Nazria Pasand Log - Insaf Blog | Pakistan Tehreek-e-Insaf
Nazria Pasand Log - Insaf Blog

 

سیاستدان کو تین قسم کے لوگ سپورٹ کرتے ہیں۔
1۔ مفاد پرست لوگ
2۔شخصیت پسند لوگ
3۔نظریہ پسند لوگ

جو لوگ اپنے مفاد کے لیے پارٹی میں گھس جاتے ہیں تو وہ صرف اپنا مفاد مقدم رکھتے ہیں پارٹی مفاد پر۔ جب بڑے بڑے عہدوں پر  بیٹھے لوگ ان مفاد پرست  لوگوں کے ہاتھوں لگ جاتے ہیں تو یہیں سے پارٹی کو نقصان پہنچنا شروع ہو جاتاہے۔ 

یوں پارٹی کیساتھ مخلص لوگ مایوس ہوکر سائیڈ پر ہوجاتے ہیں اور منافقین آگے آنے کا موقع مل جاتا۔ پارٹی سے مخلص لوگوں کی ہرگز پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ منافقین، مخلص لوگوں کے خلاف سازشیں شروع  ہوجاتے ہیں۔ وہ خود تو نااہل ہوتے ہیں کام کے ہوتے نہیں لیکن کام پالش اور برش سے لیتے ہیں اور بڑے عہدوں  پر بیٹھے لوگوں کی بےجا تعریفیں  ہوتی رہتی ہیں۔ عہداران اپنے تعریفوں کے سحر میں گم ہوجاتے ہیں اور چاپلوس منافقین پارٹی کو خاصہ نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ پارٹی مخلص لوگوں سے محروم ہوجاتی ہے اور عارضی طور پر نااہل اور پالش والے جیت جاتے ہیں۔ جس کو منافقین عزت سمجھتے ہیں۔

دوسری طرف شخصیت پسند لوگ ہوتے ہیں جن کا پارٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا بس شخصیت کے آگے پیچھے رہتے ہیں۔ جب بھی کوئی موقع آتا ہے تو وہ شخصیت کو ترجیح دیتے ہیں پارٹی کو نہیں۔ اس سے بھی پارٹی کو کافی نقصان پہنچتا ہے اور کارکنان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کتنا نقصان دیں رہے ہوتے ہیں۔
لہذا شخصیت  پسندی سے بچنا ہوگا ہاں اگر کوئی شخص ایماندار اور مخلص ہے، پارٹی کے اچھے کاموں کے ساتھ ہے تو اس کو سپورٹ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر وہ شخصیت میں کوئی خاصیت اور قابلیت نہیں رکھتا تو پھر کارکنان کو سوچنا ہوگا۔

اب آتے ہیں تیسری قسم کی سپورٹ جس کو نظریہ پسند لوگ بھی کہہ سکتے ہیں۔
اگر پارٹی لیڈر کا جو  نظریہ ہے وہ پاکستان ہے اور پاکستانی عوام کی خیر خواہی اور پاکستان کا دفاع ہے۔  اگر اس کا نظریہ پاکستان کو عالمی برادری  میں ایک مقام دلوانا ہے اورملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا، ملک سے کرپٹ لوگوں کی صفائی اس کا مقصد، کرپشن پر قابو پانا اور لوٹا ہوا مال واپس پاکستانی عوام کے خزانہ میں جمع کرنا ہو، ملک خداد میں ایک قانون جو امیر اور غریب کے لیے ہو اس کے لیے تگ ودو کرنا ہو، غریب عوام کے علاج کی فکر ہو اس کے لیے گھروں کی آبادی کے لیے فکرمند ہو اور اپنی عوام کی سہولت کے لیے دن رات محنت اور کوشش میں لگا ہو اور اس کا خاص ویزن ہو۔

اس کا سارا مال و دولت اور جائیدادیں پاکستان میں ہوں۔ اس کا علاج پاکستان میں ہو ، اس کا رہنا ، مرنا جینا پاکستان میں ہو اور نہ کہ صرف حکمرانی کے لیے پاکستان اور اگر حکمران نہ رہے تو انگلستان۔

یقیناً  آپ سمجھ گئے ہونگے کہ میرا اشارہ کس طرف ہے۔

جی ہاں وہ ہے عمران خان جو 22 سال محنت کرکے عوام کو سمجھاتے رہے کہ کرپشن کیا ہوتی ہے ؟ منی لانڈرنگ  کس بلا کا نام ہے؟ بلیک منی کو کیسا کرپٹ سیاستدان وائٹ کرتے ہیں۔ واللہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ معلومات مجھے پہلے نہیں تھی۔

ہم نےماضی میں دیکھ لیا تھا کہ جب ایک پارٹی کی حکومت آتی تھی تو اس کو پاکستان لوٹنے کا پروانہ مل جاتا تھا کہ لوٹو جتنا لوٹنا ہے۔ اپوزیشن کا نعرہ ہوا کرتا تھا لوٹو ہماری باری بھی آئے گی ہم بھی لوٹیں گے اور پیغام دیا کرتے تھے کہ اگر آج ہم آپ کے لوٹ مار پر خاموش ہیں تو کل آپ بھی خاموش رہیں گے۔

 اس کو عظیم عمران  خان نے نورا کشتی اور مک مکا کا نام دیا تھا۔ جب بھی الیکشن ہوتا تو یہ پارٹیاں الیکشن مہم میں ایک دوسرے کو چور کہتے اور دعوے کرتے کہ ہم آپ کا پیٹ پھاڑ کے لوٹا ہوا مال واپس لینگے اور عوام پر نچھاور کرینگے۔ لیکن جب ان کی باری آتی وہ اس سے زیادہ لوٹتے کیونکہ ان کو پتہ ہوتا تھا کہ ایک چور  دوسرے چور پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔

اس کرپٹ ٹولے کو کیا معلوم تھا کہ عمران خان نے عوام میں بیداری پیدا کی ہے۔ جب 2018ء میں الیکشن ہوئے تو پاکستانی قوم نے بتادیا کہ اب ہم آپ چوروں اور ڈاکوؤں کو سمجھ چکے ہیں اور ووٹ کو عمران خان کے حق میں دیا۔ عوام نے وزیراعظم  عمران خان  کو مینڈیٹ  دیا ہے کہ قانون کی پاسداری ، ملک سے لاقانونیت کا خاتمہ، امیر غریب کے لیے یکساں قانون پر عمل درآمد اور علاج معالجے کیساتھ ساتھ یکساں تعلیمی  نصاب۔ لیکن سب سے پہلے ترجیحات میں احتساب  کو شامل کرنا پاکستان عوام کی خواہش تھی جس پر وزیراعظم  نے پہلے دن سے کام شروع  کیا اور ساتھ کہتے اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو معاف کرتا لیکن قوم کا پیسہ لوٹا ہے اس کو کیسے معاف کروں؟

پاکستانی عوام کو معلوم یے کہ کرپٹ لوگوں کو جیل میں ڈالا ہے اور باقی کی باری آنے والی ہے جیلوں کی رونقیں کرپٹ مافیا کے انتظار میں ہیں۔

احتساب  سے بچنے کےلیے کرپٹ مافیا ملک میں حالات خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ملک میں خدانخواستہ  حالات خراب ہوجائیں اور ہم بچ جائیں لیکن یہ ان کی بھول ہے ان کو معلوم نہیں کہ پاکستان  کے 22 کروڑ  عوام اور پاکستان کے تمام ادارے ایک پیچ پر ہیں اور یہ کہ پاکستان کا لوٹا ہوا مال واپس لانا ہے ، کرپٹ مافیا کو سزا دلوائی یے تاکہ آئندہ کوئی بھی ملکی خزانہ پر ہاتھ صاف نہ کرے۔

یہ عمران خان کا22 سال سے نظریہ رہا ہے اور اب بھی وہی نظریہ ہے۔ اس لیے باقی عوام کی اکثریت کی طرح میں بھی نظریہ پسند ہوں اور عمران خان کا یہ نظریہ اور ویزن سپورٹ کرتا ہوں اور کرتا رہونگا۔

انشااللہ  وہ دن دور نہیں جب پاکستان کا ایک اونچا مقام ہوگا اور ہم اپنی آنے والی نسلوں سے فخریہ انداز میں کہہ سکیں گے کہ ہم نے عمران خان کے وژن اور نظریہ کو سپورٹ کیا تھا اور میں تھا نظریہ پسند۔

اللّٰہ تعالیٰ وزیراعظم عمران خان کا اور تمام پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔آمین۔
پاکستان  زندہ آباد