نون لیگ کی بیشتر قیادت بشمول سو کالڈ شریف برادران ضیائی ڈکٹیٹرشپ کی پیداوار ہیں۔ نوے کی دہائی اس لیڈر شپ اور پارٹی کے لیے بہترین تھی۔ نا سوشل میڈیا تھا اور ناہی الیکٹرانک میڈیا۔ صرف ایک پی ٹی وی تھا جس پر ہر روز پاکستان کے ایشین ٹائیگر بن جانے کی خبریں چلتی تھی۔ قانون موم کی ناک تھا، جب بھی کوئی بڑی رقم لانڈر کرنی ہوتی تھی کوئی ایکٹ پاس کرلیا جاتا تھا۔ پھر اس رقم کو وائٹ کرکے پاکستان لانے کے لیے ایمنیسٹیز دے دی جاتی تھی۔ غرض یہ یہ روای نون لیگ اور سوکالڈ شریف برادران کے لیے چین ہی چین لکھتا تھا۔
لیکن نوے کی دہائی کے اس سنہرے دور کی وجہ سے نون لیگ اور اس کی لیڈرشپ کو ایک نقصان بھی ہوا۔ وہ یہ کہ زمانہ آگے نکل گیا، نون لیگ اس کے لیڈران اور کٹر قسم کے سپورٹر نوے کی دہائی میں ہی رہ گئے۔ اور یہ نیچرل ہے بات ہے کہ انسان ہمیشہ اپنی سنہری یادوں اور سنہرے ماضی کے ساتھ وابستہ رہنا چاہتا ہے۔ اور یہی نون لیگ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام اب بھی نوے کی دہائی کی طرح لاعلم اور سیاست سے لاتعلق ہے۔ ہم دن کو رات کہیں گے تو عوام مان لیں گے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ اس کی ایک مثال کچھ یوں ہے کہ پانامہ کیس کے بعد سے دو سال ہوگئے نون لیگ کی تمام چھوٹی بڑی لیڈرشپ ایک ہی راگ الاپتی ہے کہ نواز شریف ڈکیت نہیں۔ لیکن یہ بات مخالفین تو چھوڑیں خود نواز شریف کے اپنے سپورٹرز کو بھی پتہ ہے کہ وہ ڈکیت ہے۔ جب نواز شریف کے حامی خود یہ کہتے ہیں کہ “کھاتا“ ہے تو لگاتا بھی ہے۔
اب آتے ہیں اصل نکتے کی طرف، دو دن پہلے نون لیگ نے قومی اسمبی میں ایک قرارداد پیش کی کہ جنوبی پنجاب میں دو صوبے بنائے جائیں۔ صوبہ بہاولپور اور صوبہ جنوبی پنجاب۔ کہنے کو تو یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔ کیونکہ small manageable units کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ لیکن نون لیگ نے یہ کام کوئی اچھی نیت سے نہیں کیا۔ ایک انتہائی اہم کام کو بھی صرف اپنی سیاست کے لیے متنازعہ بنانے اور حکومت کے لیے مشکل کھڑی کرنے کی کوشش کی۔ جنوبی صوبہ پنجاب کے قیام پر خود وہاں کے لوگ اور سیاستدان ہی آپس میں تقسیم ہیں۔ کوئی اس بات پر کے صوبائی دارلحکومت کون سا شہر ہوگا، کوئی اس بات پر کہ اس صوبے کا حدود اربع کیا ہوگا اور کوئی اس بات پر کہ ایک صوبے بننے چاہییں یا دو۔
سو نون لیگ کی اس قراردار کے بعد میں نے کچھ اس طرح کے ریمارکس سنے، “سرائیکیوں کی تقسیم نا منظور“ جنوبی پنجاب کی تقسیم نا منظور“ وغیرہ۔ نون لیگ کی بددیانتی اور منافقت کی دوسری مثال یہ ہے کہ شہباز شریف مسلسل دس سال تک پنجاب پر حکومت کرتا رہا۔ جنوبی پنجاب کے ہسپتالوں کا بجٹ بھی پنڈی اور لاہور کی میٹروز اور مالٹوں میں جھونک دیا۔ جنوبی صوبہ پنجاب کی بات تو دور کی بات جان بوجھ کر جنوبی پنجاب کو پسماندہ رکھا گیا۔ اس دوران اس کا بھائی وزیرِاعظم تھا۔ تحریکِ انصاف کے مقابلے میں پارلیمنٹ میں بھی زیادہ تعداد تھی تب یہ قراردار کیوں پیش ناکی؟ تب جنوبی پنجاب کا خیال کیوں ناآیا؟ آپ کے پاس اچھے خاصے ممبران تھے، قرارداد پیش کرتے اگر تحریک انصاف یا پیپلزپارٹی مخالفت کرتی تو عوام کے سامنے ایکسپوز ہوجاتے۔
مزید پیچھے چلیں جائیں، اس سے پہلے بھی نواز شریف دو بار وزیرِ اعظم بنے۔ ایک بار تو دو تہائی اکثریت بھی حاصل تھی کہ صوبہ بنانے کے لیے کسی بھی پارٹی کی مدد کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ سینٹ میں بھی اکثریت تھی لیکن کیا کبھی آپ نے نواز شریف کے منہ سے جنوبی صوبہ پنجاب کا لفظ سنا؟ کل ملا کے یہ دونوں بھائی چالیس سال سے کسی نا کسی طرح اقتدار کا حصہ ہیں۔ دونوں کے حصے میں ملا کر چار بار پنجاب کی وزارتِ اعلٰی اور تین بار ملک کی وزارتِ اعظمٰی آئی لیکن جنوبی پنجاب اور ملک سے الگ تھلگ ایک پسماندہ علاقہ ہی رہا۔
اب جبکہ اپنی حکومت نہیں رہی اور تحریکِ انصاف کی حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں اتنی تعداد ہی نہیں کہ اس سلسلے میں کوئی قانون سازی کرسکے تو نون لیگ کے دل میں جنوبی پنجاب کی محبت جاگ اٹھی۔ ایک نہیں دو صوبوں کی قرارداد پیش کردی۔ اب واپس چلتے ہیں اسی نکتے پر جہاں سے بات شروع کی تھی۔ نون لیگ اور اس کی تمام لیڈرشپ کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ اب بھی نوے کی دہائی میں ہی جی رہے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام جاہل، بے خبر اور بیوقوف ہے۔ یہی سوچ کر انہوں نے یہ صوبوں والی قرارداد پیش کی ہے۔ لیکن آپ کسی سے بھی پوچھ کر دیکھ لیں، آپ کو ایک ہی جواب ملے گا کہ نون لیگ نے اپنی سیاست کے ایک بار پھر جنوبی پنجاب پر ظلم کیا اور نئے صوبے بنانے کے علم کو متنازعہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن پھر بھی اپنا وعدہ پورا کرنے اور جنوبی پنجاب کی بہتری کے لیے تحریکِ انصاف کو ضرور کچھ کرنا ہوگا۔ (محمد تحسین)