A movement can not be ended with bullets - Insaf Blog | Pakistan Tehreek-e-Insaf

 


ساڑھے سات دہائیوں پر مشتمل پاکستان کی روایتی سیاست اس وقت دم توڑ چکی ہے ۔ سیاسی و معاشرتی تحریکوں کو ختم کرنے کے فرسودہ طریقہ کار اگر آج 2022 میں بھی استعمال ہو رہے ہیں تو یہ ایسی سنگین مس کیلکولیشن ہے جس کے اثرات اگلی کئی دہائیوں تک بھگتنے پڑ سکتے ہیں ۔ عمران خان کو گولی مار کر اس انقلابی تحریک کو ختم کرنے کی بچگانہ کوشش کرنے والے تاریخ اور سماجی شعور کے کردار سے قطعاً نابلد ہیں۔ ستر ،  اسی اور نوے کی دہائی کی روایتی سیاست کو 2022 میں عمران خان کی جدید عوامی سیاست سے موازنہ کر کے اسے روایتی ہتکھنڈوں سے ختم کرنے کی کوشش کرنے والوں نے نہ صرف تاریخ سے کچھ سبق نہیں سیکھا بلکہ عمران خان کے طرز سیاست ، سماجی حرکیات اور شعوری ترتیب سے بھی نابلد ہیں۔ ان کی سب سے بڑی غلطی عمران خان کو ایک شخصیت سمجھنا ہے جن کے گرد یہ انقلابی تحریک گھوم رہی ہے اور اس مرکزی شخصیت کو روایتی طریقے سے ختم کر کے اس تحریک کو ختم کرنے کی اور سنگین مس کیلکولیشن ہے۔  

عمران خان کی چھبیس سالہ سیاست گہرے مشاہدے کی حقدار ہے جو سماجیات سے براہ راست جڑی ہے۔ عمران خان کی یہ جدید سیاست نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ تمام ترقی پزیر ممالک میں کرپٹ اشرافیہ کی جانب سے سسٹم کی یرغمالی کے خلاف منظم تحریک کی ایک ایسی مثال ہے جس پہ عملدرآمد کر کے چار پانچ دہائیوں کی سسٹم سے جڑی جونکوں کو بھی اتار پھینکا جا سکتا ہے اور سیاسی ڈائمنشن ہی بدل کر معاشرے کو سیاسی و سماجی شعور کے ایک مقام پہ لے جا کر برابر کی ٹکر دی جا سکتی ہے۔ عمران خان نے جس وقت سیاست میں قدم رکھا ، اس وقت اسی روایتی سیاست اور فرسودہ نظام کی وجہ سے ان کی اس "حرکت" کا تمسخر اڑایا گیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ کپتان لانگ ٹرم پلاننگ کا ماسٹر ہے اور معاشرے میں حقیقی انقلاب برپا کرنے کےلیے ایک ویژنری پلان پہ عمل پیرا ہے۔  

نوے کی دہائی میں جس وقت عمران خان نے ایک نئی سیاسی پارٹی کا آغاز کیا ، اس وقت ملک پے دو بڑی سیاسی پارٹیوں کا راج تھا جو کسی تیسری نادیدہ قوت کے زیر سایہ اس پورے نظام کو جھکڑے ہوئے تھے ۔ تمام اشرافیہ اور مافیا مل کر اس پورے نظام پہ قابض تھے ۔ ایسے وقت میں عمران خان کی نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد اس روایتی سیاست اور نظام کے مقابلے میں بچگانہ حرکت سے تعبیر کی گئی لیکن عمران خان نے کچھ اور سوچ رکھا تھا۔ اس نے ایک جانب اس روایتی سیاست کے اندر گھس کر اس کی کمزوریوں کا مطالعہ کیا تو دوسری جانب اپنی پارٹی کی جڑیں عام آدمی تک پہنچانے کےلیے تگ و دو کی۔ دونوں بڑی جماعتیں ڈکٹیٹرشپ کی پیدوار تھیں اور ان کی قیادت بھی روایتی تھی لیکن عمران خان نے شارٹ کٹ کے بجائے عوام میں پارٹی کی جڑیں گہری کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انھوں نے اپنی پارٹی کو علاقائی ، صوبائی یا لسانی بنیادوں کے بجائے ایک فلاحی ریاست کی بنیاد پہ ترتیب دیا اور یوں ہر طبقہ فکر کو براہ راست متاثر کرنا شروع کر دیا۔ عمران خان نے ملکی ترقی کی راہ میں  رکاوٹ بننے والی کرپشن کے خلاف نعرہ بلند کیا اور قوم کو کرپشن کی وجوہات اور اثرات سمجھانے میں ایک صبر آزما اور طویل وقت صرف کیا۔ سماجی سے معاشی انصاف کے فارمولے کو انھوں نے ریاست کے وجود کےلیے ناگزیر قرار دیا اور ریاستی وقار اور سلامتی کو قومی وقار کا ذریعہ قرار دے کر خودداری کی بنیادیں مضبوط کیں ۔ 

عمران خان نے اپنی تحریک کو مضبوط کرنے کےلیے اور اپنی بات سمجھانے کےلیے نوجوان نسل کو خصوصی ٹارگٹ بنایا ۔ ان میں اکثریت ایسے نوجوانوں کی تھی جن کی عمریں پندرہ سے بیس سال تھیں۔  عمران خان نے ان  پہ خصوصی محنت کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس فرسودہ نظام کے خلاف علم بغاوت یہی طبقہ اُٹھائے گا اور انھوں نے اپنے پیغام کو گھر گھر پہنچانے کےلیے اسی نوجوان نسل کا استعمال کیا۔ سیاست میں سوشل میڈیا کے کردار کو آج پوری دنیا مانتی ہے اور عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم دنیا کی سب سے بڑی موثر اور منظم ٹیم ہے جس کو براہ راست کنٹرول بھی نہیں کیا جاتا لیکن وہ چوبیس گھنٹے پارٹی بیانیے کی آبیاری اور پروپیگنڈوں کے توڑ میں شامل رہتی ہے۔ جدید سیاسی حرکیات میں سوشل میڈیا کے اس استعمال پہ پوری دنیا عمران خان کی دانش کی معترف ہے۔  2010 تک مخالفین اپنے روایتی حربوں سے اسمبلیوں میں پہنچ رہے تھے اور شکست در شکست کے حامل عمران خان کو فیسبک کا وزیراعظم کہا جاتا تھا لیکن عمران خان کی مسلسل محنت اور ویژن نے روایتی سیاست کو تیزی سے کھوکلا کرنا شروع کر دیا تھا جس کا ادراک روایتی مافیا کو بہت دیر بعد ہوا۔  

عمران خان نے اپنی انقلابی تحریک کے بل بوتے پہ 2018 میں نہ صرف چالیس سال سے حکمرانی کرتی آئی پارٹیوں کو ہٹا کر اقتدار تک رسائی حاصل کر لی اور اگلے چار سالوں میں اپنے طرز حکمرانی اور قومی فکر سے ان جماعتوں کی سیاست کو ہمیشہ کےلیے زمین بوس کر دیا۔ اس کی حکومت کو ناکام کرنے کرنے کےلئے ہر حربہ استعمال ہوا لیکن ناکامی کی صورت میں اگلے سال ہی اسے حکومت سے نکالنے کا منصوبہ بنا لیا گیا لیکن کرونا وبا کی آمد کے بعد عمران خان کی سیاست اور حکومت کے خاتمے کےلیے اس عالمی وبا کا سہارا لینے کا سوچا گیا ۔ عمران خان نے اگلے دو سالوں میں اس وبا کو جھیل کر نہ صرف معیشت کو بچایا بلکہ معیشت کو مستحک بنیادوں پہ واپس پٹڑی پہ ڈال کر پوری دنیا کو ششدر کر دیا۔  عمران خان کی سمارٹ لاک ڈاؤن پالیسوں کے چرچے عالمی اداروں میں ہونے لگے۔  اس کا احساس پروگرام ایشیا کا پہلا شفاف فلاحی پروگرام بنا جسے دنیا سے غربت کے خاتمے کےلیے مثال مانا گیا ۔ بلین ٹری پروجیکٹ کو دنیا کے ایوانوں میں پزیرائی ملی ۔ عمران خان نے چار دہائیوں بعد میگا ڈیمز پہ کام شروع کر دیا ۔ اسپیشل ٹیکنالوجی زونز ، اسپیشل اکنامک زونز ، نالج اکانومی کے سو ارب کے منصوبے ، سستا اور معیاری انفراسٹرکچر ، میڈ ان پاکستان مہم ، چالیس انڈسٹریوں کو اٹھاتی ہوئی کنسٹرکشن انڈسٹری کا قیام،  تعلیم و صحت میں ویژنری تبدیلیاں ، خارجہ محاذ پہ پاکستان کا بڑھتا وقار اور دانشمندانہ موو میں خطے کے فیصلوں میں بڑھتا کردار۔۔۔۔۔۔ الغرض عمران خان نے روایتی سیاست کو زمین بوس کر دیا۔  اس بوکھلاہٹ میں امریکی حکم پہ سرٹیفائیڈ مجرموں نے مل کر جب عمران خان کو اقتدار سے نکالا تو پوری قوم نے وہ زبردست ری ایکشن دیا جس پہ پوری دنیا حیران رہ گئی ۔ پچھلے چھے ماہ سے پاکستانی قوم کا سیاسی شعور اور مڈل کلاس سمیت ہر طبقہ فکر کا سیاسی عمل میں کردار اس روایتی سیاست کو ختم کر چکا ہے ۔ 

عمران خان شخصیت نہیں نظریہ بن چکا ہے ۔ قانون کی بالادستی ، قومی وقار و سلامتی ، خودداری ، امن پسندی ، شعور و اگاہی کا ایک جیتا جاگتا نظریہ ۔۔۔ اب نہ تو نظام کی یرغمالی کو تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ ہی کرپشن سے سمجھوتا ممکن ہے۔ جمہور نے امپورٹڈ حکومت کے خلاف اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور پوری قوم عوامی حاکمیت کا نعرہ لگاتے ہوئے اس مسلط کردہ ٹولے سے آزادی کےلیے بے تاب ہے۔  بات اب عمران خان سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ عمران خان بکھرے ریوڑ کو اختلافات سے نکال کر اور سسٹم کے ایک ایک پرزے کو بے نقاب کر کے اس ہجوم کو قوم بنا چکا ہے۔ اب قوم کسی قسم کی جبر و فسطائیت کی وجہ سے اس نظریے کو چھوڑ نہیں سکتی۔  تحریکیں کبھی گولیوں سے نہیں دب جایا کرتیں۔ فرسودہ نظام کے بینیفشری تمام کرپٹ اشرافیہ اور مافیا آج لیکر کی ایک جانب متحد  ہے اور پوری قوم دوسری جانب کھڑی ہے۔ یہ دونوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔ جب فرق واضح ہو چکا ہے تو پھر تاریخ چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ گولیوں کے شور اور شلینگ کے دھویں میں کبھی جمہوری تحریکیں ختم نہیں ہوئیں بلکہ شعور کا اژدھا نظریے کی آبیاری میں ایسی تمام قوتوں کو نگل جاتا کرتا ہے۔