
تحریکِ آذادی کشمیر
مسئلہ کشمیر درحقیقت ایک نہایت پچیدہ مسئلہ ہے ، لیکن بھارت اور اقوام عالم کو اس کی پچیدگی کا صیح سے ادراک نہیں ہے ۔ اور اپنے غلط اندازوں کی وجہ سے بھارت ہمیشہ ناکام رہا ہے ۔ بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرکے اسے بھارت میں ضم کرنے کی کوششوں میں کئی دہائیاں صرف کر دی، لیکن وہ اپنے اس سفاکانہ ارادے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے مسئلہ کشمیر کوئی جغرافیائی مسئلہ نہیں ہے جو جبری طور پر حل کرلیا جائے ، درحقیقت یہ مسئلہ ہے کشمیر کی عوام کا ، ان کی تاریخ کا، مذہب اور ثقافت کا، قصہ مختصر ان کی آئیڈیالوجی کا ، جسے کسی بھی طور پر کوئی بیرونی طاقت بدل نہیں سکتی ۔ مسئلہ کشمیر ایک زمین کے ٹکڑے کا نہیں ، بلکہ ایک قوم کا مسئلہ ہے ۔ ایک بہادر اور غیور قوم کا مسئلہ ۔ ذرا سوچیے کہ سات دہائیوں پر محیط طویل ظلم و جبر سہنے والے کشمیر کی آئیڈیالوجی کس قدر پختہ اور اٹل ہوگی ؟ کشمیر میں ہر دن کربلا ہے اور وہاں ہر کشمیری حسینؓ کی طرح ڈٹا ہوا ہے اور ہر ظلم سہنے کے باوجود بھارت کی بیعت کرنے کو تیار نہیں ۔
پاکستان اس مسئلے کا سب سے اہم حصہ ہے ۔ تقسیمِ ھند کے وقت لارڈ ماونٹ بیٹن نے برصغیر میں موجود آزاد ریاستوں کو حق خودرادیت دینے کا فیصلہ کیا کہ خودمختار ریاستیں جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر لیں ۔ یہ الحاق ان ریاستوں کی عوام کی خواہش کے عین مطابق ہونا چاہیے اور خلاف ورزی کی صورت میں ان ریاستوں کے حکمرانوں کو اقتدار سے دستبردار ہونا ہو گا ۔ کشمیر ، حیدرآباد ، جونا گڑھ اور چند اور مسلم اکثریت والی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا فیصلہ کیا ۔ لیکن بھارت نے نہ صرف کشمیر بلکہ مذکورہ بالا تمام ریاستوں پر غاصبانہ قبضہ کیا جو ابھی تک قائم ہے ۔ یوں بھارت نے معرضِ وجود میں آتے ہی بین الاقوامی قوانین اور جمہوری تقاضوں کی دھجیاں بکھیرنا شروع کر دیں اور یہ عمل ابھی تک جاری و ساری ہے ۔ بھارت نے کشمیر پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دیئے ، لیکن پھر بھی کشمیریوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت نہ نکال سکا ۔ پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔
اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اٹھارہ قراردادیں منظور کی۔ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو ان کا حق خودرادیت دلانے کیلئے plebisite کروانے کا فیصلہ کیا ، لیکن ہر بار بھارت نے اقوامِ متحدہ اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کی۔ اور اقوام عالم کی منافقت کا عالم یہ تھا کہ بھارت کے جھوٹ پر قائم رائزنگ انڈیا کے گن گاتے رہے ۔ اور ماسوائے پاکستان ، پوری دنیا نے مسئلہ کشمیر پر اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔
مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے دونوں ملکوں کے مابین امن مذاکرات کی ناکام کوششیں بھی ہوتی رہی اور جنگیں بھی ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر دبتا گیا ، یہاں تک کہ پاکستان میں بھی مسئلہ کشمیر پر شاز و نادر ہی کوئی کالم اخبارات میں چھپتا اور کشمیر کے حوالے سے چند رسمی پروگرام ٹیلیویژن پر نشر کئے جاتے ۔
وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی مسئلہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ موجود دیگر مسائل کے حل کیلئے بھارت کو متعدد بار امن مذاکرات کی پیشکش کی گئی جو ہر بار ٹھکرائی گئیں ۔
گزشتہ برس مودی حکومت نے ایک بڑی پیش رفت کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حثیت کا نفاذ کرنے والے آرٹیکل 370 اور 31A کا خاتمہ کیا ۔ آر ایس ایس کے غنڈے نے اپنی معاشی تباہی سے بھارتی عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے مقبوضہ وادی پر تاریخ کا سب سے گھناؤنا کرفیو نافذ کردیا ۔ مقبوضہ وادی سے ہر طرح کے ذرائعِ مواصلات کو بند کیا گیا ، اسی لاکھ کشمیریوں پر آٹھ لاکھ کی بھارتی فوج نافذ کرکے ، کشمیریوں کو ان کے گھروں میں محصور کرکے مقبوضہ وادی کو بھارتی فوج کی چھاونی بنا دیا ۔ اس کرفیو کے پیچھے مودی نے نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کا منصوبہ بنایا تھا ۔ مودی اور آر ایس ایس کے غنڈوں کا منصوبہ نہایت خطرناک تھا ، لیکن اس منصوبے کو پاکستان کی حکومت اور عوام نے ناکام بنا دیا ۔ مودی کا خیال تھا کہ گجرات کے مسلمانوں کی نسل کشی کی طرح کشمیر میں بھی مسلمانوں کی نسل کشی کرے گا اور پاکستان خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہے گا ۔ لیکن وزیراعظم عمران خان کی بروقت حکمتِ عملی ، پاکستان کی عوام بالخصوص اوور سیز پاکستانی ، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، تمام مکاتبِ الافکر سے تعلق رکھنے والی مذہبی جماعتیں اور ہر زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد ، شوبز شخصیات اور اقلیتوں نے جس طرح ایک پرچم کے سائے تلے متحد ہو کر مودی کا سفاکانہ منصوبہ ناکام بنایا ، ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی عوام اور آزاد کشمیر کی حکومت کو مسئلہ کشمیر پر متحد کیا ، قوم اور دنیا کو مودی اور آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی سے آگاہ کیا ، آر ایس ایس اور جرمنی کے نازی کے نظریے کو منظرِ عام پر لائے ۔ اس سٹڈی کی بدولت پوری قوم اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر کشمیریوں کے حق میں یک زبان ہو گئی ۔
پاکستان کے یومِ آزادی کو بطورِ یومِ یکجہتی کشمیر اور بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں نے منایا ۔ وزیراعظم کی کال پر قوم کے جم غفیر نے اسلام آباد میں کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے اکھٹے ہوئے ۔ ہر جمعہ کو تیس منٹ کیلئے کشمیر سے یکجہتی کیلئے باہر نکلنے کی پالیسی اپنائی ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پاکستانیوں نے کشمیر کے حق میں ریلیاں نکالی گئ۔ بہت کم عرصہ میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں قوم نے بھارت کے رائزنگ انڈیا کے امیج کو تباہ کیا ، مودی اور بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لائے ۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر پاکستانی سوشل میڈیا ٹیمز نے دن رات محنت کرکے ، مسلسل جاگ کر کشمیر کے حق میں کئی ورلڈ ٹاپ ٹرینڈز کر کے تصویروں ، ویڈیو اور رپورٹس کی شکل میں دنیا کے سامنے کشمیر پر ہونے والے ظلم رپورٹ کیا گیا ، بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لایا ۔ اور دنیا سے حقائق کو چھپانے والے بھارت نے ٹویٹر کمپنی سے ملی بھگت کر کے مجھ سمیت سینکڑوں پاکستانیوں کے ٹوئیٹر اکاونٹس ڈیلیٹ کروا دئیے ۔ لیکن سلام پاکستانی قوم کے جذبے کو کہ نئے اکاونٹس بنا بنا کر دنیا کے سامنے بھارت کو بے نقاب کرنے پر ڈٹے رہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے دنیا کو بتایا کہ ہٹلر اور مودی ایک ہی نظریے کے دو لوگ ہیں ، اس سٹڈی نے پوری دنیا میں ہلچل پیدا کر دی ۔ وزیراعظم نے دنیا کو خبردار کیا کہ بھارت کو مارکیٹ ویلیو سمجھ کر مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیار کرنا ایک عالمی حماقت ہوگی۔ مودی نے جو آگ کشمیر میں لگائی ہے اس کے شعلے پوری دنیا تک پہنچے گے ۔
وزیراعظم کے بار بار خبردار کرنے پر اقوامِ متحدہ نے نے ایک طویل مدت کے بعد مسئلہ کشمیر پر کانفرنس منعقد کی، پہلی مرتبہ یورپی یونین اور برٹش پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر کے حق میں قراردادیں پاس کی۔ امریکی کانگریس ، جرمن چانسلر ، بین الاقوامی صحافی ، اتھلیٹیس ، مختلف ممالک کے بیوروکریٹس اور سیاستدانوں سمیت امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر بات کی۔
وزیراعظم عمران خان نے برادر اسلامی ممالک سے رابطے تیز کئے ، انہیں مسئلہ کشمیر کی سنگینی کے متعلق آگاہ کیا اور نتیجتاً بین الاقوامی سطح پر پاکستان ہمیشہ کی طرح کشمیر کے معاملے میں سفارتی تنہائی کا شکار نہیں ہوا ۔ ترکی اور ملائیشیا عالمی سطح پر کشمیر کی آواز بن گئے ، کوالالمپور سمٹ اسی اتحاد کا ایک ثمر تھی ۔ اس کے علاوہ پاکستان کی مضبوط خارجہ پالیسی کی بدولت چائنا اور روس نے بھی پہلی بار مسئلہ کشمیر پر بات کی۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے امریکی دوروں کے دوران بین الاقوامی میڈیا کو متعدد انٹرویو دیئے ، پریس کانفرنسیں کی اور مسئلہ کشمیر کو مزید بلند کیا ۔ اور پہلی مرتبہ بین الاقوامی میڈیا مسئلہ کشمیر پر بات کرنے لگا ، فاشسٹ مودی اور ہٹلر مودی جیسے جملے نیویارک ٹائمز ، دی گارڈین اور الجزیرہ جیسے بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی شہہ سرخیاں بننے لگے ۔
ہوسٹن ہو یا واشنگٹن ، جلسے ہوں یا پریس کانفرنس ، غیر ملکی سیاسی شخصیات سے ملاقات ہو یا امریکی صدر سے ملاقات ، وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر کو نہایت موثر انداز میں پیش کیا ۔ اور صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کو لے کر بھارت پر ایک ممکنہ دباؤ بھی ڈالا تھا جو کم از کم اقوامِ عالم کے سامنے مسئلہ کشمیر کو مذید بلند کرنے کیلئے کافی تھا ۔
اوور سیز پاکستانیوں نے اقوامِ متحدہ کے ۷۴ اجلاس کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے دفتر کے باہر مودی کے خلاف مظاہرے کئے ، امریکہ سمیت دنیا بھر میں اوور سیز پاکستانیوں نے بھارتی ہائی کمیشن کے دفتر اور بھارتی قونصل خانوں کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرایا اور اس کی بدولت وہاں کے مقامی افراد کو مسئلہ کشمیر پر ہونے والے ظلم بازگشت سنائی دی۔
وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی اور کشمیری عوام کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ خود کو کشمیر کا سفیر بن کر ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اٹھائیں گے ۔ اور وزیراعظم عمران خان نے بلاشبہ خود کو کشمیر کا سفیر ثابت کیا ۔
اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی دو ٹوک پالیسی کو دنیا کے سامنے واضح کیا۔
"اگر اپنے سے سات گنا بڑے ملک سے اگر پاکستان کی جنگ ہوتی ہے تو آپ سوال کرتے ہیں کہ ہم سرانڈر کریں گے یا آخری وقت تک لڑیں گے ؟ میں خود سے یہ سوال کرتا ہوں تو میرا یہ یقین ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہم آخری حد تک لڑیں گے "۔
وزیراعظم نے اقوامِ متحدہ میں پورے تئیس منٹس پر مسئلہ کشمیر پر موثر گفتگو کی۔ اور اس تقریر کے بعد کرفیو توڑ کر مقبوضہ کشمیر میں لوگ باہر نکل آئے ، عمران خان زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعروں سے مقبوضہ وادی گونج گئی اور اگلے کئی دن تک وادی میں جگہ جگہ وزیراعظم عمران خان کے پوسٹر آویزاں کئے گئے ۔ بیرونِ ملک مقیم کشمیریوں نے کہا کہ جس طرح وزیراعظم عمران نے کشمیر کا مقدمہ لڑا ، آج تک کسی نے نہیں لڑا۔
وزیراعظم عمران خان اور پاکستانی قوم نے مسئلہ کشمیر پر مضبوط انفارمیشن وار لڑی اور اس جنگ میں کامیاب بھی ہوئے ۔ مسئلہ کشمیر انٹرنیشنلائز ہو گیا۔ بھارت کبھی نہیں چاہتا تھا کہ مسئلہ کشمیر دنیا کے سامنے آئے ، وہ کشمیر کو بھارت کا داخلی مسئلہ کہتا آیا تھا ، لیکن پاکستان نے بھارت کے اس موقف کو شکست دی۔
کشمیر کاز کا گراف تیزی سے اوپر جا رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمن اور کرپشن الائنس نے اقتدار کے لالچ میں معصوم مدرسے کے طلبا کو لے کر سڑکوں پر نکل آئے ، دھرنا دے کر طرح طرح کے ڈرامے رچا کے متعدد بار ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا ۔ اس سے حکومت یا عمران خان کو تو براہ راست کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن کشمیر کاز دب گئی ، کشمیر کاز پر عوام کا جو تسلسل بنا ہوا تھا وہ ٹوٹ گیا ۔ اور ابھی کرونا سے جنگ لڑنے کے بعد پھر سے کشمیر کاز کو اٹھانے کی ملکی سطح پر کوششیں ہو رہی ہیں تو مولانا فضل الرحمن اینڈ کمپنی نے پھر سے اس کاز کو نقصان پہچانے کیلئے سرگرمیاں شروع کر دی ہیں ۔ تاریخ اور کشمیری قوم ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
حال ہی میں پاکستان نے کشمیر کاز کو پھر سے شروع کرنے کیلئے سب سے پہلا اور شاندار اقدام پاکستان کے نئے نقشے کو دنیا کے سامنے لا کر کیا ۔ پاکستان کے نئے نقشے میں مقبوضہ کشمیر اور جونا گڑھ کو پاکستان کا حصہ دکھانے پر بھارت میں صف ِ ماتم بچھ گیا تھا ۔ اور رہی سہی کسر آئی ایس پی آر کے نغمہ جا چھوڑ دے میری وادی نے پوری کر دی۔
آزاد کشمیر کی حکومت سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ مودی نے کشمیر کے معاملے میں اسٹریٹیجک حماقت کی ہے ۔ مودی پھنس چکا ہے ، کشمیر کی آزادی قریب ہے ۔ مسئلہ کشمیر کو انٹرنیشنلائز کرنے سے مودی چاہنے کے باوجود کشمیریوں کی نسل کشی نہیں کر سکا اور کشمیر کاز کا یہ سب سے اہم مقصد تھا جو حاصل ہوا ۔
ہمارے چند پاکستانیوں کو شکوہ ہے کہ اس طرح کشمیر آزاد نہیں ہوسکتا ، کشمیر صرف جنگ سے ہی آزاد ہوگا ،تو میں ان کو بتانا چاہوں گی کہ پاکستان بھی کسی جنگ سے آذاد نہیں ہوا تھا ، تحریکِ پاکستان بھی درحقیقت ایک انفارمیشن وار تھی ۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ تاریخ ایک مرتبہ پھر سے خود کو دوہرا رہی ہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے لڑنا پڑا تو خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے ۔ اگر سارے فورمز استعمال کرنے کے بعد کشمیر آزاد نہ ہوا تو جنگ آخری آپشن تو ہو سکتا ہے لیکن پہلا آپشن نہیں۔ اور پیارے پاکستانیوں آج کے دور میں سب سے مشکل محاذ انفارمیشن کی جنگ لڑنا ہے ، انفارمیشن وار میں جیت جائیں تو کنونشنل وار لڑنا مشکل نہیں رہتا ۔
تحریر : طیبا سید
پاکستان اس مسئلے کا سب سے اہم حصہ ہے ۔ تقسیمِ ھند کے وقت لارڈ ماونٹ بیٹن نے برصغیر میں موجود آزاد ریاستوں کو حق خودرادیت دینے کا فیصلہ کیا کہ خودمختار ریاستیں جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر لیں ۔ یہ الحاق ان ریاستوں کی عوام کی خواہش کے عین مطابق ہونا چاہیے اور خلاف ورزی کی صورت میں ان ریاستوں کے حکمرانوں کو اقتدار سے دستبردار ہونا ہو گا ۔ کشمیر ، حیدرآباد ، جونا گڑھ اور چند اور مسلم اکثریت والی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا فیصلہ کیا ۔ لیکن بھارت نے نہ صرف کشمیر بلکہ مذکورہ بالا تمام ریاستوں پر غاصبانہ قبضہ کیا جو ابھی تک قائم ہے ۔ یوں بھارت نے معرضِ وجود میں آتے ہی بین الاقوامی قوانین اور جمہوری تقاضوں کی دھجیاں بکھیرنا شروع کر دیں اور یہ عمل ابھی تک جاری و ساری ہے ۔ بھارت نے کشمیر پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دیئے ، لیکن پھر بھی کشمیریوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت نہ نکال سکا ۔ پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔
اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اٹھارہ قراردادیں منظور کی۔ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو ان کا حق خودرادیت دلانے کیلئے plebisite کروانے کا فیصلہ کیا ، لیکن ہر بار بھارت نے اقوامِ متحدہ اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کی۔ اور اقوام عالم کی منافقت کا عالم یہ تھا کہ بھارت کے جھوٹ پر قائم رائزنگ انڈیا کے گن گاتے رہے ۔ اور ماسوائے پاکستان ، پوری دنیا نے مسئلہ کشمیر پر اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔
مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے دونوں ملکوں کے مابین امن مذاکرات کی ناکام کوششیں بھی ہوتی رہی اور جنگیں بھی ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر دبتا گیا ، یہاں تک کہ پاکستان میں بھی مسئلہ کشمیر پر شاز و نادر ہی کوئی کالم اخبارات میں چھپتا اور کشمیر کے حوالے سے چند رسمی پروگرام ٹیلیویژن پر نشر کئے جاتے ۔
وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی مسئلہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ موجود دیگر مسائل کے حل کیلئے بھارت کو متعدد بار امن مذاکرات کی پیشکش کی گئی جو ہر بار ٹھکرائی گئیں ۔
گزشتہ برس مودی حکومت نے ایک بڑی پیش رفت کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حثیت کا نفاذ کرنے والے آرٹیکل 370 اور 31A کا خاتمہ کیا ۔ آر ایس ایس کے غنڈے نے اپنی معاشی تباہی سے بھارتی عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے مقبوضہ وادی پر تاریخ کا سب سے گھناؤنا کرفیو نافذ کردیا ۔ مقبوضہ وادی سے ہر طرح کے ذرائعِ مواصلات کو بند کیا گیا ، اسی لاکھ کشمیریوں پر آٹھ لاکھ کی بھارتی فوج نافذ کرکے ، کشمیریوں کو ان کے گھروں میں محصور کرکے مقبوضہ وادی کو بھارتی فوج کی چھاونی بنا دیا ۔ اس کرفیو کے پیچھے مودی نے نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کا منصوبہ بنایا تھا ۔ مودی اور آر ایس ایس کے غنڈوں کا منصوبہ نہایت خطرناک تھا ، لیکن اس منصوبے کو پاکستان کی حکومت اور عوام نے ناکام بنا دیا ۔ مودی کا خیال تھا کہ گجرات کے مسلمانوں کی نسل کشی کی طرح کشمیر میں بھی مسلمانوں کی نسل کشی کرے گا اور پاکستان خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہے گا ۔ لیکن وزیراعظم عمران خان کی بروقت حکمتِ عملی ، پاکستان کی عوام بالخصوص اوور سیز پاکستانی ، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، تمام مکاتبِ الافکر سے تعلق رکھنے والی مذہبی جماعتیں اور ہر زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد ، شوبز شخصیات اور اقلیتوں نے جس طرح ایک پرچم کے سائے تلے متحد ہو کر مودی کا سفاکانہ منصوبہ ناکام بنایا ، ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی عوام اور آزاد کشمیر کی حکومت کو مسئلہ کشمیر پر متحد کیا ، قوم اور دنیا کو مودی اور آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی سے آگاہ کیا ، آر ایس ایس اور جرمنی کے نازی کے نظریے کو منظرِ عام پر لائے ۔ اس سٹڈی کی بدولت پوری قوم اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر کشمیریوں کے حق میں یک زبان ہو گئی ۔
پاکستان کے یومِ آزادی کو بطورِ یومِ یکجہتی کشمیر اور بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں نے منایا ۔ وزیراعظم کی کال پر قوم کے جم غفیر نے اسلام آباد میں کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے اکھٹے ہوئے ۔ ہر جمعہ کو تیس منٹ کیلئے کشمیر سے یکجہتی کیلئے باہر نکلنے کی پالیسی اپنائی ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پاکستانیوں نے کشمیر کے حق میں ریلیاں نکالی گئ۔ بہت کم عرصہ میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں قوم نے بھارت کے رائزنگ انڈیا کے امیج کو تباہ کیا ، مودی اور بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لائے ۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر پاکستانی سوشل میڈیا ٹیمز نے دن رات محنت کرکے ، مسلسل جاگ کر کشمیر کے حق میں کئی ورلڈ ٹاپ ٹرینڈز کر کے تصویروں ، ویڈیو اور رپورٹس کی شکل میں دنیا کے سامنے کشمیر پر ہونے والے ظلم رپورٹ کیا گیا ، بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لایا ۔ اور دنیا سے حقائق کو چھپانے والے بھارت نے ٹویٹر کمپنی سے ملی بھگت کر کے مجھ سمیت سینکڑوں پاکستانیوں کے ٹوئیٹر اکاونٹس ڈیلیٹ کروا دئیے ۔ لیکن سلام پاکستانی قوم کے جذبے کو کہ نئے اکاونٹس بنا بنا کر دنیا کے سامنے بھارت کو بے نقاب کرنے پر ڈٹے رہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے دنیا کو بتایا کہ ہٹلر اور مودی ایک ہی نظریے کے دو لوگ ہیں ، اس سٹڈی نے پوری دنیا میں ہلچل پیدا کر دی ۔ وزیراعظم نے دنیا کو خبردار کیا کہ بھارت کو مارکیٹ ویلیو سمجھ کر مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیار کرنا ایک عالمی حماقت ہوگی۔ مودی نے جو آگ کشمیر میں لگائی ہے اس کے شعلے پوری دنیا تک پہنچے گے ۔
وزیراعظم کے بار بار خبردار کرنے پر اقوامِ متحدہ نے نے ایک طویل مدت کے بعد مسئلہ کشمیر پر کانفرنس منعقد کی، پہلی مرتبہ یورپی یونین اور برٹش پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر کے حق میں قراردادیں پاس کی۔ امریکی کانگریس ، جرمن چانسلر ، بین الاقوامی صحافی ، اتھلیٹیس ، مختلف ممالک کے بیوروکریٹس اور سیاستدانوں سمیت امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر بات کی۔
وزیراعظم عمران خان نے برادر اسلامی ممالک سے رابطے تیز کئے ، انہیں مسئلہ کشمیر کی سنگینی کے متعلق آگاہ کیا اور نتیجتاً بین الاقوامی سطح پر پاکستان ہمیشہ کی طرح کشمیر کے معاملے میں سفارتی تنہائی کا شکار نہیں ہوا ۔ ترکی اور ملائیشیا عالمی سطح پر کشمیر کی آواز بن گئے ، کوالالمپور سمٹ اسی اتحاد کا ایک ثمر تھی ۔ اس کے علاوہ پاکستان کی مضبوط خارجہ پالیسی کی بدولت چائنا اور روس نے بھی پہلی بار مسئلہ کشمیر پر بات کی۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے امریکی دوروں کے دوران بین الاقوامی میڈیا کو متعدد انٹرویو دیئے ، پریس کانفرنسیں کی اور مسئلہ کشمیر کو مزید بلند کیا ۔ اور پہلی مرتبہ بین الاقوامی میڈیا مسئلہ کشمیر پر بات کرنے لگا ، فاشسٹ مودی اور ہٹلر مودی جیسے جملے نیویارک ٹائمز ، دی گارڈین اور الجزیرہ جیسے بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی شہہ سرخیاں بننے لگے ۔
ہوسٹن ہو یا واشنگٹن ، جلسے ہوں یا پریس کانفرنس ، غیر ملکی سیاسی شخصیات سے ملاقات ہو یا امریکی صدر سے ملاقات ، وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر کو نہایت موثر انداز میں پیش کیا ۔ اور صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کو لے کر بھارت پر ایک ممکنہ دباؤ بھی ڈالا تھا جو کم از کم اقوامِ عالم کے سامنے مسئلہ کشمیر کو مذید بلند کرنے کیلئے کافی تھا ۔
اوور سیز پاکستانیوں نے اقوامِ متحدہ کے ۷۴ اجلاس کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے دفتر کے باہر مودی کے خلاف مظاہرے کئے ، امریکہ سمیت دنیا بھر میں اوور سیز پاکستانیوں نے بھارتی ہائی کمیشن کے دفتر اور بھارتی قونصل خانوں کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرایا اور اس کی بدولت وہاں کے مقامی افراد کو مسئلہ کشمیر پر ہونے والے ظلم بازگشت سنائی دی۔
وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی اور کشمیری عوام کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ خود کو کشمیر کا سفیر بن کر ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اٹھائیں گے ۔ اور وزیراعظم عمران خان نے بلاشبہ خود کو کشمیر کا سفیر ثابت کیا ۔
اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی دو ٹوک پالیسی کو دنیا کے سامنے واضح کیا۔
"اگر اپنے سے سات گنا بڑے ملک سے اگر پاکستان کی جنگ ہوتی ہے تو آپ سوال کرتے ہیں کہ ہم سرانڈر کریں گے یا آخری وقت تک لڑیں گے ؟ میں خود سے یہ سوال کرتا ہوں تو میرا یہ یقین ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہم آخری حد تک لڑیں گے "۔
وزیراعظم نے اقوامِ متحدہ میں پورے تئیس منٹس پر مسئلہ کشمیر پر موثر گفتگو کی۔ اور اس تقریر کے بعد کرفیو توڑ کر مقبوضہ کشمیر میں لوگ باہر نکل آئے ، عمران خان زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعروں سے مقبوضہ وادی گونج گئی اور اگلے کئی دن تک وادی میں جگہ جگہ وزیراعظم عمران خان کے پوسٹر آویزاں کئے گئے ۔ بیرونِ ملک مقیم کشمیریوں نے کہا کہ جس طرح وزیراعظم عمران نے کشمیر کا مقدمہ لڑا ، آج تک کسی نے نہیں لڑا۔
وزیراعظم عمران خان اور پاکستانی قوم نے مسئلہ کشمیر پر مضبوط انفارمیشن وار لڑی اور اس جنگ میں کامیاب بھی ہوئے ۔ مسئلہ کشمیر انٹرنیشنلائز ہو گیا۔ بھارت کبھی نہیں چاہتا تھا کہ مسئلہ کشمیر دنیا کے سامنے آئے ، وہ کشمیر کو بھارت کا داخلی مسئلہ کہتا آیا تھا ، لیکن پاکستان نے بھارت کے اس موقف کو شکست دی۔
کشمیر کاز کا گراف تیزی سے اوپر جا رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمن اور کرپشن الائنس نے اقتدار کے لالچ میں معصوم مدرسے کے طلبا کو لے کر سڑکوں پر نکل آئے ، دھرنا دے کر طرح طرح کے ڈرامے رچا کے متعدد بار ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا ۔ اس سے حکومت یا عمران خان کو تو براہ راست کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن کشمیر کاز دب گئی ، کشمیر کاز پر عوام کا جو تسلسل بنا ہوا تھا وہ ٹوٹ گیا ۔ اور ابھی کرونا سے جنگ لڑنے کے بعد پھر سے کشمیر کاز کو اٹھانے کی ملکی سطح پر کوششیں ہو رہی ہیں تو مولانا فضل الرحمن اینڈ کمپنی نے پھر سے اس کاز کو نقصان پہچانے کیلئے سرگرمیاں شروع کر دی ہیں ۔ تاریخ اور کشمیری قوم ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
حال ہی میں پاکستان نے کشمیر کاز کو پھر سے شروع کرنے کیلئے سب سے پہلا اور شاندار اقدام پاکستان کے نئے نقشے کو دنیا کے سامنے لا کر کیا ۔ پاکستان کے نئے نقشے میں مقبوضہ کشمیر اور جونا گڑھ کو پاکستان کا حصہ دکھانے پر بھارت میں صف ِ ماتم بچھ گیا تھا ۔ اور رہی سہی کسر آئی ایس پی آر کے نغمہ جا چھوڑ دے میری وادی نے پوری کر دی۔
آزاد کشمیر کی حکومت سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ مودی نے کشمیر کے معاملے میں اسٹریٹیجک حماقت کی ہے ۔ مودی پھنس چکا ہے ، کشمیر کی آزادی قریب ہے ۔ مسئلہ کشمیر کو انٹرنیشنلائز کرنے سے مودی چاہنے کے باوجود کشمیریوں کی نسل کشی نہیں کر سکا اور کشمیر کاز کا یہ سب سے اہم مقصد تھا جو حاصل ہوا ۔
ہمارے چند پاکستانیوں کو شکوہ ہے کہ اس طرح کشمیر آزاد نہیں ہوسکتا ، کشمیر صرف جنگ سے ہی آزاد ہوگا ،تو میں ان کو بتانا چاہوں گی کہ پاکستان بھی کسی جنگ سے آذاد نہیں ہوا تھا ، تحریکِ پاکستان بھی درحقیقت ایک انفارمیشن وار تھی ۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ تاریخ ایک مرتبہ پھر سے خود کو دوہرا رہی ہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے لڑنا پڑا تو خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے ۔ اگر سارے فورمز استعمال کرنے کے بعد کشمیر آزاد نہ ہوا تو جنگ آخری آپشن تو ہو سکتا ہے لیکن پہلا آپشن نہیں۔ اور پیارے پاکستانیوں آج کے دور میں سب سے مشکل محاذ انفارمیشن کی جنگ لڑنا ہے ، انفارمیشن وار میں جیت جائیں تو کنونشنل وار لڑنا مشکل نہیں رہتا ۔
تحریر : طیبا سید