ایک زرداری سب پر بھاری۔۔۔؟؟؟
جو لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ “ایک زرداری، سب پر بھاری“ تو مجھے ان کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگتا ہے۔ ان میں سے کوئی شخص مجھے سمجھائے گا کہ زرداری کی بطور سیاستدان کیا اچیومنٹس ہیں؟ چلیں حالیہ سینٹ انتخابات سے شروع کرتے ہیں۔ زرداری نے ایک بار پھر زر چلا کر سینٹ کی ایک نشست جیت لی لیکن اس کا حاصل وصول کیا ہے؟ ہمارے سیاسی نظام اور بالخصوص سینٹ پر ایک اور دھبہ لگ گیا کہ یہاں بھیڑ بکریوں کی طرح انسانوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔ اگر کوئی سیاسی فائدہ حاصل ہوسکتا تھا تو وہ بھی عمران خان پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لے کر ختم کردے گا۔ لیکن مجموعی طور پر اس سے جمہوریت کو نقصان ہی ہوا۔
پیپلز پارٹی کی تاریخ دیکھیں تو یہ وہ واحد جماعت ہے جو وفاق کی جماعت کہلاتی تھی، چاروں صوبوں میں یکساں مقبول تھی، وفاق کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب اس جماعت کی بنیاد رکھی تو یہ امیر غریب، جوان بوڑھوں میں یکساں مقبول تھی۔ اس پارٹی نے ١١ سال تک ضیاء الحق کی بدترین آمریت کا سامنا کیا۔ حتٰی کے بھٹو کو پھانسی تک دے دی گئی، اس کی بیوی اور بیٹی کو پابند سلاسل کیا گیا لیکن پیپلز پارٹی ختم نا ہوسکی۔ ضیاءالحق کی آمریت کے ختم ہوتے ہی جب بینظیر ملک میں واپس آئیں تو عوام نے جس طرح سے ان کا خیر مقدم کیا اور استقبال کیا، اس سیاسی اجتماع کا ریکارڈ آج تک نا ٹوٹ سکا۔
پھر نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور بینظیر کو نواز شریف کی آمریت کا سامنا رہا۔ نواز شریف نے ہر ممکن طریقے سے بینظیر کی کردار کشی کی اور کروائی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کروانے کے لیے فوج سے گٹھ جوڑ کیا، آئی جے آئی بنائی، حتٰی کے انٹرنیشنل اسٹیبلیشمنٹ اور اسامہ بن لادن تک سے پیسے لیے۔ یہ ہوائی باتیں نہیں ہے بلکہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ نواز شریف دو بار پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کروانے میں تو کامیاب رہا لیکن پیپلز پارٹی ختم نا ہوسکی۔ نوے کی دہائی سے ہی زرداری کی کرپشن کی داستانیں زبان زدِ عام ہونا شروع ہوئیں۔ سرے محل کا نام سامنے آیا، ررداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب ملا یہاں تک کے زرداری نے اپنی بیوی کے بھائی کو ہی قتل کروا ڈالا۔
پھر مشرف کی آمریت کا دور شروع ہوا لیکن پیپلز پارٹی قائم رہی۔ بینظیر کو شہید کردیا گیا اور عوام نے پیپلز پارٹی کو ہمدردی کا ووٹ ڈالا جس کے باعث زرداری اقتدار میں آیا۔ زراری نے پیپلز پارٹی کے جیالوں، بانیوں، بھٹو کے ساتھیوں اور بینظیر کے قریبی لوگوں کو کھڈے لائن لگا دیا اور ملک بھر کے کرپٹ ترین لوگوں کا ہجوم اکٹھا کرکے ایک نئی پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی اور حقیقی پیپلز پارٹی کو دفن کردیا جسے ضیاءالحق بھی نا مٹا سکا۔
اگر زرداری اتنا ہی سب پر بھاری ہے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے پانچ سالہ دورِ حکومت کے بعد پیپلز پارٹی مزید مضبوط جماعت بن کر سامنے آتی۔ لیکن زرداری نے وفاق اور چاروں صوبوں کی جماعت کو صرف اندرونِ سندھ کی جماعت بنا کررکھ دیا۔ اور اندرونِ سندھ میں بھی اب تک کارکردگی نہیں بلکہ بھٹو اور بینظیر کے نام پر ہی ووٹ لیا جاتا ہے۔ دوسرے صوبوں میں پیپلز پارٹی کی حالت یہ ہوگئی کہ اسے کوئی امیدوار تک نہیں ملتا۔ اگر کوئی امیدوار ملتا بھی ہے تو اس کی یہ شرط ہوتی ہے کہ انتخابی مہم میں زرداری کی تصاویر اور نام استعمال نہیں کیا جائے گا کیونکہ لوگ اسے بددیانتی کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ بات خود پیپلز پارٹی کے رہمنا آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں۔
زرداری نے ڈیمج کنٹرول کرنے کے لیے کہ اپنے بیٹے بلاول زرداری کا نام بدل کر بلاوجہ بھٹو زرداری رکھ دیا۔ ہر سال بینظیر اور بھٹو کی برسی کے موقع پر اس میں مصالحہ بھر کر اسے ایک بار پھر لانچ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن وہ ٹھس ہوجاتا ہے۔ اب تک بلاول کی لانچنگ کی درجن بھر سے زائد کوششیں ہوچکی ہیں لیکن زرداری نے پیپلزپارٹی کو جو نقصان پہنچایا اس کا کوئی مداوا نہیں ہوسکا۔
اب ایک زرداری سب پر بھاری والے لوگوں میں سے کوئی مجھے یہ بتائے گا کہ زرداری نے زندگی میں کیا نیک نامی کمائی ہے یا کیا سیاسی طور پر اس کی کیا اچیومنٹ ہے؟ صرف یہ کہ تاریخ اسے مسٹر ٹین پرسنٹ، مرتضٰی بھٹو کے قاتل، بددیانت، سندھ بھر کی شوگر ملز پر قبضے کرنے والے، سندھ کو کھنڈر بنانے والے اور پیپلز پارٹی کو ختم کردینے والے انسان کے طور پر یار رکھے گی۔ جو کل سینٹ میں کانپتی ٹانگوں اور کانپتے ہاتھوں کے باعث اپنا ووٹ ضائع کربیٹھا لیکن اس حالت میں بھی بددیانتی سے توبہ نہیں کی۔