پی ڈی ایم میں صرف ٣ لوگ استعفے دینے کے حق میں ہیں اور وہ تینوں ہی استعفے نہیں دے سکتے کیونکہ وہ قومی یا صوبائی اسمبلی کا حصہ ہی نہیں۔
١- فضل الرحمٰن: یہ شخص اپنے ڈیڑہ پاؤ گوشت کے لیے ساری بھینس ذبح کروانا چاہتا ہے۔ اسے عمران خان کے ساتھ ذاتی مسائل ہیں اور اوپر سے ستم یہ ہے کہ جب سے یہ سیاست میں آیا ہے تو پہلی بار اسے پارلیمنٹ سے باہر بیٹھنا پڑا ہے۔ وہ ساری مراعات اور مزے اسے چین نہیں بیٹھنے دے رہے جن سے یہ محروم ہوگیا ہے۔ اس کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ اسمبلی کو جعلی کہتا ہے لیکن اس کا اپنا بیٹا اس اسمبلی کا رکن ہے، یہ اسی اسمبلی سے ووٹ لینے کے لیے صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑا ہوا تھا۔ عمران خان کا نام سنتے ہی یہ ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے اور اس کا لہجہ شیطان کی طرح متکبرانہ ہوجاتا ہے۔ اسے ہمیشہ ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے لیکن اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ اسے اپنی وزرات انجوائے کرنے سے غرض ہوتی ہے۔ اس وقت نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں ہی اسے استعمال کررہے ہیں اور یہ اسی بات پر خوش ہے کی پی ڈی ایم کا سربراہ ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس اتنی سٹریٹ پاور بھی باقی نہیں بچی جتنے لوگ سردی کے موسم میں لنڈا بازار میں جمع ہوتے ہیں اس لیے انہیں فضل الرحمٰن کی ضرورت ہے کہ کیونکہ وہ دین کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرکے مدرسے کے بچوں اور ذہنی طور پر بچوں کا ہجوم اکٹھا کرنے کی سکت رکھتا ہے۔
٢- مریم صفدر : یہ لڑکی نما بڑھیا لیکن ذہنی طور پر بچی بھی چاہتی ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ممبران اس کے کہنے پر استعفٰی دے دیں تاکہ اس کی ابو بچاؤ تحریک میں کچھ جان پڑ سکے۔ فی الحال تو نون لیگی ممبران اسمبلی نے اس کے پاس اپنے استعفے جمع کروادیے ہیں لیکن جب حقیقت میں استعفے اسپیکر کو دینے کا وقت آئے گا اور اسپیکر قومی اسمبلی استعفوں کی تصدیق کے لیے بلائے گا تو بہت سارے ممبران نون لیگ سے باغی ہوجائیں گے کیونکہ اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے کم از کم دس کروڑ تک خرچہ کرنا پڑتا ہے اور کوئی بھی ممبر اس امیچور خاتون کے کہنے پر استعفٰی نہیں دے گا خاص طور اگر انہیں اس میں کوئی مفاد نظر نا آرہا ہو یا مستقبل کی کوئی واضح تصویر سامنے موجود نا ہو۔ چنانچہ عمران خان کی از حد نفرت میں مبتلا اس خاتون کا ذہنی توازن مزید بگڑنے کا امکان موجود ہے۔ اگر ابو بچاؤ تحریک کامیاب ہوتی نظر نا آئی تو پھر اس کا ٹارگٹ بھی کوئی بہانہ کرکے لندن فرار ہونا ہی ہوگا۔
٣- نواز شریف: یہ شخص سپریم سے سزا یافتہ اور مفرور اشتہاری ہے۔ یہ شخص اس قدر جھوٹا ہے کہ ساری قوم سے بیماری کے نام پر جھوٹ بول کر ملک سے فرار ہوا۔ یہ شخص پارلیمنٹ کا نا صرف حصہ نہیں بلکہ تاحیات پارلیمنٹ کا حصہ بننے کا اہل بھی نہیں۔ یہ بھی ممبران اسمبلی کے استعفے دلوانا چاہتا ہے کیونکہ منافقت کی طرح اسے خود غرضی میں بھی ملکہ حاصل ہے۔ جب عدالت نے اسے نااہل قرار دیا تو اس کے بعد بھی ایک سال تک اس کی پارٹی کی ملک پر حکومت موجود تھی لیکن یہ اس سے لاتعلق ہوکر “مجھے کیوں نکالا“ میں مبتلا ہوگیا تھا کیونکہ یہ اپنی ناک سے آگے دیکھ ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اگر یہ خود پارلیمنٹ کا حصہ نہیں تو اسے ملک، پارٹی یا پارلیمنٹ سے کوئی غرض نہیں۔ یہ ملک اور ملکی اداروں پر بھی حملہ کرتا رہے گا اور اپنی پارٹی کے لیے بھی خود کش بمبار ثابت ہوتا رہے گا۔ اگر بدقسمتی سے اس کی سزا ختم کردی جائے تو وہی ادارے اور لوگ جن کو اب یہ گالیاں نکالتا ہے انہیں کے قدموں میں جابیٹھے گا۔ اس شخص کے شخصیت پر سب سے بہترین اور جامع لیکن مختصر تبصرہ پیر پگارہ محروم نے کیا تھا۔ “نواز شریف جب اقتدار میں ہو تو گلا پکڑتا ہے اور جب اقتدار سے باہر ہو تو پاؤں پکڑتا ہے۔“
اس لیے مجھے کم از کم مستقبل قریب میں کوئی ایسی صورتحال نظر نہیں آرہی کہ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اپنی نشستوں سے استعفے دیں