بچوں کے ساتھ زیادتیوں کی روک تھام مگر کیسے؟
حالیہ چند سالوں میں پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اگرچہ پہلے بھی کیسسز ہوتے تھے مگر رپورٹ نہیں ہو پاتے تھے۔ آج کل میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا کی وجہ سے زیادہ تر کیسسز رجسٹر ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت معاشرے میں کیسسز زیادہ ہے مگر رجسٹریشن کم ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر لوگ "معاشرتی دباؤ" کی وجہ سے کیسسز کو رجسٹر نہیں کرتے۔ زیادہ تر علاقوں میں پولیس بھی رجسٹریشن میں حائل ہوجاتی ہیں۔
آج بھی روزانہ سینکڑوں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال اور ان پر تشدد ہوتا ہے۔ مگر روایتی معاشرہ ہونے کے ناطے ہم ان پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت یا ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کے بقول پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد دو ملین تک ہو سکتی ہے، جنہیں زندگی میں کسی نہ کسی صورت میں جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا یا اب تک کرنا پڑ رہا ہے۔ زینب ہو یا فرشتہ ، کنول ہو یا کائنات ، لائبہ ہو یا حریم فاطمہ۔۔ان تمام بچیوں کے ساتھ بچپن میں نہ صرف جنسی درندگی کی گئی بلکہ ان کو قتل کر کے لاشیں پھینک دی گئی ۔ ان واقعات میں زیادہ تر قریبی لوگ ،رشتہ دار، جان پہچان والے اور پڑوسی ملوث ہوتے ہیں۔ اس لئے زیادہ تر کیسسز رجسٹر نہیں ہوتے کیونکہ مجرم خاندانی ہوتے ہیں۔ ان واقعات کی روک تھام وقت کی ضرورت ہے۔ اگر آج ہم نے چشم پوشی کی یا روایتی انداز میں چند دن تک احتجاج کرنے کے بعد ٹھنڈے پڑ گئے ۔ عام طور پر حکومت اور بیوروکریسی چکمہ دے کر مسئلہ کو ٹھنڈا کر دیتی ہیں۔ اس مسلہ کے حل کے لیے دو سطحی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک حکومتی اقدامات ( قانون سازی اور اداروں کی موثر ہم آہنگی) اور دوسری معاشرتی اقدامات ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پچھلے سال مارچ میں " زینب الرٹ بل " کی منظور دی۔ تاہم حکومت سے زیادہ معاشرتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بچوں کو جنسی زیادتیوں سے بچانے کے لیے معاشرے کو اجتماعی طور پر مزید اقدامات کرنا ہوں گے اور ان کے خلاف ہر کسی کو اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔
والدین اور اساتذہ کو بھی اس حوالے سے باقاعدہ تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ وہ بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کو کس طرح کے شواہد کی بنیاد پر شروع میں ہی پہچان سکتے ہیں اور ان کی روک تھام میں مدد دے سکتےہیں۔ پاکستان میں جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ اس لئے ہو رہا ہے۔کہ یہاں غربت، منہگائی، اسلحے کا آزادانہ استعمال، نشے کی وبا، بے روزگاری اور فحش لٹریچر تک رسائی آسان ہیں۔ غربت کی وجہ سے شادیاں وقت پر نہیں ہوتی۔ آج کے معاشرے میں فحش لٹریچر اور ویب سائٹس بہت زیادہ عام ہیں اور اس تک ہر بندے کی رسائی ہے۔ سوشل ذمہ داری سے ہم مرض پر قابو پاسکتے ہیں۔ والدین کی تربیت بہت ضروری ہے۔ والدین بچوں کو بتائے کہ جب بھی کوئی بندہ اس کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرے ۔ تو فوراً والدین کے ساتھ شئیر کریں۔ عام طور پر خاندانوں میں بعض افراد غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور حصوصا ماں اہم کردار ادا کر سکتی ۔
کیونکہ عورتوں کو مردوں کے آنکھوں سے پتہ چلتا ہے لہذا اس طرح کے افراد چاہیے وہ کتنا قریبی کیوں نہ ہو ان سے اولاد کی حفاظت ضروری ہے۔علماء کرام اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ معاشرے میں آگاہی پیدا کریں خصوصاً جہیز کا خاتمے ضروری ہے تاکہ بروقت شادیاں آسان ہوجائے۔ اس طرح اخلاقیات کے بارے میں آگاہی ضروری ہے۔ افسوس ہمارے علماء صرف عبادات پر توجہ دیتے ہیں۔معاشرے میں بدکردار کے حامل افراد پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے جو بچوں کے زیادتی میں تسکین حاصل کرتے ہیں۔ ان افراد کو علاجِ کی ضرورت ہے۔
حکومت کو چاہیئے کہ وہ جنس اور جنسیات کو سیلبیس میں شامل کریں۔ جب تک ہم اس حساس مسئلہ پر آگاہی نہ پیدا کرے اس وقت تک اس کو حل نہیں کرسکتے۔ اس طرح کے افراد کے انداز سے پتہ چلتا ہے لہذا اس طرح کے افراد چاہیے وہ کتنا قریبی کیوں نہ ہو ان سے اولاد کی حفاظت ضروری ہے۔