
پہلے اکثر ن لیگیوں کی سوچ پہ افسوس ہوتا تھا مگر اب افسوس سے زیادہ ان پہ ترس آتا ہے. کیونکہ کوئی بھی زی شعور شخص اتنا تو جانتا ہے کہ کل تک "مردِ مومن مردِ حق ضیاء الحق...ضیاء الحق" کے نعرے لگانے والے ایک پل میں پاک فوج کے خلاف زہر کیوں اگلنے لگے؟ ان کو یہ خیال کب آیا کہ یہ فوج تو بہت بری ہے اور اس نے ہی ملک کو لوٹا ہے؟ کیا یہ سب کچھ پانامہ کے بعد نہیں ہوا؟
اب تون لیگیوں نے نواز شریف کی سیاسی پیدائش کی وجہ کو ہی برا بھلا کہنا شروع کر دیا. اور سیاستدانوں کو کلین چٹ دے دی.
خیر اسٹنٹڈ گروتھ کے آثار یہیں ختم نہیں ہو جاتے.... اب تو بے چارے پٹواریوں کا سہارا اور امیدیں آصف زرداری اور بلاول بھٹو ہی رہ گئے ہیں. کچھ پٹواریوں سے بات کر کے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کے سپورٹر ہیں یا ن لیگ کے؟ کیونکہ نوازشریف کا بھٹو سے موازنہ کرتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بھٹّو کو پھانسی انہی کے لیڈر نے دی تھی اور نوازشریف اس کے بعد اپنے ادوار میں بھٹّو کے نام پہ بنائے گئے پارک تک کو نشانِ عبرت بنانے کا دعوہ کر چکے ہیں.
خیر ایک بات واضح ہے کہ اسٹیٹس کو کی چیخیں آپ کو دور سے ہی سنائی دے رہی ہیں اور یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں.
پاکستان کی تعمیرِ نو کا کام تیزی سے جاری ہے، اس اثناء میں کچھ لوگوں کو بلا وجہ بھی تکلیف ہو سکتی ہے مگر اس بات پہ یقین رکھئیے کہ یہ سب ہمارے اور آپ کے فائدے کے لئیے ہے.
ایک بات یقینی ہے کہ اب پاکستان کے مستقبل کو تابناک ہونے سے کؤئی نہیں روک سکتا. اللہ کی مدد شامل حال رہی تو ان ڈرامے بازوں اور چوروں سے قوم کی جان چھوٹے گی اور ایک ایک کر کے سب چور پابندِ سلاسل ہوں گے اور قوم کا پیسہ واپس آئے گا.
پی ٹی آئی کے اندر بھی صفائی ہو گی جس کی اشد ضرورت ہے اور اس سلسلے میں بھی جلد اہم اقدامات ہونے والے ہیں. پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کؤئی حکومت اپنے ہی وزیروں کا احتساب کرے گی.
پراسیکیوشن کے نظام کو بہتر بنایا جا رہا ہے. اس کی ایک مثال حال ہی میں سندھ سے پی ٹی آئی ایم این اے دیوان سچ آنند کو تین سال قید کی سزا دی گئی جس پر نہ تو حکومت نے جمہورئیت کمزور کرنے کا نعرا لگایا اور نہ ہی اداروں کو دھمکیاں دیں.
آئی ایم ایف سے قرض لئیے بغیر کمزور معیشت کو سنبھالہ دینا اب تک کی عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی ہے. اس کے علاوہ لوگوں میں آگاہی مہم کے بینرز سیاسی لیڈروں کی تصویروں کے بغیر جا بجا نظر آ رہے ہیں. یعنی کہ پہلی دفعہ حقیقی معنوں میں کسی حکومت نے عوامی بھلائی کیلئے اقدامات کئیے ہیں. لوگوں کوصحت کے ساتھ ساتھ زچّہ بچہ کے بارے میں بنیادی اور اہم معلومات کی مہم بھی پنجاب میں زور و شور سے جاری ہے. یہاں تک کہ لوگوں کو جوس اور ڈرنک میں فرق تک کا بتایا جا رہا ہے. مگر یہ سب ابھی شروعات ہے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے.
سب سے زیادہ خوشی مجھے تب ہوئی جب ایک ن لیگی کو یہ کہتے سنا کہ “ہماری زندگی میں کیا بہتری آئی؟“ اگر یہ لوگ یہی سوال تیس سال سے ان ڈرامے بازوں کو ووٹ ڈالنے سے پہلے پوچھ لیتے تو شائید آج ملکی حالات بہتر ہوتے. لیکین اصل میں یہی تبدیلی ہے، جو کام ن لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے تینوں ادوار میں نہ کر سکے وہ عمران خان نے پہلے کچھ ماہ میں ہی کر دیا.
آخر میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ پی ٹی آئی کے کچھ کارکن اپنی مرضی کے لوگوں کو عہدے نہ ملنے پر نا خوش ہیں. میرا اس بارے میں یہی خیال ہے کہ جس جس نے تو عمران خان کا اس لئیے ساتھ دیا تھا کہ وہ ملک کو ٹھیک کرے تو وہ کام تو ہو رہا ہے اور ہم سال یا دو سال کے عرصے میں بڑی تبدیلی دیکھنے جا رہے ہیں مگر جن لوگوں نے اس لئیے عمران خان کا ساتھ دیا کہ وہ ان کی مرضی سے لوگ تعینات کریں، تو ان کی جدوجہر ابھی جاری ہے...
فقط.
محمد کاشف احسان