
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہم نے اپنی سوچ چند چینلز اور چند اینکرز کو کیوں گروی رکھ دی ہے؟
میرے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ "اپنا سب کچھ delegate کر دو لیکن اپنے سوچنے کا عمل اور نظریات بنانے کا عمل کسی کو delegate ہرگز نہ کرو۔" اپنی سوچ ہمیشہ خود اپنی تحقیق، اپنے سوچ و بچار سے بناؤ۔
میں DW TV دیکھتا ہوں۔ 15 منٹ کے واچ ٹائم میں ایک دو نئی باتیں سیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ کوئی ٹاک شو ہو تو اس متعلقہ شعبے میں وسیع تجربہ رکھنے والے ہی ہونگے۔ اس شعبے کا کوئی PhD Academic ہوگا۔ اس شعبہ میں پالیسی اور قانون کا ماہر ہوگا۔ اس شعبہ میں کسی تنظیم کو سربراہ ہوگا۔ انتہائی ریسرچ کیئے گئے سوالات ہوں گے اور علم، تحقیق اور اعدادوشمار پہ مبنی جواب ہوں گے۔ مطلب کہیں بھی ایسے پروگرام میں جھوٹ کا عنصر نہیں ہوگا۔
ہمارا معاشرہ سستی، کاہلی اور ہڈ حرامی کا شکار ہو چکا ہے۔ علم اور تحقیق کا شوق نہیں ہے۔
میڈیا کے اینکرز بھی ہڈ حرام ہیں۔ گزشتہ 20 سال سے ایک ہی گھسا پٹا سا Format ہے جسے ہماری نوجوان نسل پر روزانہ استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک وقت تھا محلے کے فارغ ویلے بابے اور بے روز گار جوان تھڑوں پہ بیٹھ کر، چارپائیوں پہ بیٹھ کر یا چائے کے ہوٹلوں پہ بیٹھ کر بے مقصد اور بے معنی بحث کرتے تھے، وہی بحث اب ٹی وی پہ ہوتی ہے۔
اس قوم نے سکول کالج میں بھی پچھلے پانچ سالہ پرچے رٹے لگا کر سمجھا کر وہ تعلیم یافتہ ہو گئے ہیں۔ ایسے ہی ہمارا میڈیا بھی "ڈیجیٹل تھڑے" پہ بے مقصد اور بے معنی بحث اور بے مقصد تجزیہ کر کے سمجھتا ہے کہ قوم کو شعور مل رہا ہے۔
شعور تو نہیں مل رہا۔ بس ہڈ حرام میڈیا کو نوٹ مل رہے ہیں اور ہڈ حرام عوام کو catharsis اور بحث کی افیون مل رہی ہے۔