جہاں پوری دنیا اس وقت کرونا وائرس کی وباء سے صف آراء ہے وہی پاکستانی قوم وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی قیادت میں اس سے فیصلہ کن جنگ لڑنے اور اسے شکست دینے کیلئے صف بندی کررہی ہے۔
اس وباء نے چائیہ سمیت چند ملکوں کو اچانک اپنے شدید لپیٹ لیا جس کی وجہ سے انکو اسکے خلاف تیاری کے لئے اتنا وقت نہی ملا۔ بہرحال پوری دنیا کے لئے اچھی خبر یہ کہ چائینہ نے اس موذی مرض کے خلاف اپنی جنگ جیت لی ہے اور وہ اب اپنی لڑائی کے تجربے کیساتھ پوری دینا کی مدد کر رہا ہے۔
اس ضمن میں پاکستان کیلیے حوصلہ افزا بات یہ کہ چائینہ کا ہمسایہ ہونے اور اس کیساتھ گہرے معاشی، سماجی، و تعلیمی تعلقات ہونے کے باوجود وہاں سے کرونا یہاں منتقل نہی ہوا۔ یہ محض اتفاق یا خوش قسمتی نہی بلکہ دونوں ملکوں کی قیادت کے بھروقت دانشمندانہ فیصلہ ہیں اور اس پہ من و عن عمل درآمد ہے۔
ایک اندازہ کے مطابق چائینہ میں پاکستان کے عنقریب 28000 طلباء و طالبات ریر تعلیم ہیں۔ کاروباری حضرات، نوکری پیشہ افراد و دیگر اس کے علاوہ ۔ جب چائنیہ میں وباء پھیلی تو دونوں ملکوں نے درجہ ذیل اہم اور بھروقت فیصلے کرکے وائریس کو پاکستان آنے سے روک دیا؛
1۔ چائینہ میں مقیم پاکستانی افراد بالخصوص 28000 کے لگ بھگ طلباء و طالبات کو چاینیہ میں ہی ٹھرانے کی انتہائی اہم پالیسی بھروقت بنائی گئی اور اس پہ من و عن عمل کیا گیا۔ اس کیساتھ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ جن افراد کا پاکستان آنا مقصود وہ ان کو پہلے چاینیہ میں ہی 14 دن کے قرنطینیہ میں رکھا جائے اور علامات ظاہر نہ ہونے کی صورت میں یا مرض کی تشخیص نہ ہونے صورت میں ہی پاکستان آنے دیا جائے۔ اور اس پہ بھی من و عن عمل ہوا۔ اگر حکومت اس کے اعداد شمار جمع کرکے عوام کو بتائے تو ہی ہمیں اس کے حجم اور اہمیت کا اندازہ ہوگا کیونکہ بظاہر یہ ایک معملوی کام نظر آتا ہے مگر اس کو پائی تکمیل پہ پہنچانا وہ بھی ایمرجنسی کی صورت حال میں بہت بڑا معرکہ ہے۔
2۔دوسرا اہم فیصلہ چائینیہ کیساتھ زمینی راستہ بند کرنا اور ہوائی جہازوں کی آمد و رفت معطل کرنا۔ اس سے بھی وائریس کی منتقلی روکنے میں بڑی مدد ملی۔
ان دو فیصلوں پہ جہاں طلباء و طالبات کے والدین نے سخت ناپسندیگی کا اظہار کیا وہی حزب اختلاف نے بھی اپنی پوری سیاست کی۔ مگر وقت نے بتا دیا ان فیصلوں کی وجہ نہ وہ طلباء و طالبات محفوظ رہے بلکہ ان کے خاندان اور پاکستانی قوم بھی اس وباء سے محفوظ رہی کیونکہ اب تک ایک بھی کرونہ کا کیس چائینہ سے پاکستان منتقل نہی ہو۔
اس کا اضافی فایدہ یہ ہوا کہ حکومت پاکستان کو مناسب وقت ملا کہ وہ دنیا سے اس مرض کی سکریننگ اور تشخیص کا سامان لے اور متعلقہ اداروں اور مقامات پہ لگادے۔ سکریننگ کے آلات ائرپورٹس پہ لگادیے گئے اور تشخیص کے الات متعلقہ ہسپتالوں میں۔
وفاقی حکومت کی بھروقت اور دانشمندانہ فیصلوں کی وجہ ملک اس قابل ہوا کہ وہ اس مرض کی سکریننگ اور تشخیص کرسکے۔ ورنہ دو مہینے پہلے ہمارے کسی سرکاری ہسپتال تو کجا اچھے سے اچھے پرائیویٹ ہسپتال میں بھی یہ سہولت موجود نہی تھی۔
15 فروری20 کو یہ وباء ہمارے دوسرے ہمسایہ ملک ایران میں پھوٹ گیا، اور یہاں اس کی شدت چائینہ سے بھی زیادہ نکلی۔ پاکستان سے ہزاروں زائرین جو پہلے سے وہاں موجود تھے وہ بھی اس کے زیر عتاب آگئے۔ وباء اس قدر تیزی سے پھیل گیا کہ ایران کے پاس اپنے لوگوں کی سنبھالنے کے وسائل نہی رہے۔ اعداد و شمار اس کی گواہی دیتے ہیں۔ چنانچہ ایرانی حکومت نے پاکستانی زائرین کو تافتان کے سرحد پہ لاکھڑا کیا۔ یہ کوئی چند زائرین نہی تھے اور نہی صرف نوجوان۔ یہ ہزاروں تھے جن میں بچے بوڑھے، خواتین سب شامل تھے۔ یہ کچھ روز اپران-پاکستان سرحد پہ پھنس کر رہ گئے۔ آخرکار پاکستان اپنے شہریوں پہ اپنے ہی دروازے بند کرکے آنکھیں نہی چرا سکتا تھا۔ نہی ہمسایہ ملک میں یہ استطاعت تھی کہ وہ ہماری درخواست پہ انکو سنبھال سکتا، یقینی طور اگر ایران کے پاس چائینہ جیسی استطاعت ہوتی تو وہ زائرین کو کبھی پاکستان نہی بیچتا بلکہ اسی طرح خیال رکھتا جس طرح چاینیہ نے ہمارے طلباء و طالبات کا رکھا۔
حکومت پاکستان نے اپنے شہریوں کے لئے اپنی سرحد کھولنے کا فیصلہ کیا جوکہ ریاست کا بنیادی فرض تھا۔ اور یہاں سے زائرین اور حکومت بلوچتستان ، پوری قوم کی اس وباء کیخلاف جنگ میں، ہر اول دستے کا کردار شروع ہوا۔
حکومت بلوچستان کا اہم کردار یہ کہ اس نے خندہ پیشاتی نے یہ بیڑا اٹھالیا کہ مختلف صوبوں کے ہزاروں زائرین کو اپنی زمین پہ چودہ دنوں تک قرنطینیہ میں رکھے گا۔ یہ بہت اہم فیصلہ اور زمہ داری تھی۔ کیونکہ جہاں ایک طرف ایران میں سینکڑوں ہلاکتیں جاری تھی تو دوسری طرف تفتتان کے ریگستان میں لوگ اس کے شدید نتائیج سے بہرحال محفوظ رہے اور تیسری طرف جن کو مرض لاحق تھا اس سے پورا پاکستان بچا رہا۔
زرا سوچیں اگر بلوچستان حکومت ہاتھ کھڑے کرتی، اور تمام صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے شہری لیجانے کا کہتی تو کیا سندھ کا وزیر اعلی مراد علی شاہ 28 فروری کو تیار تھا کہ وہ سندھ کے ہزاروں زائرین کو کہیں قرنطینیہ میں رکھ سکے. بالکل بھی نہی تھا کیونکہ سند حکومت نے اپنی کرونا ٹاسک فورس ہی 27 فروری کو بنانے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ بلوچستان کے وزیر اعلی جام کمال نے گھنٹوں میں 5000 خیموں پہ مشتمل خیمہ بستی بناکر وہاں پہلے مرحلے میں سند کے 2000 زائرین کے قیام کا بندوبست کیا جو 3 مارچ کو وہاں خیمہ زن ہوئے۔ ہوسکتاہے کچھ انظامات بہتر کیے جاسکتے تھے مگر شاید جب اتنے دورافتادہ علاقے میں ہزاروں افراد کے قیام، طعام، پانی، واش روم کا بندوبست کرنا ہو وہ بھی گھنٹوں میں تو یقینی طور کچھ کمی بیشی رہ گئی ہوگی۔ بلوچستان حکومت سے شاید غلطی یہ ہوئی کہ اس عمل کو ٹی وی چینیلز اور سوشل میڈیا کی زینت بنا نہ سکے اس طرح ہی تو شاید لوگ اندازہ لگاسکتے کہ یہ کتنا کٹھن سنگ میل تھا۔
زائرین کا اہم کردار یہ رہا کہ ایران میں کئی روز مشکلات و مصائب سہنے کے باوجود یہ لوگ حکومت سے بھرپور تعاون کرتے رہے، یقننی طور ان کو وہ معیاری سہولیات نہی ملی ہونگی جو عام حالات میں مل سکتی مگر اس کے باوجود انہوں نے بڑے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اور حکومت و انتظامیہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ ورنہ وہ اگر ایک ہجوم کیطرح ردعمل دیتے تو بذور بازو ہزاروں لوگوں کو سنبھالنا ناممکن تھا بالخصوص جب ہجوم میں بزرگ، خواتین، و بچے شامل ہوں۔ اور یہ سب مشکلات انہوں نہ صرف اپنے لئے سہے بلکہ پورے پاکستان کے لئے سہے۔
جیسے تیسے زائرین نے وہاں وقت گزارہ اور بلوچستان حکومت نے انتظام سنبھالا، دوسرے وزاء اعلی اور صوبائی حکومتوں کو دو ہفتوں سے زائد کا وقت میسر ہوا کہ وہ جگہ جگہ قرنطینیہ مراکز بناتے۔ صوبہ سند کو اتنا موقع ملا کہ اس نے نہ صرف اس کی پوری تشہیری سٹریجی بنائی بلکہ اسکو میڈیا کے ساتھ ملکر عوام کی ذہن سازی میں استعمال کرسکی۔ جس کی وجہ سے جس بلوچستان حکومت نے کم وقت میں بڑا بیڑا اٹھایا تھا وہی میڈیا و عوام کی نظر میں قصور وار ٹھہری۔
بہرحال وقت بتادیگا کہ چین کے بھرپور تعاون ، وفاق کی دانشمندی و بھروقت فیصلہ سازی ، بلوچستان حکومت کا بڑاپن اور پس پردہ حقیقی انسانی خدمت اور زائرین کی صبرو استقامت سے دوسرے صوبوں اور پورے پاکستان کو جو دو ہفتوں سے زائد تیاری کا وقت ملا ہے وہ پاکستانی قوم کی کرونا سے جنگ میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوگا۔
اس کے لئے میں دل کی گہرائیوں سے کہنا چاہتا ہوں
شکریہ چانیئہ، شکریہ زائرین، شکریہ حکومت بلوچیستان!
پاکستان کی کرونا وباء سے جنگ میں ہر اول دستہ بننے پہ شکریہ!
اور ہماری قوم اس جنگ میں جناب وزیر اعظم کی قیادت میں اللہ کی مدد سے سرخرو ہوگی، انشاءاللہ!