شاہد خاقان عباسی نے آج ن لیگ کی قیادت کی سو فیصد صحیح ترجمانی کرتے ہوئے پورے پاکستانی قوم کے سر شرم سے جھکا دیے ۔
دراصل خاقان عباسی کو صدمہ اس وجہ سے پہنچا کہ کالعدم ٹی ایل پی کی طرف سے احتجاج پر ان لوگوں کو بڑی حد تک تسلی تھی کہ پی ٹی آئی حکومت بری طرح پھنس گئ۔لال حویلی کے گھیراؤ پر بغلیں بجا رہے تھے۔ن لیگ کے کارکن توڑ پھوڑ اور تخریب کاری میں مکمل طور پر شامل رہی۔ شاہراہوں کی بندش پر ان کی دم توڑتی وینٹی لیٹر پر پڑی سیاست کو آکسیجن مل گئ تھی۔دوسری جانب حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ فرانس کے سفیر کو واپس بھیجنے کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی جائیگی اور معاہدے کے مطابق قرارداد پیش کی گئی ۔ یوں سیاسی حالات نے پل جھپکتے ہی پلٹا کھایا۔اپوزیشن اس قرارداد کو مسترد کرتی ہے تو نوازشریف کی لندن میں عیاشی کو خطرہ ہے اور پی پی پی نے بھاگنے میں عافیت جانی۔ یوں خاقان عباسی کا پارہ چڑھ گیا اور اول فول بکنے لگے۔
ن لیگ کی قیادت کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ ان کی تاریخ اٹھائی جائے تو تمام ریاستی اداروں کی تضحیک ان کا محبوب مشغلہ ہے کیونکہ یہ طبقہ وطن پرست نہیں بلکہ شخصیت پرست ہے۔ ان کی تاریخ میں سپریم کورٹ پر دھاوا بولنا بھی ہے۔
پارلیمانی تاریخ میں ووٹ کی اس حد تک بے عزتی کسی نے نہیں کی جتنی بے خاندان عباسی نے کی ہے اور مجھے یقین ہے کہ ان کے اپنے حلقے کے ووٹرز اور سپورٹرز بھی آج منہ چھپاتے پھرتے ہوں گے ۔
عباسی کو یاد دہانی کراتا چلوں کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر صاحب کے بارے میں پتہ کریں کہ ان کو صوابی کے عوام نے کتنے ووٹ دئے اور ووٹ تو کوئی بھی لیتا ہے مگر آپ کو پتہ ہونا چاہیئے خاقان عباسی کہ اسد قیصر کو صوابی کے عوام نے "مشر" کا لقب دیا ہے اور اپنے مشر پر پٹھان جان بھی دیتے ہیں لہذا احتیاط کیجئے اور جان لیجئے کہ یہ بےہودہ الفاظ ویسے تو پورے پاکستان کے خلاف ادا کئے گئے مگر ضلع صوابی کے غیور عوام نے ان الفاظ کا سخت ترین نوٹس لیا ہے۔ بعد میں یہ نہ کہئے گا کہ اندازہ نہیں تھا کہ ردعمل ایسا بھی آسکتا ہے۔
ہم سیاست میں شائستگی چاہتے ہیں ۔شرافت چاہتے ہیں مگر اس انداز کو کمزوری نہ سمجھ بیٹھیں اور یاد رکھیں کہ ہمیں اپنے مشران بہت عزیز ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اپنے عزیز مشران کا دفاع کیسے کیا جاتا ہے۔
امید ہے کہ یہ غلطی آپ خاقان عباسی کی آخری غلطی ہو گی اور قوم سے بالعموم اور صوابی کے عوام سے بالخصوص فوری طور پر اور غیر مشروط معافی مانگیں گے بصورت دیگر صوابی کے عوام بھولنے والے نہیں ہیں ۔
اور عباسی صاحب اپنے سابقہ منصب کا کچھ تو لحاظ کرتے ۔ سیاست میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے ۔ ذہن بڑا رکھیں۔ آپ کی حالت کرکٹ کے ایک کھلاڑی نے یوں بگاڑ دی کہ پارلیمانی آداب بھول بیٹھے؟؟ اگر یہی رویہ رہا تو ذہنی توازن کھو بیٹھنے کا شدید خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔