اللہ نے انسان کے ہاتھ میں صرف نیت اور کوشش دی ہے، کامیابی و ناکامی کا فیصلہ وہ کرتا ہے، جی بھائیو اور بہنوں آج بات ایک ایسے بندے کی کرونگا جس نے اپنی زندگی میں آنے والے ہر چیلنج کو قبول کیا ہے اور ہمیشہ سرخرو ہوا... جی ہاں بات کسی اور کی نہیں ہو رہی بات فخر پاکستان اور نیازی خاندان کے چشم و چراغ جناب عمران خان کی ہو رہی ہے قدرت بہت کم لوگوں پر اس طرح اپنی فیاضی نچھاور کرتی ہے۔ عمران خان ایک کھاتے پیتے گھرانے کا چشم وچراغ تھا۔ ایچیسن کالج اور آکسفورڈ یونیورسٹی کا تعلیمیافتہ، شکل وصورت اور وجاہت میں قدرت کی صناعی کا شاہکار اور سب سے بڑھ کر اپنے شعبے میں بے انتہا کامیاب۔ صورت، دولت، شہرت، عزت کیا نہیں تھا جو اسے ملا اور خوب ملا۔ اس پر وہ کبھی اتراتا نہیں تھا لیکن طبعا” شرمیلا اور کم گو تھا جسے لوگ اس کے مغرور مزاجی پر محمول کرتے۔یہ ساری صفات شاید اسے ایک مشہور پلے بوائے اور دل پھینک سوشیلائٹ میں تبدیل کر دیتیں۔ لیکن قدرت نے اس کے لئے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ وہ شاید یونہی فتوحات سمیٹتا اور شہرت کماتا رہتا اور اسے زندگی میں کسی کمی کا احساس نہ ہوتا کہ تقدیر نے اسے اپنی زندگی کے پہلے بڑے دکھ سے روشناس کرایا۔ اس کی ماں کینسر کی موذی بیماری کا شکار ہوکر اس دنیا سے چل بسیں۔ اور یہاں سے ایک نئے عمران خان کا جنم ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ دنیا کی ہر نعمت میسر ہونے کے باوجود میری ماں کے علاج کے لئے اس ملک میں۔ کچھ نہیں تھا۔ تو وہ جن کے پاس کچھ نہیں ہے وہ کس قدر بے بس ہوتے ہوں گے۔ اور اس طرح وہی سوچتے ہیں جن کے دل سونے کے ہوتے ہیں، جنھیں قدرت کچھ خاص کاموں کے لئے چن لیتی ہے۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ میرے ملک کی دوسری مائیں اور کینسر کے مریض اس بے کسی اور بے بسی کا شکار نہیں ہوں گے۔ اس نے کینسر کے علاج کے لئے ایک مثالی ہسپتال بنانے کا فیصلہ کرلیا.. اس کا دل و دماغ اب صرف ایک ہی بات سوچتا کہ یہ اسپتال کیسے تعمیرہو.. نیت صاف ہو تو منزل آسان ہوتی ہے اور جو کمر ہمت باندھ لیتے ہیں ان کے لئے راستے خود بخود کھلتے لے جاتے ہیں.. اس کا خلوص، اپنے مقصد سے لگن روز روشن کی طرح واضح تھا.. نہ صرف حکومت وقت، قوم، ساتھی کھلاڑیوں نے بلکہ دنیا بھر کے لوگوں نے اس کا ساتھ دیا کیونکہ انہیں اس کی لگن اور دیانت کا یقین تھا.. اسے کسی بھی میچ میں کوئی انعام ملتا وہ اسے اسپتال کے فنڈ میں ڈال دیتا.. دنیا بھر میں کانسرٹ، اسپیشل ڈنر، ثقافتی شوز، غرضیکہ ہر طریقہ اپنایا جس سے اس کام کے لئے پیسہ مل سکے۔ لوگوں کے سامنے زکوات، خیرات اور عطیات کے لئے ہاتھ پھیلائے.. اس کے ساتھی کھلاڑیوں، فنکاروں اور سماجی شخصیات نے اس کا بھر پور ساتھ دیا۔ کبھی نصرت فتح علی اس کے ساتھ یوروپ اور امریکہ کا دورہ کرتے.. کبھی دلیپ کمار اس لے لئے پاکستان آتے، کبھی ملکہ ترنم نورجہاں اور بھارتی فنکار مل کر اس کے لئےشوز کرتے تو کبھی لندن میں امیتابھ بچن لوگوں سے مدد کی اپیل کرتے.. اور یہ سب اس کی سحرانگیز شخصیت کا کرشمہ تھا.. اب اس کے دل و دماغ پر کوئی چیز تھی تو وہ یہ اسپتال تھا.. اس دوران آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کرکٹ کے عالمی مقابلے کا میلہ سجا۔ عمران ایک اوسط درجے کی ٹیم لے کر میدان میں اترا۔ اس کا سب سے بڑا اثاثہ یعنی وسیم اور وقار کی جوڑی نامکمل تھی۔ وقار زخمی تھا، اسی طرح عامر سہیل اور سعید انور کی کامیاب جوڑی بھی سعید انور کی غیر موجودگی کی وجہ سے نامکمل تھی۔ اس کی ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی، جاوید میانداد عالمی کپ میں شامل ہونے والا آخری کھلاڑی تھا جو ایک زخمی کمر لئے ہوئے عمران کے شانہ بشانہ لڑ رہا تھا اور خود عمران درد رفع کرنے کے انجیکشن لے رہا تھا۔ ابتدا ہی سے کئی دھچکوں کا سامنا کرنے کے باوجود ٹیم فائنل میں پہنچ گئی۔ نیوزی لینڈ جس نے سیمی فائنل میں ہم سے شکست کھائی تھی اس کے کپتان مارٹن کرو نے کہا کہ عمران کرکٹ نہیں کھیل رہا، ایک مقصد کے لئے جہاد کررہا ہے اور اسے اب کوئی نہیں روک سکتا۔ اور آخری مقابلے میں جس طرح عمران، جاوید کے ساتھ بیٹنگ کررہا تھا تو یوں لگتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اللہ نے اس کے جذبے کو سرخرو کیا۔ تمام ٹیم جشن منا رہی تھی۔ آنے والے دنوں کے خواب دیکھ رہی تھی جہاں انعام واکرام ان کے منتظر تھے۔ وہ اپنے گھر بنتے دیکھ رہے تھے، کہ عمران فتح کا انعام، ورلڈ کپ لینے اسٹیج پر پہنچا۔ یہ فتح پوری ٹیم کی جیت تھی۔ اس میں وسیم اکرم، انضمام، عامر سہیل، اعجاز احمد، عاقب جاوید، مشتاق احمد اور دوسروں نے بھی برابر کا حصہ ڈالا تھا۔ کپتان خان کے دل وامان پر لیکن صرف اور صرف اس کا اسپتال تھا۔ فتح کی تقریر میں اس نے اپنی ٹیم کے ایک بھی کھلاڑی کا ذکر نہیں کیا. اس نے اسپتال کے علاوہ کوئی بات ہی.نہیں کی. یہاں سے اس کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ابھر کر سامنے آیا کہاس کا ذہن جب ایک چیز کے بارے میں سوچتا ہے توآس پاس کی ساری کھڑکیاں بند کردیتاہے. اس ریل کی.مانند جو صرف ایک ہی پٹڑی پر چلتی ہے. عالمی کپ اس کے سفر کی.ابتدا تھی. اس نے کھیل کو خیرباد کہا اور تن من سے اپنے اسپتال کے مشن میں جٹ گیا اور آخر ایک دن اس نے اپنے خواب کی تعبیر پا ہی لی. یہاں وہ زندگی کے ایک اور رخ سے آشنا ہوا. مختصراً!!! کپتان نے 25 اپریل 1996ء کو تحریک انصاف کی بنیاد رکھ کے باقاعدہ سیاست میں قدم رکھا اور کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف طبل جنگ بجا دیا، اب خان صاحب کی سیاسی زندگی کے ابتدائی دن بلکل اچھے نہیں تھے لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے جملے کستے طعنہ زنی کرتے لیکن پتہ نہیں وہ کس طبیعت کا مالک تھا ڈٹا اور دن پھرتے گئے اور وہی لوگ جو اس پہ جملے کستے تھے آج اسی کی قدم بوسی کرتے نظر آتے ہیں اور کئی اس کی ٹکر میں ہمیشہ کے لیے پاکستانی سیاست کا قصہ پارینہ بن چکے ہیں..... عزیز ہم وطنوں!!!! یہ شخص پاکستان میں کبھی حکومت میں نہیں رہا جبکہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے کام وہ وہ کر چکا ہے جو لوگوں سے 40، 40 سال حکومت کرنے کے بعد بھی نہیں ہو سکے، پاکستان اور پاکستانیوں کو ہمیشہ خوشیاں دینے والا یہ شخص اب تک، انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے 2 کینسر ہاسپٹل بنا چکا ہے، جبکہ اسی طرز کے دو اور ہاسپٹل بن رہے ہیں.... مزید برآں اس نے نمل کالج بنایا جو کہ برطانوی یونیورسٹی بریڈفورڈ سے الحاق شدہ ہے، اس کے طالب علموں پاکستان بیٹھے انگلینڈ کی ڈگری یہاں ملتی ہے، فرق واضح ہے آج کے حکمرانوں کو کھانسی بھی ہو تو وہ امریکہ، برطانیہ میں چیک اپ کروانے کے لیے یہاں سے بھاگ جاتے ہیں کیوں ؟ کیونکہ وہ پاکستان میں آج تک ایک بھی ایسا ہاسپٹل نہیں بنا سکے جس سے عوام کو چھوڑیں وہ اپنا ہی علاج کروا سکیں، سابقہ و موجودہ حکمران بجائے اس ملک کے ادارے مضبوط کرنے کے "مال بناؤ" مہم پہ عمل پیرا ہے اور غریب کا اور عام پاکستانی کا کوئی حال نہیں ہے، اسی لئے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس شخص کے ہاتھ مضبوط کریں جو ان دنیاوی چیزوں سے عاری ہو، پاکستانیو یاد رکھو عمران خان ہی وہ واحد لیڈر ہے جو ان ساری چیزوں سے عاری ہے کیونکہ ان چیزوں کی ہوس اس شخص کو ہوتی ہے جس نے کوئی چیز پہلے کبھی دیکھی نہ ہو جبکہ عمران خان نے اب تمام چیزوں کا ذائقہ اس وقت سے چکھا ہوا جب ان حکمرانوں میں سے کوئی سینما گھروں کے باہر بلیک میں ٹکٹس بیچتا تھا تو کوئی عام پولیس والا تھا،!