Former Prime Minister Imran Khan's Article in The Telegragh - Urdu
تقریباً دو سال پہلے میری حکومت کے خلاف ایک انجینیئرڈ ووٹ عدم اعتماد پیش کیا گیا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ایک حکومت وجود میں آئی
اس کے بعد سے، سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور ماجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی براہ راست رہنمائی میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے سیاسی ماحول سے میری پارٹی کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا ہے. . ہمارے انتخابی نشان کو چھینا ، ظلم، اور تشدد ریکارڈ پر موجود ہونے کے باوجود فوج نے کچھ نہیں کیا اور بے اختیار سیاسی قیادت نے ان کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کیا
فروری 2024 کے انتخابات ان کے پلان کی مکمل ناکامی ظاہر کرتا ہے.
ایک ایسے ملک میں جہاں ووٹروں کی اکثریت پارٹی کے نشان سے امیدواروں کا پتہ چلتا ہے وہاں کوئی ایک انتخابی نشان نہیں دیا گیا، مخلتف انتخابی نشانات کے ساتھ "آزاد امیدواروں" کے طور پر کھڑے ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے عوام باہر نکلی اور بھاری اکثریت سے ووٹ دیا،
8 فروری کو پاکستانی عوام نے ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کے ایجنڈے کو جمہوریت کے ذریعے مسترد کیا اور ایک جمہوری انتقام لیا، اور ریاست کی جانب سے بنئاے گئے 9 مئی کے بیانیہ کو بھی مسترد کیا.بدقسمتی سے، عوامی مینڈیٹ کو قبول کرنے کے بجائے، فوجی اسٹیبلشمنٹ غیض و غضب میں آکر ہارنے والوں کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کی۔
حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی یہی ووٹ ٹمپرنگ دیکھنے میں آئی۔
جس کے نتیجے میں آج پاکستان ایک خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے۔ عوام نے ریاستی انتخابی سازشوں اور نہ صرف پی ٹی آئی کی قیادت بلکہ اس کے کارکنوں کے جبر، قید و بند اور اذیتوں کو بھی مسترد کر دیا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں عسکری قیادت پر اس طرح کھلے عام تنقید کبھی نہیں دیکھی گئی جبکہ حکومت اس وقت ایک مذاق بن چکی ہے،ریاست نے ردعمل کے طور پر نہ صرف پارٹی کارکنوں پر تشدد اور دباو میں اضافہ کیا بلکہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے ورکرز پر بھی دباو ڈالا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگاتے ہوئے ایکس کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے
اس سب کے بعد عدلیہ کے آزادای کو ایک منظم طریقے سے ہر سطح پر تباہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں
ججز کو ہر طرح سے دباو میں لایا جارہا ہے، بلیک میلنگ اور خاندان کے افراد کو ہراساں کیا جارہا ہے، اور مجھ پر بنائے گئے جھوٹے مقدمات چلا جارہے ہیں.
جس میں نہ حق دفاع دیا جارہا ہے اور نہ ملک کے قانون اور آئین کی خلاف ورزیوں کی پرواہ کی جارہی ہے
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی اور اسلام آباد ہائی کورٹ انصاف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں،لیکن اعلیٰ عدلیہ کے جج عدلیہ کی آزادی کو تباہ کرنے کی کوشش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ بہادر ججوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے اپنے اہل خانہ سمیت ہراساں کرنے اور بلیک میل کرنے کے واقعات کا ذکر کیا، جس میں انہوں نے مختلف واقعات کا تفصیلی ذکر کیا ہے،اگرچہ بہت سے لوگ جانتے تھے کہ عدلیہ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے لیکن ان ججوں کی طرف سے اس طرح کا خط آنا مایوسی اور غصے کو ظاہر کرتا ہے جو کہ غیر مثالی ہے،چیف جسٹس کی طرف سے دکھائی جانے والی ہچکچاہٹ سے اعلی عدلیہ کی افسوسناک حالت ظاہر ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ کے فل بنچ تشکیل دینے اور خط میں نامزد افراد کو طلب کرنے کے بجائے ججز کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے،بحران میں گھری ہوئی معیشت، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سیاسی طور پر ناراض عوام اپنے انتخابی مینڈیٹ کو چوری کرنے اور معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہونے کے ساتھ ریاست سے الگ کھڑی ہے
وہ اپنی سنگین غلطیوں کو کم کرنے کے لیے تیار نہیں جس کی وجہ سے پاکستان اس نازک موڑ پر پہنچا ہے.. ریاست ناقدین کے خلاف جبر اور تشدد کے اپنے منتر سے آگے نہیں بڑھ پا رہی ، اسی راستے پر چل رہی ہے جس پر یہ 1971 میں چلی تھی، جب اس نے مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش کو کھو دیا تھا
اس سب کے ساتھ ملک میں دہشت گردی میں اضافہ اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ بھارت پہلے ہی پاکستان کے اندر قتل و غارت گری کا اعتراف کر چکا ہے اور افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد بدستور غیر مستحکم ہے.پاکستان کی ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کی امریکی فوج کی پاکستانی فضائی حدود تک رسائی اور اس سے متعلقہ سہولیات کی فراہمی کے بدلے میں امریکہ سے غیر مشروط حمایت کی توقع امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق تازہ ترین رپورٹس کی اشاعت کے بعد خاک میں مل گئیں ہیں جس میں نمایاں طور پر پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے..ایسی صورت میں جب کہ عوام کے ساتھ تصادم جاری ہو(ریاست ) کا تو ایک بار پھر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر انحصار کرنے سے پاکستان میں کوئی استحکام نہیں آئے گا.اس بحران سے نکلنے کے لیے عوامی مینڈیٹ کو بحال کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے، عوام کا مینڈیٹ بحال کیا جائے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے جن میں فوجی عدالتوں کا سامنے کرنے والے کارکان بھی شامل ہیں
فوجی اسٹیبلشمنٹ نے میرے خلاف ہر ممکن کوشش کی۔ اب ان کے لیے بس مجھے قتل کرنا باقی رہ گیا ہے، میں کھلے عام کہہ چکا ہوں کہ اگر مجھے یا میری اہلیہ کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار جنرل عاصم منیر ہوں گے۔ مجھے قتل لیکن میں موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ میرا ایمان مضبوط ہے۔ میں غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔
عمران خان
مئی 2024 بروز جمعرات
اڈیالہ جیل راولپنڈی