پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں جمہوریت کو روایتی انداز میں چلایا جا رہا ہے۔ کیونکہ ان ممالک میں لوگ روایت پسند ہوتے ہیں۔ لہذا ان ممالک میں جمہوریت جمہوری روایات کے بجائے مقامی روایات کا شکار ہوتی ہے۔ یوں جمہوریت کی اصلی روح تڑپ اٹھتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 73 سالوں سے جمہوریت کے ساتھ مختلف تجربات کیے گئے۔ لیکن ان 73 سالوں میں جمہوریت کبھی بیدار نہ ہو سکی۔ سیاسی جماعتیں ذاتی لمیٹیڈ کمپنیاں بن گئی ۔ ورکرز کو صرف زندہ باد اور مردہ باد تک محدود رکھا گیا۔ جمہوریت کے ثمرات معاشرے تک منتقل نہ ہو سکے ۔یوں عملاً عوام جمہوریت سے نالاں ہیں۔ اس میں جمہوریت کی نہیں بلکہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم جمہوریت کو اپنے انداز کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ان 73 سالوں میں جمہوریت کے نام پر کونسی ڈرامے بازیاں نہیں ہوئیں۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ملک میں جمہوری روایات کو فروغ دے۔ اور جمہوریت کو مضبوط کریں۔73 سالوں سے ملک میں عوامی نوعیت کے مسائل جُو کے تُو ہیں۔ آج تک نہ تو عوام کو انصاف مل سکا نہ مافیا کا خاتمہ ہوسکا۔نہ معاشی ترقی ممکن ہوئی۔ بلکہ مافیاز مضبوط سے مضبوط تر ہو گئے۔ملک میں انصاف کی رسائی غریب تک ممکن نہیں۔ عدالتیں بک جاتی ہیں۔میرٹ کے نام پر غریب کا استحصال ہورہاہے۔ غریب اور امیر میں فرق بڑھ گیا۔ 2 کروڑ 50 لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ہسپتالوں کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ ان حالات میں ملکی قانون میں ترامیم وقت کی ضرورت ہے۔ تاکہ عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر ملکی ڈھانچہ کو تبدیل کیا جا سکے۔ کیو نکہ قوانین میں تبدیلی کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ان ترامیم کے لیے پارلیمان میں تعلیم یافتہ، باکردار اور عوام دوست قیادت کی ضرورت ہے۔ لیکن موجود نظام میں تعلیم یافتہ، باکردار اور عوام دوست قیادت کا انتخاب ایک خواب ہے۔ کیونکہ ملکی انتخابی قوانین اس راہ میں حائل ہے۔لٰہذا الیکٹورل ریفارمز ضروری ہے تاکہ باکردار اور صاف قیادت میسر آ سکے۔الیکشن کے نام پر قوم کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ پاکستان میں الیکشن کے عمل میں تین مختلف سطحوں پر موثر قانون سازی ہونی چاہیے۔الیکشن سے پہلے، الیکشن کے دوران اور الیکشن کے بعد
عام طور پر ذاتی پسند کے مطابق حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں۔ ووٹ کو رائے دہندہ گان کی مرضی کے خلاف ایک سے دوسرے حلقے میں تبدل کیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن خود الگ سے ووٹرز کی رجسٹریشن کرتی ہیں۔ حلانکہ نادرہ کی موجودگی میں اس کی کیا ضرورت ہے؟ یوں زیادہ تر ووٹرز ووٹ کی عمر تک پہنچنے کے باوجود بھی رجسٹر نہیں ہوتے۔الیکشن سے پہلے بڑے پیمانے پر ذاتی پسند پر بلیو آئی کی تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ تاکہ الیکشن میں مدد گار ثابت ہو سک
میڈیا کی مدد سے پروپیگنڈا کے زور پر عوام کی توجہ عوامی نوعیت کے مسائل سے ہٹائی جاتی ہیں۔ پیسوں کے زور پر اشتہارات کے ذریعے عوامی توجہ حاصل کی جاتی ہے۔
لوگوں کو 500 اور 1000 روپے کےعوض خریدا جاتا ہے پارٹیوں میں چونکہ جمہوریت کا فقدان ہے لہذا ٹکٹ صرف امیروں اور کبیروں کو دی جاتی ہے۔ جو دولت کی ریل پیل پر ووٹ خریدتے ہیں اور پارلیمان کا حصہ بن جاتے ہیں۔
مذہبی اور لسانی کارڈ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تاکہ سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناکر الیکشن جیتے۔
الیکشن کے دن انتظامیہ مخصوص لوگوں کی مدد کرتا ہے ملک میں 25 ہزار پولینگ اسٹیشن پر مخالف امیدواروں کی پولینگ ایجنٹ کو نہیں آنے دیتے۔ یا خوف و خطر کی وجہ سے کوئی پولینگ ایجنٹ بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مخالف جماعتوں کے ووٹوں کو غلط قرار دیا جاتا ہے اور یوں پسندیدہ امیدوار کی جیت کی راہ ہموار کی جا تی ہے۔ آج اکیسویں صدی میں ہونے کے باوجود الیکٹرانک ووٹنگ کیوں ممکن نہیں کیونکہ ملکی پارلیمنٹ میں جاگیرداروں، سرمایہ داروں ،نوابوں اور ووڈیروں کا قبضہ ہیں۔ جو کبھی بھی الیکٹورل ریفارمز نہیں ہونے دینگے۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحثت پاکستانی عمران خان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر الیکٹورل ریفارمز کرانے میں ساتھ دے۔ تاکہ ملک نظام کو کرپٹ ، بدکردار اور مافیا سے بچایا جا سکے۔