انتخاب 2020 پی ٹی آئی کیلئے محض 4 حلقوں کا کھیل: بھاری جیت یقینی انشاءاللہ!
گلگت بلتستان 2015 کے نتائج کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے مشکل حالات کے باوجود گلگت بلتستان کے 24 حلقوں میں سے 9 حلقوں میں اپنا وجود زبردت طریقے سے ثابت کیا تھا۔
بلتستان سے 3 پی ٹی آئی امیدوار جناب راجہ جلال(3330 ووٹ), جناب امجد زیدی (4752 ووٹ) اور آمنہ انصاری صاحبہ (5725 ووٹ) محض چند ووٹوں سے ہارے اور دوسرے نمبر پہ رہے۔
استور سے جناب خالد خورشید( 4019ووٹ) جو اب انصاف کے کارواں کا حصہ ہیں چند سو ووٹوں سے ہارے اور دوسرے نمبر پہ رہے ۔ اس طرح دیامر سے جناب نوشاد عالم چند سو ووٹوں سے ہارے۔
غذر سے ظفر شادم خیل( 5099ووٹ) جو اس تبدیلی کے کارواں میں ہیں چند سو ووٹوں سے ہارے۔
جبکہ غذر ہی سے جناب راجہ جہانزیب(7099 ووٹ) سیٹ نکالنے میں کامیاب رہے۔
جبکہ جناب فتح اللہ بھائی( 2261 ووٹ) اور اظہار ہنزائی(2271 ووٹ) نے اپنے اپنے مشکل ترین حلقوں میں نمایاں ووٹ لیے۔
جبکہ استور میں سابق کنوئنیر جناب حشمت اللہ خان صاحب(1193 ووٹ) اور دیامر سے جناب عتیق اللہ صاحب (1487ووٹ) بھی قابل قدر ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔
یہ کارکردگی ایسے مشکل حالات میں سامنے آئی ایک طرف ن لیگ کی وفاقی اور پنجاب کی حکومت پوری ریاستی طاقت و وسائل کیساھ میدان میں اتری تھی۔ ان کی انتخابی ٹیم 20 سے زائد وفاقی وزیروں, مشیروں, ایم این ایز اور سرکاری عہداران پہ مشتمل تھی جو خطے کے کونے کونے میں ہر قسم کا سیاسی پینترا لگاکر رہے تھے۔
حلقہ تین جیسے آسان ترین حلقے کے میرے گاوں اوشکھنداس میں ڈاکٹر اقبال کی کیمپین کیلئے BISP کی اس وقت کی چیر پرسن محترمہ ماروی میمن BISP کے فارم بانٹ کر کررہی تھی جبکہ ان کے مقابلے میں اپنے ذاتی استطاعت کے مطابق اپنے پارٹی امیدوار کیلئے مہم کر رہا تھا۔
تو دوسری طرف پی ٹی آئی کو خطے کے انتخاب میں پہلی بار حصہ لینے کا ڈس ایڈوانٹیج تھا۔ دریں اثنا پارٹی نے ٹکٹ کی تقسیم میں بھی کافی وقت ضائع کیا تھا۔
اس سب کے باوجود اپوزیشن میں ہوتے ہوئے 9 حلقوں پہ ن لیگ کا سخت مقابلہ کرنا اور پی پی پی جیسی جماعت کو پیچھے چھوڑنا واضح کررہا ہے کہ پی ٹی آئی کی گلگت بلتستان انتخابات 2020 میں واضح اکثریت سے جیت یقینی ہے۔
ضرورت بس ایک قابل عمل و مربوط منشور ترتیب دینے اور وقت پہ اہم فیصلے کرنے کی ہے۔
عوام گلگت بلتستان کو بخوبی اندازہ ہے کہ پی ٹی آئی کے علاوہ کسی اور جماعت کو ووٹ دینا کم از کم 2028 تک اپنا قیمتی ووٹ ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔
وہ بھی ایسے وقت میں جب جناب عمران کی وفاقی حکومت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے اور پی پی پی و ن لیگ کی قیادت اپنا اپنا کالا دھن بچانے میں مصروف ہے یا پھر مفرور ہے۔
#اب_پھرصرف_عمران
#اب_پھرصرف_بلا
#اب_پھرصرف_انصاف