
خواتین کے حقوق کی بات کرنا تو ہمارے دین کا حصہ ہے ، اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے خواتین کو ان کے حقوق دلائے اور خواتین کو معاشرے میں باعزت مقام دلایا ۔
ہمارے ملک میں چند سالوں سے عورت کے نام پر ایک مارچ ہوتا ہے ، حال میں ہی ہونے والے عورت آزادی مارچ کے بعد چند سوالات نے جنم لیا ہے ، خاص طور پر یہ سوال کہ کیا یہ عورت مارچ واقعی ہی خواتین کے حقوق کیلئے کیا گیا تھا ؟ یا پاکستان کے خاندانی نظام کو چوک کرنے کی ایک گھناؤنی سازش تھی ؟
کوئی بھی معاشرہ بنیادی طور پر مرد اور عورت پر مشتمل ہوتا ہے ، اور ان دونوں میں سے کوئی بھی جنس اس سیارے پر اکیلی نہیں رہ سکتی ، جب دونوں جنسوں کو ایک سیارے پر، ایک ہی معاشرے میں رہنا ہے تو پھر مردوں کا عورتوں کے خلاف اور عورتوں کا مردوں کے خلاف زہر اگلنا ایک احمقانہ حرکت ہے ، فطرت کے قوانین کے ساتھ ضد اور بیر باندھنا ہے ، اور اس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔
اگر بات کی جائے کہ "عورت کا استحصال ہو رہا ہے " یا یہ کہ " عورت کا استحصال نہیں ہو رہا " تو یہ دونوں باتیں مکمل طور پر درست نہیں ہوں گی۔ ہمارے ملک میں عورت بہت مضبوط بھی ہے اور بہت کمزور بھی ہے ۔ اگر طاقتور عورت کی بات کی جائے تو ہمارے ملک کی فوج سے لے کر ایوانوں تک، تعلیم و تدریس سے لے کر بیوروکریسی کے طاقتور عہدوں پر عورتیں فائز ہیں جن کے ماتحت کئی سو اور ہزاروں مرد کام کرتے ہیں ۔ اور اگر کمزور عورت کی بات کی جائے تو میرے ملک کی وہ عورتیں ہیں جو مزدوری کرتی ہیں ، گھریلو تشدد سہتی ہیں اور زندگی کی بنیادی سہولیات کو ترستی ہیں ۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ استحصال صرف عورت کا ہو رہا ہے ، بلکہ نچلے طبقے کے مرد اور عورت دونوں کا ہو رہا ہے ، معاشی بدحالی نے نچلے طبقے سے چین اور سکون چھین رکھا ہے ، غربت ہزار برائیوں کو جنم دیتی ہے ۔ پھر غربت اور جہالت کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو عورت تو عورت ، مرد کا بھی مکمل طور پر استحصال کرتی ہے ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس طبقے کا استحصال کرنے والے طبقے کی خواتین ، ان معصوم اور غریب خواتین کا سماجی طور پر استحصال کرنے کیلئے سڑکوں پر آ کر مارچ کرتی ہیں اور بقول ان کے وہ عورت کے حقوق کی بات کرتی ہیں ۔
لیکن یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اس عورت مارچ میں ان پسماندہ اور معاشی بدحالی کا شکار عورتوں کی نمائندگی کتنے فیصد تھی ؟
یہ عورت مارچ ان خواتین کے حقوق کی بات کرنے کیلئے تھا یا ذومعنی نعروں اور جملوں کی مدد سے عورت کو متنازعہ بنانے کیلئے تھا ؟
اس عورت مارچ میں اس عورت کی بات کیوں نہیں کی گئی جس کے شب و روز بلامعاوضہ اپنے گھر والوں کی خدمت میں گزرتے ہیں ؟
اس عورت کی بات کیوں نہیں کی گئی جس سے ایک صنعتکار اور زمیندار سارا دن مزدوری کراتا ہے لیکن اس کی محنت کے برابر اسے معاوضہ نہیں دیتا ؟
اس مارچ میں بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کی بات کیوں نہیں کی گئی ؟
عورت مارچ کے منشور میں تو ظاہری طور پر شاید یہ نقاط شامل ہوں لیکن عملی طور پر یہ عورت مارچ بے حیائی کی ترویج کیلئے کام کرتا ہے ۔ اس مارچ میں اس ایک فیصد خواتین کی نمائندگی تھی جو پہلے ہی ایک خاص حد سے زیادہ آذاد ہیں ، جو معاشرتی اقدار کو پہلے ہی بالائے طاق رکھے ہوئے ہیں اور مردوں کی تذلیل کر کے عورتوں کو عزت دلانے پر یقین رکھتی ہیں ، جبکہ عزت صرف عورت کا نہیں انسان کا بنیادی حق ہے ۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان نام نہاد عورتوں کو اور کونسی آزادی چاہیے ہے ؟
لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ میرے ملک کے لیڈران پاکستان کو ایک درست سمت کی طرف لے جانا چاہ رہے ہیں ، جہاں نچلا اور کمزور ترین طبقہ کو اوپر اٹھایا جائے ۔ موجودہ حکومت نے عملی طور پر عورت کے حقوق پر زور دیا ہے ، خواتین کیلئے جائیداد میں حصہ کیلئے قانون مرتب کرنے کی سعی کی، خواتین کے عالمی دن پر صدرِ مملکت نے والد کی وفات کے فوراً بعد خواتین کو باپ کے ترکہ سے وراثت کی منتقلی اور اس کے دو سال تک خواتین کی جائیداد گفٹ کرنے پر پابندی کیلئے قانون سازی کی سفارشات پیش کی ۔ موجودہ حکومت نے نچلے طبقہ کی خواتین کو اوپر اٹھانے کیلئے کفالت پروگرام کا اجراء کیا ، اور اس پروگرام کی افتتاحی تقریب میں ایک غریب عورت حاضر سروس وزیراعظم کی برابر والی نشست پر بیٹھتی ہے ،وزیراعظم پاکستان نے خواتین کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کیلئے مرغیوں اور مویشیوں کے کاروبار کیلئے اپنا وژن پیش کیا اور مستحق خواتین میں مرغیوں اور مویشیوں کو مفت تقسیم کیا ۔
اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کے عام مرد بھی خواتین کو عزت دیتے ہیں جو کہ مغرب میں ناپید ہے ، پبلک ٹرانسپورٹ میں عورت کھڑی ہو تو اپنی نشست اس کیلئے خالی چھوڑ دیتے ہیں ، ہجوم میں عورت کو گزرنے کیلئے راستہ بنا کر دیتے ہیں ، بازار میں اگر کوئی عورت وزنی چیز اٹھا کر چل رہی ہو تو اس کی مدد کرتے ہیں ، ہمارے معاشرے کے مرد خواتین کے عالمی دن پر ہمیں سلامتی اور ترقی کے پیغامات بھیجتے ہیں ۔
لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ہونے والے دل سوز واقعات کی وجہ سے عورت کی سلامتی پر سوال پیدا ہونے لگ گئے ہیں ، جیسا کہ بچیوں کے ساتھ زیاتی ، تیزاب گردی ، گلی محلوں اور دفاتر میں خواتین کو ہراساں کیا جانا ۔ لیکن ان واقعات پر بھی مردوں کی کثیر تعداد عورتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھاتی ہے ، جیسا کہ حال میں ہی بچیوں کے ساتھ جنسی زیاتی کے خلاف عوامی مظاہروں میں نوے فیصد مردوں کی تعداد شامل تھی ۔
عورت اگر مرد کی وجہ سے تشدد اور جنسی ہراسگی کا سامنا کر رہی ہے وہ چند مخصوص مرد نما شیطان ہیں جن کو بہت سی اندرونی اور بیرونی ملک دشمن قوتیں سہارا دئیے ہوئے ہیں ، اس کے علاوہ ہماری نئی نسل میں بگاڑ بھی ایک وجہ ہے جو معاشرے میں عدم توازن پیدا کر رہا ہے ، لیکن چند مخصوص مردوں کی وجہ سے تمام مردوں کو ایک ہی قطار میں کھڑا کر دینا ہمارے خاندانی نظام کو تباہ و برباد کرنا ہے ۔
اور یہ سو کالڈ عورت مارچ جو کہ عورتوں کے حقوق کیلئے ہے ہی نہیں ، بلکہ ایک خاص بیرونی ایجنڈے پر کام کرتا ہے جو ہماری قوم کو مزید برباد کرنے کیلئے معاشرے میں بے حیائی پھیلانا چاہتا ہے ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ کا ایک قول ہے کہ اگر کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس قوم میں بے حیائی اور برہنگی کو عام کر دو۔ بیرونی طاقتیں یہی سب کچھ پاکستانی قوم کے ساتھ کرنا چاہتی ہیں ، یہی ففتھ جنریشن وار کا ایک رخ ہے ۔ عورت مارچ کے مربوط نظام کی طرف اگر غور کیا جائے تو اس کے آرگنائز کرنے والوں کو ملنے والی فنڈنگ کی طرف دھیان جاتا ہے ، حکومت سے گزارش ہے کہ عورت مارچ پر ہونے والے ظاہری اور خفیہ اخراجات کی پڑتال کی جائے ۔
صد شکر کہ پاکستان کی ہوشمند خواتین اور مردوں نے اس بیرونی ایجنڈے کو مل کر شکست دی ، آئندہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ اس ملک و قوم کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف کھڑے رہیں ۔
معزز خواتین :
اگر آپ خواتین چاہتی ہیں کہ کوئی آپ کے حقوق کی پامالی نہ کرے ، آپ کو بے عزت نہ کرے اور آپ پر تشدد نہ کرے تو آپ سے ایک دلی گزارش ہے کہ اپنے اپنے مردوں کی تربیت کریں ، وہ عورتیں جو ماں کا رتبہ حاصل کر چکی ہیں ، وہ لڑکیاں جو جلد اس رتبہ پر فائز ہونے والی ہیں اور جو کل کو ماں بنیں گی، آپ سب بیڑہ اٹھائیں ، اس قوم کی از سر نو تعمیر کرنے کا ، اور اللہ تعالی نے یہ طاقت آپ خواتین کو ہی عطا کی ہے ، عورت کمزور ہو سکتی ہے لیکن ایک ماں بہت بہادر اور بہت طاقتور ہوتی ہے ، ماں کے قدموں تلے جنت کو ایسے ہی ایک محاورہ نہ سمجھیں ، ماں چاہے تو اس دنیا کو بھی جنت بنا سکتی ہے اور دوسری دنیا کیلئے جنت خرید بھی سکتی ہے۔ اور ہاں اگر موقع ملے تو اپنے بھائیوں اور شوہر کی تربیت کرنے میں بھی گریز نہ کریں ۔ پاکستان کو بہترین ماؤں کی اشد ضرورت ہے ، بہترین مائیں بنیں تاکہ ہم بکھرے ہوئے گروہ ایک بہترین قوم بن سکیں ، اور یہ صرف آپ مائیں ہی کرسکتی ہیں ۔
خراج تحسین ان ماؤں کو جن کے بیٹے اور بیٹیوں نے اس ملک کی تعمیر و ترقی اور بقا کیلئے اپنا کردار ادا کیا ۔