پنجاب میں ایک مزیدار دنگل شروع ہونے جا رہا ہے۔ | Pakistan Tehreek-e-Insaf

 

عمران خان چاہتے تو فوراً اسمبلیاں تحلیل کرتے لیکن انھوں نے پہلے تو پنڈی جلسے میں اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا جو بعد ازاں اسمبلیوں کی تحلیل کی فیصلہ سازی پہ منتج ہوا۔  عمران خان بار بار کہتے دکھائی دیے کہ دسمبر کے اندر ہی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی۔  پھر انھوں نے جب حتمی اعلان کیا تب بھی پورے ایک ہفتے کا وقت دیا۔  اس سارے گیم پلان کا مقصد پی ڈی ایم اور اسٹبلشمنٹ کے آخری پتوں کو تتر بتر کرنا تھا۔  عمران خان جانتے تھے کہ ان کی اسمبلیاں بچانے کےلئے یہی لوگ خود آگے آئیں گے ۔ ق لیگ کا حتمی امتحان بھی مقصود تھا۔  اسٹبلشمنٹ میں نئے کپتان کی آمد اور نئی باؤنڈری سیٹ ہونے کے بعد ان کا پوٹینشل اور حتمی ردعمل دیکھنا بھی مقصود رھا تھا۔ عدلیہ پہ دباؤ اور موجودہ صورتحال جاننا بھی اہم تھی سو کپتان نے یہ بازی اپنے انداز میں کھیلی یے۔ 

عمران خان اس وقت جس پوزیشن پہ ہیں ، انھیں اسمبلیوں کے آنے جانے یا صوبائی حکومتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔  وہ یہ سب سیاسی داؤ پیچ اور مخالفین کو گھسیٹ گھسیٹ کر اد موا کرنے اور ان کی سیاسی ساکھ کے خاتمے کےلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس بار بھی انھوں نے یہی کیا ہے اور توقع کے عین مطابق امپورٹڈ ٹولے نے پہلے تحریک عدم اعتماد کا داؤ کھیلا لیکن جانتے تھے کہ یہ کمزور بازی ہے سو اسٹبلشمنٹ میدان میں کودی اور گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیا۔  یہاں سے گیم واضح ہونا شروع ہوئی کہ ہینڈلرز اب بھی سر پہ ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔  اب عمران خان کے پاس ڈھیر سارے آپشن ہیں : 

اس وقت اسمبلی میں پی ڈی ایم کی ٹوٹل تعداد 175 ہے۔ تحریک انصاف کے پاس 178 نشستیں ہیں۔  اس لحاظ سے بظاہر ق لیگ کی دس نشستیں فیصلہ کن کردار ادا کرتی دکھائی دیں لیکن یہ اس وقت حکومت سازی کےلیے اہم تھیں جہاں تحریک انصاف نے 188 ووٹوں سے وزیر اعلیٰ منتخب کیا ۔ لیکن فلور کراسنگ کی زد میں پی ڈی ایم کے پندرہ ارکان بھی ہیں جو اس وقت ووٹ نہیں ڈال پائیں گے۔ ڈپٹی اسپیکر پنڈی کا وہی نوجوان ہے جس نے وفاداری نبھا کر دکھائی ہے اور اس بار وہ سرپرائز دینے کےلئے تیار ہے۔ ق لیگ پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر بھی اس صورت حال میں تحریک انصاف کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ اس صورت حال میں سمپل میجورٹی تحریک انصاف کے ہاتھ آ جائے گی اور اس کا امیدوار وزیر اعلیٰ بن جائے گا۔  اعتماد کا ووٹ گورنر پنجاب کی جانب سے لینے کا کہا گیا لیکن اس حوالے سے تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی اگر اس سے رضامند نہیں ہوتی تو ان کی عدم شرکت بھی اس اعتماد کی ووٹنگ کو ناکارہ کر دے گی لہذا اسٹبلشمنٹ کا یہ پٹھو اس وقت اتنا اہم بھی نہیں رہا۔  دیگر قانونی آپشن بھی موجود ہیں جس میں اسمبلی کی تحلیل کی سمری پہ دستخط کی تاریخ کا تحریک عدم اعتماد سے تقابل بھی سرپرائزانگ ہو سکتا ہے۔  

عمران خان نے اپنے وکلا سے مشاورت کے بعد یہ بازی لگائی ہے۔ اب یہاں مائنڈ گیم چلے گی اور عمران خان اپنے انداز میں کھیلیں گے۔ اسٹبلشمنٹ اور ان کے چمچوں کے پاس جو آخری پتے ہیں وہ بکھرنے کا وقت ہے۔ عمران خان نے ایک بار پھر انھیں اپنے پسندیدہ میدان میں لا کر پٹخنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب میں حمزہ ککڑی کی بھی اسی طرح تعیناتی ہوئی تھی جسے عمران خان نے پٹخ کر حکومت چھین لی تھی۔  اب بھی وہ سب مہروں کو ناکارہ کرنے جا رہے ہیں ۔ عدلیہ کو جھولے بھی اہم ہوں گے۔  مائنڈ گیم کے ماسٹر نے اس بار ایک اور دلچسپ دنگل سجا کر سب کی نیندیں حرام کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔