کوکلا رانی سے نمل میڈیکل کالج تک - انصاف بلاگ | Pakistan Tehreek-e-Insaf
namal-medicla-college-insaf-blog

 

23 جنوری کی دوپہرکو سورج اپنے جوبن پر تھا ا س کے باوجود ماحول میں خُنکی کا اثر نمایاں تھا جس کی وجہ خطہ ٗ پوٹھوہار میں رات کو ہونے والی شدید ترین ژالہ باری بتائی جا رہی تھی۔ سالٹ رینج ( کوہستان نمک ) کے سب سے بُلند پہاڑ’’ ڈھک ‘‘ کی مغربی ڈھلوان ختم ہوئی تو ایک بیابان اور غیر آباد جگہ مشینری کے ذریعے ہموار کی جارہی تھی ۔ نمل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سی ای او قاسم زمان خان اور میجر ریٹائرڈ خُرم حمید خان روکھڑی شاداں اور مسرور نظر آ رہے تھے کہ جگہ عمران خان کے حُکم پر خرید لی گئی ہے۔ کپتان کی خواہش اور کوشش ہے کہ یہاں میڈیکل کالج او ر جنرل ہسپتال تعمیر کیا جائے ۔ علاقے کے لیئے یہ ایک بہت بڑا تحفہ ہے۔ 
اس علاقے میں ایسے آثار قدم قدم پر موجود ہیں جواس کے زمانہ قدیم سے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں ۔ یہ علاقہ ٹیکسلا کی راجدھانی کا حصہ بھی رہا ہے بعض کے نزدیک اس علاقے کا تعلق سرکپ کے زمانے سے بھی ہے ۔ اس کا ثبوت خوبصورتی سے تراشے ہوئے پتھروں کی وہ قبریں بتائی جاتی ہیں جو مجھے اُس وقت ایک اونچی جگہ سے نظر آ رہی تھیں ۔ یہ سطح زمین سے اونچے ایک بڑے چوڑے مربع چبوترے پر بنائی گئی تھیں ۔ یہاں ایک بڑے پتھر کو اندر سے کھود کر ( چراغ ) رکھنے کی جگہ بھی کمال خوبصورتی کا اظہاریہ ہے۔ ان میں سے بعض قبروں پر لوگو ں نے جھنڈے بھی لگائے ہوئے ہیں ۔ اوران قبروں کے حوالے سے علاقے میں خاصا احترام پایا جاتا ہے۔ اور یہ عجیب و غریب روایت بھی مشہور ہے کہ ’’ یہ سات بھائی تھے۔ جن کے سر دشمن نے کاٹ لیئے تھے مگر یہ پھر بھی سروں کے بغیر چلتے ہوئے ا س مقام پر پہنچے تھے ۔ اس علاقے میں کوکلارانی کا قصہ بھی مشہور ہے۔ میں نے کوکلا رانی کے محل کے آثار بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ، محل کے آثار و باقیات کی نشاندہی کی بجائے راجہ رسالو اور کوکلا رانی کا قصہ ایک فلم کی صورت میں خیالوں میں گھومنے لگا ۔ 
کہانی کے مطابق کوکلا رانی نے جب شادی کا ارادہ کیا تو اُس نے اعلان کیا کہ جو اُسے ’’ چوپٹ ‘‘ کے کھیل میں شکست دے گا وہ اُس سے شادی کر لے گی ۔ کہاجاتا ہے رانی کو چوپٹ کھیلنے کا شوق تھا اُس نے چوپٹ میں گڑ بڑ پیدا کرنے کے لیئے ایک چوہا سُدھایا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ اس کھیل میں ناقابل شکست چلی آ رہی تھی ۔ راجہ رسالو چوپٹ کے کھیل میں کوکلا رانی کے مقابل آیا تو وہ اپنے ساتھ بلی بھی لے آیا تھا اس لیئے سُدھایا گیا چوہا رانی کے کام نہیں آ سکا تھا اور وہ شطرنج کی بازی ہار گئی اُسے اپنا وعدہ پورا کرنا پڑا اور دونوں کی آپس میں شادی ہو گئی تھی۔ ایک اور روایت کے مطابق رانی کے محل تک جانے کے لیئے ستر سیڑھیاں تھیں اس کا عہد تھا کہ جو اس کے ایک سوال کے ہر سیڑھی پر تین جواب دے گا تو وہ اُس سے شادی کر لے گی ۔ علاقے میں’’ نانگنا ‘‘کے جس قلعے کے آثار کا ذکر کیا جاتا ہے اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ کوکلا رانی کے لیئے راجو رسالو نے تعمیر کروایا تھا ۔ ان دونوں کے انجام کے حوالے سے کہاجاتا ہے کہ راجہ رسالو کو ’’راکھشش‘‘ نے قتل کر دیا تھا اور کوکلا رانی نے قلعے کی دیوار سے گر کر خود کشی کر لی تھی ۔ 
اس تاریخی علاقے کو وزیر اعظم عمران خا ن نے اُس وقت سے ترقی کے دھارے میں لانے کی کوششیں شروع کی ہوئی ہیں جب وہ پہلی مرتبہ 2002 ء کے عام انتخابات میں میانوالی سے رُکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ اس سے پہلے انگریز نے 1913 ء میں نمل جھیل کے پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیئے یہاں نمل ڈیم تعمیر کیا تھا ۔ درمیان کے89 سالوں میں یہاں کی تعمیر اور بہتری کے لیئے کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا تھا۔ عمران خان نے نمل کالج قائم کیا تو اپنی سوچ کے مطابق یہاں علم کا ایک پورا شہرآباد کرنے کی ٹھان لی ۔ اب یہاں نمل یونیورسٹی ، نمل ایگری بزنس کالج کے بعد نمل میڈیکل کالج اور نمل جنرل ہسپتال قائم ہونے جا رہا ہے۔ کل جب میڈیکل کالج کی زمین تک 120 فٹ چوڑے راستے کو ہموار کرنے کا کام جاری تھا تو ارد گرد کے لوگوں کے چہرے جہاں خوشگوار حیرت سے روشن نظر آ رہے تھے وہاں انہیں اس بات کا بھی رنج تھا کہ روایتی سیاست نے اس علاقے کے لوگوں کی ایک پوری ایک صدی ضائع کر دی ہے۔ 
نمل نالج سٹی کو عمران خان اپنا جنون قرار دیتے ہیں انہوں نے جس عزم اور یقین کے ساتھ یہ منصوبہ شروع کیا اُس سے اس بے مثال کام سے ان کی جنون کی حد تک محبت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ 2017 ء میں جب ایک ٹی وی اینکر نے انہیں یہ کہا ہے کہ آپ کی نااہلی کی درخواست عدالتِ عظمیٰ میں زیر سماعت ہے اگر آپ کو نااہل قرار دے دیا گیا تو آپ کیا کریں گے۔۔ عمران خان نے بلا کے تحمل اور آہنگ کی بُلندی کے ساتھ جواب دیا تھا کہ ’’ میں اپنے ادارے نمل میں بیٹھ جاؤں گا اور اُسے مکمل نالج سٹی بنانے کے اپنے خواب کی تعبیر میں مگن ہو جاؤں گا ۔۔ ‘‘
25 جنوری کو لاہور میں صدر مملکت عارف علوی اس ادارے کی تقریب میں شریک ہو رہے ہیں ۔ جبکہ 27 جنوری کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان ایک نجی دورے پر نمل آ رہے ہیں ۔ اس موقع پر چاروں صوبائی گورنروں اور تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سمیت دوست ممالک کے سفیروں کی شرکت بھی متوقع ہے۔ 
نمل یونیورسٹی کے پہلے کانووکیشن میں عمران خان نے کالم نگار کو بڑے فخر کے ساتھ بتایا تھا کہ ’’ یہ بہت بڑا کام ہے ۔۔ یہاں بارہ پی ایچ ڈی پڑھا رہے ہیں ۔۔‘‘ اب جب مجھے کالج کے ایڈ منسٹریٹر سعد خان نے بتا یا کہ پی ایچ ڈی فکیلٹی ممبران کی تعداد دودرجن سے تجاوز کر گئی ہے اور دس طالب علموں کے لیئے ایک ٹیچر ہے تو میں ورطہء حیرت میں ڈوب گیا ۔ خوشی و مسرت کے ساتھ ساتھ مجھے اس علاقے کے وہ سیاستدان یاد آ گئے جو نمل نالج سٹی کے خلاف مظاہرے کرواتے اور بیان بازی کرتے رہے ہیں۔ یہاں پر ان لوگوں پر بھی افسوس ہو رہا ہے جو عالمی معیار کے اسٹیڈیم کی تعمیر کے لیئے عمران خان کی مطلوبہ اراضی کی فراہمی میں رُکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ یہ جگہ متعدد مواقع پر کالج کے ہاتھوں فروخت ہوتے ہوتے رہ گئی ہے۔ رکاوٹوں کی داستان بھی کپتان کے لیئے اذیت ناک ہے۔
27 جنوری اس پسماندہ اور درماندہ علاقے کے روشن مستبقل کی ایک نئی صبح ہے۔ اس نالج سٹی کے لیئے علیمہ خانم کی خدمات بھی لائق تحسین ہیں ۔وہ اپنے بھائی کے مشن سے بڑھ کر اپنے والد اکرام اللہ خان نیازی کے اُس مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں جو اکرام اللہ خان نیازی نے اپنی والدہ کے نام پر انجیئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کے لیئے ’’ شاکرہ عظیم سکالر شپ ‘‘ کے نام پر شروع کیا تھا ۔ بلا شُبہ اکرام اللہ خان نیازی کا خانوداہ انسانیت کے لیئے اپنی خدمات کی بدولت محسنین پاکستان میں شامل ہے۔

Tags:Imran Khan