
وقت چاہیے.
پاکستان لا الہ الا اللہ کے نظام کے نفاذ کے لیے دیکھا جانے والا وہ خواب ہے جو ستر سال پہلے پایہ تکمیل کو پہنچ چکا۔ خوابوں کو حقیقت کا متضاد سمجھا بھی اور کہا بھی جاتا ہے؛جو کہ سچ بھی ہے۔ الحمداللہ چشم فلک نے اقبال کے اس خواب کو جناح کے ہاتھوں حقیقت بنتے ہوئے دیکھا۔ گویا اس کو پانے کے لیے مسلمانوں کو عبرت ناک سزائیں برداشت کیں ۔ املاک تو گیا سو گیا۔۔۔۔۔جانیں اور عزتیں تک نہ بچ سکیں ۔ اللہ کی خاص کرم سے پاکستان نامساعد حالات میں بنا بھی۔ ہمارے لیڈر بابائے قوم کی انتھک محنت کی بدلت سنبھل بھی گیا۔
یہی ملک 60 کی دہائی میں دنیا کے لیے مثال بنا ہوا تھا۔ اسی دوران مارشل لاء کا دور بھی آیا اور جمہوری حکومتیں بھی آئیں مگر ترقی اور استحکام کا سفر نہ رک سکا۔
80 کی دہائی کے آخر میں بد قسمتی سے وہ جونکیں پاکستان کی سیاست بھی گھس گئیں ۔ جن کا مقصد صرف اپنی پیٹ پوجا تھا۔ بزنس مین ذہن نے ملکی سیاست کی بھاگ دوڑ سنبھالنے لگا۔ تیری باری میری باری والا سیکول شروع ہوا ۔ اس کے ہر ایڈیشن نے ملکی معیشت کا بیڑا ڈبونا شروع کردیا۔یہ طبقہ انتہائی سفاک ثابت ہوا۔ کاروباری ذہنوں نے اپنے مفاد کے حصول کے لیے نوکرشاہی سے ان کا پروفیشنلزم چھین لیا۔ کرپشن نامی جن نے جنم لیا جس کی دھاک پورے ملکی نظام کے جوڑ جوڑ میں السر کی طرح سراہیت کر گئی۔ تب سے اب تلک حالات اس نہج پر تھے کہ نوکری سے لے کر برتن سرٹیفکیٹ لینے تک کے لیے عملے اور آفیسرز کی جیبین گرم کرنا پڑتی ہیں۔ایک گھنٹے کا کام جو باآسانی ہوسکتا ہے وہ ایک دستخط کی وجہ سے ایک مہینے سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔
جب چیزیں اسقدر خراب ہوں تو ہم کیسے ان کو پلک چھپکتے ہوئے ٹھیک کر سکتے ہیں ۔ کیوں ہمیں عمران خان کا نیا پاکستان فلمی انداز میں بدلا ہو چاہے۔ جو چیزیں تیس سالوں میں خراب ہوئیں وہ کیا ہم ایک سال میں ٹھیک کروانا چاہتے ہیں؟
ایک مالا ہی لے لیں اس کی ڈور ٹوٹنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگتا۔مگر اس کو دوبارہ جوڑنے یا پرونے کے لیے اچھا خاصہ وقت لگ جائے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک جاننے والے نے وزیراعظم کے شکایت سیل میں انکروچمنٹ کے متعلق شکایت درج کروائی۔ کل اسے وزیراعظم کے شکایت سیل کی طرف سے میسج موصول ہوا کہ تمام متعلقہ تجاوزات ہٹا دئیے گئے ہیں۔ وہ اس میسج کو دیکھ کر حیران ہوئے اور مجھے کچھ تصویریں بھیجیں جن کے مطابق وہ تمام تجاوزات جیسے کے تیسے موجود تھے۔
وجہ یہ ہے کہ نوکر شاہی والے کاغذی کاروائی مکمل کر کے حکومت کو اوکے کہہ دیتے مگر افسوس حقیقت جوں کی توں موجود رہتی ہے۔
اس قسم کی بیوروکریسی کو ٹریک پر لانے کے لیے وزیراعظم عمران خان کو اگر کئی سال بھی دے دیں تو کم ہی ہوں گے۔ مگر آفرین ہے بیورکریٹس کو 30 سالا مشقت سے خراب کرنے والے ان لوگوں پر جو سو دن کی حکومت کرنے کے بعد عمران خان سے استعفی طلب کر رہے تھے۔۔۔!!!!