خود کلامی، چلنا اور قدرتی ماحول | Pakistan Tehreek-e-Insaf
Self Talk and Nature - Insaf Blog

 


کئی لوگوں کے لیے واک کرنا نہایت ہی بوریت کا باعث کام ہو تا ہے،کئی لو گ اس مسئلہ کا حل  گولف کھیل کر اور کئی لوگ واک کے دوران کسی دوست کی صحبت میں  نکال لیتے ہیں۔واک انسان کے لیے اپنے آپ سے ہمکلامی کا موقع ہو تا ہے،جو کہ انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔جو لوگ اپنے آپ سے باتیں کرتے ہیں وہ زندگی میں بہت کامیاب ہو تے ہیں،اپنے آپ سے انسان بات کرکے اپنی خود احتسابی بہت بہترانداز میں کر سکتا ہے،اپنی کا میابیوں اور ناکا میوں پر حقیقت پسندانہ انداز میں نظر ڈالتا ہے،دوسروں کو تو پھر بھی دھوکا دیا جاسکتا ہے لیکن انسان کبھی بھی اپنے آپ کو دھوکا نہیں دے سکتا ہے۔ہمکلامی ضمیر سے بات چیت کا موقع ہے، اس وقت کے دوران مسقتبل کے منصوبے بنائے جاسکتے ہیں،کیونکہ واک کے دوران انسانی خون کی روانی تیز ہو جاتی ہے  جس سے دماغ کی طرف  خون کا بہاؤ بہتر ہوتا ہے جس کے باعث انسان کی چھپی ہوئی اندرونی صلاحتیں بھی باہر آتی ہیں،نئے نئے خیالات اور آئیڈیا بھی انسان کو آتے ہیں جو کہ دیگر صورت میں شاید ممکن نہ ہو سکے۔ خود سے بات کرکے انسان اپنی زندگی کی ترجیحات پر ازسرنو غور کر سکتا ہے،بعض اوقات جن چیزوں کو ہم بہت بڑامسئلہ بنا کر بیٹھے ہوتے ہیں ان پر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو اتنا بڑا مسئلہ تھا ہی نہیں،اور اسی طرح جن چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ہم نظر انداز کیے ہو تے ہیں وہ درحقیقت ہمارے لیے زیادہ اہمیت کی حامل ہو نی چاہیے، اس عمل سے انسان کو ذہنی دباؤختم کرنے اور اپنا اعتماد بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن اگر انسان خود کلامی لیٹے ہوئے یا بیٹھ کر آرام کرتے ہوئے کرے تو بھی عموما ً آپ کے ذہن میں منفی خیالات ہی پیدا ہوتے ہیں،خود سے بات کرکے مثبت خیالات بھی صرف واک کرتے ہوئے آتے ہیں یا نہ بھی آئیں تو جیسے جیسے آپ واک کرتے ہیں آپ کے خیال مثبت ہونے لگتے ہیں۔ اپنے آپ سے بات کرنا انسان کے لیے ایک خود شناسی کا عمل ہو تا ہے جو انسان کو دانا بناتا ہے ۔
 

کہا جاتا ہے کہ انسان کا ہر ایک انداز اس کی شخصیت کے بارے میں دیکھنے والوں کو بہت کچھ بتا جاتا ہے،انسان کی بول چال،وضع قطع،حتیٰ کہ چلنے کا انداز بھی انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔واک کرنے کے لیے آپ کے جسم کا انداز بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔پیدل چلتے ہوئے آپ کی نگاہیں تھوڑی سی اوپر اور سامنے کی جانب ہونی چاہیے،جسم سیدھا،کندھے پیچھے کی طرف گردن سیدھی ہونی چاہیے،اس سے آپ بہتر انداز میں گرد و پیش کے مناظر بھی دیکھ سکتے ہیں،اس سے یہ فائدہ بھی ہو تا ہے دنیا کو بہتر انداز میں دیکھا جاسکتا ہے،کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کو ایک بڑے کینوس سے دیکھ سکتے ہیں،لیکن جب آپ نظر یں جھکا کر چلتے ہیں،اس کا پہلا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ دنیا آپ پر حاوی ہے دنیا کے معاملات کا ہمت اور جواں مردی سے مقابلہ کرنے کی بجائے پس مژدہ ہیں،ڈپریشن کا شکار ہیں۔جو لو گ نیچے دیکھ کر چلتے رہتے ہیں وہ ایک محدود دائرہ میں سمٹ کر ہی دنیا کو دیکھ رہے ہوتے ہیں انھوں نے اپنی سوچ پر خود قدغن لگا رکھی ہو تی ہے،اور اپنے گرد کھنچے ہو ئے اس مخصوص دائرہ سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے عاری ہو تے ہیں۔نظریں جھکا کر چلنے والے صرف اپنے سامنے زمین کو دیکھ سکتے ہیں۔ جبکہ سامنے دیکھنے والا اردگرد کے ماحول کے علاوہ زمین اور آسمان دونوں کو  بیک وقت دیکھ سکتا ہے۔

پیدل چلتے وقت اس بات کا دھیان رکھا جانا بہت ضروری ہے کہ آپ کا جسم جھکا ؤ کا شکار نہ ہو، زیادہ جھکنے سے آپ کی گردن بہت دباؤ کا شکار ہو سکتی ہے۔ آپ بہت لمبے قدم نہ لیں کیونکہ ریسرچ کے مطابق زیادہ لمبے قدم لینے سے آپ کے جوڑوں پر بہت دباؤ آتا ہے۔لیکن تیز قدم ضرور لیں۔کوشش کرنی چاہیے کہ چلتے وقت ریڑھ کی ہڈی بالکل سیدھی رہے کیونکہ بصورت دیگر آپ کی کمر اور کندھے بہت دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مختصر کہا جائے کہ واک انسانی وجود کو متحرک کرتی ہے تو غلط نہ ہو گا۔جب آپ کو ایسا محسوس ہو رہا ہو کہ زندگی رک گیئ ہے تو واک ہی انسان کو زندگی کے آگے بڑھنے کا احساس دلاتی ہے۔ 

کچھ لوگ ٹریڈ مل پر واک کرنے کو ترجیح دیتے ہیں،ٹریڈ مل پر ورزش تو ممکن ہے لیکن یہ بھی ایک کنکریٹ کے بند کمرے میں کی جانے والی ورزش ہے جو کہ انسان کو قدرتی ما حول سے دور کر دیتی ہے، انسان ایسی ورزش کے دوران تازہ ہوا کی نعمت سے محروم رہتا ہے۔ یہ ایک مصنوعی واک ہو تی ہے،جو انسان کو آگے بڑھنے کا احساس دلانے سے عاری ہو تی ہے بلکہ ایک ہی جگہ پر آگے بڑھنے کا مصنوعی احساس دیتی ہے۔ 

آجکل کے دور میں موبائل فون، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ کا استعمال عام ہے،ہم یہ آلات دن میں گھنٹوں تک مسلسل استعمال کرتے ہیں اور یہ آلات استعمال کرتے وقت ہم یا تو بستر پر لیٹے ہو تے ہیں یا پھر کسی  صوفہ میں دھنسے ہوئے ہو تے ہیں،اور ہمارے جسم کی یہی غلط وضع مختلف بیماروں اور جسمانی مسائل کا باعث بھی بن جاتی ہے۔جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے انسان کے کندھے جھک جاتے ہیں،گردن بھی جھک جاتی ہے لیکن آپ نے دیکھا ہو گا کہ کئی بزرگ لوگ ایسے بھی ہو تے ہیں جو کہ بڑی عمر کے با وجود سیدھا چلتے ہیں۔ان کی جسمانی وضع اس عمر میں بھی بالکل درست ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہی ہو تی ہے کہ زندگی میں انھوں نے ان چیزوں کا خیال کیا ہو تا ہے،لیکن کچھ لو گ کم عمری میں  جھک جاتے ہیں۔

ڈیجیٹل آلات کی سکرینیں اور آرام دہ لا ونج قدرتی ماحول کا نعم البدل نہیں ہیں۔روزانہ صرف ایک گھنٹے کی واک آپ کو ایک مشین سے انسان بننے میں بہت معاون ثابت ہو سکتی ہے۔انسان کی قدرتی وضع سیدھا کھڑے ہونے میں ہے نہ جانوروں کی طرح چار ٹانگوں پر جھکے رہنے میں،جتنا ہم جھکا ؤ کا شکار ہو تے ہیں اتنا ہی ہم جانوروں کی مانند ہو تے جاتے ہیں

اسکا حل روزانہ دن میں ایک گھنٹے کی واک  میں موجود ہے اگر ہم اس واک میں اپنے جسم کو سیدھا رکھ سکیں۔انسانی جسم قدرتی طور پر  سیدھا کھڑے ہونے کا نام ہے۔واک ہمارے جسم کو یہ موقع فراہم کرتی ہے۔یہ نہ کیا جائے تو ہم اپنی صحت اور وضع قطع آہستہ آہستہ کھو تے جاتے ہیں۔یہ واک کے حوالے سے ایک اہم ترین چیز ہے۔

واک کرنے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جانا چاہیے جو کہ پر سکون ہو ں،چرند پرند ہوں،سایہ دار اونچے درخت ہوں، گلہریاں بھاگ دوڑ رہی ہوں پرندے اڑ رہے ہوں،دیکھنے کے لیے نظا رہ دلفریب ہو،ایسا قدرتی نظا رہ ہو جو کہ انسان کو معمول سے ہٹ کر ماحول فراہم کر سکے۔کھلا آسمان ہو،زمین نرم ہو جہاں پر آپ حقیقی معنوں میں واک کرتے ہوئے پر مسرت محسوس کریں۔ انسان قدرت سے قریب ہو سکے،انسان نیچر کی طرف راغب ہو تا ہے،کیونکہ انسان بھی اسی نیچر کا حصہ ہے۔مصنوعی زندگی بظاہر کتنی ہی آرام دہ کیوں نہ ہو انسان کو وہ راحت اور سکون نہیں دے سکتی جو کہ انسان ایک قدرتی ما حول میں حاصل کرتا ہے۔ کنکریٹ کے بند کمرے جتنے ہی آرام دہ کیوں نہ ہو ں،انسان کو وہ ما حول فراہم نہیں کر سکتے جو کہ قدرت انسان کو مہیا کرتی ہے۔۔ آج کی انسانی زندگی بے سکونی کا شکار اسی لیے ہے کہ ہم قدرت سے دور ہو چکے ہیں،ٹریفک کا شور،گاڑیوں کا دھواں،اور طرح طرح کی آلودگی ہماری صحت کو بری طرح متاثر کر دیتی ہے۔اسی لیے پہاڑوں، دیہاتوں اور سر سبز علاقوں میں 
 میں رہنے والے افراد کی صحت قابل رشک ہوتی ہے،یہ لو گ بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں اور کرونا جیسا مرض تو ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے اور اگر حملہ آور ہو تے ہی بھی ہیں تو شکست کھا کہ پلٹ جاتے ہیں۔یہ واک کرنے کے ایسے بے مثال فوائد ہیں جوکہ بغیر کوئی پیسہ خرچ کیے ہوئے انسان صرف روزانہ ایک گھنٹہ دے کر حاصل کر سکتا ہے۔

واک، جاگنگ، ورزش کا ایک بہترین نمونہ عمران خان ہے، عمران خان کی جسمانی فٹنس انہیں اپنے سیاسی حریفوں سے بہتر ثابت کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ 
عمران خان جسمانی اور ذہنی فٹنس کا ایک رول ماڈل ہے۔ ہمیں اس مثال سے سیکھنا چاہیے۔

احمد جواد
مرکزی سیکریٹری اطلاعات 
پاکستان تحریک انصاف