عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو خستہ حال قوم کو امید بن پڑی کہ اب سب سیٹ ہوجائے گا۔
دم توڑتی شمع کے پروانے ادھر کو ہی لپکے۔اور تصوراتی امیدوں کا محور و مرکز عمران خان تھا۔ مثلا ادھر عمران خان کرسی پہ بیٹھے گا ادھر بنجر زمین میں سبزہ اگنے لگے گا، دوبٹتی معیشت چٹکیوں میں سنبھل جائے گی، چوری، ڈاکا، رشوت ستانی،مہنگائی وغیرہ سب ختم ہوجائے گا۔ نوکریوں کی کمی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔عدالت سے مظلوم فاتح بن کر نکلے گا۔ کینہ،بغض،حسد اور وعدہ خلافی ختم ہوجائے گی۔ لوگ مل جل کر رہنے لگیں گے۔تاجر ایماندار اور دکاندار دیانتدار ہوجائے گا۔ ہر طرف امن و سکون ہوجائے گا تمام مشکلات حل ہو جائیں گی۔
مگر ہوا کیا؟ مہنگائی بھی ویسی اور باقی حالات بھی ویسے؟
صرف قیادت ہی بدلنے سے سب مسائل حل ہونے ہوتے تو اب تب تک ٹھیک ہوجاتے۔ اسلئے قیادت کے ساتھ ساتھ عادت بھی بدلیے۔۔۔۔کوئی آسمان سے اتر کر نہیں آئے گا جو اپنے پیشے سے ایمانداری کرے گا، جھوٹ نہیں بولے گا، وعدہ خلاف نہین ہوگا، انصاف قائم کرے گا،لین دین مین کھرا ہوگا، جو دکھائے گا وہی بیچے گا،رشوت نہین لے گا اور قانون کو اپنے اور دوسرے کے لیے ایک جیسا رہنے دے گا۔۔۔ بلکہ یہی آسمان سے اتری ہوئی مخلوق یہ سب سر انجام دے گی۔ جسے اچھائی، برائی، نیکی اور بدی کا راستہ دکھا کر بھیجا گیا۔ اب اچھائی کے راستے پر چلتے ہوئے شیطان کی پیروی کرو گے تو کامیابی کیسے مل سکتی ہے؟ وہ تو بلکل ایسے ہی ہوگا کہ کوئی طلب علم ریاضی کے پرچے میں انگریزی سبجیکٹ کی تیاری کرکے چلا جائے۔
ہمارا قومی رویہ ہے ہر چیز کو ٹھیک دیکھنا چاہتے ہیں مگر جب خود کو ٹھیک کرنے کی بات آتی ہے تو خرابی بلکل نظر نہیں آتی وہاں یہ لاجک ہوتا ہے"صرف میرے کرنے سے کیا ہوجائے گا" تو آئیے میں آپکو ایک ایسی بستی میں لے جاتی ہوں جہاں کے لوگ صرف یہی سوچ رکھتے تھے تو دیکھتے ہیں انکے ساتھ کیا ہوا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک چھوٹی سی بستی کے لوگ پرسکون زندگی بسر کر رہے تھے۔ بستی کے ایک طرف بہت بڑا پانی کا ذخیرہ تھا۔ بارش اور کبھی کبھار بہنے والی نہر کا پانی اس میں جمع کر کے فصلون کو سیراب کیا جاتا۔ کئی کئ سال بارش نہ ہوتی تب بھی وہاں نہر کے ذریعے آنے والا اتنا پانی جمع ہوتا کہ فصلیں متاثر نہ ہوتیں۔ پھر ایک دن ایک رہائشی سے اس ذخیرے کی ایک اینٹ اکھڑ گئی۔ وہاں کوئی دوسرا موجود نہ تھا۔ وہ وہ اسے یہ کہہ کر"صرف ایک اینٹ سے کیا فرق پڑے گا" ایسے ہی چھوڑ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ وہاں سے اینٹیں اکھڑنے لگیں۔ جب تعداد بڑھی تو قریبی ایک مکین وہ اینٹیں اپنے گھر لے گیا۔ جب اسکے پڑوسی نے دیکھا تو لالچ میں وہ بھی خود اکھاڑ کے لانے لگا۔ اسے کسی تیسرے نے دیکھا وہ بھی۔۔۔ اسطرح یہ سلسلے پوری بستی تک چل نکلا ہر کسی نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔سوائے ایک بوڑھے دانا آدمی نے جو انہیں روکتا رہا۔ حتی کہ ذخیرہ اب کچی مٹی کے بند کے سہارے تھا۔ بستی کے لوگ جانوروں کو پانی پلاتے تو انکے آنے اور واپس جانے سے کچی مٹی کا بند کمزور ہونے لگا۔ دانا آدمی نے بستی کے لوگوں کو جمع کیا اور مسئلے کی نشاندہی کی مگر تب کسی نے اسکی نہ سنی۔یہاں تک کے بند خستہ حال ہوگیا۔ پھر ایک دن بند ٹوٹ گیا اور پانی بستی میں داخل ہوگیا۔ لوگوں کے گھر گر گئے۔ جو بچے وہ بھی ایسے کہ بے سر و سامان ہوچکے تھے۔ نزدیکی فصلیں پانی میں ڈوب کر تباہ ہو گئیں۔اس سال بارش نہ ہوئی تو نتیجتا باقی فصلیں پانی نہ ملنے کی وجہ سے سوکھ گئیں۔ بدحالی نے بستی کو آگھیرا مکین بھوک و افلاس کا شکار ہوگئے۔ ارگرد کی بستیوں میں انکا داخلہ ممنون ہوگیا۔ اب وہ اپنی زمینیں گروی رکھنے پر مجبور ہوگئے۔ یوں ایک ایک کر انکی زمینیں ہتھیا لیں گئیں۔ وہ سب جاننے کے باوجود بے بس تھے۔تب دانا آدمی نے انہیں پھر جمع کیا اور کہا " اچھائی کرنے سے پہلے اور برائی کرنے کے بعد'صرف میرے کرنے سے کیا ہوجائے گا'" کہہ کر اپنے ضمیر کو بہلانا چھوڑ دو۔ محنت ،ہمت اور خلوص نیت سے دوبارہ اپنا کھویا مقام حاصل کرو۔ پھر کیا تھا لوگوں کو احساس تو ہوا انہون کتنی بڑی غلطی کردی۔مگر تب بہت دیر ہوچکی تھی۔
ہماری قوم کو سوچنا ہوگا اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔حکمران کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ عوام کو عادت بھی بدلنا ہوگی۔ سوچنا ہوگا:کیا ہم کسی معاملے میں اسی بستی کے مکینوں کی ڈگر پر تو نہیں چل رہے؟