کو دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ پیش کی فاضل عدالت عظمیٰ نے مورخہ 28جوالئی 2017 کو نیب کو ریفرنس تیار کر کے تحقیقاتی ٹیم کے جمع شدہ مواد پر مبنی نیب عدالت میں داخل کرنے کی ہدایت کی جنکی بنیاد پر ایون فیلڈ فلیٹس عزیز یہ سٹیل کمپنی اور دیگر کمپنیوں کی بابت ریفرنس دائر کئے گئے فیصلے میں فرد جرم کی بابت تفصیل بیان کی گئی جس میں مرکزی ملزم میاں نواز شریف کو اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے موردالزام ٹھہرایا گیا کہ وہ اپارٹمنٹ نمبر16اے، 17اور 17اے سے پارک لین لندن کے مالک تھے اور یہ کہ یہ فلیٹس نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور نیسکال لمٹیڈ کے ملکیت تھے اور مزید انکو ہدایت کی گئی کہ انکی خرید قانونی طور پر کرنے کے وسائل انکے پاس نہ تھے۔ مزید یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے وسائل ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ کس طرح انہوں نے یہ اپارٹمنٹس خرید کئے تمام ملزمان نے فرد جرم کی صحت سے انکار کیا‘ فاضل عدالت نے نیب ٓارڈیننس 1999کی دفعہ 9کا حوالہ دیتے ہوئے اس امر کی وضاحت کی کہ ہر وہ شخص جو کہ اپنے یا اپنے زیر کفالت افراد کے نام پر اپنے وسائل اور ٓامدن سے زائد اثاثہ جات حاصل کرے تو وہ دفعہ 9اے ٓارڈیننس کے تحت جرم کا مرتکب ہو گا۔ مزید دفعہ (14سی( ٓارڈیننس ہذا کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہر شخص جس کے اثاثہ جات اس کی ٓامدن سے زائد ہیں اگر اس کی وصاحت نہ کر سکے تو وہ جرم کا مرتکب تصور ہو گا۔ ٓارٹیکل 122اور 129قانون شہادت ٓارڈر 1984کا مزیدحوالہ دیتے

 

 

ہوئے فاضل جج نے تحریر کیا کہ جب کوئی خاص واقعہ کسی شحص کے علم میں ہو تو پھر اس واقعہ کے ثابت کرنے کا بار ثبوت اسی شخص پر ہو گا اپنے فیصلے میں فاضل جج نے بار ثبوت کے معیار کی بابت تحریر کیا حقائق زیادہ واضح ہوں یا((i کہ بار ثبوت تین قسم کا ہوتاہے جس میں درمیانی راستہ یہ ہے کہ (iii)جرم کو بال شک و شبہ ثابت کیا جائے یا((ii حقائق واضح ہوں اور مثبت شہادت موجود ہو ، فاضل جج نے 2007؁ ایم ایل ڈی کراچی صفحہ ’’210حاکم علی زرداری بنام سرکار210‘‘؁ایس سی ایم ٓار ’’1697محمد ہاشم بابر بنام سرکار ‘‘کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی شحص کو جرم ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے یہ ثابت کیا جائے کہ وہ کسی سرکاری منصب پر فائز تھا، اس کے معلوم ذرائع ٓامدن کیا تھے اور مزید یہ کہ اس کے اثاثہ جات اس کے معلوم ذرائع ٓامدن سے مطابقت نہ رکھتے تھے‘ فاضل جج نے ٓارٹیکل 2)4(قانون شہادت ٓارڈر کا حوالہ بھی دیا کہ شہادت دراصل واقعات ہوتے ہیں جو کہ صفحہ مثل پر ٓا جائیں تو یہ واقعات شہادت سے زیادہ وسعت رکھتے ہیں ملزمان حسن نواز اور حسین نواز نے واضح موقف اختیار کیا کہ اپارٹمنٹس نیلسن انٹر پرائزز کے ملکیت تھے اور یہ کہ ان کمپنیوں کے حصص قطر کی شاہی فیملی نے ایک معاہدے کے تحت انکے حوالے کئے۔استغاثہ کی جانب سے واجد ضیاء دوران شہادت بطور گواہ نمبر 16 پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ انہوں نے انگلینڈ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں خطوط تحریر کئے اور وہاں سے اپارٹمنٹس کی بابت تفصیالت حاصل کیں۔ مزید برآں ظاہر شاہ ڈائریکٹر جنرل ٓاپریشن نیب استغاثہ کے گواہ نمبر 17 پیش ہوئے اور انہوں نے وہ دستاویزات پیش کیں جو کہ عثمان نامی شخص نے حوالے کی تھیں اگرچہ فاضل جج نے فیصلے میں یہ تحریر کیا کہ ملزمان کی جانب سے اس امر پر اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ دستاویزات پیش کردہ قابل ادخال شہادت نہ تھیں کیونکہ نہ تو عثمان نامی شخص پیش ہوا نہ ہی دستاویزات پیش کردہ کسی بھی ادارے کی تصدیق شدہ تھیں تاہم فاضل جج نے اعتراضات اس بنیاد پر مسترد کئے کہ چونکہ استغاثہ کا گواہ نمبر 17 اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری مالزم تھے اور انہوں نے برحلف بیان دیا تھا ٰلہذا ان سے جھوٹ کی توقع نہ کی جا سکتی تھی۔ مزید برآں فاضل جج نے دفعہ 21 )بی( نیب

 

ٓارڈیننس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی دستاویز جو کہ کسی غیر ملک سے پاکستان منتقل ہو دوران شہادت پیش کی جا سکتی ہے ٰلہذا اعتراضات ملزمان مسترد کر دیئے گئے۔ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے لکھا کہ فلیٹ نمبر 16، 31 جوالئی 1995ء کو نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ کی ملکیت تھا جبکہ فلیٹ نمبر 16 اسے بھی تاریخ مذکورہ پر اسی کمپنی کی ملکیت تھا جبکہ فلیٹ نمبر 17 مورخہ یکم جون 1993ء اور فلیٹ نمبر 17 اسے 23 جوالئی 1996ء کو نیلسن کمپنی کی ملکیت میں ٓایا دیگر دستاویزات جو کہ استغاثہ کے گواہ نمبر 16 نے پیش کی لیکن ان سب کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے اپارٹمنٹس کی ملکیت کے بارے میں صفحہ نمبر 152 پر بتایا کہ یہ کس کی ملکیت تھیں اور مزید یہ لکھا کہ یہ نیلسن انٹرپرائزز کی ملکیت 1993ء اور 1996ء میں مکمل طور پر بن گئیں۔ واجدضیاء کے بیان کا مزید حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے ایف ٓائی اے کے جاری کردہ ایک خط کا حوالہ دیا جو کہ بطور استغاثہ کے ثبوت نمبر 48 پیش کیا گیا۔ واجد ضیاء نے دوران شہادت ایف ٓائی اے کے خط مورخہ 12 جون 2012ء کا حوالہ دیا جو کہ موزیک فونیسکا سے متعلق تھا اور فرم مذکورہ سے اس امر کی وضاحت طلب کی گئی تھی کہ نیلسن کمپنی کا اصل مفاد اٹھانے واال کون تھا اور یہ کہ اس فرم نے یہ تحریر کیا کہ مریم صفدر نیلسن کمپنی کی مفاد کنندہ تھیں، مختلف اعتراضات ملزمان کی جانب سے اٹھائے گئے مگر فاضل جج نے ان کو مسترد کر دیا۔ فیصلے میں اس امر کی وضاحت کی گئی کہ استغاثہ کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کی تردید میں کوئی ثبوت یا دستاویز پیش نہ کر سکیں اور یہ کہ دستاویزات ازاں استغاثہ ملزمہ مریم صفدر کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھا۔ فاضل جج نے واضح طور پر تحریر کیا کہ غیر ملکی کمپنیاں جنت میں بنائی گئی تھیں تاکہ اس کے پیچھے چھپائے جا سکیں اور یہ کہ ان سے پردہ ہٹانا بہت مشکل تھا۔ مزید برآں فاضل جج نے اسسٹنٹ جنرل منیجر سامبا جو کہ مناروا کا ایک فنانشل گروپ ہے کے خط مورخہ 3 دسمبر 2005ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس خط کی رو سے مریم صفدر ان کی کسٹمر تھیں اور اس نے سرور پیلس جدہ کا ایڈریس دیا تھا اور مزید یہ کہ خط مذکور ملزمہ کی گناہگاری مکمل طور پر ثابت کرتا تھا۔ فاضل جج نے

 

 

گواہ نمبر 16 کی جانب سے پیش کردہ تیتمہ بیانات ملزمان کا حوالہ بھی دیا جن کے مطابق گلف سٹیل فیکٹری ملزم نواز شریف کے والد محمد شریف نے 1974ء میں بنائی جس کو طارق شفیع ظاہری طور پر چالتا تھا۔ اصل مالک محمد شریف اور مزید یہ کہ اس کمپنی کے 75 فیصد حصص 21 ملین ابوظہبی درہم کے عوض فروخت کئے گئے جو کہ بی سی سی ٓائی کو اپنے قرض کی واپسی کے لئے دیئے گئے اور مزید یہ کہ ایک دیگر معاہدہ عبدہللا ٓاہلی کے ساتھ کیا گیا جو کہ 75 فیصد کا مالک بنا جبکہ طارق شفیع 25 فیصد کا مالک بنا اور ایک نئی کمپنی ٓاہلی سٹیل ملز کے نام سے قائم کی گئی۔ 1980میں طارق شفیع نے محمد شریف کی ایماء پر 12ملین درہم کے عوـض 25فیصد حصص فروحت کئے جو کہ قطر رائل فیملی میں انویسٹ کئے گئے اور یہ کہ رائل فیملی قطر نے نیلسن کمپنی کے نام پر اپارٹمنٹس خریدے جن میں ملزمان حسین اور حسن نواز رہائش پذیر رہے ۔سال 2006میں حسین نواز اور قطر کے رائل شہزادے کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے وہ اپارٹمنٹس کا مالک بن گیا اور اس کا طریقہ کار یہ بنا رکھا گیا کہ حسین نواز کمپنی کے شیئر کا مالک بنایا گیا۔ فاضل جج نے تیتمہ بیان پر اٹھائے گئے اعتراضات ملزمان جو کہ اس بنیاد پر کئے گئے تھے کہ گواہ استغاثہ نمبر 16دستاویز کا تحریر کنندہ نہ تھا کہ قانون شہادت کے ٓارٹیکل نمبر 76کا حوالہ دیکر مسترد کر دیا اور تحریر فرما کر بطور ثانوی ثبوت دستاویز مذکور قابل ادخال شہادت ہیں۔ فاضل جج نے ٓارٹیکل 89اور 77کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ثانوی شہادت قابل ادخال شہادت تھیں اور اس کے لئے اس دستاویز کو پیش کرایا جانا ضروری نہ تھا ۔ فاصل عدالت نے حسین نواز کے اس موقف کہ 12ملین درہم قطر شاہی فیملی میں انویسٹ کئے گئے کو بعیدازقیاس تصور کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ تحقیقاتی ٹیم نے حماد بن حاثم التہانی جو کہ قطر کی شاہی فیملی کا فرد ہے کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے تعاون نہ کیا اور چونکہ ملزم نے بھی کوئی تحرک نہ کیا لہذا استـغاثہ جرم ثابت کرنے میں کامیاب رہا۔ فیصلے میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی بابت پیش کردہ سی ڈی/ڈی وی ڈی کا ذکر کیا گیا جو کہ مختلف انٹرویوز کی بابت تھیں جن میں اپارٹمنٹس کی بابت مختلف موقف اختیار

 

 

کئے گئے تھے اور جو سواالت ملزمان سے انکی بابت کئے گئے انکے جوابات کا حوالہ بھی فیصلے میں دیا گیا جس میں ملزم نواز شریف واضح طور پر سی ڈی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے دبئی فیکٹری کی کسی بھی ڈیل میں شرکت نہ کی اور انہوں نے قوم سے اپنے خطاب میں کبھی بھی اپارٹمنٹس کی ملکیت تسلیم نہ کی تھی اور یہ کہ ملزم نے نیسکال اور نیلسن کمپنی کی ملکیت سے بھی مکمل طور پر انکار کیا۔حسین نواز کے انٹرویوز کی بابت ملزم نوازشریف سے مختلف سواالت کئے گئے تاہم انہوں نے صریحاََۜ انکار کرتے ہوئے کہاکہ ان چیزوں کاان سے کوئی تعلق نہ تھا اورکسی طورپر کمپنیوں اورانکی جائیداد کی خریداری میں شریک نہ رہے ۔ فاضل جج نے اس امر کی بھی وضاحت دی کہ ملزم نے یہ کہاتھاکہ تمام کمپنیاں حسین نواز اورآف شور کمپنی سینکال کی ملکیت تھیں جبکہ ملزم نوازشریف کاان سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ فاضل جج نے یہ بھی تحریرکیاکہ مریم صفدر ،حسین نواز اورحسن نواز کی جائیداد کی تفصیالت جوکہ تحقیقاتی ٹیم نے پیش کیں انکے انکم ٹیکس اورویلتھ ٹیکس بیان سے مطابقت نہ رکھتی تھیں ۔فاضل جج نے برٹش ورجن ٓائی لینڈ کے قوانین کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ انٹرنیشنل بزنس کمپنیز ایکٹ 1984؁ء کی روسے کوئی بھی شخص مفاد اٹھانے والی مالکانہ حیثیت میں جائیداد رکھ سکتا تھا اوراس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جوبھی قابض ہے وہ مالک ہے فاضل جج نے تحریر کیا کہ 2006؁ء میں قوانین تبدیل ہوئے جسکی وجہ سے حصص کو رجسٹر کرایاگیا اورمریم صفدر انکی مفاد گریندہ بنی ۔فاضل

 

  • نے التوفیق کی کارروائی کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مفاد گریندہ کی حیثیت کوثابت کرنابہت مشکل تھا ۔فاضل جج نے تحریر کیا کہ اگرچہ ملزم نواز شریف نے اپنے ٓاپ کو تمام جائیداد ہائے سے التعلق ظاہر کیا مگر شہادت سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ چونکہ حسن نواز نے مختلف کمپنیوں کے نام پر قرضے حاصل کئے جن میں ملزم نواز شریف مالزم تھا ٰلہذا محض ملزم کے بیان کی روشنی میں اس کو بری الذمہ قرار نہ دیا جا سکتا ہے۔

 

فاضل جج نے اس امر کا بھی حوالہ دیا کہ ملزم نے سوال نامے کا جواب جو کہ نیب کی طرف سے جاری کیا گیا تھا داخل نہ کیا تھا اور حسین نواز، مریم نواز اور حسن نواز کی عمریں 1993ء میں بالتریب 18,20 اور 16

 

 

سال تھیں اور جو کہ طالب علم تھے وہ اپارٹمنٹس خرید نہ سکتے تھے اور چونکہ ملزم نواز شریف خریداری کے ٹائم کے دوران وزیراعلیٰ اور وزیراعظم رہے ٰلہذا وہ جرم میں ملوث تھے اور اس طور جرم ثابت ہو چکا تھا۔ فاضل جج نے اس امر پر زور دیا کہ 96-95-1993؁ء میں ملزم کے بچے اس پوزیشن میں نہ تھے کہ وہ جائیداد خرید کر سکیں ٰلہذا ملزم ہی ذمہ دار تھا۔ فاضل جج نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ نے مکمل طور پر جرم ثابت کر دیا تھا فاضل جج نے تحریر کیا کہ چونکہ ملزم نواز شریف اقتدار میں تھے ٰلہذا اس کا ناجائز فائدہ ان کے بچوں نے اٹھایا اور اس طور ملزم کا جرم ثابت ہو گیا تھا اور مریم صفدر کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل جج نے تحریر کیا کہ جو دستاویزات انہوں نے پیش کیں وہ بوگس تھیں اور اس طور وہ جائیداد کو چھپانے میں ذمہ دار تھیں ان حاالت وواقعات کی روشنی میں ملزم نواز شریف کو دس سال قید بامشقت اور 8 ملین پائونڈ جرمانے کی سزا جبکہ ملزمہ مریم صفدر کو 7 سال قید بامشقت اور دو ملین پائونڈ جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ محمد صفدر ملزم کے حوالے سے تحریر کیا گیا چونکہ وہ جرم کی سازش میں شریک ہے ٰلہذا ان کو ایک سال قید بامشقت کی سزا دی گئی اور جائیداد ہائے بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم بھی جاری کیا گیا۔ مزید برآں ملزمان کو دس سال تک الیکشن لڑنے سے بھی نااہل قرار دے دیا۔

 

 

 

 

 

 

ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کا مکمل اردو ترجمہ