
نیا پاکستان، جو علامہ اقبال اور عمران خان کا پاکستان ہے، مستقبل کی طرف دیکھ رہا ہے۔ یہ تحریک بلا رنگ و نسل، بالا کسی مذہبی منافرت کے، پاکستانی قوم کے پوشیدہ جواہر کو جانتی ہے۔ نئے پاکستان کی تحریک میں شامل دوستوں کو اِس بات سے بے خبر نہیں ہونا چاہئے کہ علم کے بغیر اسلام اور پاکستان کا مستقبل تاریک ہے۔
اگر پاکستانی معاشرہ نہیں رہتا تو تحریک نہیں رہتی۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اِس لئے ہم میں اور دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں فرق ہے۔ ہمیں اقبال کا درس ملتا ہے۔ اور اقبال کا پاکستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک آرگومنٹ ہے۔ بڑے دُکھ کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ اقبال شناسی کا یہ پیمانہ پاکستانی درسگاہوں میں، تحریک کی وزارت کے نیچے بھی موجود نہیں ہے (کے پی)/ تھا (مرکز)۔ جس کی وجہ سے ہمیں سیاسی طور پر کافی نقصان ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ ہماری اکیڈیمیا کا ایک اچھا خاصا لبرل، لسانی اور مذہبی طبقہ اپنے رد شدہ فلسفے کو لیکر پاکستانی معاشرے کے بہت بڑے حصے کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوا ہے کہ علامہ اقبال اور تحریکِ انصاف رجعت پسند، جنونی اور ون ڈائمنشنل ہے۔ اور یہ کہ عمران اور تحریکِ انصاف ڈونالڈ ٹرمپ کی طرح ایک پاپولیسٹ پارٹی ہے جو کہ ایک شخص کے گرد گھومتی ہے اور اِس کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہے۔
یہ جھوٹ صرف اِس لئے اپنی جگہ بنایا گیا کیونکہ تحریکِ انصاف کی تعلیمی میدان میں کارکردگی صفر رہی ہے۔ اگر ہمیں اپنے نظریہ کا علم ہوتا تو ہمیں معلوم ہوتا کہ تحریکِ انصاف کے پاس سب سے اہم وزارت تعلیم کی ہے کیونکہ تحریک کا مقابلہ جن قوتوں کے خلاف ہے اُن کے پاس سب سے اہم ہتھیار جہالت ہے، اور یہ اِن کا کام تھا کہ وہ بنیادیں فراہم کرتے جن کی بدولت ہم اِس جھوٹ اور جہالت کا مقابلہ کر سکتے۔ تحریک کے خلاف پراپگینڈہ اسی لئے بھی کامیاب ہوا کیونکہ ہمارے لوگوں کو اعلئ تعلیمی درسگاہوں میں وہ فکری وسائل ہی فراہم نہیں کئے گئے جن کی بدولت اِس رد شدہ فلسفے کو روکا جا سکتا تھا۔ ہماری ساری توجہ انہی جگہوں پر رہی جہاں براؤن صاحب چاہتا تھا۔ ہمارے تعلیمی پالیسی سازوں کو کبھی یہ احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ سرمایہ داری نظام کے جال میں کس طرح پھنس چکے ہیں۔ اقبال اِسی سحر کو توڑنے کا درس دیتا ہے۔
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئیگا الحاد بھی ساتھ
پاکستان کے لئے عمران خان کی تمام کوششوں کا راز اُن فکری بنیادوں پر ہے جو ہمارے تعلیمی نظام، جو کہ ڈسپلنز میں تقسیم ہے؛
۱۔) غلط انداز میں پڑھائی جا رہی ہیں اور
۲۔) کہیں پر سرے سے موجود ہی نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے طالبِعلم سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہیں کرسکتے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں۔ اگر ہمارے طالبِ علموں کو پتا ہوتا، اگر ہمارے میڈیا کے گلئیڈیٹرز کو پتہ ہوتا کہ اس جھوٹ کو کیسے کاؤنٹر کیا جاتا ہے تو وہ اس جھوٹ کو بہت پہلے طبعی موت دے چکے ہوتے۔ چونکہ ہم ابھی بھی علامہ اقبال کے اِس سیاسی، معاشرتی، مذہبی سوچ سے نا واقف ہیں اِس لئے ہمارے پاس تحریک کے خلاف بیانئیے کو کاؤنٹر کرنے کے لئے سوشل میڈیا کے علاوہ کوئی دوسری سٹریٹجی نہیں ہے۔ ہم اپنی تحریک کو خود کمزور کر رہیں ہیں کیونکہ ہم نے بجائے چیئرمین کی جدوجہد کو مضبوط کرنے کے ان کی جدوجہد پر پانی پھیر دیا ہے۔ اب دو ٹکے کے دانشور (ہودبھائی، فہد حسین، سلیم صافی، اور طلعت حسین جیسے) بھی عمران خان کے ناقابلِ تردید ارگومنٹ کو کامیابی سے رد کر رہے ہیں جن کی اپنی فکری بنیادیں ردِجدیدیت نے توڑ دی ہیں۔ اقبال اور عمران ہمیں کو ادھر لاتے ہیں کہ ہم خود دیکھ سکھیں کہ اِن کا بیانیا کتنا سطحی ہے۔ اس بیانیے کی تائید کی ایک بڑی وجہ تحریک کا تعلیمی محاذ پر شکست ہے۔
اِس کی ایک اور وجہ اقبال کو پاکستانی اقبال شناسوں کے ذریعے پڑھنا بھی ہے، یعنی حسن نثار یا زید حامد یا اوریا مقبول جان۔ عمران خان، ردِجدیدیت، اور ردِاستعماریت کا اقبال دوسرا ہے جو کہ ہمیں جرمن سوچ میں ملے گا؛ خاص کر فرینکفرٹ سکول میں۔ وہ ہمیں سکھائیں گے کہ اقبال کون تھا اور تحریکِ انصاف میں اِس کا کیا کردار ہے۔ اِس سوچ کو پاکستانی تعلیمی درسگاہوں سے اِس طرح غائب کیا گیا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگھ۔ تحریک کو اپنی جدوجہد کو وسعت دینی ہوگی اور اِس میں مذید تاخیر ہماری تحریک کو اور بہت نقصان دے گی۔ نئے پاکستان کا آرگومنٹ پیش کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ ہے کوئی جو سُن رہا ہو؟
Tags:Imran Khan